صفدر امام قادری: اس کے دشمن ہیں بہت، آدمی اچھا ہوگا

صفدر امام قادری: اس کے دشمن ہیں بہت، آدمی اچھا ہوگا

ڈاکٹر ریحان غنی 
پٹنہ، بہار ،ہند 

صفدر امام قادری پر ندا فاضلی کے شعر کا یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ’اس کے دشمن ہیں بہت، آدمی اچھا ہو گا‘ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اُن کی ادبی، صحافتی اور علمی خدمات کا سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں کئی بڑے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہوتا لیکن جہاں تک مجھے علم ہے اُنھیں آج تک کسی بڑے سرکاری عہدے پر بھی فائز نہیں کیا گیا۔ مجھے اس کا شدّت سے احساس ہے کہ میں نے بھی اُن پر کچھ نہیں لکھا۔ اُن کے علاوہ بھی بے شمار ایسی شخصیتیں اور اُن کی کتابیں ہیں جن پر اب تک میں کچھ بھی نہیں لکھ سکا حالاں کہ مجھے اُن پر لازمی طور پر لکھنا چاہیے تھا۔ اُن میں میرے والد ماجد علیہ الرحمہ اور میری والدہ ماجدہ شامل ہیں۔ میری والدہ کا انتقال نومبر 1986ء میں اور والد کا انتقال جون 2007ء میں ہوا۔ یہ میری کیسی کوتاہی ہے میں خود نہیں جانتا۔ ایسے قریبی لوگوں میں سے ایک صفدر امام قادری بھی ہیں، جن پر میری یہ پہلی تحریر ہے۔ میں اُنھیں تقریباً چار دہائیوں سے یقیناً جانتا ہوں۔ وہ نہ صرف ایک اچھے استاد اور انشا پرداز ہیں بلکہ شاعر، نقاد، صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ مَیں نے ان کی کئی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہے اور ان کے کئی پروگرام میں شرکت بھی کی ہے۔ اُنھوں نے مختلف شخصیات کے علمی اور ادبی کارناموں کے حوالے سے کئی کتابیں بھی ترتیب دی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کے مضامین ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں پابندی سے چھپتے رہتے ہیں۔ وہ ایک اچھے آرگنائزر بھی ہیں۔ درس و تدریس سے اُن کا انہماک اور ادبی و علمی سرگرمیوں سے اُنھیں دل چسپی جنون کی حد تک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنون کے بغیر کام ہوتا بھی نہیں ہے۔ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ کام پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نئی نسل بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے طلبہ و طالبات کو اپنے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ ان کی شفقتوں کے سایے میں پروان چڑھنے والے کئی طلبہ و طالبات مختلف اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں، ذرائع ابلاغ اور دوسرے محکموں سے باضابطہ جڑ گئے ہیں اور اردو کے حوالے سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میں جب کسی ادبی پروگرام میں صفدر امام قادری کی نظامت سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ ادب کے شعبے میں ان سے اچھا کوئی ناظم نہیں ہے۔ کسی سے می نار میں ان کے مقالے سنتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ مواد اور پیش کش کے لحاظ سے اُن کی نسل میں ان کے جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ کسی ادبی موضوع پر ان کے کلیدی خطبے میں جو گہرائی، سلاست اور روانی ہوتی ہے، وہ اُن کا ہی حصّہ ہے۔ طریقۂ تدریس کی جب بات ہوتی ہے تو یہاں بھی وہ منفرد نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے ایک طویل مراسلے میں جو 29/مارچ 2005ء پٹنہ کے روزنامہ پندار میں شائع ہوا تھا، خود لکھا ہے کہ:
”اردو تدریس کے دوسرے خدمت گاروں سے اس اعتبار سے میرا طریقۂ تدریس مختلف ہے کہ میں سائنس کے اساتذہ یا جدید تعلیمی طریقۂ کار اپنانے والے اساتذہ کی طرح بلیک بورڈ (وہائٹ بورڈ) کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتا ہوں۔ اردو کے نوے فی صد اساتذہ تقریر کا انداز رکھتے ہیں جہاں ان کے طریق املا کی گرفت ممکن نہیں۔“
صفدر امام قادری میں کئی ایسی خوبیاں ہیں جو کسی استاد یادوسری ادبی شخصیتوں میں نہیں ہیں۔ اردو کے حوالے سے کہاں کام ہو رہا ہے اور کہاں نہیں، اس سے بھی صفدر امام قادری اچھی طرح واقف ہیں۔ عام طور پر اردو سے تعلّق رکھنے والے لوگوں کو نہیں معلوم ہے کہ آکاشوانی پٹنہ اور دور درشن پٹنہ سے کتنی نیوز بلیٹن نشر ہوتی ہے لیکن صفدر امام قادری کو اس کا بہ خوبی علم ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ایک دن تقریباً ایک بجے دن میں اُن کا فون آیا۔ گفتگو کے دوران میں نے کہا ”میں اس وقت دوردرشن میں ہوں۔“ اُنھوں نے جواب دیا ”جی اس وقت اُردو بلیٹن کا وقت ہے۔“ یہ بہ ظاہر بہت معمولی بات ہے لیکن یہ اس لیے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ وہ اردوکے معاملے سے بے خبر نہیں ہیں۔ خواہ اردو جہاں بھی ہو، صفدر امام قادری کے اس جذبے سے اپنے وقت کے جید عالم دین، مدبّر، مفکر اور اماراتِ شرعیہ بہار اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے امیرِ شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ غالباً بہت اچھی طرح واقف تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب اُنھوں نے دانش وروں کے ایک بڑے اجتماع میں جو پھلواری شریف میں منعقد ہوا تھا، ’اُردو کارواں‘ کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی تو صفدر امام قادری کو اس کا نائب صدر بنایا۔ دانش وروں کے اسی بڑے اور نمایندہ اجتماع میں حضرت امیرِ شریعت نے مشہور ادیب، شاعر اور نقاد پروفیسر اعجاز علی ارشد کو صدر اور مجھے اس کا جنرل سکریٹری نامزد کیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صفدر امام قادری علما کے حلقے میں بھی اتنے ہی جانے پہچانے جاتے ہیں جتنے درس و تدریس کے حلقے میں۔ اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صفدر امام قادری نے کئی ممالک کا سفر بھی کیا ہے اور سفر نامے بھی لکھے ہیں۔ اُن میں ’سفرنامۂ بنگلا دیش‘ شامل ہے۔
کسی بھی شعبے میں اسی شخص کو عام طور پر تاریخ یاد رکھتی ہے جو یا تو کسی تحریک کا بانی ہو یا کسی تحریک سے جڑ کر اس نے خود کو سرگرم رکھا ہو۔ صفدر امام قادری کو لسانیات کے حوالے سے بھی اردو دنیا یاد رکھے گی۔ اُنھوں نے بہار میں ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر اردو املا کی معیار سازی اور یکسانیت کو تحریک کی شکل دی۔ اُنھیں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ملک کی مختلف شہروں اور بیرون ممالک جانے کا اکثر موقع ملتا رہا ہے جس کی وجہ سے اُن کے تجربات اور مشاہدات بھی وسیع ہوئے ہیں۔ اس کی پوری جھلک اُن کی تحریروں میں ملتی ہے۔ اُنھوں نے اپنے کئی مضامین میں اردو میں املا کے انتشار پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ املا زبان کی ترسیل کا آلہ ہے۔ اُنھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ املائی انتشار ہمارا مقدر بنتے جا رہے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ انگریزی کے الفاظ اگر ملا کر لکھے جائیں تو اُنھیں صحیح طور پر ادا کرنا اور کرانا نا ممکن ہو جائے گا۔ اس تناظر میں صفدر امام قادری کا کہنا ہے کہ انگریزی کے لفظ ’سمینار‘ کو اردو میں ’سے می نار‘ اور ’یونیورسٹی‘ کو’یونی ورسٹی‘ لکھنا جدید نظامِ املا کے اعتبار سے صحیح ہی نہیں بلکہ فصیح بھی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگریزی کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جنھیں اردو میں ’سے می نار‘ کی طرح توڑ کر لکھنے سے تلفّظ کی صحیح ادائیگی ہو سکے گی۔ صفدر امام قادری کو لکھنے پڑھنے اور درس و تدریس سے جنون کی حد تک دل چسپی ہے۔ اُن کی پہلی مطبوعہ کتاب ’صلاح الدین پرویز کا آئڈنٹیٹی کارڈ‘ ہے جو 1994ء میں منظرِ عام پر آئی۔ اس کے بعد اُنھوں نے پھر مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ اُنھیں اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں پر یکساں دسترس حاصل ہے۔ اردو، ہندی اور انگریزی میں اُن کی اب تک تین درجن سے زیادہ کتابیں چھپ کر منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ صفدر امام قادری اپنے عہد کے ایسے معتبر ادیب، شاعر، نقاد، انشا پرداز، قلم کار اور کالم نویس ہیں جن پر اس عہد کے لوگ فخر کریں یا نہ کریں لیکن آنے والی نسلیں ضرور فخر کریں گی۔ اللہ اُنھیں صحت کے ساتھ سلامت رکھے آمین۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : دبستان علم و ادب صفدر امام قادری میری نظر میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے