فخرالدین عارفی
پٹنہ، بہار، ہند
ڈاکٹر قاسم خورشید افسانہ نگار ہیں یا شاعر؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں فن کار صرف فن کار ہوتا ہے اور فن کار کو فن کار ہی ہونا چاہیے۔ چھوٹا یا بڑا ہونا سلوک کی اگلی منزل ہوتی ہے، فن کار کو صنف کے پنجرے میں قید ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ فن کار کے یہاں جو جذبات و احساسات ہوتے ہیں وہی دراصل اس کو عام لوگوں سے الگ یا مختلف کرتے ہیں۔ مرکزی اور کلیدی بات احساس (feeling) ہے، جس کا تعلق اور واسطہ عام اور خاص یا عالم اور جاہل دونوں طرح کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ احساس (feeling) ایک مزدور یا رکشہ چلانے والے کے پاس بھی ہوتا ہے، لیکن وہ فن کار، شاعر، افسانہ نگار یا ناقد نہیں بن سکتا ہے، وہ ایک صحافی بھی نہیں بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب بننے کے لیے علم اور ہنر کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہی ہنر اگر کسی سنگ تراش کے پاس ہوتا ہے تو وہ اپنے ہنر کا مظاہرہ کرکے اچھا مجسمہ ساز بن جاتا ہے، اگر کسی مصور کے پاس ہوتا ہے تو وہ اپنے برش اور ذہانت کا مظاہرہ کرکے فدا حسین بن جاتا ہے۔ پس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احساس بہت اہم شے ہے، لیکن صرف احساس (feeling) سے ہم نہ فن کار بن سکتے ہیں نہ کلاکار، نہ مجسمہ ساز، نہ مصوّر، نہ شاعر، نہ افسانہ نگار، نہ صحافی یا ناقد۔۔۔۔۔۔ عام آدمی سے خاص آدمی بننے کا مرحلہ بڑا دشوار اور پیچیدہ ہوتا ہے اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ یہ دشوار اور پیچیدہ مرحلہ قاسم خورشید نے طے کیا ہے۔ یہ مرحلہ دراصل آگ کے دریا جیسا ہوتا ہے۔ جس میں علم اور ہنر، ذہانت و فطانت کے ساتھ ساتھ ایک اور لفظ "جنون" بہت ضروری ہوتا ہے، جنون کو ہم عشق کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ عشق ہی ہمیں سماج کے عام آدمی سے خاص آدمی کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ امیر خسرو نے یہ کہا تھا:
خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار
قاسم خورشید نے زندگی کے اس دریا کو ڈوب کر پار کیا ہے، وہ افسانہ نگار بھی اچھے ہیں اور شاعر بھی بہتر، میں تو یہ کہوں گا کہ وہ ایک تخلیقی فن کار ہوتے ہوئے اپنے اندر گہری تنقیدی بصیرت بھی رکھتے ہیں۔
ان کے افسانوں کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ 1.پوسٹر، 2.ریت پر ٹھہری ہوئی شام، 3.کینوس پر چہرے۔ ان کے علاوہ ڈراموں پر بھی ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی ایک کتاب جو ان کا شعری مجموعہ ہے وہ "تھکن بولتی ہے" کے نام سے بہت قبل شائع ہوچکا ہے اور اب دوسرا شعری مجموعہ "دل کی کتاب" کے نام سے 2024ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ ان کے دونوں شعری مجموعوں کا نام بہت خوب صورت ہے۔ "تھکن بولتی ہے" میں غم کائنات اور "دل کی کتاب" میں غم ذات کا گمان ہوتا ہے۔
قاسم خورشید نے اپنا تخلیقی سفر شاعری سے ہی شروع کیا تھا۔ تب وہ "جعفر" یا "کیو۔کے جعفر" کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ جعفر سے ان کے قاسم خورشید بننے کا قصّہ بہت طولانی ہے۔ شاعر جعفر کے کچھ اشعار سے محظوظ ہوتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں:
پھولوں کی خاموشی سے ظاہر یہ ہورہا ہے
کہ اس چمن کا مالی پھر خار بو رہا ہے
یہ شعر موجودہ سیاسی تناظر میں آج بھی کتنا (Relevant) ہے۔ بس اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کی اس وقت کی ایک دوسری غزل کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
یہ تنکا زمیں پر سے اٹھ جائے گا
کہ چڑیا کہیں گھر بسانے کو ہے
جس شاعر کی ابتدا ایسے خوب صورت اور معنی خیز اشعار سے ہوئی ہو؟ کون یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے شعری سفر میں اچھی اور بڑی شاعری کے روشن امکانات موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹر قاسم خورشید کے یہاں بڑی شاعری کے روشن امکانات کل بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں۔
قاسم خورشید نے اپنے اس شعری مجموعہ "دل کی کتاب" کا انتساب عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کے نام کیا ہے، وہ اس سلسلے میں اس لیے بہت خوش قسمت شاعر ہیں کہ ان کو پٹنہ میں منعقد ایک عالمی مشاعرے میں احمد فراز کے ساتھ اپنا کلام پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوچکا ہے۔ اس مشاعرے کی شروعات ایک نوجوان مقامی شاعر سے ہوئی تھی اور وہ نوجوان مقامی شاعر کوئی اور نہیں خود قاسم خورشید تھے۔ انھوں نے اپنا جو کلام اس مشاعرے میں پیش کیا تھا کیوں نہ ہم ان کے اس مشاعرے میں پڑھے گئے چند اشعار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آگے بڑھیں، ملاحظہ کریں:
مجھے پھولوں سے بادل سے ہوا سے چوٹ لگتی ہے
عجب عالم ہے اس دل کا، وفا سے چوٹ لگتی ہے
جسے تم اب جلاتے ہو، تم ہی نے مار ڈالا تھا
وہ اپنی موت سے خوش ہے، دعا سے چوٹ لگتی ہے
قاسم خورشید اس غزل کو آج بھی مشاعروں میں اکثر پڑھا کرتے ہیں اور ان کو بھر پور داد بھی ملتی ہے۔ شاعری اگر اچھی ہو اور اس میں دل کی کار فرمائی محسوس ہو، کمپوزنگ کا عمل نہ ہو تو پڑھنے اور سننے میں اچھی لگتی ہے۔ دونوں حالت میں دل متاثر ہوتا ہے، برخلاف اس کے اگر شاعری میں دل کی صدا سنائی نہ دے، روح کی پکار نہ ہو تو ایسی شاعری کی حیثیت صحرا میں اذان جیسی ہوتی ہے۔ اچھی شاعری اپنے دور اور عہد کی تاریخ ہوتی ہے، جسے وقت بار بار یاد دلاتا اور دہراتا رہتا ہے۔ اچھی شاعری رطب و یابس، یاوہ گوئی اور اشعار کے ڈھیر لگانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ قطرہ کو سمندر بنانے کا فن ہے اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ یہ فن قاسم خورشید کو خوب آتا ہے۔ اچھا فن کار بننے کے لیے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہوتا ہے۔ احساس برتری فن کی عظمت اور فن کار کی حرمت و رفعت کو کھا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر قاسم خورشید اپنے اس شعر میں طنز کرتے ہیں کہ:
تماشائے ساحل سے ہے بے خبر وہ
ابھی تک کنارے پہ آیا نہیں ہے
قاسم خورشید افسانہ نگاری میں آٹھویں دہائی کے افسانہ نگاروں کے درمیان اپنی ایک نمایاں شناخت قائم کرچکے ہیں۔ ان کے افسانوں کے تینوں مجموعوں نے کتابوں کی بھیڑ میں فکشن کے حوالے سے اپنی ایک مخصوص پہچان بھی قائم کرلی ہے ۔ "فضلو کی موت" سے لے کر "پوسٹر" اور "باگھ دادا" تک انھوں نے بلندیوں کے کافی طویل سفر طے کیے ہیں۔ ساتھ ہی کامیابیوں کے پرچم بھی لہرائے ہیں۔ 1970ء کے بعد سامنے آنے والے افسانہ نگاروں کے فوراّ بعد کے افسانہ نگاروں میں مشرف عالم ذوقی، احمد صغیر، صغیر رحمانی، ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، تبسم فاطمہ کے ساتھ قاسم خورشید کا نام بھی ایک بڑا نام تصوّر کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کے پہلے مجموعہ "پوسٹر" کو غیر معمولی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے۔ قاسم خورشید کے افسانوں میں قدامت، روایت اور جدّت کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے جو ان کو اپنے دیگر معاصرین سے ممتاز و منفرد بناتا ہے۔ ان کے افسانوں کی دنیا اور شعری کائنات دونوں میں عصری آگہی اور جدید حسیت کے گہرے اثرات ملتے ہیں اور کہیں شدت پسندی نہیں ملتی ہے۔ وہ "جادۂ اعتدال" کے فن کار ہیں۔ نام نہاد جدیدیت اور فیشن زدہ تجریدیت کے وہ کبھی شکار نہیں ہوئے۔ اب جب شاعری کی دنیا میں وہ اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں تو محض خانہ پری کے لیے شاعری نہیں کررہے ہیں بلکہ اچھی اور نمایندہ شاعری کے بہتر نمونے پیش کررہے ہیں اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے بڑے ادبا و شعرا ان کی شاعری کو پسند کررہے ہیں۔ ڈاکٹر قاسم خورشید کی شخصیت میں ان کا سلوک یا سنسکار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر محبت کے علم بردار ہیں۔ وہ اپنی شاعری یا افسانہ نگاری کو کار زیاں کا نام نہیں دیتے ہیں نہ ہی انا کی کشتی میں سوار ہوکر ناخدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ بہت سادگی اور انکساری کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ:
ہمارے ذکر سے دل کی کتاب روشن ہے
ہمارے ذکر کا ہر اقتباس رہنے دو
وہ اپنی شاعری میں حمد و ثنا کے نادر نمونے بھی پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا ایک شعر رقم کردینا شاید بے محل نہ ہوگا:
جسم سے جان سے ایمان سے بندھے رہتے ہیں
اہل ایمان ہی قرآن سے بندھے رہتے ہیں
ڈاکٹر قاسم خورشید ایک فطری فن کار ہیں، انھوں نے صرف شوق میں کبھی کچھ نہیں لکھا۔ خواہ افسانہ نگاری ہو یا شاعری یا پھر اداکاری۔۔۔۔۔ کہیں بھی ان کی عیاری اور مکّاری کا احساس ان کی نثری یا شعری تخلیقات میں نہیں ہوتا ہے۔ اپنی تخلیق میں وہ ہر جگہ ایمان دار اور دیانت دار نظر آتے ہیں۔ 1984ء میں جب میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ "سلگتے خیموں کا شہر" شائع ہوا تھا تو اس کا اجرا ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا نے کیا تھا۔ (جو متعدد مرتبہ بہار کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں) اس موقعے پر قاسم خورشید نے میری کتاب پر اپنا ایک طویل مقالہ پڑھا تھا، جس کا عنوان تھا: "فخرالدین عارفی کے افسانوں میں شہر کا تصوّر" ان کا یہ مقالہ لوگوں نے کافی پسند کیا تھا اور ملک کے متعدد اہم رسائل و اخبارات میں ڈاکٹر قاسم خورشید کا یہ مقالہ شائع بھی ہوا تھا اور آج بھی لوگوں کے ذہن میں قاسم خورشید کی اس تحریر کے نقش و نگار تازہ بہ تازہ ہیں۔ اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قاسم کے یہاں انتقادی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔
قاسم خورشید سے میرے تعلقات نصف صدی کا قصّہ ہیں، یہ رشتہ کل بھی خوش گوار تھا اور آج بھی ہموار ہے۔ اس بات سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ قاسم کے یہاں مستقل مزاجی کے عناصر بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ تعلق کو لباس کی طرح بدلنے کے قائل نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو دوست دشمن کی پرکھ نہیں ہے۔ خوب ہے لیکن:
میں سوچتا ہوں محبت کے سلسلے ہوں دراز
میں سوچتا ہوں، محبت یہ بے حساب رہے
( قاسم خورشید )
قاسم خورشید کے یہاں خواہ ان کی نثر ہو یا غیر نثر، موضوعات کا تنوّع موجود رہتا ہے۔ ان کا اپنا ایک مخصوص رنگ و آہنگ ہے، منفرد فکر اور مختلف طرز اظہار ہے، جو ان کو اپنے تمام معاصرین سے نہ صرف منفرد کرتا ہے، بلکہ ممتاز بھی بناتا ہے۔
آج کے اردو ادب میں سیاست خوب ہوتی ہے، ذات پات کی سیاست بھی ہوتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ صلاحیت اور لیاقت یعنی میرٹ کا تصوّر ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ پہلے اس موضوع پر عظیم آباد کے ایک شاعر اختر عظیم آبادی کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
سورج پس حجاب، اندھیرا ہے سامنے
یہ کون سی صدی کا سویرا ہے سامنے
اور اب قاسم خورشید کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
بھروسہ کرلیا ہم نے ہنر مندی کے ہونے کا
مگر اس دور میں پیارے لیاقت توڑ دیتی ہے
موجودہ ادبی تناظر میں قاسم خورشید کی ایک پوری غزل بہت اہم ہے، ہر شعر خوب صورت ہے، لیکن پوری غزل تحریر کرنے کا یہاں پر شاید مناسب موقع نہیں ہے، بس اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
مجھے پھولوں سے، بادل سے ہوا سے چوٹ لگتی ہے
عجب عالم ہے اس دل کا وفا سے چوٹ لگتی ہے
بہت چھل کرچکی دنیا مجھے تنہا بھٹکنے دو
ہوا بھی ہم سفر ہو تو ہوا سے چوٹ لگتی ہے
بھلا ہوکر بہت دیکھا برا بن کر بھی جینے دو
مرے قاتل تمہیں کیوں اب سزا سے چوٹ لگتی ہے
اب قاسم کی ایک رومانی غزل ملاحظہ کریں، اس غزل کے مطالعے کے دوران مجھے احمد فراز کی یاد بار بار آئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
میں سوچتا ہوں تصوّر میں ماہتاب رہے
میں سوچتا ہوں کہ دل کی کوئی کتاب رہے
میں سوچتا ہوں وہ شعلہ بدن بلائے مجھے
میں سوچتا ہوں کہ ہاتھوں میں اک گلاب رہے
میں سوچتا ہوں کہ آنکھیں غزال ہوں اس کی
میں سوچتا ہوں کہ کہ جنت میں وہ شراب رہے
ڈاکٹر قاسم خورشید کی پیدائش ، کاکو ضلع جہان آباد میں 2 جولائ 1957ء کو ہوئی، ان کے والد کا نام سیّد غلام ربانی ہے، جن کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب جعفر کی عمر بہت کم تھی، جو بعد میں قاسم خورشید بنے.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش!
قاسم خورشید اپنے فن کے آئینے میں
شیئر کیجیے