خان حسنین عاقبؔ
خلیل جبران بیسویں صدی عیسوی کا ایسا فلسفی ہے جسے مغربی دنیا نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اسے ایک دانشور اور عظیم فلسفی تسلیم کیا۔ اس کی پیدائش 1887 میں لبنان میں ہوئی۔ اس کی زبان عربی تھی۔ حالانکہ خلیل جبران مذہباً کیتھولک عیسائی تھا لیکن چونکہ وہ لبنانی تھا اور لبنان خطۂ عرب کا ہی حصہ ہے جہاں مسلمان بھی قابلِ لحاظ تعداد میں بستے ہیں لہٰذا خلیل جبران کو فطری طور پر اسلامی اقدار اور تعلیمات نے بھی متاثر کیا۔ وہ انیسویں صدی کی اواخر میں اپنے والدین کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگیا۔ یہاں اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انگریزی سیکھی۔ اس نے فلسفہ، شاعری، مصوری اور مضمون نویسی میں کمال حاصل کیا۔ امریکہ میں خلیل جبران کو لاؤ زو اور شیکسپیئر کے بعد تیسرا سب سے بڑا ادیب و شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اتنا قابل شخص محض 48 برس کی عمر پاکر دس اپریل 1931 کوٹی بی اور دیگر امراض میں مبتلا ہوکر اس دنیاے فانی سے کوچ کرگیا۔ 1923 میں شائع اس کی کتاب ’دَ پروفیٹ‘ (پیغمبر) شہرۂ آفاق ثابت ہوئی۔ تقریباً چالیس زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ کیا گیا۔ یہ تخلیق ایک منظوم کہانی کی شکل میں ہے جو مختلف موضوعات پر تحریر کردہ چھبیس فلسفیانہ مضامین کی سیریز پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں خلیل جبران نے اپنے مرکزی کردار’مصطفی‘ کے توسط سے بہت سی اخلاقی اقدار پر نہایت منصفانہ انداز میں بحث کی ہے۔ انھی موضوعات میں سے ایک موضوع ’جود و سخا‘ یعنی Giving ہے۔ اس باب میں خلیل جبران نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ خالصتاً اسلامی تعلیمات اور صوفیانہ طرز سے ہم آہنگ ہے۔ اس نے نہایت دل کش انداز میں جود و سخا یعنی ’گِوِنگ‘ کی ایسی وضاحت کی ہے جسے بجا طور پر ہم اسلامی اصول کے پیمانے پر پرکھ سکتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں اللہ کے رسول ﷺ خیر میں اتنے فیاض اور سخی ہوجاتے کہ تیز و تند ہوا کی رفتار سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ ہم جانتے ہی ہیں کہ رمضان کے مہینے میں ایک نیکی کا ثواب عام دنوں کے مقابلے میں ستر گُنا ہوجاتا ہے۔ اسی پس منظر میں ہم خلیل جبران کے فلسفۂ جود و سخا پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
وہ ایسے لوگوں کی جو لوگوں کو دیتے ہیں، چند اقسام کو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے۔
And there are those who give little of the much which they have
And they give it for recognition
And their hidden desire makes their gifts unwholesome
اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو بہت کچھ رکھتے ہیں لیکن اس میں سے بہت کم دیتے ہیں۔ اور وہ جو کچھ بھی دیتے ہیں اس سے ان کا مقصد شہرت اور نام کمانا ہوتا ہے۔ (یعنی وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں نیکی کرتا ہوا، لوگوں کو دیتا ہوا دیکھیں اور ہماری تعریف کریں۔) ان لوگوں کی یہ پوشیدہ خواہش ان کی سخاوت کو بے وقعت بنادیتی ہے۔ اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں تو اجر رکھ دیا ہے لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
خلیل جبران پھر کہتا ہے:
And there are those who have little and give it all
There are those who give with joy, and that joy is their reward
These are the believers in life and the bounty of life, and their coffer is never empty.
پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو زیادہ کچھ نہیں رکھتے لیکن وہ جو کچھ بھی رکھتے ہیں، وہ سب دے ڈالتے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو قلبی مسرت کے حصول کے لیے سب کچھ دے دیتے ہیں اور یہی قلبی مسرت ان کا انعام ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی اور اس کے عطایا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ان کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔ بعد ازاں وہ کچھ لوگوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
And there are those who give with pain, and that pain is their baptism
اور پھر ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو برضا و رغبت نہیں دیتے بلکہ دینے میں دُکھ محسوس کرتے ہیں۔ یہ تکلیف ہی ان کا اسطباغ ہوتی ہے۔
And there are those who give and know not pain in giving
Nor do they seek joy; not give with mindfulness of virtue
They give as in yonder valley the myrtle breathes its fragrance into space
Through the hands of such as these God speaks,
And from behind their eyes, He smiles upon the earth.
کچھ لوگ ہیں جو سخاوت کرتے ہیں اور وہ کسی کو کچھ دینے میں تکلیف محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی انھیں خوشی کی تلاش ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اسے کسی خیرات کی طرح دیتے ہیں۔ جب یہ لوگ کسی کو دیتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے سامنے والی وادی میں حِنا اپنی خوشبو سے فضاؤں کو معمور کردے۔ ایسے لوگوں کے ذریعے (سخاوت کے ذریعے) خدا خود گفتگو کرتا ہے اور ان کی آنکھوں کے پیچھے سے خدا خود سوئے زمین دیکھ کر مسکراتا ہے۔
اس کے بعد وہ ایک گُر بتاتا ہے جس کی تعلیم ہمیں اسلام دیتا ہے اور خلیل جبران نے بھی اسلام ہی سے یہ اصول اخذ کرکے مغربی صلیبی دنیا کو اس سے متعارف کروایا ہے۔
It is well to give when asked; but it is better to give unasked
Through understanding
And to the open-handed the search for the one who shall receive is joy greater than giving.
And is there aught you would withhold?
All you have shall some day be given
Therefore give now, that the season of giving may be yours and not your inheritors.
اگر ہم طلب کرنے پر کسی کو کچھ دیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم کسی کو محض اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق، بغیر مانگے دے دیں۔ (اسلام میں کسی سفید پوش کا بھرم رکھنے کو افضل بتایا ہے کہ وہ بے چارہ اپنی عزتِ نفس اور غیرت کی وجہ سے کسی سے مانگتا نہیں، اگر ہم ایسے افراد کی شناخت کرکے ان تک بغیر طلب کیے ان کی ضرورت کی چیز پہنچادیں تو یہ بڑی نیکی ہے۔) کیا اب بھی آپ اپنے مال کو روکے رکھیں گے؟ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ آج نہیں تو کل، جانا ہی ہے۔اس لیے جو دینا ہے، آج ہی دیجیے۔ کیونکہ آج ہی وقت ہے کہ آپ (اپنے ہاتھوں) سخاوت کریں، آج آپ کا وقت ہے، آپ کے وارثین کا نہیں۔ (ورنہ یہ مال تو آپ کے ساتھ نہیں جائے گا)
You often say; I would give but only to the deserving
The trees in your orchards do not say so; nor the flocks in your pasture..
لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم صرف مستحقین ہی کو دیں گے۔ آپ نے کبھی یہ غور نہیں کیا کہ آپ کے باغ کے درختوں نے کبھی ایسا نہیں کہا اور نہ ہی آپ کی چراگاہوں کے جانوروں نے یہ سوچا کہ ان سے محض مستحقین ہی استفادہ کریں۔
They give that they may live, for to withhold is to perish
See first that you yourself deserve to be a giver, and an instrument of giving’.
جو لوگ دیتے ہیں، سخاوت کرتے ہیں، وہ اس لیے دیتے ہیں کہ اسی میں حیاتِ دوام ہے۔ اور وہ جانتے ہیں کہ مال کو روکے رکھنے سے اس کی برکت ختم ہوجاتی ہے اور مال جلد ختم ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھیے کہ کیا آپ سخاوت کرنے کے مستحق ہیں؟ کیا آپ جود و سخا کا ذریعہ بننے کا استحقاق رکھتے ہیں؟ (دینے والا ہاتھ، لینے والے ہاتھ سے بڑا ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے کبھی سخاوت کی حد مقرر نہیں کی اور نہ ہی صحابۂ کرام اجمعین سے ہمیں ایسی کوئی حکایت ملتی ہے۔ حضرتِ ابوبکر صدیقؓ، اللہ کے رسولﷺ کے فرمان پر اپنا سارا مال لے آئے۔)
ہم بھی اس نئے تناظر کے ساتھ عہد کریں کہ جود و سخا اور دینے کی عادت ڈالیں گے۔ اور کسی کو دینے کے لیے کل کا انتظار نہیں کریں گے۔ کون جانے، ہمارے لیے کل ہو نہ ہو!!!!!!
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: قومی تعلیمی پالیسی 2020ء