رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش!

رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش!

پھر کہاں روشنی رہے گی یہاں
ہم جو خورشیدؔ خواب ہوجائیں

صفدر امام قادری
کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

۶۸؍برس کی عمر، رنگ برنگے لباس میں دوڑتا بھاگتا آدمی، ایک مجلس سے دوسری اور وہاں سے پھر کسی تیسری بزم کا مہمان، اردو والوں کی محفل ہو یا ہندی اور دوسری زبانوں کے افراد کا کوئی مجمع ہو، سیاست دانوں کا حلقہ ہو یا مذہبی رہنمایان کی کوئی تقریب ہو؛ یہ شخص ہر جگہ موجود ہوتا اور پورے طور پر نمایاں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے چالیس پینتالیس برس پرانا رشتہ تھا، سو ایک خاص بلند آہنگی اور تصنع کے قریب پہنچی ہوئی پاٹ دار آواز جسے بعد کے دور میں مشاعروں کے اسٹیج پر ڈرامائیت کے اضافے کے ساتھ انھوں نے استحکام بخشا۔ ۱۹۸۰ء سے پہلے ڈراموں کی دنیا میں داخل ہوئے، افسانے لکھنے لگے۔ اردو اور ہندی دونوں محفلوں میں شامل اسی دور میں ہو گئے تھے۔ ہندی محفلوں کی حد تک شعر گوئی کا باضابطہ عمل تھا جو بعد میں ایک بڑے حلقے تک انھیں پہنچانے میں معاون رہا۔ شاعری اور شعری محفلوں سے ان کی افسانہ نگاری بھی پیچھے چھوٹ گئی مگر شہرت ان کے قدموں کے آگے آگے چل رہی تھی۔ مقامی سے لے کر بین الاقوامی محفلوں تک عظیم آباد میں آپ کوئی بھی فہرست سازی کیجیے، ان کی جگہ پکی ہوتی تھی۔ مشاعرہ ہو، سے می نار ہو، اجرا تقریب ہو، اردو کا جلسہ ہو یا ہندی کا؛ وہ بہ امتیاز ہر جگہ بلائے جاتے۔ پچیس سے اٹھائیس ستمبر ۲۰۲۵ء کو ساہتیہ اکادمی کے عالمی جشن میں ہر دن دوڑتے بھاگتے ملتے ملاتے اور تصویریں کھنچاتے نظر آئے۔ خدا کے علاوہ کسے معلوم تھا کہ زندگی نے صرف چوبیس گھنٹے کی مہلت ان کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ منگل کی صبح ساڑھے آٹھ کے بعد ہماری محفلوں کے روح و رواں قاسم خورشید ہمیشہ کے لیے ہم سے دور ہو چکے تھے۔
۲؍جولائی ۱۹۵۷ء کو موجودہ جہان آباد کے مردم خیز علاقے کاکو میں پیدا ہوئے۔ والد کا سایہ بہت پہلے سر سے اُٹھ گیا۔ والدہ اور ماموں جاوید صاحب نے تعلیم و تربیت کا بوجھ اپنے کاندھے پر اٹھایا۔ شعبۂ اردو، پٹنہ یونی ورسٹی سے ایم. اے کرنے کے بعد پریم چند کے مشہور ناول ’’گئودان‘‘ کے ادبی احتساب پر تحقیق مکمل کی۔ آل انڈیا ریڈیو، پٹنہ میں عارضی اناؤنسر، محکمۂ راج بھاشا میں معاون مترجم، بہار ایجوکیشنل ٹیلی ویژن میں اسکرپٹ رائٹر، ڈپٹی پروڈکشن انچارج اور ایس. سی. ای. آر. ٹی ، بہار میں لینگویجز شعبوں کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بچوں کے لیے بڑی تعداد میں ٹیلی فلمیں بنائیں۔ ۱۹۸۴ء میں محترمہ شاہدہ وارثی سے ان کی شادی ہوئی، قدرت نے سعادتِ اولاد سے انھیں محروم رکھا۔ غالب کی طرح انھوں نے ایک بچی گود بھی لی تو اس نے بھی بے وقت کی جدائی دے کر مزید زخم دے دیا۔ یہ غم اب ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا۔ انھوں نے سلطان گنج واقع نوگھروا محلے میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
قاسم خورشید واقعی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ یہ محاورہ بہتوں کے لیے رسمی طور پر پیش کیا جاتا ہوگا مگر قاسم خورشید حقیقی معنوں میں باغ و بہار شخصیت رکھتے تھے۔ آپ جتنی دیر ساتھ رہیں، بات بات میں ٹھہاکے لگانے کا انداز، محفل میں دوسروں کی پژمردگی کو ہمیشہ زائل کر دیتا تھا۔ اکثر و بیش تر ادبا و شعرا اپنے علم، ادبی مقام اور فضیلت کا بوجھ لیے محفلوں میں موجود ہوتے ہیں۔ قاسم خورشید ایسی محفلوں میں تنہا شخص تھے جو ایک منٹ میں اس لبادے کو اٹھاکر پھینک دیتے اور عام انسانی سطح پر نہ صرف یہ کہ خود چلے آتے بلکہ ایک سے ایک جغادری حضرات کو بھی اسی ہنسی اور ٹھٹھول میں شریک کر لیتے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ قاسم خورشید کے ساتھ رہیے تو مہینوں کا اضمحلال اور گردوغبار سب فنا ہوجاتا ہے۔ ان کی مقبولیت اور ہر حلقے میں پسندیدگی کی یہ ایک خاص بات تھی۔
قاسم خورشید کا پہلا میدان ڈراموں کا تھا، ہدایت کاری سے لے کر اداکاری تک۔ ڈرامے تو انھوں نے چھوڑ دیے مگر ہر غیر رسمی محفل میں ان کی اس صفت کے تراشے ہمیں ملتے رہتے تھے۔ جب اردو کے نقاد اور اساتذہ نجی محفلوں میں موجود ہوں، آپ قاسم خورشید سے پٹنہ یونی ورسٹی میں پڑھنے کے زمانے کے واقعات اور خاص طور سے اپنے اساتذہ کے اندازِ تدریس کا تذکرہ چھیڑ دیجیے، اب ایک گھنٹہ سے کم وقت میں کسی کا کام نہیں چلے گا۔ پروفیسر محمد مطیع الرحمان کے عروض پڑھانے کا واقعہ ہو اور قاسم خورشید کے ساتھ عین تابش کی مشترکہ چُہل بازی۔ اسی طرح حمیرا خاتون دیوانِ غالب کے پہلے شعر کی تشریح کس انداز میں کرتیں، اس کا محاکاتی بیان ان سے سنتے جائیے۔ کلیم عاجز کی نرم گفتاری میں تدریس کا لطف اور قاسم خورشید کی ہو بہ ہو نقشہ کھینچنے کی صلاحیت۔ تیس چالیس برس پرانا شعبۂ اردو آپ کی آنکھوں کے سامنے اپنی توانائی، اپنی رنگینی اور بوقلمونی کے ساتھ آپ کے سامنے آجائے گا۔ یہ پُرمزاح پیش کش صرف اپنے اساتذہ کے لیے مخصوص نہیں تھی۔ عظیم آباد کے بزرگ ادیبوں اور بہت سارے معاصرین کے لیے بھی نجی محفلوں میں قاسم خورشید کے پُرمذاق انداز کو ہم سب نے ملاحظہ کیا ہے۔ کیف عظیم آبادی، شفیع جاوید، وہاب اشرفی، رمز عظیم آبادی، ستیش راج پشکرنا، پروفیسر ممتاز احمد؛ کس کس مرحوم کو یاد کیا جائے! کمال یہ کہ کسی سے کوئی پرخاش نہیں۔ نہ کینہ پالا اور نہ ہی حسد کا جذبہ رکھا۔ یہ مزاح اور مذاق اسی محفل میں دفن کرکے وہ کارزارِ حیات پہ آگے بڑھے۔
ایک مصنف کی حیثیت سے قاسم خورشید کی پہلی پہچان صنف افسانہ کے حوالے سے ہوئی۔ پہلا افسانہ ۱۹۷۷ء میں رسالہ ’زبان و ادب‘ میں ’روک دو‘ عنوان سے شائع ہوا۔ پوسٹر، کینوس پر چہرے اور ریت پر ٹھہری ہوئی شام؛ ان کے تین افسانوی مجموعے ہیں۔ ڈرامے کا ایک مجموعہ ’تماشہ‘، تنقیدی مضمون کا مجموعہ ’متن اور مکالمہ‘ اور مقالۂ تحقیقی ’ادبی منظرنامے پر گئودان‘ ان کی دیگر مطبوعات ہیں۔ ’دل کی کتاب‘ عنوان سے انھوں نے اردو میں اپنا شعری مجموعہ بھی شائع کیا۔ بچوں سے متعلق کہانیوں کے مختصر مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ ’تھکن بولتی ہے‘ اور ’دل تو ہے بنجارہ‘ ہندی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ہندی میں چار افسانوی مجموعے تھار پر زندگی، کوئی ہاتھ، گُنجا کی نیتی اور کشن پور کی مسجد منظر عام پر آئے۔ منتخب افسانوں کے انگریزی تراجم "waves” کے عنوان سے سید افروز اشرفی نے کیے جو اَب سے کوئی دو دہائی قبل مجموعے کی شکل میں سامنے آئے۔ ان کے علاوہ کیف عظیم آبادی کے کلام کو دیوناگری میں ’سنولائی دھوپ‘ کے نام سے اور رضا نقوی واہی، مرزا کھونچ اور کریک بتیاوی کے ظریفانہ کلام کا انتخاب ہندی میں ’ٹوٹے ہوئے چہرے‘ کے نام سے کیا۔ غالباً ۱۹۸۲ء میں ’لکیریں‘ کے نام سے ایک سائیکلوسٹائل رسالہ نکالا جس کا ایک ہی شمارہ منظر عام پر آسکا۔ اس طرح ایک بھری پری اور زرخیز ادبی زندگی گزری جو کم و بیش نصف صدی کو محیط ہے۔ مختلف صنفوں میں خدمات انجام دینے والے کی پہچان کا ایک مسئلہ بہرطور قائم رہتا ہے کہ اسے بنیادی طور پر کس شعبے سے جوڑ کر دیکھا جائے؟ اردو کے پرانے قارئین انھیں افسانہ نگار سمجھتے ہیں اور پوسٹر، کیل، سائمن بوسکی جیسے افسانوں کی وجہ سے یاد رکھنا چاہتے ہیں مگر گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان جب وہ ہندی کوی سمیلنوں بالخصوص سرکاری جلسوں میں اپنی لازمی موجودگی اور شعر خوانی سے محظوظ کرنے لگے، اس دور کے لکھنے والوں کے لیے وہ ایک شاعر اور پرفارمر کی حیثیت سے قبول کیے جانے لگے۔ قدرت نے چاہے نصف اول ہو یا نصف آخر، انھیں بہرطور مقبولیت دی اور اپنی شخصیت کے وقار اور اثر سے وہ قبول عام کے درجے پر ہمیشہ فائز رہے۔
قاسم خورشید رواں طبیعت کے مالک تھے۔ ایک دور میں مشاعروں اور دوسرے جلسوں کی نظامت نے بھی انھیں پہچان عطا کی تھی۔ بڑے مشاعروں کی نظامت اب بھی وہ کرتے رہے۔ ایک پروقار آواز کا جادو تو تھا ہی مگر بیان کی روانی اور حسبِ ضرورت شگفتگی اسے استحکام عطا کرتے تھے۔ بولتے ہوئے نہ لفظوں کی تلاش انھیں کرنی ہوتی تھی اور نہ ہی جملے تیار کرنے ہوتے تھے۔ وہ اپنے آپ ڈھلتے جاتے اور قاسم خورشید کی زبان سے نکل کر سکہ رائج الوقت ہوجاتے۔ اس روانیِ طبیعت اور آواز کے زیر و بم سے انھوں نے کتنی محفلوں کی مردہ سماعتوں کو تازہ دم کیا، ادبا و شعرا کی چپقلشوں کو اپنے قدموں سے روندنے میں کامیابی پائی اور ادبا و شعرا کی مجموعی تعظیم پہ ایک حرف نہیں آنے دیا۔ اس ہنر نے انھیں عظیم آباد کی محفلوں میں اپنے سے بہتر لکھنے والوں کے مقابلے میں انھیں زیادہ عزت دلائی۔
قاسم خورشید کی شخصیت میں ایک عجیب و غریب مقناطیسیت تھی۔اس لیے ان کے گرویدہ وہ بھی ہیں جو انھیں دل سے پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر وقت سارے تعصبات اور تمام کمالات کا بوجھ اپنے دوستوں یا ادبا و شعرا کی محفلوں پر لادتے نہیں تھے۔ جن کے ساتھ نباہ مشکل ہے، کسی فضیحت سے پہلے خود ہی الگ ہوگئے، کوشش کی کہ آمنے سامنے مبارزت کی صورت نہ پیدا ہو اور پرانا دوست دشمن نہ ہوجائے۔ اس حکمت اور بیان کی شگفتگی نے عام طور پر قاسم خورشید کے ارد گرد ایک خوش گوار ماحول قائم رکھا جسے وہ اپنی خوش گپیوں اور ٹھہاکوں سے تروتازہ رکھتے تھے۔ اب یہ مقناطیسیت، یہ خوش گفتاری اور ٹھہاکوں کا شور ہماری محفلوں سے ہمیشہ کے لیے غیاب میں چلا گیا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ (جاری۔۔۔)
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈسائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔]
***
صفدر امام قادری کی گذشتہ نگارش : حکومتِ بہار کے زوال آمادہ اقلیتی تعلیمی ادارے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے