دبستان  علم و ادب صفدر امام قادری میری نظر میں

دبستان علم و ادب صفدر امام قادری میری نظر میں

محمد طیب نعمانی
کوآرڈینیٹر شعبۂ اردو بھیرب گنگولی کالج
بیلگھریا، کولکاتا، 56
فون: 9007515800

مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی صفدر امام قادری کے علمی و ادبی موضوعات ہر ان کی نگارشات پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ میرے گھر شب خون، بیسویں صدی، آج کل، ایوان اردو، شمع اور پاسبان وغیرہ پابندی سے آتا تھا۔ ان ادبی جریدوں میں صفدر امام قادری کے مضامین بھی ہوا کرتے، مجھے یاد ہے۔ میں کلکتہ یونی ورسٹی کے اپنے طالب علمی کے دنوں میں رسالہ آج کل میں "پریم چند کا مطالعہ کیسے کریں" پر شائع ہونے والے ان کے مقالے کو پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا۔ میرے زمانہ طالب علمی میں پریم چند کو سمجھنے میں آپ کے مقالے نے میری رہ نمائی کی۔ آپ کے اس مقالے کے علاوہ "جدیدیت کے نظریہ ساز شمس الرحمٰن فاروقی" اور "آب حیات کا تنقیدی مطالعہ" جیسے عالمانہ مضامین کو بھی مجھے اسی زمانے میں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ سلیس زبان اور رواں الفاظ نے مجھ جیسے ادنا طالب علم کے ذہن و دل میں ایسا نقش ثبت کیا کہ میں آپ کا پرستار ہوگیا۔ عظیمہ فردوسی اور خورشید اکبر کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی جریدہ "آمد" ادبی دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ آمد کے تقریباً ہر شمارے میں کالم "شہر آئینہ" کے عنوان کے ساتھ کتابوں پر آپ کے تبصرے و تجزیے شامل ہوتے۔ ایک ایک شمارے میں آپ کے کئی مضامین شامل ہوتے۔ آپ نے "آمد" کے "شہر آئینہ" کو اپنے خون جگر سے شفاف بنایا۔
آپ کی بے باک رائے نے "آمد" کو ادب کے زندہ لہو کی گردش بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کی زبان اور بے باکی کی عمدہ مثال "آمد" کتابی سلسہ 7 میں امتیاز وحید کی کتاب "پیروڈی کا فن" پر تبصرہ کرتے ہوئے پہلے پیراگراف میں جو بات کہی ہے وہ بہت ہی کڑوا سچ ہے:
"یہ بات بالعموم بزرگوں کی طرف سے کہی جاتی ہے کہ آج کی تازہ کار نسل علمی کاموں میں جی نہیں لگاتی۔تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کے امور میں کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نسل نو کے طفیل یہاں جہالت کی فصل لہلہا رہی ہے۔ یہ بات اگر غلط نہیں ہے تو اس سوال کا جواب بزرگوں کو ہی دینا ہے کہ نئی نسل کی تربیت اور علم کے بیش بہا خزینوں سے انھیں مستحکم کرنے کی ذمہ داری آخر کس کی تھی۔۔؟ تعلیمی جماعتوں میں انھیں کس نے پڑھایا، ان کے تحقیقی مقالے کس کی نگرانی میں لکھے گئے اور انھیں یو نی ور سیٹیوں میں پڑھانے کے لیے کن لوگوں نے منتخب کیا۔۔؟ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ علم کے ساتھ جہل کا کاروبار ہر دور میں قائم رہا یے۔ یہ امتیاز کوئی نسل نو سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں میں جہاں علم و ادب کے آفتاب و ماہتاب کی ایک  کہکشاں  سجی ہوئی ہے وہیں ایسے بزرگوں کی ایک بے کراں فہرست موجود ہے جنھوں نے اپنے اساتذہ سے تو کچھ نہیں ہی سیکھا، نہ وہ اپنے شاگردوں تک اپنے علم کی روشنی بکھیر سکے۔ایسے اساتذہ جب کسی سے می نار میں اپنا مقالہ پڑھتے ہیں تو ان کے شاگرد منہہ چھپائے پھرتے ہیں، زبان اور تلفظ کی غلطیوں پر مجمع ششدر رہتا ہے۔ نئے لکھنے والوں میں بھی بلا شبہ ایسے افراد کی کمی نہیں. اور ایسا کیوں نہ ہو، کیوں کہ ان کے بعض اساتذہ کچھ کم نہ تھے۔ جوانوں کو اگر اپنی جہالت کا پتا چل جائے یا ایسے نا اہل اساتذہ سے چھٹکارا مل جائے یا کوئی صحیح راہ میسر آجائے تو پھر ان کی زندگی پٹری پر لوٹ آئے گی لیکن ہمارے بزرگوں کو راہ راست پر کون لائے گا۔۔۔؟"
( آمد، صفحہ :1261، سال اشاعت: جنوری تا مارچ 2013)
 سطور بالا کا ہر لفظ اپنے سچے ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ایسی بات کہنے کا حوصلہ وہی کرسکتا ہے جو کھرا سونا ہو۔ صفدر امام قادری بھی اردو ادب کا کھرا سونا ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں صفدر امام قادری کی طرز نگارش کا پرستار ہوں۔ صنف ڈراما نگاری سے مجھے خصوصی لگاؤ ہے اور جب صفدر امام قادری کا قلم اس صنف کے بلند قامت شخصیت حبیب تنویر پر لکھے  تو قارئین کی توجہ اس جانب مبذول ہونا فطری امر ہے۔مشہور مترجم مسعود الحق  نے "حبیب تنویر کا رنگ منچ" کے عنوان سے اردو میں پہلی بار  حبیب تنویر کی شخصیت اور فن پر ایک جامع کتاب مرتب کی ہے. اس کتاب میں ملک کے صف اول کے ادبا،  ناقدین و محققین کے مضامین شامل ہیں. اس کتاب کو دلی کتاب گھر نے 2013 میں شائع کیا۔ صفدر امام قادری نے "آمد" کا کتابی سلسلہ 7 "شہر آئینہ" کے کالم میں تبصرہ کیا ہے۔ تبصرہ کیا ہے؟ ایک عالم گیر شہرت کے حامل شخص پر ایک بڑے عالم کی جو رائے ہوسکتی ہے وہی رائے صفدر امام قادری نے حبیب تنویر کے سلسلے میں قائم کی ہے۔
صفحہ قرطاس پر صفدر امام قادری کے رشحات قلم نے جو موتی بکھیرے ہیں اس کے لعل و گوہر سے آپ بھی بہرہ یاب ہوجائیں۔
"حبیب تنویر نے بریخت اور جرمن تھیئٹر سے جو کچھ سیکھا اسے انھوں نے تھیئٹر کی ایک نئی زبان تشکیل کرنے میں بہ خوبی استعمال کیا ہے۔ حبیب تنویر ڈرامے کی سطح پر آزمائی جانے والی عرف عام میں ہماری زبانوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ ڈرامے کی ایک ایسی زبان کی تلاش میں تھے جو ہماری روایتی لسانی ڈھانچے کو تہس نہس کردے۔ ایک ترسیلی زبان کا یہ سودا لیے وہ لندن، برلن سب جگہ گئے لیکن زبان انھوں نے سیکھی عام لوگوں کے بیچ، اسے اردو ہندی اور چھتیس گڑھی سب ناموں سے پہچانا گیا۔ یہی حبیب تنویر کا مخصوص اسلوب قرار پایا۔"
( صفحہ: 268، کتاب: سہ ماہی آمد، شمارہ: اپریل تا جون 2013)
میری نظر میں صفدر امام قادری فی زمانہ صف اول کے تنقید نگار ہیں۔ آپ جس صنف یا فن پارے پر گفتگو کرتے ہیں اس کی تہہ تک پہنچنے کے مشکل ترین مرحلے کو سر کرتے ہیں۔ بعض ناقدین کے مقالے سے فن پارہ غائب ہوجاتا ہے یا ان کی فرضی تنقیدی جاہ وجلال میں اصل موضوع بہت پیچھے چھوٹ جاتا ہے، صفدر امام قادری کے کسی بھی مضمون کو اٹھا کر دیکھ لیں، آپ موضوع سے کبھی بھی نہیں ہٹتے۔ آپ الفاظ کے دروبست سے بھر پور واقفیت رکھتے ہیں۔ جملے کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کے ذوق طبع پر بار نہیں گزرتا۔ آپ ادب کے سبک رفتار ناقد ہیں. آپ کو پتا ہے کہ سرپٹ دوڑنے سے ٹھوکر لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ آپ جب کسی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں اعتدال پسندی سے کام لیتے ہیں، تنقیدی رائے قائم کرنا بھی شیشہ گری کے کام کی طرح ہے، بہ قول میر تقی میر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
آپ لفظوں کے مزاج، ان کے حسن و قبح سے بہ خوبی واقف ہیں۔ آپ کے مقالے کا لفظیاتی نظام بہت ہی بلند و بالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنے مطمح نظر کو بیان کرنے میں کوئی دشورای نہیں ہوتی۔
کب کہاں اور کس طرح اپنی بات کہنی ہے اور کیا نہیں کہنا ہے اس سے آپ بہ خوبی واقف ہیں. آپ بے لاگ تجزیہ نگار ہیں. ادب پر مکمل دسترس رکھتے ہیں. آپ کی شخصیت اردو زبان و ادب کے لیے عظیم نعمت ہے۔
صفدر امام قادری سے میری پہلی گفتگو:
آج کے زمانے میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں. صفدر امام قادری (سر) سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے فریضے کو سر انجام دیتے ہیں۔ میں نے میسنجر پر آپ کے نام بہت چھوٹا سے پیغام لکھا کہ سر میری خواہش ہے کہ میرے کالج کے طلبہ کے لیے آپ "اردو تنقید کا ارتقا" پر توسیعی خطبہ دیں. برائے مہربانی آپ مجھے اپنا واٹس اپ نمبر دیں۔
واٹس اپ نمبر کے ساتھ سر کا جواب بس اتنا تھا "ان شاء الله" اس وقت اس مختصر سے جواب سے میں یہ سمجھ نہیں پایا کہ اب کیا کریں، تھوڑے توقف کے بعد جواب کو ایک بار اور پڑھا اور مجھے اس جواب سے ہی حوصلہ ملا کہ آپ سے بات کروں کیوں کہ آپ کے جواب "ان شاء الله" کے ساتھ آپ کا فون نمبر بھی تھا۔ میں نے فوراً واٹس اپ پر پیغام لکھا کہ سر میں کلکتہ سے طیب نعمانی کیا میں ابھی آپ کو فون کروں؟
جواب کچھ ہی دیر میں آیا : "جی ہاں"
نشان خاطر رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب کووڈ کی وجہ سے ہر کوئی اپنے گھر میں قید تھا۔ زندگی انٹرنیٹ کے سہارے آن لائن ہوگئی تھی۔ 30 اگست 2020 کی شام میرے لیے انتہائی اہم دن تھا کہ جس مینارۂ نور سے میں اب تک اکتساب علم و آگہی حاصل کر رہا تھا آج مجھے اس دبستان علم و ادب سے براہ راست بات کرنے کی سعادت حاصل ہونے جارہی ہے۔ صفدر سر کے جواب سے حوصلہ ملا اور میں نے فون کیا۔ تھوڑی دیر بات ہوئی۔ بہت ہی نرم گفتار، آپ سے بات کرکے جس طمانیت کا احساس ہوا وہ نا قابل بیان ہے۔ اس کے بعد اور کئی بار بات ہوئی اور آپ کے مشورے پر 14 ستمبر 2020 کو دوپہر 12 بجے گوگل میٹ کے ذریعے "اردو تنقید آغاز تا حال" کے موضوع پر آپ نے تقریبا دو گھنٹے سے بھی زیادہ گفتگو کی۔ یہ کوئی عام بات نہیں تھی اردو تنقید کے موضوع پر مسلسل دو گھنٹے تک بولنا آسان نہیں۔ اس اہم لکچر کو سننے کے لیے ایک سو سے زیادہ اسٹوڈنٹ شامل تھے۔ آج بھی یہ گفتگو نیٹ پر موجود ہے۔ یہاں میں لنک بھی دے رہا ہوں کہ قارئین چاہیں تو اس گفتگو سے فیض اٹھا سکتے ہیں، یوٹیوب اور فیس بک لنک یہ ہے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2728757750714235&id=100007401104582&mibextid=RtaFA8
اس کے بعد صفدر سر میں گاہے گاہے فون پر باتیں ہونے لگیں. اس درمیان بزم صدف انٹرنیشنل کے ذریعے منعقد ہونے والے آن لائن مشاعرے میں بہ حیثیت شاعر مجھے مدعو کیا گیا۔ میں نے سر سے بات کی کہ میں باضابطہ شاعر نہیں ہوں. کبھی طبیعت موزوں ہوئی تو کوئی نظم کہہ لی۔ سر کا کہنا تھا کہ "آپ کی اپنی تخلیق ہے نا۔۔" جی سر، "تو پھر کیا ہے۔۔۔؟ یہاں تو دوسروں کا کلام لے کر دنیا کے مختلف ملکوں میں گھوم رہے ہیں. آپ پڑھیے. میں نے مشاعرے میں شرکت کی۔ دراصل سر ادبی طور پر میری تربیت کرنا چاہ رہے تھے۔ میری نظم کو پسند بھی کیا گیا۔ جس سے میرا حوصلہ بھی بڑھا۔ 10 اکتوبر 2021 پروفیسر مظفر حنفی کا انتقال ہوا۔میں نے  مظفر حنفی کے لیے ایک تعزیتی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تعزیتی تقریب میں صفدر امام قادری سر نےکلیدی خطبہ دیا۔ مظفر حنفی کی زندگی اور ان کی ادبی قد و قامت پر آپ نے بسیط خطبہ دیا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، نے مہمان خصوصی، اور بزم صدف کے چیئرمین شہاب الدین احمد ( قطر) بہ حیثیت مہمان اعزازی، جاوید دانش( کناڈا)، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے پروفیسر واحد نظیر، مظفر حنفی کے شہزادے انجینئر فیروز مظفر ( دہلی) اور پرویز مظفر ( برمنگھم، برطانیہ) کے علاوہ ڈاکٹر ابو بکر جیلانی اور برادر کلاں ہمدم نعمانی مدعوین شرکا میں تھے. مشہور شاعر ناصر کاظمی کے بیٹے اور خوش فکر شاعر باصر سلطان کاظمی (لندن) اور استاذ محترم قیصر شمیم (مرحوم) کی صدارت میں ہونے والی یہ تعزیتی نشست تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس نشست میں صفدر سر نے جو خطبہ دیا تھا وہ آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ایک روز سر کا اچانک فون آیا، میرے سلام کا جواب دینے کے بعد سوال کیا  کہ "آپ اس وقت کہاں ہیں ۔۔۔؟" "سر میں اپنے کالج میں ہوں ۔۔۔؟" "رپن اسٹرہٹ سے آپ کا کالج کتنی دوری پہ ہے۔۔۔؟" جواب دینے کے بجائے میرا سوال تھا: "سر آپ اس وقت کلکتہ میں ہیں کیا۔۔۔؟" "جی ہاں! بس دو تین گھنٹے کے لیے۔۔۔ میں ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کے یہاں ہوں۔ آپ اگر آجائیں تو ملاقات ہوجائے گی۔" میرے لیے آپ سے ملنے کا یہ نادر موقع تھا۔ سر میں تھوڑی دیر میں حاضر ہوتا ہوں یہ کہتے ہوئے کالج سے نکلتے ہی سر سے ملنے رپن اسٹریٹ کی راہ لی۔ تقریباً ایک گھنٹے میں، میں بیل گھریا سے رپن اسٹریٹ ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کے دولت کدے پر تھا۔ بالمشافہ صفدر سر سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ ہمایوں جاوید، ڈاکٹر امتیاز وحید، مبارک علی مبارکی بھی وہاں موجود تھے۔ بہت سنجیدہ ادبی گفتگو جاری تھی۔ سر بہت گرم جوشی سے ملے۔ حد درجہ متین و خلیق انسان، سراپا علم و ادب، مجھے آپ سے مل کر ایسا لگا جیسے برسوں کی تمنا پوری ہوئی۔ پہلی ملاقات کچھ گھنٹوں پر مشتمل رہی، شام کو آپ کو ٹرین سے کہیں جانا تھا، آپ ہوڑہ اسٹیشن روانہ ہوئے اور میں اپنے گھر۔ 21 اگست 2022 کو بزم صدف انٹرنیشنل کے زیر اہتمام پٹنہ میں شوکت حیات پر ایک روزہ سے می نار کا انعقاد کیا گیا۔ سے می نار بہار اردو اکادمی کے ہال میں تھا. صفدر سر نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ عنوان تھا "شوکت حیات : ہم عصر اردو فکشن کا ایک اعتبار" مہمانوں کی فہرست میں منظر اعجاز، مشتاق احمد نوری، رشی کیش شلبھ، عبدالصمد، ڈاکٹر شہزاد انجم، علیم اللہ حالی، پروفیسر جمشید قمر، خورشید اکبر اور دیگر بہت سے ایسے مشاہیر علم و ادب کے نام تھے جن کی گفتگو سننا کسی سعادت سے کم نہیں۔ سے می نار بہت شان دار رہا۔ صفدر سر کا انتظام و انصرام دیکھنے اور کسی پروگرام کومنعقد کرنے کا ان سے سلیقہ سیکھا۔ شام کو سر کے گھر بھی جانا ہوا۔
صفدر سر کا گھر:
میں سے می والے دن ہی پٹنہ پہنچا۔ اسٹیشن پر مرجان علی سر کی گاڑی کے ساتھ پہلے سے موجود تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہوٹل پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے اور ضرویات سے فارغ ہوکر میں تیار ہوا۔ اس بار پرویز اور مرجان مجھے لینے آئے۔ ان کے ساتھ میں بہار اردو اکادمی روانہ ہوا۔ اکاڈمی کے گیٹ پر صفدر سر پروفیسر تسلیم عارف ( رانچی)، کے ساتھ استقبال کے لیے پہلے سے موجود تھے۔ اردو زبان کا بلند قامت ناقد ہال کے گیٹ پر کھڑے ہوکر لوگوں کا استقبال کر رہا ہے۔ یہ خاکساری نہیں تو اور کیا ہے۔ میں سر سے ملا۔ سارا دن سے می نار میں رہا۔ شام کو ہوٹل لوٹ کر  ابھی آرام کرنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ پرویز اختر صاحب آگئے، چلیے سر کے گھر چلنا ہے، سر نے بلایا ہے۔ میں پرویز صاحب کے ساتھ روانہ ہوا۔۔
گھر کیا ہے۔ پٹنہ کا دوسرا خدا بخش لائبریری. 
ہر طرف کتاب ہی کتاب۔ صفدر سر کے بہت سے طالب علم پہلے سے موجود تھے۔ میری نظر کبھی صفدر سر کی طرف تو کبھی چہار طرف رکھی کتابوں کی طرف بار بار اٹھ رہی تھی۔ سر نے مجھ سے پوچھا کیسا لگا۔۔۔۔؟ جی سر بہت اچھا۔. جن کو پڑھتا آیا ہوں آج آپ کے طفیل ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے۔ منی بھوشن کمار بھی وہاں موجود تھے۔ منی بھوشن بھائی نے کہا: "طیب بھائی آپ پہلی بار پٹنہ آئے ہیں کیا۔۔؟ جی ہاں پہلی بار۔ اب آپ تیار رہیں آپ کو بار بار آنا ہے۔ میرا جواب تھا جب بھی سر کا حکم ہوگا میں حاضر ہوجاؤں گا۔ ابھی ہماری بات ہوہی رہی تھی کہ سر بہت خاموشی سے اٹھے اور باورچی خانے میں گئے، سب کو لگا کسی ضرورت سے گئے ہیں لیکن پتہ نہیں چلا کب چائے بنادی اور رات کے کھانے کے انتظام میں بھی لگ گئے۔ میں پٹنہ میں جن لوگوں سے بھی ملا ان لوگوں نے سر کی ضیافت کا ذکر ضرور کیا۔ صفدر سر نے اپنے ہاتھوں بنے سالن، چپاتی اور تمام طالب علموں کے لیے بریانی منگوا کر ہم سبھوں کے سامنے پیش کیا۔ منی بھوشن صاحب "شدھ شاکا ہاری" ہیں، ان کے لیے الگ انتظام کیا گیا۔ مجھے لگا سارا دن "سے می نار" کے بعد سر تھک گئے یوں گے، لیکن تھکاوٹ کہاں۔ مجھے یہ لگا کہ یہ گھر نہیں کسی درویش کا تکیہ ہے یا کسی صوفی کی خانقاہ ہے، جہاں عقیدت مندوں کا ہر وقت تانتا لگا رہتا ہے۔ رات کے گیارہ بجنے والے ہیں اور عقیدت مند (سر کے طلبہ) ہیں کہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، میں نے آہستہ سے کہا کہ "کہیں میرے ہوٹل کا مین گیٹ بند نہ ہوجائے۔" اس کے بعد ہم سب سر کے یہاں سے روانہ ہوئے۔ دوسرے روز صبح 7 بجے سر کا فون آیا۔ ایک بات واضح کر دوں کہ فون پر بھی آپ سلام کرنے میں پہل کرتے ہیں، ابھی فون ریسیو ہی کیا تھا کہ سر کی پرجوش آواز آئی "السلام عليكم" وعلیکم السلام سر۔ آپ اٹھ گئے؟ "جی سر میں صبح جلدی اٹھتا ہوں۔"
"تھوڑی دیر میں پرویز جارہا ہے آپ تیار ہو کر آجائیں۔" میں ضرویات سے فارغ ہوکر ابھی تیار ہوہی رہا تھا کہ پرویز آگئے۔ "ہلکے ناشتے کے بعد ہم لوگ صفدر سر کے گھر پہنچے۔ وہاں تسلیم عارف ( رانچی) سلمان عبدالصمد اور مرجان علی پہلے سے موجود تھے۔ تھوڑی دیر میں ہم لوگ صفدر سر کی گاڑی سے پٹنہ کے تاریخی مقامات دیکھنے نکل پڑے۔ پٹنہ میرین ڈرائیو سے ہوتے ہوئے شہر کے مختلف تاریخی مقامات کو دیکھتے ہوئے ہم لوگ "پٹنہ صاحب گردوارہ" پہنجے۔ اسی گردوارہ کے نام سے منسوب پٹنہ صاحب اسٹیشن بھی ہے۔ گردوارہ تک پہنچنے میں تھوڑا وقت لگا کہ یہ ہندستان کا قدیم شہر ہے، تنگ سڑکوں پر لوگوں کی بھیڑ بھی اچھی خاصی تھی۔ متبرک جگہ ہونے کی وجہ سے مختلف طرح کی دکانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ لیکن گردوارہ پٹنہ صاحب وسیع علاقے میں پھیلا ہوا انتہائی صاف و شفاف جگہ ہے۔ صفدر سر اس جگہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے قدرے سنجیدہ لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پہ روحانیت کو ہم سب محسوس کر رہے تھے، سر کے پیچھے چلتے ہوئے ہم سب گردوارہ کے درمیانی مقام 
(جہاں ایک مزار نما بنا ہوتا ہے، اسے سکھ مذہب میں "تخت" کہا جاتا ہے) تک مودب قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے پہنچے۔ صفدر سر کو دیکھا. ہم سبھوں سے تھوڑا الگ بیٹھے۔ آنکھیں بند کرکے خاموش بیٹھے ہار مونیم اور طبلے کے ساتھ گائے جانے والے بھجن جسے "شبد کیرتن" کہتے ہیں، سن رہے ہیں۔ گرو گرنتھ صاحب کے اشلوک یا بھیجن ہوتے ہیں جو گرودواروں میں گائے جاتے ہیں۔ ایسا لگا یہ شبد کیرتن صفدر سر کو کسی اور دنیا میں لے کر چلے گئے ہیں. اس سے پہلے میں دہلی کے شیس گنج گردوارہ میں جاچکا ہوں۔ لیکن اس طرح بیٹھ کر شبد کیرتن سننے کا موقع نہیں ملا۔ آدھے گھنٹے تک سر کسی اور دنیا میں کھو سے گئے تھے۔ جب مائک پر دوسرے کلام کو پیش کیا جانے لگا تو آپ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ میں نے اشارے سے پوچھا کہ سر چلیں ۔۔۔؟ بغیر کچھ کہے سر خاموشی سے کھڑے ہوئے اور ہم سب بھی ان کے پیچھے چلنے لگے۔ گردوارہ پٹنہ صاحب کے دوسرے حصے میں لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ سر عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر لنگر کھانا بھی چاہ رہے تھے۔ لیکن میری طبیعت اس جانب مبذول نہیں ہوئی تو صفدر سر نے میری خواہش کا احترام کیا اور وہاں سے رخصت ہوئے۔ گردوارہ کے صحن میں ہم سب نے بہت سی تصویریں بھی لیں۔ اس کے بعد ہم سب عظیم آباد کے عظیم شاعر "شاد عظیم آبادی" کے مزار پر گئے۔ اب مزار کی زمین غیر مسلموں کی ملکیت ہے۔ لیکن اس کو بہت ہی صاف ستھرا رکھا گیا ہے، رنگ و روغن کیا ہوا مقبرہ. مقبرے کے صحن میں ہم سب جب داخل ہوئے تو صفدر سر ایک بار پھر کسی اور دنیا میں تھے۔ پالتی مار کر اطمینان سے بیٹھے، ہم سب بھی سر کی تقلید کرتے ہوئے اطمینان سے بیٹھ گئے. فاتحہ پڑھنے کے بعد سر نے اس زمین کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات ہم سب کو دی۔ شاد عظیم آبادی کی جاگیر دیکھ کر دل عش عش کر اٹھا کہ کیا جاہ و حشمت رہی ہوگی۔ اردو کے عظیم شاعر کی چوکھٹ پر ہم نے عقیدت سے سر جھکائے۔ اس یاد گار لمحے کو ہم نے فون کے کیمرے میں قید بھی کیا۔ صفدر سر مقبرے کے احاطے سے نکلتے ہوئے کئی بار مڑ کر مقبرے کی طرف دیکھتے رہے۔ ایسا لگا ان کی آنکھیں شاد عظیم آبادی کے مقبرے کا بوسہ لے رہی ہیں۔ وہاں سے نکل کر ہم سب ایک بار پھر پٹنہ کے قدیم علاقے کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے اردو ادب کے مشہور ناقد کلیم الدین کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ صبح کا وقت ہے بازار میں لوگوں کی بھیڑ ہے۔ کلکتہ کے ذکریا اسٹریٹ (رابندر سرانی) کی طرح کا علاقہ ہے۔ دونوں طرف سجی سجائی دکانیں ہیں۔ گاڑیاں بھی ہیں اور راستے پہ بے شمار لوگ بھی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ صفدر سر کے ڈرائیور کو تنگ راستے پر کار ڈرائیو کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ڈرائیونگ صبر آزما پیشہ ہے۔ڈرائیور صاحب اپنے پیشے سے انصاف کرتے ہوئے تحمل سے کار چلا رہے تھے۔ صفدر سر قدرے پر سکون تھے، مجھے لگا سر ابھی بھی شاد عظیم آبادی سے ہم کلام ہیں یا شاد عظیم آبادی کے کلام و شخصیت کے سحر میں ابھی گرفتار ہیں. میں بہت آہستہ سے گویا ہوا۔: "سر اب ہم کہاں جارہے ہیں ۔۔۔؟" تھوڑے سے توقف کے بعد ۔۔ "آپ اردو کے اہم ناقد کلیم الدین احمد کے مقبرے کی زیارت بھی کرلیجے" یہ کہہ کر ڈرائیور کو سیدھے چلنے کی تلقین کی۔ آدھے گھنٹے میں ہم سب ایک قبرستان کے گیٹ پر تھے۔ گاڑی سے اترتے ہی سر کے قدموں میں تھوڑی تیزی آگئی، سر آگے آگے ہم سب ان کے پیچھے پیچھے۔ قبرستان کے ایک طرف کلیم الدین احمد کے والد عظیم الدین احمد کا مقبرہ ہے۔ سر نے عظیم الدین احمد سے متعلق بہت اہم باتیں بتائیں کہ عظیم الدین صاحب کا تعلق عظیم آباد کے جاگیرداروں کے خاندان سے تھا۔ آپ عربی فارسی اور اردو کے بڑے عالم تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری بھی کرتے تھے۔ پٹنہ یونی ورسٹی میں شعبۂ عربی کے استاد بھی تھے۔ ان کے قریب ہی کلیم الدین احمد کی قبر ہے۔ کلیم الدین احمد اور ان کے والد کا مقبرہ خستہ حالی کا شکار ہے۔ ہم سب نے فاتحہ پڑھی۔ ان کے مقبرے کے پاس کھڑے ہوکر تصوہر بھی لی۔ صفدر سر ایک بار پھر خاموش تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ جب بھی کسی عظیم ہستی کے مقبرے پر جاتے ہیں تو آپ پر "بے خودی" کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے نکلنے میں آپ کو وقت لگتا ہے۔ آپ کچھ دیر خاموش کھڑے رہے، میں نے مرجان علی کو دیکھا اور سلمان عبدالصمد نے  میری طرف، پرویز اختر اور تسلیم عارف سر کے پیچھے مودب کھڑے رہے۔ میں نے وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے مقبرے کے کتبے کی طرف جاکر اس کی تصویر لی۔ کچھ دیر بعد ہم نے گروپ تصویر بھی لی۔ مقبرے کے قریب ہی کلیم الدین احمد کا مکان بھی ہے۔ ہم سب نے مکان کے سامنے کھلے آنگین میں نیم کے درخت کے قریب کھڑے ہوکر کچھ کچھ وقت گزرا کہ یہاں کی ہواؤں میں ہم نے کلیم الدین احمد کی سانسوں کو محسوس کرنے اور ان کے آنگن میں ان کے قدموں کی چاپ کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔ ان کے گھر کے دالان کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر تصویر بھی لی کہ یہ ہمارے سفر کا حاصل تھا۔صفدر سر کی وجہ سے ایسی جگہوں تک رسائی ممکن ہوئی، مجھے یقین ہے اردو کے بہت سے عالموں کو ان مقامات کا پتہ بھی معلوم نہیں ہوگا۔ اب دوپہر کے دو بج رہے ہیں سر نے کہا چلیے، ایسے موقعے پر صفدر سر بنگلہ کا ایک لفظ "چولون" کہا کرتے ہیں، آپ نے کہا چولون مطلب چلیے۔۔ میں نے بھی ایک جملہ کہا "ہاں چول چی س، چولون تاڑا تاڑی جائی" سر میری بنگلہ سن کر ہلکا سا مسکرائے۔ "اتنا تو ہم سمجھتے ہی ہیں. مطلب جلدی جلدی چلتے ہیں" میں نے کہا جی سر۔ ہم ایک بار پھر سر کی گاڑی میں تھے۔ اب سر عظیم آباد کی اور اس کی ادبی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ڈرائیور کو اشارے سے دائیں طرف مڑنے کہتے ہیں، کچھ دیر میں ہم سب گاندھی میدان کے قریب تھے۔ سر نے راستے میں دوران سفر ہی اپنے کچھ ریسرچ اسکالرز کو فون کرکے ایک مخصوص جگہ پہنچنے کو کہا۔ ہماری کار پٹنہ شہر کی سب سے اونچی بلڈنگ BISCOMAUN BHAVAN
Gandhi Maidan کے سامنے رکی۔ میری طرف دیکھتے ہوئے، آئیے کھانا کھاتے ہیں۔ نازیہ تبسم، شگفتہ ناز اور اردو جریدہ بھاشا سنگم کی نائب مدیر ڈاکٹر افشاں بانو یکے بعد دیگرے وہاں پہنچ گئیں۔ ہم سب "بس کو ماون بھون" کے اٹھارویں منزل پر بذریعہ لفٹ پہنچے۔ اس کثیر منزلہ عمارت کی سب سے آخری منزل ( ٹیرس) پر
PIND THE REVOLVING RESTAURANT
( پنڈ دا ریوالونگ ریسٹورنٹ) واقع ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا الگ ریسٹورینٹ ہے۔ ریسٹورنٹ کیا ہے نگار خانہ ہے۔جس سے آپ پورے شہر پٹنہ کا نظارہ کر سکتے ہیں۔چاروں طرف شفاف شیسے کی دیوار ہے اور آپ کی سبک خرام نشست گھومتی رہتی ہے۔ آپ اپنی جگہ بیٹھے رہیں، لذیذ کھانو کے ساتھ شہر کی خوبصورتی کا بھی لطف لیں کبھی۔ صفدر سر نے میرے اعزاز میں بہترین ظہرانے کا اہتمام کیا۔ انواع و اقسام کے کھانے کے بعد مٹھائی اور آئس کریم بھی، ہم سب نے مزے لے کر کھایا۔ شام کو ہم سب لوٹے۔ راستے میں پٹنہ میٹرو ریلوے کا کام چل رہا ہے۔ سر کا گھر بھی اسی علاقے میں ہے جہاں سے ٹرین کو گزرنا ہے۔ سر کے گھر پر ہم سب کچھ وقت کے لیے رکے، اس کے بعد میں اجازت لے کر ہوٹل روانہ ہوا کہ رات نو بجے مجھے کلکتہ واپسی کے لیے ٹرین پکڑنی تھی۔ اسٹیشن جانے کے لیے سر نے اپنی گاڑی بھجوائی۔پرویز اختر صاحب مجھے اسٹیشن تک چھوڑنے آئے۔
میرے پٹنہ جانے اور  شوکت حیات مرحوم کی حیات و خدمات پر ہونے والے سے می نار میں شرکت سے پہلے، 25 مارچ 2022 کو بزم صدف انٹرنیشنل اور شعبۂ اردو بھیرب گنگولی کالج کلکتہ کے اشتراک سے "اردو صحافت دو صدی کا احتساب" کے موضوع پر ایک روزہ بین الاقوامی سے می نار کا انعقاد کیا گیا۔ صفدر سر بزم صدف انٹرنیشنل کے چیئرمین اور شہاب الدین احمد (قطر) ڈائریکٹر ہیں۔ بزم صدف انٹرنیشنل دنیا کے مختلف ملکوں میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے کام کرتی ہے۔ اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر بزم صدف انٹرنیشنل نے بین الاقوامی سطح پر جشن منانے کا فیصلہ کیا۔ جام جہاں نما اردو کا پہلا اخبار شہر کلکتہ سے ہی جاری ہوا تھا، اسی لیے صفدر سر اور شہاب الدین صاحب نے یہ طے کیا کہ بزم صدف کا اردو صحافت پر بین الاقوامی سے می نار اسی شہر میں منعقد کیا جائے گا۔ میں نے اپنے کالج کے پرنسپل سے بات کی اور بزم صدف انٹرنیشنل کو بھیرب گنگولی کالج میں اس سے می نار کو منعقد کرنے کی سفارش کی۔ خوش بختی ہماری کہ اردو صحافت کی دو صدی کا جشن منانے کے لیے بزم صدف نے بھیرب گنگولی کالج کا انتخاب کیا۔ اس سے می نار میں ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی ( برطانیہ )، مسعود حساس ( کویت)، شہاب الدین احمد ( قطر) کے علاوہ ڈاکٹر صفدر امام قادری، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، ڈاکٹر منی بھوشن کمار، ڈاکٹر خورشید اقبال، ڈاکٹر تسلیم عارف ( کلکتہ)، ڈاکٹر الماس شیخ، ڈاکٹر صابرہ خاتون، ڈاکٹر افضال عاقل، شہزادی انور، ڈاکٹر تسلیم عارف (رانچی)، مرجان علی کے ساتھ میں نے بھی مقالہ پیش کیا۔
بزم صدف انٹرنیشنل نے دو روزہ جشن صحافت منعقد کیا تھا۔ پہلے روز کلکتہ میں اور دوسرے روز حیدر آباد میں۔ صفدر سر نے کلکتہ کی سرزمین اور اردو صحافت کے حوالے سے تاریخی خطبہ دیا۔ سے می نار کے خاتمے کے بعد اسی روز شام 7 بجے دمدم سے تمام بیرونی مہمانوں کو حیدر آباد روانہ ہونا تھا کہ حیدر آباد میں اردو صحافت کی دوصدی کی تاریخ پر دو روزہ سے می نار منعقد ہونا تھا۔ اور اس "سے می نار" میں مجھے بھی صفدر سر اور ان کے تمام مہمانوں کے ساتھ حیدر آباد جانا تھا۔ شام 5 بجے سے می نار ختم ہوا۔ ہم سب جلدی جلدی دمدم ایئر پورٹ پہنچے۔ صفدر سر کے ساتھ یہ میرا پہلا سفر تھا۔ دوران سفر میں نے دیکھا آپ سب کا بھر پور خیال رکھتے ہیں۔ ہم سب ساڑھے نو بجے تک حیدر آباد پہنچ چکے تھے۔ دوسرے روز عثمانیہ یونی ورسٹی (ویمنس کالج) کے وسیع ہال میں سے می نار منعقد کیا گیا تھا۔ اس سے می نار کا افتتاح تلنگانہ کے نائب وزیر اعلیٰ جناب محمود علی کے ہاتھوں ہوا۔ یہاں بھی دوروز اردو صحافت پر سے می نار کا انعقاد ہوا۔ میں تو بزم صدف انٹرنیشنل کے جملہ ارکان بالخصوص صفدر سر اور شہاب الدین احمد صاحب کی ہمت اور حکمت کی داد دیتا ہوں کہ اتنے وسیع پیمانے پر ملک کے دو بڑے شہروں میں مسلسل تین دنوں تک بین الاقوامی سے می نار منعقد کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ہر ایک مہمان کے ٹھرنے، کھانے اور ہوٹل سے عثمانیہ یونی ورسٹی تک پہنچنے کا سارا بندو بست کرنا آسان نہیں تھا۔
دو روزہ سے می نار کے بعد صفدر سر کے ساتھ رامو جی فلم سٹی گھومنے کا بھی موقر ملا۔ صفدر سر کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہر لمحے کو جینا جانتے ہیں. آپ سیر و سیاحت کے شوقین ہیں. جب فلم سٹی ہم لوگ گھوم رہے تھے تو آپ ہر ایک چیز کو بہ غور دیکھتے، اس کی تصویر لیتے۔ ہم سب سر کے ساتھ تصویر لیتے۔ آپ کی خوبی ہے کہ بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے ہیں. سفر کو انجوائے کرتے ہیں. بعض پروفیسر اپنے "خول" سے باہر نہیں آ پاتے۔ لیکن صفدر سر کا یہ خاصہ ہے کہ وقت اور حالات کے ہیش نظر  خود کو اس میں ڈھال لینے کے ہنر سے واقف ہیں۔ حیدر آباد میں میں نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا۔ ایک اعلیٰ انسان کی جو خوبیاں ہونی چاہیے وہ تمام تر خوبیاں آپ میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
13 مارچ 2022 کو بی. این منڈل یونی ورسٹی ( بہار) میں بزم صدف انٹرنیشنل اور بی. این منڈل یونی ورسٹی کے اشتراک سے دو روزہ سے می نار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سے می نار میں مجھے بھی شرکت کرنے اور پیپر پڑھنے کا موقع ملا۔ صفدر سر نے اس سے می نار میں ملک کی یونی ورسٹیوں میں کی جانے والی تحقیق کے حوالے سے مدلل گفتگو کی۔ آپ کا کلیدی خطبہ سن کر میں ورطہ حیرت میں تھا کہ آپ کی دسترس میں علم کا ہر نقطہ کیسے رہتا ہے۔
صفدر امام قادری کا آبائی گھر:
5 مارچ 2023 کو "مولانا ولی رحمانی کی سیاسی بصیرت" کے موضوع پر ایک سے می نار امارت شرعیہ ضلع مغربی چمپارن، بیتیا بہار میں منعقد ہوا۔ مارچ کے شروعاتی دنوں میں بھی بہار میں اچھی خاصی سردی رہتی ہے۔ میں کلکتہ سے بذریعہ ٹرین بیتیا کے لیے روانہ ہوا۔ بیتیا صفدر سر کا آبائی وطن ہے۔ مغربی چمپارن کی یہ جگہ ملک کی جنگ آزادی میں بھی انقلابی تحریکوں کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ مجھے خوشی تھی کہ میں صفدر سر کی جائے ولادت، ان کے آبائی وطن کو دیکھنے جارہا ہوں. جب میں ٹرین میں سوار ہوا، سر کا فون آیا کہ آپ کی ٹرہن چل پڑی ہے آپ اطمنان سے ہیں ٹرین میں ہیں ۔۔۔؟ جی سر۔ راستے میں وقفے وقفے سے سر سے بات ہوتی رہی۔ صفدر سر کی اعلیٰ ظرفی دیکھیں کہ میری ٹرین رات کے آخری پہر 3 بجے بیتیا پہنچی۔ اسٹیشن پر سر اس سرد رات میں مجھے لینے خود آئے تھے۔ چاہتے تو اپنے ڈرائیور یا گھر کے کسی ملازم کو بھیج سکتے تھے. سر میرے استقبال کی خاطر پیلٹ فارم پر کھڑے تھے۔ میں نے کہا سر آپ نے کیوں تکلیف کی۔؟ صبح ہی سے می نار ہے، آپ ساری رات جاگتے رہے ہیں۔ "کوئی بات نہیں" سردی کی رات، راستہ سنسان، صفدر سر مجھے مختلف جگہوں سے متعلق  بتارہے تھے۔ انگریزوں کے زمانے کا چرچ اور ان کے زمانے کی سڑک اور اس سڑک پر لگے بلب اور کھمبے کے درمیان کندہ سال تعمیر کو بھی دکھایا کہ یہ شہر کتنا قدیم ہے۔ دراصل اس شہر سے سر کو خاص لگاؤ ہے۔پندرہ بیس منٹ بعد ہم سر کے گھر پہ تھے۔ ظفر امام قادری سر بھی جاگ رہے تھے۔ میں نے سلام کیا جواب کے بعد ظفر سر نے کہا منہ ہاتھ دھو لیجئے کھانا کھا کر آرام کیجئے۔ "نہیں سر -ٹرین میں کھانا کھا چکا ہوں۔" مجھے بالائی کمرے میں ظفر سر لے کر گئے۔ اس گھر کے در  باب علم ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ صبح کو ناشتے کے بعد ہم لوگ سے می نار کے لیے روانہ ہوئے. آج پہلا دن ہے، افتتاحی اجلاس سے پہلے پریس کانفرنس ہوا۔ صفدر سر اور ان کے دوست اور سے می نار کے کنویبر ایڈوکیٹ ذاکر بلیغ صاحب نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیا۔ مجھے بھی پہلی بار کسی پریس کانفرنس میں براہ راست بیٹھنے کا موقع ملا۔ پریس کانفرنس کے بعد افتتاحی اجلاس شروع ہوا۔ اس سے می نار میں صفدر سر نے ملک کی سیاست اور علماے کرام کی خدمات اور عصری تقاضوں پر بلیغ خطبہ دیا۔ آپ نے ملک و ملت کے درپیش مسائل پر بے باکی سے اپنی باتیں رکھیں۔ اس سے می نار میں مجھ ہر یہ عقدہ کھلا کہ آپ صرف ادب پر ہی دسترس نہیں رکھتے مذہبی معاملات اور ملکی سیاست سے بھی مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔ اس کا بین ثبوت عرضداشت کے عنوان کے تحت لکھے گئے آپ کے صحافتی کالم بھی ہیں۔ دوسرے روز مولانا ولی رحمانی پر ہونے والے اس "سے می نار" میں ملک و بیرون ملک کی نامور علمی و ادبی ہستیوں کی شرکت یوئی۔ جامع ازہر، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنو کے علاوہ حیدر آباد اور امارت شرعیہ بہار کے تمام ذمہ داران بہ شمول مولانا محمد فیصل ولی رحمانی نے شرکت کی۔ صفدر سر نے نظامت کی۔ اس سے می نار میں ملک کے جید علما موجود تھے۔ مجھ جیسے ادنا طالب علم کو نہ صرف مقالہ پڑھنے کا نادر موقع ملا بلکہ مولانا ولی رحمانی کی سیاسی بصیرت پر دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب میں میرا مضمون بھی شامل کیا گیا۔ صفدر سر اور ایڈوکیٹ ذاکر بلیغ نے اس کو مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب بھی آپ کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے۔ پہلے روز کے افتتاحی اجلاس کے بعد میں صفدر سر کے ساتھ ان کی بڑی بہن کے گھر بھی گیا۔ آپ کی ہمشیرہ کا گھرانہ بھی علمی گھرانہ ہے۔ بچے اور بہو ڈاکٹر ہیں۔ علم و ادب کے علاوہ مذہبی معاملات میں بھی یہ گھر بہت فعال ہے۔ دین کے تحفظ کے مسئلے ہر آپ کی بہن آپ سے ہم کلام تھیں. آپ کی بہن کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ آپ بھی علمی درک رکھتی ہیں۔ سے می نار کے خاتمے کے بعد صفدر سر نے دوسرے دن "بالمیکی ٹائیگر ریزرب فوریسٹ" گھومنے کا منصوبہ بنایا۔ مجھے بھی اشتیاق تھا۔ طے یہ پایا کہ صبح 6 بجے ہم سب روانہ یوں گے۔ ظفر امام قادری سر اور ان کی اہلیہ ان کے گھر کی دو بچیوں کے ساتھ میں اور صفدر سر روانہ ہوئے۔ یہاں ایک بات واضح کر دیں کہ صفدر سر کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ آپ کو اگر کہیں جانا ہے تو آپ فجر کی نماز کے بعد ہی روانہ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم سب بالمیکی فاریسٹ قریب صبح 9 بجے تک پہنچ گئے۔ راستے میں کار کا سیسہ اوپر تک اٹھا کر رکھنا پڑا کہ کوئی جنگلی جانور ہم پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ بالمیکی فوریسٹ لق و دق درختوں سے بھرا ہوا بے کراں وسعتوں میں پھیلا ہوا جنگل ہے۔ اس کا ایک سرا بہار دوسرا سرا یوپی تو بقیہ حصہ نیپال سے ملتا یے۔ جنگل گھومنے کے کے لیے سفاری گاڑی اور گارڈ لینا پڑتا یے۔ اس جنگل میں ہم لوگوں نے ہاتھی، ہرن، مور، سانپ اور کچھ الگ قسم کے جانور دیکھے۔ جنگل میں واقع واچ ٹاور پر صفدر سر کو چڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ سر کو دیکھ کر مجھے بھی ہمت ہندھی اور سر کی رہنمائی میں ہم سب نے  واچ ٹاور پر کھڑے ہوکر دور تک جنگل کو دیکھا۔ بالمیکی فوریسٹ سے نکلنے کے بعد ہم سب نیپال بھی گئے۔ دراصل آٹو یا ٹو ٹو کے ذریعے دس منٹ میں باندھ کے اوپر بنے پل کو پار کرتے ہی نیپال جایا جاسکتا ہے. صفدر سر بے محسوس کرلیا تھا کہ مجھے نیپال جانے اور گھومنے کی خواہش ہے۔ ہم نے سرحد کے اس پار کچھ گھنٹے گزارے۔ کئی سندر اور خوب صورت باغات دیکھنے اور تصویریں لینے کے بعد ہم اپنے ملک عزیز کو لوٹ آئے۔ کھانا راستے میں کھایا گیا۔یہاں بھی صفدر سر  خود کھانے کے بجائے ہم سبھوں کو کھلانے میں مصروف تھے۔ اس روز گھر لوٹنے میں رات ہوگئی۔
سفر اور مسلسل سفر سے میں تھوڑا تھک گیا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے صفدر سر کبھی نہیں تھکتے. دوسرے روز ایک بار پھر فجر کے بعد پٹنہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ میرے اٹھنے سے پہلے ہی نماز کے لیے اٹھ چکے تھے۔ ظفر سر اور ان کی اہلیہ محترمہ بھی اٹھ چکی تھیں۔ ہمارے نکلنے سے پہلے ناشتے کا انتظام تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم بیتیا سے پٹنہ کے لیے صفدر سر کی کار سے روانہ ہوئے۔
تین روز تک مجھے صفدر سر کے پشتینی گھر میں قیام کرنے کا نادر موقع ملا۔ گھر کے یر فرد میں علم و ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ کا گھرانہ اعلیٰ ظرفی کا عمدہ نمونہ ہے۔
صبح دس بجے تک ہم لوگ پٹنہ پہنچ گئے۔ یہ دوسری بار مجھے سر کے گھر آنے کا موقع ملا۔ سر نے مٹن (بکرے کا گوشت) منگوایا۔ اپنے ہاتھوں سے پکایا۔ اس روز شب برات کا دن تھا۔ اور کلکتہ کے لیے میری ٹرین رات میں تھی۔ سر کے گھر آرام کیا۔ تب تک سر کی نگرانی میں ریسرچ اسکالرز نازیہ پروین، شگفتہ ناز، منی بھوشن کمار، اختر پرویز اور مرجان علی صفدر سر کے گھر پر آچکے تھے۔ سر کے گھر روزانہ صبح سے ہی ان کے اسٹوڈنٹ آتے رہتے ہیں. سارا دن کالج میں گزرتا ہے، شام کو پھر اسٹوڈنٹ اور ملنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ کبھی بھی چہرے پر بل نہیں پڑتا کہ اس دبستان علم و ادب کا درواززہ سب کے لیے کھلا ہے۔ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ بہ قول وکیل اختر:
آپ سے جھک کر جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: میرے مشفق و مہربان استاذ: پروفیسر صفدر امام قادری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے