ظفرؔ کمالی
سیوان، بہار، ہند
اصل نام سراج الحق، قلمی نام سراج نادر، سابق قلمی نام نادرؔ رضوی ابن محمد سلیمان۔ سراج الحق کا آبائی وطن موضع انول (Anwal) ہے جو چھپرہ شہر سے تقریباً چودہ پندرہ کیلو میٹر شمال مغرب کے فاصلے پر واقع ہے۔ سراج نادرؔ کی اسکولی سند کے مطابق ان کی پیدایش 19/ جون 1970ء کو ہوئی لیکن بقول سراج وہ تقریباً دوبرس قبل پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ان کا سالِ ولادت 1968ء قرار دیا جاسکتا ہے۔ صحیح تاریخِ پیدایش کسی کو یاد نہیں۔ ان کی والدہ کے مطابق وہ پھاگن کے مہینے میں پیدا ہوئے تھے۔ جاے ولادت ددھیال انول ہے۔ نادرؔ پیدایشی طورپر بے حد کمزور تھے۔ غربت کی وجہ سے ان کی والدہ کو بھر پیٹ غذا میسر نہیں ہوتی تھی۔ نادرؔ ابھی چند ماہ کے تھے کہ ان کے بڑے ماموں کی دوسری شادی ان کے والد کی چچازاد بہن سے ہوئی جن کا نام نبیجہ تھا۔ نبیجہ کی بھی یہ دوسری شادی تھی۔ مزاج میں ہم آہنگی نہیں ہونے کی وجہ سے انھوں نے اپنی اہلیہ کو ان کے میکے بھیج دیا۔ اپنی چچازاد بہن کے اس طرح میکے آنے پر نادر کے والد طیش میں آگئے اور ردِّعمل کے طور پر، ٹھنڈے دل سے کچھ سوچے سمجھے بغیر اپنی بے قصور بیوی کو بھی نول پور پہنچا دیا اور اپنے سالے سے کہا کہ اگر تم میری بہن کو نہیں رکھو گے تو میں بھی تمھاری بہن کو نہیں رکھوں گا۔ اس پر ستم یہ کیا کہ نومولود نادر اور ان کے بڑے بھائی کو ان کی ماں سے چھین لیا۔ ممتا کی ہوک اور ماں کا دودھ نہیں ملنے کی وجہ سے نادرؔ کی حالت غیر ہونے لگی۔ کبھی کبھی ان کی بڑی امّاں انھیں دودھ پلادیا کرتی تھیں۔ ان کا دودھ خشک ہوجانے کی وجہ سے نادرؔ کی دادی نے انھیں اپنے پڑوس کی ایک ہندو عورت کا دودھ پلوایا۔ اس کا نام رام رتی تھا اور وہ ذات کی حجامن تھی۔ اس کی شادی اَ سَہنی گانو نزد رسول پور چٹّی میں ہوئی تھی اور وہ اس وقت اپنے میکے میں تھی۔ ان حالات کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے ان کے والد پر دباو ڈالا کہ وہ اپنی زوجہ کو اپنے گھر واپس لائیں۔ اس سماجی دباو کے آگے جھکتے ہوئے انھوں نے ایسا ہی کیا۔ نادر کی والدہ کی آمد پر ان کی نند مدینہ بی بی نے انھیں طعنہ دیا کہ آپ نے میرے بھائی کے ہونٹ کی لالی کا خیال نہیں رکھا اور ان کی بے عزتی کرائی۔
نادر کی تعلیمی زندگی کا آغاز اپنی بستی کے مڈل اسکول سے ہوا۔ یہاں اردو کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ نومبر 1976ء میں ان کے والد نے کم سنی کے باوجود انھیں اپنے پاس بلالیا۔ یہ اپنی بستی کے ایک ہریجن کے ساتھ رسٹرا ضلع ہگلی گئے۔ اس وقت گھر کی مالی حالت ایسی تھی کہ رسٹرا جاتے وقت نادرؔ کو پہننے کے لیے چپل بھی دستیاب نہیں تھی لہٰذا انھیں اپنی چچازاد بہن کی چپل پہنائی گئی۔ یہ اتنے بھولے تھے کہ انھیں اس کا پتا ہی نہیں تھا کہ وہ لڑکی کی چپّل پہنے ہوئے ہیں۔ رسٹرا میں ان کی قیام گاہ کے قریب ہی ایک اقلیتی اسکول تھا جس کا نام انجمن پرائمری اسکول تھا۔ یہاں اردو میڈیم کے ذریعے پڑھائی ہوتی تھی۔ نادرؔ کا داخلہ اسی اسکول میں کرایا گیا۔ ان کے چچا کو نہ معلوم ان سے کیسی پر خاش تھی کہ وہ بات بات پر انھیں پیٹتے اور گالیاں دیتے۔ بیٹے کے ساتھ بھائی کا یہ ظالمانہ رویّہ دیکھ کر نادر کے والد نے انھیں رسٹرا سے بڑہریا (سیوان) کے مدرسے شمسیہ تیغیہ انوارالعلوم میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ یہ نومبر 1979ء کا زمانہ تھا۔ مدرسے کا وحشت زدہ ماحول انھیں راس نہیں آیا اور وہ چند دنوں کے بعد ہی اپنے گھر بھاگ گئے۔ یہ بات ان کے والد کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے بیٹے پر سختی کی اور دوبارہ اسی مدرسے میں بھیج دیا۔ یہاں تعلیم کے دوران ہی کئی مرتبہ گٹھیا کے مرض نے انھیں پریشان کیا جس کی وجہ سے ان کی تعلیم میں دقتیں پیش آئیں۔ مدرسے کے طلبہ کی کبھی کبھی قرب و جوار کی بستیوں میں دعوت ہوتی تھی۔ ان دعوتوں میں نادر کو بھی جانا پڑتا تھا۔ یہ بات ان کی سمجھ سے پرے تھی کہ یہ کیسی دعوت ہے۔ ایک لڑکے سے دریافت کرنے پر جب انھیں اس کی جانکاری ہوئی کہ دعوت کسی مرنے والے کے نام پر ہوتی ہے تو انھیں ایسی دعوتوں سے کراہت محسوس ہونے لگی۔
تقریباً ساڑھے سات برس بڑہریا مدرسہ میں پڑھنے کے بعد جون 1987ء میں سراج نادر اعلا تعلیم کے لیے مشہور دینی درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ گئے۔ وہاں بھی وہ وقفے وقفے سے گٹھیا کا شکار ہوئے جس سے ان کا تعلیمی نقصان ہوتا رہا۔ 1993ء میں ان کی فاضل کی دستار بندی ہوئی۔ 1994ء میں انھوں نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے فاضلِ اردو کی سند حاصل کی۔ 1998ء میں جامعہ اردو علی گڑھ سے معلِّم اردو کی ڈگری لی۔ 2000ء میں بہار یونی ورسٹی مظفر پور سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد موضع بڑسرا (بڑہریا) کے ڈاکٹر ریاض احمد کی تحریک پر انھوں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں بی۔ ایڈ کے لیے دومرتبہ ٹسٹ دیا۔ دوسرے ٹسٹ میں یہ کامیاب ہوگئے اور بی۔ ایڈ میں ان کا داخلہ ہوگیا۔ اس دوران وہ اپنا خرچ ٹیوشن پڑھا کر پورا کرتے تھے۔ 2004ء میں انھوں نے ایم۔ فل میں داخلہ لیا اور وقت پر سبھی پرچوں کا امتحان بھی دیا لیکن اپنا مقالہ جو ڈاکٹر کوثر مظہری کی نگرانی میں ”کاشف الحقائق“ از امداد امام اثر پر لکھنا تھا، مکمل نہیں کرپائے اور انھیں ایم۔ فل کی ڈگری نہیں مل سکی۔ دراصل مالی تنگی کی وجہ سے انھوں نے ہمدرد پبلک اسکول میں نوکری کرلی تھی اور وہاں ذمّے داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ چاہتے ہوئے بھی انھیں اپنا مقالہ مکمل کرنے کا وقت ہی نہیں مل سکا۔
سراج نادرؔ کا گانو بالکل کوردِہ تھا اور ہے۔ وہاں کے لوگوں کو مدرسے کی تعلیم کے بارے میں کچھ جانکاری ہی نہیں تھی۔ کچھ غیر مسلم یہ سمجھتے تھے کہ یہ پڑھنے کے بعد بھیک مانگیں گے اور ان کی شادی نہیں ہوگی۔ نادرؔ کی طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کی شادی کی بات ان کی خالہ زاد بہن سے طے ہورہی تھی۔ ان کے خالو اس وقت اچھا کماتے تھے۔ وہ ان کے گھر آئے۔ انھوں نے نادرؔ کو مولویانہ رنگ ڈھنگ میں نماز پڑھتے دیکھا تو ناک بھوں چڑھانے لگے اور کہا کہ مولوی بھلا کیا کمائے گا۔ نادرؔ کو یہ بات معلوم ہوئی تو بے حد ناراض ہوئے اور اپنے خالو سے نفرت کرنے لگے۔
نادرؔ کی شادی پندرہ اکتوبر 1995ء میں بَرِیجا کا ٹولہ نزد جَیت پور میں جناب عبدا لغفار کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی۔ سگائی کے روز جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ لڑکی کا نام سہیمہ ہے تو انھوں نے برجستہ کہا کہ یہ نام تو اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ نام شمیمہ کردیا جائے۔ چنانچہ نکاح شمیمہ خاتون کے نام سے ہوا۔ نادرؔ کے چار بچے ہیں (۱) غزالہ رباب عرف جوہی (۲)فرحان احمد (۳) ہما فاطمہ عرف روحی (۴) نفیس احمد عرف ریحان۔
نادرؔ کی ملازمت کا آغاز بہار مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ ”دارالعلوم قادریہ“ محبوب چھپرا بڑہریا سیوان سے ہوا جہاں 1994ء میں انھوں نے استاد کی حیثیت سے جوائن کیا۔ یہاں وہ جون 2002ء تک پابندی سے پڑھاتے رہے۔ اپریل 2005ء میں ہمدرد پبلک اسکول سنگم وہار نئی دہلی میں سکنڈری کلاس کے لیے ان کی تقرری ہوئی۔ یہ اس ادارے سے صرف نو مہینے یعنی دسمبر 2005ء تک وابستہ رہے۔ دسمبر 2006ء سے جنوری 2012ء تک ایم۔ ڈی ہائی اسکول کنھولی (بنیا پور چھپرا) میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ فروری 2012ء میں اردو مڈل اسکول سسواں بزرگ نزد داؤد پور (چھپرہ) کے سرکاری اسکول میں ان کی تقرری ہوگئی۔ یہ سلسلہ فروری 2020ء تک چلا۔ مارچ 2020ء میں بہار پبلک سروس کمیشن کے تحت کے۔ ڈی۔ایس کالج گوگری ضلع کھگڑیا (مونگیر یونی ورسٹی مونگیر) میں اسسٹنٹ اردو پروفیسر کے عہدے پر مامور ہوئے اور تاحیات یہیں اپنی خدمت انجام دیتے رہے۔
بچپن سے ہی سراج نادرؔ کے تئیں ان کے والد کا رویّہ نہایت جارحانہ رہا۔ وہ ہمیشہ پدرانہ شفقت کے لیے ترستے رہے۔ ان کے والد نے نادر کو مدرسے میں تعلیم تو ضرور دلوائی لیکن اس تعلیم کی ان کے دل میں کوئی قدر نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ انھیں پیسے سے تولتے تھے۔ جب انھیں یہ احساس ہوا کہ بیٹے کو مدرسے کی تعلیم دلوانا ان کی غلطی تھی، یہ مولوی بن کر کسی لائق نہیں رہا اور یہ پیسہ بھی نہیں کماپائے گا تو وہ ان کے ساتھ مستقل سختی کا برتاو کرنے لگے۔ وہ آئے دن انھیں مغلظات سے نوازتے اور ہمیشہ پیسوں کا تقاضا کیا کرتے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ نادر اپنے بھتیجوں کو بھی خاطر خواہ پیسے دیتے رہیں۔ ظاہر ہے کہ نادرؔ اتنے پیسے کہاں سے لاتے۔ والد کے رویّے سے وہ کافی دل برداشتہ ہوئے اور ان کے تعلق سے ان کے دل میں نفرت کے شدید جذبات پیدا ہوگئے اور بدقسمتی سے یہ نفرت کبھی ختم نہیں ہوسکی۔ 1996ء میں ایک مرتبہ ان کے والد نہایت خفگی کے عالم میں کہنے لگے کہ میں تمھاری ساری کتابیں جلادوں گا۔ یہ سن کر نادر لرزگئے۔ وہ ان کی شاعری کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مارچ 2017ء میں نادرؔ کے والد کا انتقال اپنے آبائی وطن میں ہوا اور وہیں کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ نادر جب بھی ان کا تذکرہ کرتے تو اپنی تمام تر شرافت کے باوجود ان کا لہجہ خاصا تلخ ہو جاتا تھا اور وہ بار بار یہ بات کہتے کہ کہیں باپ ایسا بھی ہوتا ہے۔ اپنے والد سے ایسے کشیدہ تعلقات نادرؔ کی زندگی کا بڑا المیہ تھا۔ والد کے برخلاف نادرؔ کی والدہ نہایت شریف اور سیدھی سادی خاتون ہیں۔ انھیں دنیاداری کے تقاضوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بہت سکون اور خموشی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔ وہ نادرؔ کے ساتھ سیوان میں ہی رہتی تھیں۔
سراج نادر بچپن سے ہی بڑے شریف النفس تھے۔ سادا مزاجی شروع سے ہی ان کی شخصیت کا حصہ رہی۔ ابتدائی زندگی میں انھوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور ذہنی کرب سے دوچار رہے۔ مفلسی کے عذاب نے ایک مدّت تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ جب تک سرکاری اسکول میں ان کی نوکری نہیں ہو گئی اس سے انھیں نجات نہیں مل سکی۔ ان کا ایک المیہ یہ رہا کہ کبھی کسی نے ان کے دل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ شعر و ادب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر جو ذوقِ لطیف تھا اسے ان کے گھر کے افراد اور دوسرے لوگوں نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ سبھی انھیں نرا مولوی ہی سمجھتے رہے۔ اس المیے کا احساس انھیں شدّت کے ساتھ رہا لیکن نا اہلوں کے درمیان وہ کچھ کہتے بھی تو کس سے کہتے اور کیا کہتے۔ وہ اس سودے کے مانند رہے جس کا خریدار کوئی نہیں تھا۔ ان کی شاعری میں اس کرب کی پرچھائیاں واضح طور پر نظرآتی ہیں۔ بطورِ مثال ان کے تین اشعار دیکھیے ؎
میں تنہائی میں اکثر سوچتا ہوں
کہ کس مظلوم کی میں بددعا ہوں
یہاں کوئی نہیں لگتا ہے اپنا
میں کیسے گھر میں پیدا ہوگیا ہوں
جہاں میری کوئی عزّت نہیں ہے
وہی مجھ کو گھرانا دے دیا ہے
بچپن سے انھیں کھیل کود سے کبھی دل چسپی نہیں رہی۔ ان کی طبیعت میں غصّے کا مادّہ بہت کم تھا۔ وہ اتنے سیدھے تھے کہ انھیں کوئی بھی آسانی سے بے وقوف بناسکتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان ہوجاتے تھے۔ والد کے وصال کے بعد گھر کے بٹوارے کو لے کر اپنے چھوٹے بھائی کی طرف سے انھیں بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مجبوراً وہ گھر چھوڑ کر بیوی بچوں کے ہمراہ سیوان چلے آئے اور ایک کراے کے مکان میں رہنے لگے۔ وہ چھٹیوں میں سیوان اور بقیہ دنوں میں نوکری کی وجہ سے گوگری میں رہتے تھے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا وہ اپنے چھوٹے بھائی کے رویّے سے کافی دل برداشتہ تھے۔ ان کی باتوں اور چہرے کے تأثّرات سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کا قلبی سکون غارت ہوچکا ہے۔ وہ بار بار اس صدمے کا تذکرہ بڑی بے بسی کے ساتھ کرتے تھے۔ میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی اور طرح طرح سے ان کی ڈھارس بندھائی لیکن اس کا کوئی اثر ان پر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ پھیکی سی ہنسی ہنس کر خاموش ہوجاتے تھے۔ اس صدمے کا ان کی صحت پر بہت خراب اثر پڑا۔ اسی وقت انھیں یرقان کا عارضہ لاحق ہوا جس کا انھوں نے سنجیدگی سے علاج نہیں کرایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا جگر تقریباً مکمل طورپر خراب ہوگیا۔ وہ یکے بعد دیگرے سیوان، پٹنہ اور دہلی کے ڈاکٹروں کے زیرِ علاج رہے۔ ہر جگہ کے علاج سے انھیں عارضی افاقہ ہوا لیکن مکمل آرام نہیں کرنے کی وجہ سے ان کا مرض ٹھیک نہیں ہوسکا۔ آخری علاج کے لیے وہ پی۔ جی۔ آئی لکھنؤ گئے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ ڈاکٹروں نے ان کے معائنے کے بعد ان کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کیا اور انھیں گھر لے جانے کی صلاح دی۔ وہاں سے واپسی کے دوران ہی دو اپریل 2024 کو راستے میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ میت سیوان لائی گئی اور دوسرے دن تین اپریل 2024 کو بروز بدھ ان کے آبائی وطن انول کے قبرستان میں انھیں سپردِ خاک کردیا گیا۔
نادرؔ دوست احباب سے محبت سے پیش آتے، لوگوں کے تئیں اپنے دل میں احترام کا جذبہ رکھتے اور کبھی کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ سچ کی پاس داری انھیں ہمیشہ عزیز رہی۔ معاملات کے صاف ستھرے تھے۔ وہ ایسے نیک طینت انسان تھے کہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا بھی چاہتے تو نہیں پہنچا سکتے تھے۔ لطیفے ذرا دیر سے سمجھتے اور جب سمجھ میں آجائے تو بڑی معصوم ہنسی ہنستے تھے۔ مزاج میں رنگینی بھی تھی جس کا اظہار ہم عمروں کے درمیان اکثر ہوتا رہتا تھا۔ آدمی نہایت کاہل تھے۔ آج کا کام ہمیشہ کل بلکہ پرسوں پر ٹالتے رہتے تھے۔ منظم انداز میں کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ قسمت میں روزی لکھی تھی تو ایک چھوٹے سے مدرسے سے نکل کر کالج کی نوکری تک جا پہنچے ورنہ اپنی بے پروائی اور غیر سنجیدگی کا خراج وہ زندگی بھر ادا کرتے رہتے۔ مدرسے کا طالبِ علم ہونے کی وجہ سے ان کا لباس کرتا پائجامہ تھا لیکن ہمدر پبلک اسکول کی نوکری کے دوران سید حامد کے ذریعے توجہ دلائے جانے کے بعد انھوں نے پینٹ شرٹ پہننا شروع کردیا۔
سراج نادرؔ 1995ء کے آخر میں میرے رابطے میں آئے۔ وہ ارشاد احمد کے ہمراہ گاہے بگاہے میرے گھر آتے رہتے تھے۔ یہ رابطہ ہمیشہ برقرار ہا، یہ اور بات ہے کہ ان کے آخری دنوں میں پہلے والا والہانہ پن باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دراصل ان کی اپنی مصروفیات بھی بڑھ گئی تھیں۔ اپنی اہلیہ کی بیماری کو لے کر بھی وہ بہت پریشان رہے۔ پچیس چھبیس برس کے روابط میں ہمیں ان کے خلوص میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ اسکول اور کالج کی ملازمت کے بعد وہ مجھ سے کئی کئی مہینوں کے بعد ملتے لیکن ملاقات ہونے پر وہی یگانگت اور وہی بے فکری کا پرانا انداز دیکھنے کو ملتا تھا۔ ان کی ہنسی میں بچوں جیسی معصومیت تھی۔ ان کی ذات میں چھل کپٹ کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ آج کے عیّارانہ ماحول میں نادرؔ جیسے شخص کو دیکھ کر انسانیت پر اعتماد برقرار رہتا تھا۔ اپنی سادا مزاجی کے سبب وہ ہمیشہ میرے دل کے قریب رہے۔
نادرؔ کی شعر گوئی کی ابتد 1986ء سے ہوئی۔ اس سے پہلے اردو کے رسائل و جرائد پڑھنے کے سبب ان کے دل میں شاعری سے رغبت پیدا ہوچکی تھی۔ کئی برسوں تک وہ محض تک بندیاں کرتے رہے۔ 1989ء سے کچھ چیزیں لائقِ اعتنا ہونے لگیں۔ ان کا کوئی باضابطہ استاد نہیں رہا جس کے سبب شاعری کے رموز و نکات کو سمجھنے میں انھیں وقت لگا۔ جامعہ اشرفیہ میں انھیں ادبی کتابوں کا چسکا لگا۔ آلِ احمد سرور، احتشام حسین اور مختلف ادیبوں کی کتابیں انھوں نے اشرفیہ کی لائبریری سے لے کر پڑھیں۔ آجکل، نیادور، تعمیرِ ہریانہ اور پروازِ ادب کے مسلسل مطالعے سے بھی ان میں شعر و ادب کی سمجھ پیدا ہوئی۔
جامعہ اشرفیہ میں مقابلہ جاتی مقالہ نگاری میں بھی نادرؔ حصّہ لیتے رہے۔ اپنے ایک ہم جماعت سید اولادِ رسول قدسی سے جو عمر میں ان سے کافی بڑے تھے اور انگریزی میں ایم۔ اے کرکے آئے تھے، انھوں نے نادرؔ کو شاعری کے نکات سمجھائے۔ نادرؔ نے ان سے چند غزلوں پر اصلاح بھی لی۔ آجکل، افکارِ ملّی، پروازِ ادب، توازن، گلبن، عہد نامہ، رنگ، دستخط اور کوہسار وغیرہ رسائل میں ان کی غزلیں اور ماہیے طبع ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ان کی پہلی غزل ماہنامہ ”زیب و زینت“ کے جولائی 1991ء کے شمارے میں چھپی تھی۔
سراج نادرؔ تقریباً اڑتیس برسوں تک شعر کہتے رہے لیکن پابندی سے فکرِ سخن نہیں کرنے کی وجہ سے ان کے پاس کلام کا خاطر خواہ ذخیرہ موجود نہیں۔ وہ اپنا مجموعہ بھی ترتیب نہیں دے سکے۔ ان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے مجھے اس کی امید بھی نہیں تھی۔ اگر ان کے دل میں صاحبِ کتاب بننے کی سچی چاہت ہوتی اور وہ اپنے فن سے وفاداری کا رویّہ اختیار کرتے تو یہ کام کب کا انجام پاچکا ہوتا۔ ان کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہی تمام صلاحیتوں کے باوجود ان کا کوئی شعری نقش نہیں قائم ہوسکا اور نہ ان کے فن میں وہ چمک پیدا ہوسکی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ بے فکری اور کاہلی کے حصار سے وہ مرتے دم تک نہیں نکل سکے لہٰذا کامیابی کا سرا ان کے ہاتھ آتے آتے رہ گیا۔ لاکھ کہنے سننے کے باوجود ان کی بے حسی کی برف پگھلنے کا نام نہیں لیتی تھی۔
افسوس کہ جب نادرؔ کو معاشی آسودگی نصیب ہوئی تو موت کے بے رحم ہاتھوں نے انھیں ہم سے چھین لیا لیکن ان جیسے مخلص اور شریف انسان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دل کا حصہ رہیں گی۔ انھیں آسانی سے فراموش کرنا ممکن نہیں۔
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: علم و حلم کا پیکر: ڈاکٹر ظفر کمالی

سراج نادرؔ
شیئر کیجیے