صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
آج ہم ہزاروں لوگوں نے اپنے دوست اور مشہور و معتبر مصنّف قاسم خورشید کو پٹنہ واقع شاہ گنج قبرستان میں دفن کر کے قیامت تک کے لیے رخصت لے لی۔ بے شک ہمیں اُسی کی طرف لوَٹ جانا ہے۔ خاک سے ہم بنے ہیں اور ہمیں خاک میں مل جانا ہے۔ مشیتِ ایزدی کے سامنے کوئی حیلہ حجت نہیں اور نہ عدم اطمینان۔ سب اپنی میعاد پوری کریں گے اور اُسی کی طرف لوَٹ جائیں گے۔ باری باری سب خاک میں مل کر بہ روزِ قیامت پھر سے ملاقات کی امید میں رہیں گے۔
قاسم خورشید کے گھر سے جب جنازہ اُٹھا، دھوپ نہایت سخت تھی اور جنازے میں شامل لوگوں کے لیے اشارہ فراہم کر رہی تھی کہ سفرِ آخرت اِس سے بھی سخت تر منزل ہے۔ پٹنہ شہر کا کون سا ادیب اور شاعر یا صحافی تھا جو اِس کارواں میں آخری ملاقات اور رخصت کے لیے شریک نہ ہوا تھا۔ ہندی کے بھی بہت سارے نامور ادبا و شعرا اِس قافلۂ غم کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ درگاہ شاہ ارزاں کی جامع مسجد کے احاطے میں جب یہ ہجوم صف بند ہوا تو دھوپ کی شدّت شاید اور بڑھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی نمازِ جنازہ کے لیے مولانا مشہود احمد قادری ندوی، پرنسپل، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، دھوپ زائل ہو گئی اور آسمان سے نرم چھانو برسنے لگی۔ نمازِ جنازہ کے بعد پھر قبرستان تک کا سفر اِسی نرم موسم میں مکمّل ہوا۔ ہم سب کو سوگ وار کر کے قاسم خورشید جب قبر میں اتار دیے گئے اور باری باری سے ہم سب نے مٹّیاں ڈال کر اپنا فرض ادا کیا تو موسم نے مرحوم کے لیے چادرِ رحمت پھیلا دیا اور موسلادھار بارش ہونے لگی۔ یقینی طور پر یہ قدرت کا اشارہ تھا کہ جسے ہزاروں نم دیدہ آنکھیں خدا کی زمین کے سپرد کرکے جا رہی ہیں، اُسے سایۂ بارانِ رحمت نے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔ قبر سے آسمان تک بارش کا ایسا سلسلہ تھا کہ موسم کی گرمی کافور ہو گئی۔ خدا کی رحمت کے ہزاروں چھینٹے قاسم خورشید کی عقیدت میں آئے ہوئے لوگوں پر پڑے۔ سب قاسم خورشید کے حوالے سے ہی اپنے حصے کے سرمایۂ رحمت کو لے کر اپنے گھروں تک گئے۔
اِس سال جنوری میں اپنے عزیز دوست طارق متین کو ہمیشہ کے لیے رخصت کیا تھا اور آج بڑے بھائی اور دوست قاسم خورشید کو سپردِ خاک کر کے آنا نصیب ہوا۔ چند مہینوں پہلے عطا کاکوی کے فرزند کلیم الرحمان کاکوی کو بھی اِسی قبرستان میں دفن کر کے واپس ہونا پڑا تھا۔ موت بر حق ہے اور وقت مقرر ہے مگر دل یہ ماننے کے لیے کبھی تیّار نہیں ہوا کہ اٹھاون برس میں طارق متین ہم سب کا ساتھ چھوڑ کر چلا گیا اور قاسم خورشید بھی عمر کی ۶۸؍ بہاریں دیکھ کر اچانک ہماری محفل سے نکل گئے۔ دونوں محفل آرائی میں ڈوبے ہوئے تھے اور اِن کا رنگ بھی اُسی میں ابھرتا تھا۔ اِنھیں آپ آسانی سے تنہا وجود کے طور پر تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ایک وقت آیا کہ طارق متین نے اچانک محفلوں سے ہی نہیں سارے دوستوں سے کنارہ کَش ہو کر زندگی کے آخری چار پانچ سال گزارے۔ قاسم خورشید کو تو قدرت نے چند گھنٹوں کی بھی مہلت نہ دی کہ وہ اپنی محفل آرائیوں سے دور ہو کر کسی گوشے میں کسی بھی وجہ سے مقید ہو لیں اور زندگی کے تنہا سفر کی تیّاری کرسکیں۔ ایک جلسے سے دوسرے جلسے کا جو وقفہ ہوتا تھا، انھیں اُس سے بھی کم مہلت ملی اور نہ کسی دوست رشتہ دار کو کسی چھوٹی بڑی بیماری کی خبرمعلوم ہوئی، نہ کسی کو تیمار داری اور خدمت کا اُنھوں نے موقع دیا۔ اہلیہ کو بھی اِس طویل رفاقت کا اتنا بھی صلہ حاصل نہ ہوا کہ وقتِ آخر دو گھونٹ پانی پلا سکیں اور نہ ہی دستِ خدمت آزما سکیں۔ اللہ نے کسی دنیاوی سہارے کے بغیر اُنھیں اپنے پاس بلایا۔ کوئی انسانی گواہ بھی اس لمحۂ خاص میں پاس نہ تھا۔ خدا نے اپنے فرماں بردار فرشتوں کی نگرانی میں تنِ تنہا اُنھیں اپنے پاس بلا لیا۔ بڑے بزرگ دعا کرتے ہیں کہ اللہ آخری عمر میں کسی کا محتاج نہ بنانا۔ کسی پر منحصر ہونے کی مجبوری میں مبتلا نہ کرنا۔ قاسم خورشید کے حق میں یہ دعائیں قبول ہوئی تھیں۔
قاسم خورشید کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ مجلسی زندگی میں دن رات مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ حلقہ مزید وسیع ہوا۔ شاعر، ادیب اور صحافی تو فطری طور پر اُن کے اپنے تھے مگر ہندی کے شعرا و ادبا، مختلف سطح کے افسران، نوجوان طلبہ، ری سرچ اسکالرس، اساتذہ، علماے کرام یہاں تک کہ کئی کمپیوٹر آپریٹر بھی اُن کے آخری سفر میں سوگ کا پتلا بنے نظر آئے۔ اِس سے اُن کی ادبی اور شخصی مقبولیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ موت سے ایک روز پہلے شام میں اُنھوں نے جی.ایس.ٹی کمشنر اور شاعر اسلم حسن کو ساہتیہ اکادمی کے پروگرام کی تصویریں بھیجیں اور فون پر اُسی بشاش انداز سے گفتگو کرتے رہے۔ شام میں لکھنؤ حسن کاظمی کو فون کیا اور اُن سے گاہے بہ گاہے خیریت دریافت کرلینے کی شکایت بھی کی۔ اُنھوں نے اُن سے وعدہ کیا کہ اب سے اپنی جانب سے بھی وہ حال چال پوچھنے میں کوتاہی نہ کریں گے۔ جانے اور کتنوں کو اس دن ساہتیہ اکادمی کے پروگرام کی تصویریں بھیجی ہوں گی۔ شاید وہ اپنے ذمّے اب کوئی کام بچا کر نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ مریضِ مرگ کے ممکن ہے، یہی آداب ہوتے ہوں۔
۲۵؍ ستمبر سے ۲۸؍ ستمبر تک ساہتیہ اکادمی نے ایک غیر معمولی عالمی جشن پٹنہ میں منایا۔ ۱۶؍ ملکوں اور ۸۰؍ زبانوں کے ساڑھے پانچ سو مصنّفین بلائے گئے تھے۔ بہار کے اردو والوں میں سے عبدالصمد، سیّد حسین احمد اور راقم الحروف کے ساتھ قاسم خورشید مدعو تھے۔ چار دنوں تک قاسم خورشید الگ الگ رنگوں کے لباس، طرح طرح کی ٹوپیاں اور گمچھوں میں چہکتے اور چمکتے نظر آئے۔ روزانہ بیس سے پچیس سیشن چل رہے تھے، اِس لیے بھاگ دوڑ اور ایک ہال سے دوسرے ہال تک آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔ کھانے کے وقفے میں یا چائے پییتے وقت یا برآمدے میں روزانہ پانچ دس بار مڈ بھیڑ ہو ہی جاتی تھی۔ عجب اتّفاق کہ جس اجلاس میں اُنھیں شعر پڑھنا تھا، اُس وقت میں کہیں دوسرے سیشن میں مشغول تھا اور جب مجھے خطاب کرنا تھا، اُس وقت میرے سیشن میں وہ نہیں آ سکے۔ سے می نار شروع ہونے سے ایک روز پہلے فون پر اُنھوں نے تفصیل سے گفتگو کی اور مجھے بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ اِس پروگرام میں جسے مدعو کیا گیا ہے، وہ فی الحقیقت بڑا لکھنے والا ہے یا اپنی زبان کا نمایندہ ادیب ہے۔ یہ بھی کہا کہ ساتھ ساتھ رہ کر کچھ خوش گپّیاں کریں گے مگر اِس جشنِ ادب کی اتنی علمی شاخیں نکلتی جا رہی تھیں کہ اُس بھول بھلیّے میں ہمہ تن مَیں مصروف رہا۔ بس اِس بات کا لالچ تھا کہ دنیا کے چنے ہوئے ماہرین کی باتوں سے کچھ سیکھ لیا جائے۔ چلتے پھرتے کئی بار ہم لوگ بغل گیر ہوئے۔ تھوڑی دیر کے لیے کھانے کے ٹیبل پر بھی ساتھ بیٹھے مگر مختلف ترجیحات ہونے کی وجہ سے ہم الگ الگ لوگوں کے بیچ گُم ہو جاتے رہے۔ کاش یہ معلوم ہوتا کہ یہ شخص اب رفاقتوں کے تار کو ہمیشہ کے لیے توڑنے جا رہا ہے تو دنیا دیکھتی کہ اُنھیں ایسے سینے سے لگاتا کہ صبحِ قیامت تک کو انتظار کرنا پڑتا۔ وقت اتنا چالاک اور پُر فریب پردے ڈال دیتا ہے کہ ہم اُس میں آنکھ کے سامنے کی سچائی کو بھی نہیں دیکھ پاتے۔ قاسم خورشید نے بھی نہ جانے کیوں ہم تمام دوستوں کے ساتھ یہ بے پروائی اور اور سخت دلی کا مظاہرہ کر دیا۔
۲۸؍ ستمبر کو سے می نار سے فراغت کے بعد وہ گھر پہنچتے ہیں۔ اگلے روز دن بھر فون پر گفتگو کرنا اور تصویروں کے لینے دینے میں وقت گزرتا ہے۔ مغرب کے بعد اُنھیں طبیعت کی بشاشت میں کسی کمی کا احساس ہوا تو قریب کے ایک ڈاکٹر کے پاس تنہا چلے گئے۔ ڈاکٹر کے پرزے سے معلوم ہوا کہBlood Pressure اورPulse Rate بھی نہایت موزوں تھے۔ میڈیکل ہسٹری میں ڈاکٹر نے صرف Normal Weakness لکھا۔ طاقت کے لیے ایک Capsule اور ضرورت پڑنے پر Paracetamol کھانے کی ہدایت کی۔ تین دوائیں دس دس کی پتیوں میں خرید کر وہ لیتے ہوئے واپس آئے۔ دو دواؤں کو تو انھوں نے چھوا بھی نہیں تھا۔ نہ جانے کیوں Paracetamol اُنھوں نے کھایا۔ وقت سے سو گئے۔ میاں بیوی ایک ہی ساتھ سوئے۔ بیوی نے احتیاطاً کہا بھی کہ کوئی دشواری ہو تو مجھے اٹھا لیجیے گا۔ صبح میں اٹھنے کا معمول تھا۔ غالباً وہ اُسی وقت اٹھے۔ بستر پر اہلیہ سوئی رہیں، اُنھیں ڈسٹرب نہ کیا۔ بغل کے کمرے میں آکر معمولات میں مبتلاہونے لگے۔ شام میں ہی یہ طَے ہو چکا تھا کہ نو بچے روٹین چیک اَپ کے لیے بلڈ جانچ کرانے جانا ہے۔ اِس لیے حسبِ معمول اُنھوں نے داڑھی بھی بنائی۔Sugar اور Blood Pressure کے لیے وہ دوائیں لیتے تھے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اُن کی عمر کا کون ایسا ساتھی ہے جسے اِن امراض سے فراغت حاصل ہو۔ قاسم خورشید کے ٹھہاکوں سے تو دوسروں کے مرض ٹھیک ہو جاتے تھے۔ اِس لیے ساری دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اُن کی دوڑ بھاگ اور مجلس آرائی کی مشغولیت اُن کی عمر پر حاوی ہو کر جان کا زیاں نہ کر دے۔ قریب سے قریب دوست کو بھی اِس بات کا پتا نہ تھا۔
صبح پانچ ساڑھے پانچ بجے اٹھنے سے ساڑھے آٹھ بجے صبح تک کی کیفیات صرف خدا جانتا ہے کہ اِس حیوانِ ظریف کی جان کا سودا کیوں کر ہوا۔ اُن کی اہلیہ کی آنکھ جب کھلی تو اُنھوں نے بستر کے دوسرے حصّے پر اُنھیں نہیں پایا۔ اوّلاً اُنھوں نے آواز دی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ پھر وہ اٹھتے ہوئے بغل کے کمرے میں داخل ہوئیں تو اُس وقت تک دنیا اجڑ چکی تھی۔ بات کر کے دیکھنے کی کوشش کی ۔ہلا ڈلا کر حرکت جانچنے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا مگر وہ شخص سارے شہر کو ویران کر کے جا چکا تھا۔ اُن کی اہلیہ نے بتایا کہ بستر سے چادر کے ساتھ کھنچتے ہوئے وہ فرش پر گرے پڑے ساکت ملے۔ وہ کوئی ساڑھے آٹھ بجے کا وقت اور ۳۰؍ستمبر کی تاریخ تھی۔ ملک الموت نے کب اُنھیں قبضے میں لیا، یہ کسی کو معلوم نہیں مگر اتنا احساس ہے کہ سورج کی تپش ابھی نرم ہی تھی اور دن نہیں چڑھا تھا، اِس دوران وہ اپنے آخری سفر کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ موت کے بعد اُن کی صورت جو دیکھی، ایسا لگا کہ اب بول دیں گے۔ ٹوپی اور طرح طرح کے ہیٹ پہننے کی وجہ سے آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا تھا کہ اُن کی پیشانی آدھے سر تک پھیل چکی ہے۔ مرنے کے بعد اور کوئی تبدیلی نظر نہ آ رہی تھی۔ چوبیس گھنٹے کے بعد جب سفید کفن میں اُنھیں آراستہ کیا گیا، اُس وقت بھی اُس چہرے میں کوئی فرق نہ آیا۔ رہ رہ کر یہ دھوکا ہوتا تھا کہ وہ اب بول دیں گے کہ تب بول دیں گے مگر اِس کی نوبت کہاں آئی۔ ہم نے مَنوں مٹی کے نیچے اُنھیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ اب قاسم خورشید ہمارے نہ رہے۔ جس نے اُنھیں بنایا تھا، اُسی کے پاس ہم سب سے پہلے وہ روانہ ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ (جاری۔۔۔)
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈسائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔]
***
اس کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں: رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش!
قاسم خورشید سپردِ خاک
شیئر کیجیے