خورشید کہ اب جو ڈوب گیا

خورشید کہ اب جو ڈوب گیا

غضنفر

(ساہتیہ اکادمی کے زیرِ اہتمام منعقدہ انٹر نیشنل لٹریچر فسٹول میں کل ساتھ ساتھ تھا)

چار دنوں میں دیکھا میں نے
چار یگوں کی خوشیاں رخ پر
تتلی جیسا جامہ پہنے
رنگوں کا گلزار بنائے
چاروں جانب ڈول رہا تھا
ہونٹوں پر سنگیت سجائے
پنچھی جیسا بول رہا تھا
محفل محفل میٹھے میٹھے
رس کانوں میں گھول رہا تھا
سانسوں کو لفظوں کی خوشبو
کوچہ کوچہ بانٹ رہا تھا
درد کی کھائی پاٹ رہا تھا
آج اچانک کانوں میں آواز پڑی
رنگوں والا
نغموں والا
خوشبو والا
مست قلندر قاسم اب خاموش ہوا
اک جھونکے میں سورج چہرہ ڈوب گیا
کانوں کو وشواس نہیں
پر جھٹلائیں سچ کو کیسے
سچ تو سچ ہی ہوتا ہے
سچ جو آگے پسرا ہے
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:مشروم یا پام ٹری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے