میرے قاسم خورشید

میرے قاسم خورشید

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

غالباً وہ ۱۹۸۰ء کا زمانہ تھا۔ میں نے ایک کہانی لکھ لی تھی۔ اُس کے چھپنے کے بعد دماغ میں شعر و ادب کے میدان میں کچھ کر گزرنے کا جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ایک سہ ماہی رسالہ نکالنے کا خواب دیکھا اور پھٹا پھٹ ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں کو پوسٹ کارڈ بھیجنے لگا کہ وہ اپنی تازہ تر تخلیقات ہمیں بھیج دیں۔ رسالہ تو نہیں نکل سکا مگر اُس خط و کتابت میں مجھے قاسم خورشید کی شکل میں ایک ایسا دوست میسّر آیا جو بہت سارے نرم گرم مرحلوں کے باوجود پانچ برس کم نصف صدی تک چھایا رہا۔ رسالے سے الگ تخلیقات کے حوالے سے بھی مکتوب نویسی کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ اِسی دوران اچانک ادیبوں شاعروں سے ملاقات کی غرض سے میں شہرِ عظیم آباد میں وارد ہوا اور ریڈیو اسٹیشن میں شمیم فاروقی کے کمرے میں پہلی بار قاسم خورشید سے میرا آمنے سامنے کا تعارف ہوا۔ ابھی ہماری تعلیم انٹر میڈیٹ کی سطح پر چل رہی تھی مگر کتب و رسائل کی دنیا میں ہم بہت تیزی سے دوڑ بھاگ کرنے لگے تھے۔ قاسم خورشید نے ریڈیو اسٹیشن سے باہر لا کر چائے پلائی اور اس طرح قلمی دوستی سے آگے بڑھ کر دید و شنید اور ملاقات کی سبیلیں پیدا ہوئیں۔ شمیم فاروقی سے اُنھوں نے مجھے پروگرام دینے کی سفارش بھی کی۔ پھر شام میں اپنی سائکل پر بٹھا کر پہلے سبزی باغ اور پھر پتھّر کی مسجد اپنی رہایش تک لیتے آئے۔ سبزی باغ میں نئے پرانے ادیبوں سے تعارف کرایا اور چائے ناشتے کا دور بھی چلا۔ اُس زمانے میں قاسم خورشید اپنے ماموں جناب مظفّر الجاوید صاحب کے پرانے مکان میں رہتے تھے۔ اُن کے حصّے کی جو ایک چوکی اور بستر متعیّن تھے، اُس پر درجنوں بار رات بسر کرنے کے مواقع ملے اور پانچ سات لوگوں کی نشستوں کا دور بھی وہاں چلتا رہا۔
۸۳۔۱۹۸۲ء سے اِس میں مزید باقاعدگی آگئی۔ ہمارے دوست گیان دیو منی ترپاٹھی پٹنہ کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے پتھّر کی مسجد، چودھری ٹولہ میں جے نرائن شرما کے لاج میں رہنے لگے تھے۔ بار بار یہ ہوتا کہ میں بتیا سے پہلے گیان دیو کے یہاں پہنچتا۔ گیان دیو کی سائکل سے صبح سویرے قاسم خورشید کی رہایش پر اور وہاں سے پھر پورے شہر میں دو سائکلوں سے مٹر گَشتی ہوتی تھی۔ کئی بار ایک ہی سائکل موجود ہوتی تو ایک شخص آگے بیٹھتا تو دوسرا پیچھے اور قاسم خورشید پائڈل مارتے ہوئے جہاں تہاں اِس قافلے کو لے جاتے۔ ادبی اداروں اور ادبی افراد سے ملاقات کے علاوہ ہمارا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک سچّائی تھی کہ اس دور تک عظیم آباد آج کی طرح بڑے لکھنے والوں سے خالی نہیں ہوا تھا۔
اِس بیچ ۱۹۸۲ء میں مہاتما گاندھی سیتو بنا اور شمالی بہار کے لوگوں کا پٹنہ آنا جانا مزید آسان ہوا۔ قاسم خورشید بھی معاون مترجم ہو کر ڈپیوٹیشن پر ایس. سی. ای. آر. ٹی، پٹنہ میں چلے آئے تھے۔ میرا معمول یہ ہوتا کہ رات میں بتیا سے بس پہ سوار ہو کر صبح سویرے گائے گھاٹ اتر جاتا۔ آٹو سے چودھری ٹولا گیان دیو منی ترپاٹھی کے پاس پہنچتا۔ پھر اُسے تیّار کرا کر قاسم خورشید کے گھر پتھّر کی مسجد پہنچتا۔ راستے میں کہیں چائے تو کہیں ناشتے سے ہم فارغ ہو لیتے۔ ایس. سی. ای. آر. ٹی میں پہنچ کر پھر وہاں سے نکلتے اور ستیش راج پشکرنا کے پریس میں پہنچ کر اُن کی چٹکیوں کے اشارے سے چائے بسکٹ اور کبھی کبھی اُن کی شاعری کی زیادہ تعریف کرنے پر پیڑے بھی آ جاتے۔ شام ہوتے ہی رحمانیہ ہوٹل اور قبرستانیہ کا طواف۔ پٹنہ میں دو ایک روز رہ کر میں پھر واپس چلا جاتا۔ ۱۹۸۲ء کا ہی شاید کوئی مہینہ ہوگا میں جیسے ہی پٹنہ پہنچا، قاسم خورشید نے کہا کہ آج تمھارے اعزاز میں نشست ہوگی۔ اوّلاً مجھے محسوس ہوا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں۔ دن بھر لوگوں کو خبر کرتے رہے۔ میری شعر گوئی کا وہ پہلا سال تھا۔ چند مہینوں میں جو تھوڑی بہت نظمیں اور چند غزلیں میں نے کہہ رکھی تھیں، اُنھیں اُس شام لوگوں کے سامنے پیش کر کے سرفراز ہوا۔ دوسرے روز اُس زمانے کے اردو کے سب سے مشہور اخبار ’ایثار‘ میں تین کالم کی سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی: ’صفدر امام قادری کے اعزاز میں ادبی نشست کا انعقاد‘۔ یہ قاسم خورشید ہی کر سکتے تھے۔ یہ بات بے لطف نہیں ہوگی کہ اپنے ادبی سفر کے اوّلین مراحل میں جس اہتمام سے اعزازی نشست کا پہلا ذائقہ پایا، غالباً دوسری تیسری نشستوں کے لیے تیس برس سے کم انتظار نہ کرنا پڑا۔
خط و کتابت کے مراحل میں یہ ہونے لگا کہ کوئی نیا رسالہ نکلتا تو قاسم خورشید مجھے بھجوا دیتے۔ بی۔اے۔ میں راجندر سنگھ بیدی کا اوّلین مجموعہ ’دانہ و دام‘ پڑھنا تھا۔ اِس بیچ ’عصری آگہی‘ کا بیدی نمبر شائع ہوا۔ قاسم خورشید کو میں نے لکھا کہ یہ نمبر کسی طرح سے عارضی طور پر مجھے حاصل کرا دیں۔ اُنھوں نے اپنی کاپی مجھے رجسٹرڈ پوسٹ سے روانہ کر دی۔ میں نے اُس شمارے سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا۔ اُس دوران یہ بھی ہوتا کہ ریڈیو سے تین مہینے پر کوئی نہ کوئی پروگرام مل ہی جاتا۔ اگر دیری کا امکان ہوتا تو قاسم خورشید اپنے تعلقات کا استعمال کر کے پٹنہ بلانے کی سبیل پیدا کر دیتے۔ ایم۔اے۔ میں مظفّر پور میں درس و تدریس کا سلسلہ جب سے شروع ہوا تو پٹنہ آنے جانے کا میرا معاملہ بھی بڑھا۔ کبھی کوئی مشاعرہ ہو رہا ہے تو قاسم خورشید پہلے سے ہی مطلع کر دیتے کہ چلے آؤ اور اِس طرح دو چار دن شہر بھر میں گھومنے پھرنے کا موقع مل جاتا۔
۱۹۸۴ء میں قاسم خورشید کی غالباً مئی مہینے میں شادی ہوئی اور وہ اپنے سسرالی مکان نوگھروا میں بہ طورِ خانہ داماد چلے آئے۔ اب تو یہ ہم سب کا عارضی ہاسٹل ہی ہو گیا۔ کھانا اور رہنا دونوں مفت۔ اُن کی اہلیہ شاہدہ وارثی سے ۸۱۔۱۹۸۰ء کے دور میں ہی ریڈیو میں اُنھوں نے ملاقات کرا دی تھی۔ تعلقات کی نوعیّت بھی معلوم ہو چلی تھی۔ کبھی کبھی شادی سے پہلے ہم چائے ناشتے کے مواقع یوں بھی وہاں جا کر آزما لیتے تھے۔ اُن کی خوش دامن ہم جیسے لوگوں کی آمد و رفت سے زیادہ پریشان نہیں ہوتی تھیں۔ اِس لیے یہ سلسلہ مضبوط تر ہوتا گیا۔ اِس بیچ قاسم خورشید بھی نئے بنے ہوئے ایجوکیشنل ٹیلی ویژن کے دفتر میں ملازم ہو گئے جہاں رفتہ رفتہ اُن کی ترقی در ترقی کے امکانات بھی پیدا ہوتے رہے۔ وہ ایس. سی. آر. ٹی کیمپس میں بعد کے زمانے میں کوارٹر میں بھی آ گئے۔ اپنی والدہ اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی وہاں لا کر اُ ن کی تعلیم و تدریس کے مراحل آسان کر نے لگے۔
ایک مشاعرے میں شہریار پٹنہ آ رہے تھے، قاسم خورشید نے پوسٹ کارڈ لکھا کہ اُن تاریخوں میں مَیں پٹنہ رہوں۔ ایک دوسرے مشاعرے میں ندا فاضلی اور افتخار امام صدیقی تشریف لائے۔ یہ دونوں قاسم خورشید کے اُسی سسرالی گھر میں قیام پذیر ہوئے۔ اِس کے لیے بھی اُنھوں نے مجھے چند دنوں پہلے پٹنہ بلوا لیا۔ ندا فاضلی اور افتخار امام صدیقی سے اُس روز جو ملاقات ہوئی، اُس کے بعد سے میرا بھی اُن کی وفات تک یکساں تعلق رہا۔ ۱۹۸۴ء کی چند تصویریں اب بھی کہیں کہیں نظر آ جاتی ہیں جن میں نہ آسانی سے ہمیں کوئی پہچان سکتا ہے اور نہ قاسم خورشید اور نہ گیان دیو منی ترپاٹھی کو۔ اُس دوران ریڈیو اسٹیشن سے لے کر پٹنہ سِٹی تک کہیں کوئی شعری نشست ہو جائے، دعوت ملے یا نہ ملے ،ہم سب حاضر رہتے تھے۔ قاسم خورشید اُس زمانے تک بہ رائے نام شعر کہتے تھے، اِس لیے شرکت کا سبب بیش از بیش میری شاعری ہی ہوتی تھی۔ ۱۹۸۴ء کے وہ آخری مہینے ہوں گے جب فخر الدین عارفی کی بھی پہلی کتاب ’سلگتے خیموں کا شہر‘ بڑے اہتمام سے شائع ہوئی تھی۔ بہار کے وزیرِ اعلا نے اُس کا اجرا کیا تھا اور قاسم خورشید نے بھی اُس پر ایک مضمون لکھا تھا۔ اُنھوں نے فخر الدین عارفی سے تعارف کرایا اور عارفی صاحب نے مجھے وہ کتاب پیش کی۔ آپسی مشورہ یہ ہوا کہ اِس کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک قیمتاً پہنچانے کی ترکیب نکالی جائے۔ دس دس کتابوں کے دو پیکٹ میں نے لیے اور ایم۔اے۔ کے اپنے بیس ساتھیوں کو دس دس روپے فی کتاب کی شرح سے بیچ کر اگلے سفر میں رقم میں نے مصنّف کے حوالے کی۔ یہ تمام معاملات شعر و ادب میں ساتھ ساتھ بڑھنے لکھنے اور اپنی مشقیں تیز کرنے کا ایک عجیب و غریب ماحول تھا۔ پانچ دس برس بڑے اور چھوٹوں کی بیٹھکیں ایک ساتھ ہوتی تھیں اور ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات اور تنقید و تبصرہ کا حیرت انگیز اور خوش گوار ماحول اُس وقت کے عظیم آباد میں موجود تھا۔ رحمانیہ ہوٹل کی گرمیِ محفل، بک امپوریم کے پاس گھنٹوں کھڑے ہو کر ادبا و شعرا کا بڑے بڑے مسئلوں پر تبادلۂ خیالات؛ اِن سب میں انٹر میڈیٹ اور بی۔اے۔ کے زمانے سے مجھے جو رہ رہ کر مواقع ملے، اُن کی پُشت پر قاسم خورشید سے دوستی اور تعلّق ایک بنیادی وجہ تھی ورنہ یہ کہاں ممکن تھا کہ پٹنہ سے دو سو کیلومیٹر سے دور گنگا پار کے ایک طالبِ علم کے لیے دبستانِ عظیم آباد کی ادبی محفلوں کے دروازے کھُل پاتے۔
اِس بیچ گیان دیومنی ترپاٹھی نے اپنی پرانی ادبی تنظیم ’ساہتیہ کنج‘ کو پٹنہ میں پھر سے سر گرم کیا۔ قاسم خورشید صدر بنائے گئے۔ اودھیش پریت نائب صدر اور گیان دیو جنرل سکریٹری۔ پٹنہ، مظفّر پور، بتیا سے لے کر نرکٹیا گنج تک ہم سب ادبی تقریبات برپا کرتے رہے۔ کچھ بزرگوں کو جوڑ لیتے اور باقی کام اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے۔ چھوٹی نشستوں سے لے کر بڑے بڑے مشاعرے اتنی تعداد میں ہوئے کہ چند برسوں میں ہم میں سے سب چمکتے گئے۔ قاسم خورشید کی نظامت اور شعر و شاعری کے مواقع اِنھی محفلوں میں پھَلے پھولے۔ ۱۹۸۶ء تک قاسم خورشید کی افسانہ نگاری بھی اچھی خاصی مستند ہونے لگی تھی۔ اُن کے ’پوسٹر‘ افسانے کا میں نے اپنی ایک دوست شبینہ سے انگریزی ترجمہ کرایا۔ ہماری قربت بھی بڑھتی گئی یہاں تک کہ میں خود مستقلاً عظیم آباد رہنے کے لیے پہنچ گیا۔ (جاری۔۔۔)
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈسائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔]
***
اس سے پیوستہ تحریر یہاں پڑھیں : قاسم خورشید سپردِ خاک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے