’حدائقِ بخشش کے موضوعاتی اسلوب کا اعجاز‘: ایک تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر محمد ولی اللہ قادری
استاد، گورنمنٹ انٹر کالج( ضلع اسکول)، چھپرا
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی قدس سرہٗ سے عقیدت کا اظہار کرنے والے اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے والوں کی کمی نہیں۔ تقریری میدان ہو یا تحریری، مسلکِ اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے والوں میں زیادہ تر افراد اعلیٰ حضرت کی فکر اور کردار سے کوسوں دور ہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ اُنھیں اِس بات کا شعور ہی نہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ پیشہ وَر مقررین اور نعت خواں کے رویّے سے اہلِ سنت کا با شعور طبقہ باخبر ہے اور اصلاح کی مقدور بھر کوشش میں سرگرداں بھی۔ لیکن تحریری میدان کے حالات بھی نا گفتہ بہ اور اس سے بد تر ہیں۔ عہدِ حاضر میں اعلیٰ حضرت اور فکرِ رضا کے نام پر جو کتابیں منظرِ عام پر آ رہی ہیں، اُن میں زیادہ تر غیر تشفّی بخش ہیں۔ اُن میں تو بعض کتابیں غیر ضروری بھی ہیں۔ عصری جامعات میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالے کا حال کیا پوچھنا؟ راقم الحروف نے رضویات کے موضوع پر لکھنے گئے جتنے مقالے پڑھے، ان میں زیادہ کا معاملہ یکساں پایا۔ سب بھرتی کے مقالے ہیں۔ اُنھیں وقت اور پیسے کی بربادی قرار دیا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ رضویات کے موضوع پر جو تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں، اُن کا مقصد اعلیٰ حضرت کی عقیدت کا اظہار بھی ہے لیکن علمی زبان میں اُسے حماقت ہی نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور علمی خدمات کا کھُلا مذاق قرار دیا جائے تو ذرّہ برابر بھی مبالغہ نہ ہو گا۔ جے پر کاش یونی ور سٹی، چھپرا بہار کے شعبۂ اردو سے منظور شدہ ایک مقالہ امتحانیہ ’حدائقِ بخشش کے موضوعاتی اسلوب کا اعجاز‘ بھی ہے جس کو بہ طورِ مثال پیش کیا جا سکتا ہے جس پر ۲۰۲۱ء میں مقالہ نگار محمد رجب عالم غوثی المعروف مولانا محمد رجب القادری کو پی ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری مل چکی ہے۔ افسوس کہ اس سال ۲۰۲۵ء میں وہ مقالہ کتابی صورت میں ترمیم و اضافے کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اِس مقالے کے نگراں ڈاکٹر (مولوی) عبد المالک، سابق صدر شعبۂ اردو، جے پرکاش یونی ورسٹی، چھپرا ہیں۔ پیشِ نظر کتاب کا مطالعہ اعلیٰ حضرت کی عقیدت میں سینے میں پتھّر رکھ کر کیا کیوں کہ یہ کتاب اغلاط کا مجموعہ ہے۔ کون ایسا صفحہ ہے جس پر عام قاری کو زبان و بیان کی دو چار غلطیاں نہ مل جائیں۔ کتاب کے آغاز سے قبل مقالہ نگار کے نگراں ڈاکٹر عبد المالک کی تحریر ہے جس کا عنوان ’دیباچۂ تمہید‘ ہے۔ اب بتایا جائے کہ جس تحریر کا عنوان ہی اِس قدر فصیح و بلیغ ہو اور دیباچہ نگار کو یہ بھی پتا نہ ہو کہ دیباچہ اور تمہید دونوں الفاظ مترادف معنی میں مشتمل ہیں اور ترکیب کے لحاظ سے یہ عنوان درست نہیں۔ اِس کی باقی تحریروں کا کیا حال ہوگا؟ نگراں اور مقالہ نگار دونوں کی تعلیم و تربیت مدرسے کی ہے۔ اس لیے دونوں نے اپنے کردار سے مدارسِ اسلامیہ کے معیار کو بھی داغ دار کیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران اعلیٰ حضرت کا یہ شعر بار بار ذہن میں آ جاتا ہے:
دن لہو میں کھونا تجھے، شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
بہر کیف نگراں عبد المالک صاحب کے ’دیباچۂ تمہید‘ کا محض ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’میں نے تحقیقی مقالہ کا سرسری طور پر مطالعہ کیا۔ یہ سندی مقالہ ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد رجب عالم غوثی نے بڑی عرق ریزی سے اپنی تحقیقات کی تکمیل کی ہے۔ حقائق و معارف کے دائرے میں مہتم بالشان نظریے ملتے ہیں۔ اخلاقیات کے پس منظر میں فقہ و عقائد، ارکان و اصول اور شعر و ادب کے علاوہ معرفتِ الٰہی کا تذکرہ جمیل ہے۔ مقالہ نگار نے مجموعی طور پر امامِ اہلِ سنّت کی نعتیہ شاعری سے متاثر ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندی مقالہ میں مناسب و بر محل الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری احکامِ شریعت کا گلدستہ ہے۔ اور قصیدۂ معراجیہ کی تشریح میں فکر کی نکتہ رسی ملتی ہے۔ جس سے دل میں مسرت و انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اور عام لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔‘‘(حدائقِ بخشش کے موضوعاتی اسلوب کا اعجاز۔ صفحہ۔۱۲)
پیشِ نظر اقتباس میں زبان و بیان اور قواعد کی غلطیوں سے قطعِ نظر نگراں موصوف کا غیر ذمہ دارانہ رویہ واضح ہو رہا ہے۔ سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ حکومت سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پانے والا شخص اور معلم اپنے ریسرچ اسکالر کے مقالۂ امتحانیہ کا مطالعہ ’سرسری طور‘ پر کرے گا تو باریک بینی سے مطالعہ کون کرے گا اور اصلاح کی ذمے داری کس پر ہوگی؟ اس مقالے کو انجام پانے تک نگراں صاحب نے ریسرچ اسکالر کا جو استحصال کیا ہے اور دارالعلوم رضویہ، بڑا تیلپہ، چھپرا کے اساتذہ و طلبہ کا اپنے مفاد میں جو استعمال کیا گیا ہے، اگر اس کو لکھا جائے تو ایک مکمّل مضمون تیّار ہو سکتا ہے۔ اپنی نجی معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنے میں ذرّہ برابر تذبذب نہیں کہ زیرِ تبصرہ مقالے کو نگراں موصوف نے ترتیب فرمایا ہے۔ عہدِ حاضر میں یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں رہ گئی ہے کیوں کہ مقالے کے اسلوبِ تحریر اور عبد المالک صاحب کی ۲۰۲۰ میں شائع کتاب ’الحاج عبد الطیف شفا چھپروی: احوال و آثار‘ کی عبارت میں یکسانیت نظر آ رہی ہے۔ پہلے زیرِ تبصرہ کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ حدائق بخشش میں موضوعاتی تنوع اور اسلوب کا بانک پن کا عنوان انتخاب کیا ہے۔ یہ حدائقِ بخشش کا اعجاز ہے۔ کہ موضوعاتی تنوع اور اسلوب کا بانک پن خود سے پیدا ہوتا ہے۔ امام احمد رضا کی شاعری سنجیدہ جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے۔ اسلوب کا بانک پن شاہد مقصود پر مبنی ہے۔ اُن کے فکر و فن کی روشنی میں اسلام کے آغاز و ارتقا کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور مخصوص نظریے کے جذبے کو قائم کرتا ہے۔ رضا کی نعتیہ شاعری کا فنی و لسانی نظریہ اسلامی عقائد و شرع پر مبنی ہے۔ نعتیہ شاعری کے رویّے کی ادبی ماہیئت اور اُس کی افادیت گوں نا گوں آہنگ پر مقدم ہے۔ اُن کی نعتیہ شاعری کا تجزیہ و تحلیل اسلامی ادب کا شاہکار پہلو ہے۔ موضوعاتی تنوع کا بانکپن حبیب مطلق کی ذات کا پرتو ہے۔ کہ ہر احساس میں حبِ رسول کی جھلک ملتی ہے۔ میری زندگی کے ہر گوشے میں کیف و سرور اور سوز و نشاط کی آواز بن گئی ہے۔ حدائقِ بخشش نعتیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ جس میں موضوعاتی تنوع کا جوہر ہر رنگ میں نمایاں ہے۔ اسلوب کا بانکپن، البیلا پن، ظاہر و باطن کی معززین اور مفرح آہنگ پر مبسوط ہے۔ جس میں ہجر و وصال کا حسین امتزاج ہے۔ امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری میں اسلوب کا بانک پن نہایت کشادہ آہنگ پر ہے۔ ‘‘ (زیر تبصرہ کتاب۔ صفحہ۔۵۹)
’’حسنِ اتّفاق ہے کہ کئی برسوں کے گزر جانے کے بعد رفتہ رفتہ احساس اجاگر ہوا مگر مسودہ دوسرے نام؟ سے تھا۔ لیکن شعر و ادب کے بانکپن نے حقائق طلب امور کی جانب سے جدا نہ ہوا بس کتاب کا نام الحاج عبد الطیف شفا چھپروی: احوال و آثار ہے جو شعر و ادب کے حق میں جامع ترین ایک پیام ہے بنی نوع انسان کے ذہنی، علمی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی نظریۂ حیات کی تعمیر ہے بلکہ گم شدہ اوراق پارینہ کی تاکید ہے کہ سچ پوچھیئے! تو قدیم شہر چھپرا کی تہذیب کی ادبی روایت اور اُس کی ادبی شان کی تلاش ہے جس میں اسلاف شناسی کے بعض معمولی اسلوبوں اور پیرایوں کے افکارِ زریں کی تکرار کی تفہیم آرائی ہے۔ ‘‘ (دیباچۂ طبع اوّل۔ ’الحاج عبد الطیف شفا چھپروی: احوال و آثار‘ صفحہ۔۷)
واضح رہے کہ پہلا اقتباس مقالہ امتحانیہ کے بالکل پہلے صفحہ کے پیراگراف سے ماخوذ ہے جب کہ دوسرا مصنف کے دیباچہ سے، دونوں اقتباسات میں تحریر کی جو ناہمواری ہے، وہ اردو کا ایک معمولی طالب علم بھی بتا دے گا۔ بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے میں ختمہ کا استعمال زیادہ ہوا جب کہ دوسرے میں محض ایک۔ دونوں اقتباسات کا بار بار مطالعہ کے باوجود راقم الحروف یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ دونوں کا مفہوم کیا ہے؟
یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ مولوی عبد المالک کی فکری تربیت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی فکر کے بر عکس پھلواروی فکرِ کے زیرِ سایہ ہوئی ہے۔ اُن کے اساتذہ میں مولانا خورشید جمال مرحوم، سابق پرنسپل، مدرسہ وارث العلوم، نیا بازار چھپرا نمایاں ہیں۔ مولانا خورشید جمال کے عقائد و نظریات کو یہاں بیان کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اہالیانِ چھپرا اُن کے عقائد و نظرت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ عبد المالک صاحب مولانا خورشید جمال کے اِس قدر محبوبِ نظر رہے کہ علمی ناپختگی کے باوجود ستمبر ۱۹۷۴ء میں اُن کو مدرسہ وارث العلوم کا مدرّس منتخب کر لیا۔ جیسا کہ عطاء اللہ پالوی نے اپنی کتاب ’تاریخِ نیک فال‘ میں لکھا ہے۔ جس طرح عطاء اللہ پالوی نے مدرسہ وارث العلوم، نیا بازار چھپرا کی تاریخ لکھتے ہوئے ’تاریخِ نیک فال‘ میں اپنے غلط عقائد و نظریات کو شامل کیا ہے، اُسی طرح عبد المالک صاحب نے ایک ریسرچ اسکالر کے کندھے پر بندوق رکھ کر اعلیٰ حضرت کے مخالف نظریات کو فروغ دیا ہے۔ پیشِ نظر کتاب کی یہ عبارت دیکھی جائے:
’’شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک کو شاہ عبد العزیز نے آگے بڑھایا مگر نجد میں محمد بن عبد الوہاب اور شیخ عبد العزیز کی خانقاہ سے وابستہ سید احمد شہید تھے کہ نجدی و شہید کی تحریک کا مقصد قریب قریب ایک جیسا تھا۔ اُس نے غیر اسلامی عقائد کی اصلاح کے لیے پشاور کو اپنا مرکز بنایا۔جدت و بدعت کی آماز گاہ میں طرح طرح گل کھلائے گئے۔ حاکم پشاور نے تمام لوگوں کو قتل کروا دیا مگر فتنہ وہابیت کی تشکیلی بنیاد دہلی تھی جہاں بزرگانِ دہلی نے تزکیہ نفس کی تعلیم دی تھی۔ اُن کی خانقاہیں تھیں۔ اسلامی حقیقت کی شان تھی، نجدیت و وہابیت کا مطالعہ انگریزوں نے کیا اور دیکھا کہ گروہِ ہندی کا لائحۂ عمل حقیقت طلب کے بالکل منافی ہے۔ اُس کی اجازت دے دی اور کھُلے طور پر اُس کی مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ بر صغیر میں شاہ اسماعیل کی شہادت سے ظاہر اس تحریک کا خاتمہ ہو گیا۔ مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ روز افزوں ترقی ہوتی گئی۔ اصلاحِ معاشرہ کے نام پر کام کرتی رہتی۔ (صفحہ۔ ۱۲۰۔۱۱۹)
اوپر کے اقتباس کا کتاب کے موضوع سے کیا سرو کار ہے؟ اقتباس میں جو نظریہ تھوپا گیا ہے، وہ محققین کی نظر میں درست نہیں۔ اوپر کی راے محققین علماے اہلِ سنّت کی نظر میں قابلِ مذمت ہے۔ نگراں اور مقالہ نگار جیسے افراد کے لیے شیخ سعدی شیرازی نے بہت پہلے پیغام دیا تھا:
تا مردِ سخن ناگفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
ہر بیشہ گماں مَبر کہ خالی سَت شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
جب عہدہ اور مال و زر کا غرور انسان کے اندر ہو تو اُسے حضرت سعدی شیرازی کے پیغام کا اثر کیوں کر ہو سکتا ہے؟
’حدائق بخشش کو موضوعاتی اسلوب کا عجاز‘ کے مطالعہ کے بعد یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اِس مقالے میں اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور فکر کو منفی نظریے سے سپردِ قرطاس کیا گیا ہے۔ اُس کی ایک دلیل یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت کی فکر اور اصلاحی تحریک کو نیچا دکھانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے اور اعلیٰ حضرت کی فکر کو بریلی مکتب کے نام سے منسوب کیا گیا۔ حالاں کہ اعلیٰ حضرت کی تحریک اور اُن کا مسلک کوئی نیا مسلک نہیں بلکہ حقیقت میں مسلکِ اہل سنت و جماعت ہی ہے جیسا کہ تاج الشریعہ علامہ شاہ محمد اسماعیل رضا خاں المعروف بہ علامہ اختر رضا ازہری علیہ الرحمہ نے آج سے چالیس بیالیس سال قبل سعودی حکومت کے سامنے واضح کیا تھا۔ عجب اتّفاق ہے کہ اِس قدر غیر معیاری کتاب کو تاج الشریعہ کے نام معنون کیا گیا ہے جو حضرت جیسی آفاقی شخصیت کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے۔
کتاب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مقالہ نگار نے شعوری طور پر ’مکتب بریلی ‘ کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ محض صفحہ ۱۲۲؍پر یہ لفظ تین بار استعمال کیا گیا ہے حالاں کہ فکرِ رضا اب ’دبستان‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کی مثال ملاحظہ کریں:
(الف) بریلی مکتبِ فکر نے اردو زبان و ادب کی ترقی اور فروغ کے لیے دل جمعی کے ساتھ موثر قدم بڑھایا۔
(ب) بریلی مکتب کے فقہ و عقائد نے اصلاح پسند نظریے سے عوام کو متنبہ کیا۔
(ج) بریلی مکتب نے قرآنی ہدایت کے مطابق ادب و تعظیم کو بلند کیا۔
یہاں فقہ و عقائد کو بریلی مکتب سے خاص کرنے کی جو مذموم کوشش کی گئی ہے، وہ بہر حال قابل مذمت ہے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنا عقیدہ یا فقہ کو فروغ نہیں دیا بلکہ اہلِ سنّت و جماعت کے عقائد و معلومات کی تجدید فرمائی۔ کتاب میں کثرت سے اعلیٰ حضرت کو ’فاضلِ بریلوی‘ سے مخاطب کیا گیاہے جو عشاقِ اعلیٰ حضرت پر گراں گزرتا تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ اصول پسند عوام کو بھی بُرا لگتا ہے۔ جب لفظ ’علامہ‘ اقبال اور شبلی نعمانی کے نام کا حز بن سکتا ہے تو ’اعلیٰ حضرت‘ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کا سابقہ کیوں نہیں؟ ایک طرح کی علمی خیانت یہ بھی نظر آرہی ہے کہ صدر الافاضل اور صاحب تفسیر خزائن العرفان کے لیے لفظ ’مولوی‘ کا سابقہ استعمال کرنا کیا بتار ہا ہے؟ حالاں کہ مقالہ نگار نے ابن تیمیہ کے لیے ’علامہ‘ کا سابقہ استعمال کیا ہے۔ تفصیل کے لیے صفحہ ۱۲۴،۱۲۵اور۲۲۵؍ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب میں ایک دو مقام پر تفسیر صاوی کا حوالہ نظر سے گزرتا ہے۔ لہٰذا مقالہ نگار کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ صاوی نے ابن تیمیہ کو ضال اور مضل قرار دیا ہے یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔
زیر مطالعہ کتاب ’حدائق بخشش کے موضوعاتی اسلوب کا اعجاز‘ سات ابواب پر مشتمل ہے۔ بابِ اوّل ’حدائق بخشش میں موضوعاتی تنوع اور اسلوب کا بانکپن‘ ، باب دوم ’حدائق بخشش کی شعری ماہیئت‘، باب سوم ’حدائق بخشش کے تہذیبی و فکری ارتقاد‘ ،باب چہارم ’حدائق بخشش کی دینی واسلامی تنضیحات‘ ، باب پنجم ’قصیدہ معراجیہ کی تاریخی معنویت کا انکشاف‘ ، باب ششم ’رضا شناسی اور فکری رویے‘ اور باب نہم ’محاکمہ اور کتابیات‘ پر مشتمل ہے۔ابواب کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ کم یہاں بھی اصولِ تحریر کا خاص خیال نہیں کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مقالہ نگار نے عنوان کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کیا ہے۔ کتاب میں مکررات کی کثرت ہے جو قاری کے لیے باعثِ تکدرہے۔
کتاب کے آغاز سے قبل مقالہ کے نگراں کی تحریر کے علاوہ مصنّف ڈاکٹر محمد رجب عالم غوثی کی تحریر ’دیباچہ طبع اوّل‘ کے عنوان سے ہے۔ جب یہ پہلا ایڈیشن ہے تو طبعِ اوّل کا لاحقہ بے معنی ہے۔ اپنی تحریر میں مصنف نے روایت سے بغاوت ہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے اخلاقی فریضہ کو بھی انجام نہیں دیا۔ عام اصول ہے کہ مصنف کتاب کی اشاعت کی غرض و غایت کو بیان کرتا یا کتاب کی اشاعت کا جواز پیش کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں کا تعاون شامل ہوتا ہے، ان کا شکریہ اداکرتا ہے ۔ یہاں نہ تو نگراں یا مقدمہ نگار کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اور نہ ہی احباب کا۔ مصنف کا تعلق چوں کہ مذہب سے ہے، اس لیے اس پر لازم تھا کہ اپنے قول کے مطابق عمل کرتا لیکن افسوس صد افسوس! اوپرکے سطور میں مقالہ کے نگراں موصوف کی علمی خیانت کا مشاہدہ کر لیا ہو گا۔ اب ذرا شاگرد اور مقالہ نگار کی ضلالت بھی دیکھ لیں:
’’حدائق بخشش‘ نعتیہ شاعری کی پہلی کتاب ہے۔‘‘ (صفحہ۱۶) ’’فاضلِ بریلوی نے در تہنیت شادی اسرا یعنی قصیدہ معراجیہ کے نام سے نظم لکھی ہے‘‘ (صفحہ ۱۸)۔ جس شخص کو قصیدہ اور نظم میں فرق معلوم نہ ہو وہ اعلیٰ حضرت جیسے قادر الکلام شاعر کی نعتیہ شاعری کا خاص طور پر قصیدۂ معراجیہ کا تجزیہ خاک کر سکتا ہے۔
’الفاظ مبارکہ‘ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر ارشد مسعود ہاشمی، سابق صدر شعبۂ اردو جے پرکاش یونی ور سٹی، چھپرا کی مختصر تحریر ہے۔ اس تحریر میں اعلیٰ حضرت کو ’مجددِ عصر‘ سے یاد کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت چودہویں صدی ہجری کے مجدد ہیں جب کہ پندرہویں صدی کا تقریباً نصف صدی یعنی ۴۷؍سال گزر چکا ہے ۔ پروفیسر ہاشمی نے مختصر الفاظ میں ہی جامع و مانع انداز میں اپنی راے پیش کی ہے۔ ان کی تحریر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انھوں نے اعلیٰ حضرت کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اہا لیانِ علم کومعلوم ہے کہ ان کے والد پروفیسر قمراعظم ہاشمی کی تبلیغی جماعت سے سرگرم وابستگی رہی جس کا اظہار انھوں نے اپنی خودنوشت ’سر سری اِس جہان سے گزرے‘ میں کیا ہے۔ ان کے صاحب زادے کا اعلیٰ حضرت کے سلسلے میں مثبت راے رکھنے کے لیے راقم الحروف صمیمِ قلب سے پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔ کتاب میں دو شخصیات کی تقریظ بھی شامل ہے۔ اوّل تقریظ پروفیسر ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد پٹنہ کی ہے جب کہ دوسری مولانا قمر الزماں مصباحی ، مظفر پور کی تحریر کردہ ہے۔ شاہ حسین احمد کی تحریر پڑھنے کے بعد حد درجہ افسوس ہوا۔ اپنی تحریر کے آغاز میں ہی انھوں نے عشاقِ اعلیٰ حضرت پر جو طنز ہی نہیں بلکہ الزام عائد کیا، وہ قا بل مذمت ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’یہ صدی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس صدی میں کئی اہم عالمِ دین پیدا ہوئے جن کے تبحرِ علمی اور دینی بصیرت سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حضرات کے نظر یۂ فکر کو بعد میں ان کے ماننے والوں نے مسلک کا نام دیا ہے۔ ان عالم دین میں ایک اہم نام مولانا احمد رضا خاں بریلوی (م۔۱۹۲۱ء)کا بھی ہے جو اعلیٰ حضرت سے معروف ہیں‘‘۔ (صفحہ۔۲۷)
اس تحقیقی مقالہ کے اکسپرٹ شاہ حسین احمد ہی رہے ۔ انھوں نے ریورٹ یو نی ور سٹی کو بھیجی ۔ پھر زبانی امتحان (Viva) کے لیے تشریف بھی لائے لیکن موصوف کا تجاہلِ عارفانہ ملاحظہ کریں:
’’مقالہ نگار ڈاکٹر محمد رجب عالم عوثی نے تحقیقی مقالہ کا مسودہ بھیجا ہے اور تقریظ لکھنے کو کہا ہے۔ سندی مقالہ میرے سامنے ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے دو ماہ قبل بھیجا تھا۔ میں اس قدر کاموں میں مصروف رہا کہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ ان کے بار بار اصرار پر میں پڑھنے پر آمادہ ہوا۔ جب میں نے مطالعہ کیا تو ’حدائقِ بخشش‘ کے اسلوب نے مکمل طور پر مجھے متوجہ کر دیا ‘‘۔ (صفحہ۲۸)
مذکورہ بالا اقتباس میں شاہ حسین احمد کا غیر ذمہ دارانہ رویہ واضح ہو رہا ہے۔ موصوف نے باقی تحریروں میں مبالغہ آرائی کی حد کر دی ہے۔ یہ اقتباس دیکھا جائے:
’’ جے پرکاش یو نی ور سٹی چھپرہ بہار میں ایک درجن سے زیادہ تحقیقی مقالات حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی اور ان کے خانوادے کی علمی اور ادبی خدمات پر لکھے گئے ہیں۔ ان میں بیش تر ڈاکٹر عبد المالک سابق صدر شعبۂ اردو، جے پرکاش یونی ورسٹی کی نگرانی میں لکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبد المالک ’ ماہرِ فراقیات‘ کے ساتھ ساتھ ’ماہر رضویات‘ بھی ہیں۔ انھیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور ان کے خانوادہ سے عقیدت بھی ہے اور ان حضرات کے علمی اور ادبی کارناموں پر گہری نظر بھی ہے۔ اور تحقیقی مقالہ کے نگراں کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس موضوع پر اس کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ لکھا جا رہا ہے ۔ اس موضوع پر اس کی گہری نظر ہو۔ اب یہ تحقیقی مقالہ پکی روشنائی میں آپ کے سامنے حاضر ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں۔ ڈاکٹر محمد رجب عالم عوثی نے اپنے موضوع سے کتنا انصاف کیا ہے۔ ان کی اس کتاب میں قاضی عبدالودود کا طریقۂ تحقیق، کلیم الدین احمد جیسی ناقدانہ تحریر کا عکس اور ابوالکلام آزاد کا اسلوب تلاش نہ کرنا فضول ہے‘‘۔(صفحہ ۳۳)
جو پروفیسر اپنی تحریر کا عنوان ’دیباچۂ تمہید‘ لکھے اور ایک پیرگراف درست اردو نہ لکھ سکے، اُسے ’ماہرِ فراقیات‘ اور ’ماہرِ رضویات‘ قرار دینا اردو تحقیق کا ظالمانہ قتل کے مترادف ہے۔ اس طرح کی ناقص کتاب کا موازنہ قاضی عبدالودود کی تحقیق، کلیم الدین احمد کی تنقید اور مولانا آزاد کے اسلوب سے کرنا بے شرمی کی حد ہے۔ مذکورہ بالا اقتباس پڑھنے کے بعد لاشعوری طور پر غالب کا شعر یاد آجاتا ہے:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
شاہ حسین احمد نے اعلیٰ حضرت اور خانقاہ شاہ ارزانی کے بزرگوں کے روابط پر روشنی ڈالی ہے۔ اعلیٰ حضرت کے دور میں شاہ ارزانی کے سجادہ نشین شیخ الاسلام حضرت سید شاہ غلام نجف قادری تھے۔ ان کے عہد میں اعلیٰ حضرت دوبار تشریف لائے۔اُسی خانقاہ کی سجادگی کا دعو یٰ موصوف کرتے ہیں۔ حالاں کہ اعلیٰ حضرت کو چھوڑ سیدشاہ غلام نجف قادری علیہ الرحمہ کی فکر سے دور ہیں۔ بزرگوں اور اسلاف کی یادگار شاہ ارزانی جامع مسجد پٹنہ میں نماز نہیں پڑھتے ہیں بلکہ الگ جماعت قائم کر اتحاد کو تار تار کر رہے ہیں۔ شاہ حسین احمد سید شاہ غلام نجف کی کتاب ’نور علی نور‘ کو پڑھا ہوتا تو اپنے دربار میں خارجی ورافضی کو بلا کر خانقاہ شاہ ارزانی کے بزرگوں کی روح کو تکلیف پہنچا رہے ہیں جو تحریر کا ایک مکمل موضوع ہے۔ مولانا قمر الزماں مصباحی ، ڈائرکٹر، ادارۂ لوح، سعدپورہ مظفرپور کی تقریظ قابلِ مطالعہ ہے۔ مفتی عبدالرحیم نشتر فاروقی بریلی شریف کا تفصیلی مقدمہ کتاب میں شامل ہے۔ یہ بھی عجیب مضحکہ خیز بات ہے دانش وران کی تحریروں کے بعد میں مقدمہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ پتا نہیں مولانا قمر الزماں مصباحی اور مفتی نشتر فاروقی کی نظر کتاب میں شامل متنازعہ اور مسلک اعلیٰ حضرت مخالف تحریر پر نہیں پڑی اور اس کو اجاگر نہیں کیا؟
یہ ہماری نظر کا قصور ہے یا مقالہ نگار کی علمی کرامت کہ تین سو سولہ صفحات پر مشتمل کتاب کا ایک بھی ایسا صفحہ نہیں ملا جو ظاہری عیوب سے منزہ ہو۔ بعض مقامات پر تذکیر و تانیث کی غلطی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کتاب کے متعدد صفحات کے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ کریں:
’’آپ کا مجموعہ کلام ’حدائقِ بخشش‘ حصہّ اوّل و دوم دونوں کے نام ہیں جس میں اکابرینِ شیوخِ طریقت کی منقبت درج ہیں۔‘‘ (صفحہ۔۷۵)
’’امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری فی الحقیقت دینی و اسلامی تنقیحات کی حسین تفسیر ہے۔ ایک آئینۂ حیات کی تحقیقی نوعیّت ہے۔’حدائقِ بخشش‘ شاعری کی اوّلین کتاب ہے۔ نعتیہ شاعری اسلام کی تمہید نگارش ہے۔‘‘ (صفحہ۔۱۵۱)
’’فاضلِ بریلوی کا بچپن و شباب گوشۂ تنہائی میں شروع ہوئی۔ اسلام کے علم و ادب کی ترویج و ترقی میں ہوئی۔ محض آٹھ سال کی عمر سے فتاویٰ و نویسی کا کام صفحۂ قرطاس پر رو نما ہوا اور باضابطہ طور پر ۱۴؍ سال کی عمر میں فتاویٰ نویسی کا کام شروع کیا۔ بریلی مکتبِ فکر میں مسلسل پچاس سال تک جاری و ساری رہا۔‘‘(صفحہ۔۱۵۷)
’’امام احمد رضا کی شاعری میں نوری فیض کا ذکر ملتا ہے کہ میری غزل نے آگے کا قدم بڑھایا تو قصیدہ نور کا ہو گیا۔ غزل سے مراد محبوب سے ہم کلام ہونا ہے۔ نعتیہ شاعری کی غزل کی محویت میں ایسی کیفیت ہوئی کہ غزل قصیدۂ نور بن گیا۔‘‘ (صفحہ۔ ۱۶۵)
’’اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی نے ’درِ تہنیت شادی اسرا‘ کے عنوان سے نظم لکھی ہے۔ میں نے قصیددۂ معراجیہ کی تاریخی معنویت کا انکشاف کا عنوان قائم کیا ہے۔‘‘ (صفحہ۔ ۲۰۷)
’’قصیدۂ معراجیہ امام قاحمد رضا کی تصنیف ہے۔‘‘ (صفحہ۔ ۲۱۲)
’’امام قاحمد رضا فاضلِ بریلوی کا قصیدۂ معراجیہ بس کشورِ رسالت کی حمد اور ثنائے جمیل ہے۔ اردو ادب کو ایک نئی روِش ملی۔‘‘ (صفحہ۔۲۱۴)
’’ہر مسلک و عقیدے کے لوگ اُن کی کتاب فتاویٰ رضویہ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (صفحہ ۲۷۶)
’’حدائق بخشش‘ کے سیاق و سباق کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُنھوں نے اسلام کے ارکان کو بیان کیا ہے۔ شرک و بدعت سے آگاہ کیا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو بیدار کیا ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۸۹)
’’ میرے تحقیقی مقالے کا ضمناً عنوان ’رضا شناسی اور فکری رویّے‘ کا انتخاب ہے۔‘‘ (صفحہ۔ ۲۷۷)
’’حدائقِ بخشش‘‘ نعتیہ شاعری کا دیوان ہے۔ شعر و ادب میں چہار لسانی ۔۔۔ کا لاثانی مجموعہ ہے۔ میں نے تحقیقی مقالے کے لیے حدائقِ بخشش کے موضوعاتی اسلوب کا اعجاز منتخب کیا ہے۔‘‘ (صفحہ۔ ۳۰۱)
اس قدر کثیر اقتباسات درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین خود بہ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ مقالہ نگار کی علمی صلاحیت کس قدر پختہ ہے؟ کیوںکہ کاتب کا دامن بہت وسیع ہوتا ہے اور بڑے بڑوں کی صریح غلطیاں کاتب کے دامن میں چھپ جاتی ہیں یا چھپا دی جاتی ہیں۔ چھپرا کی تاریخ شاہد عدل ہے کہ ٓاج سے ۴۵؍ سال قبل۱۴۰۲ھ بہ مطابق ۱۹۸۲ء میں عطاء اللہ پالوی نے متنازعہ کتاب ’تاریخِ نیک فال‘ لکھی تو حضرت مولانا سید الزماں حمدوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا تنقیدی جائزہ پیش کر عطاء اللہ پالوی کی گمراہیت کو اجاگر کیا تھا۔ جب مولانا خورشید جمال کو حضرت کی ہدایت ملی تو مولانا خورشید جمال نے اس کی کتاب پر پابندی لگا دی۔ اب دیکھنا ہے کہ مولانا محمد رجب القادری کیا کرتے ہیں۔ میری اُن سے گزارش ہے کہ جب تک کسی اہل سنت کے معتبر عالم دین سے اس کی تصحیح نہ کرا لیں اس وقت تک کتاب کو منظر عام پر نہ لائیں اور عوام اہل سنت سے بھی گزارش ہے کہ اس کتاب سے دور رہیں کیوں کہ بہ قولِ اقبال:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
***
صاحب نگارش کی گذشتہ نگارش:رضا بریلوی کا قصیدۂ معراجیہ: ایک جائزہ

مبارک کہہ نہیں سکتا مرا دل کانپ جاتا ہے
شیئر کیجیے