ڈاکٹر محمد ولی اللہ قادری
استاد گورنمنٹ انٹر کالج ضلع اسکول، چھپرا (بہار)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ (۱۸۵۶ء۔ ۱۹۲۱ء) کی باقیات الصالحات میں نثر و نظم دونوں اصناف میں عظیم سرمایہ موجود ہے۔ نثر نگاری کے باب میں ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔ صنف شاعری میں اعلیٰ حضرت کا سرمایہ ’’حدائق بخشش‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ اعلیٰ حضرت کی زندگی میں ہی، سنہ ۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ برصغیر کی متعدد عصری دانش گاہوں میں نصاب کا حصہ ہے اور متعدد محققین حدائق بخشش کے متعدد موضوعات پر تحقیقی مقالہ لکھ چکے ہیں جن کے عوض انھیں پی. ایچ۔ڈی کی سند تفویض ہوئی ہے۔ حدائق بخشش کی مقبولیت کا ایک سبب زبان کی سلاست بھی ہے۔ سو سوا سو سال بعد بھی اعلیٰ حضرت کی زبان پر قدامت کا اثر نہیں۔ حالاں کہ اعلیٰ حضرت کے نثری سرمایے میں قدامت کا احساس ہوتا ہے اور علمی حلقوں میں تسہیل کا کام بھی جاری ہے۔ اعلیٰ حضرت کے شعری مجموعہ ’’حدائق بخشش‘‘ کے مطالعے سے، قاری کو اس میں متعدد شعری اصناف کا نمونہ بہ آسانی مل جاتاہے۔ اعلیٰ حضرت نے غزل، نظم، مثنوی، رباعی، قصیدہ اور قطعات وغیرہ کی ہیئت میں اپنی شعری تخلیقات سے قاری کی ضیافت فرمائی ہے۔ البتہ جملہ اصناف شاعری کا موضوع نعت پاک اور مدح سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اعلیٰ حضرت کے شعری سرمایے میں متعدد قصائد کی زیارت ہوتی ہے ان میں قصیدہ نوریہ، قصیدۂ سلامیہ اور قصیدۂ معراجیہ قابل ذکر ہے۔ اعلیٰ حضرت کے جملہ قصائد پر اظہار خیال مقصود و مطلوب نہیں اس لیے راقم الحروف اپنی اس تحریر میں قصیدہ معراجیہ کے حوالے سے گفتگو کی کوشش کرے گا۔
قصیدہ معراجیہ کا عنوان حدائق بخشش میں یوں لکھا ہے ’’نظم نذر گدا بحضور سلطان الانبیاء افضل الصلوۃ والثناء درتہنیت شادی اسرا‘‘ چوں کہ اس نظم میں قصیدہ کے جملہ اجزا کو برتا گیا ہے اس لیے ناقدین رضا نے اس نظم کو قصیدہ قرار دیا اور یہ قصیدہ معراجیہ سے اہالیان علم و ادب میں مشہور ہے۔ قصیدہ معراجیہ اعلیٰ حضرت کی ایسی تخلیق ہے جس پر متعدد حضرات نے تفصیلی اظہار خیال فرمایا ہے۔ پاکستان کی ایک علمی شخصیت مرزا نظام الدین بیگ جام، ایم. اے شعبۂ مخطوطات نیشنل میوزیم نے مکمل جائز ہ لیا ہے جو پاکستان سے ہی ایک کتابچہ کی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ موصوف ایک مقام پر رقم طراز ہیں:
’’بلاشبہ امام احمد رضا رحمۃاللہ علیہ کا معراج نامہ اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس معراج نامہ میں مرّوجہ روش سے ہٹ کر ایک نئے انداز کا گہرا رنگ ہے، جس میں معراج کی روایتی تفصیل کے بجائے ایک تاثراتی فضا پورے قصیدے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں ساز و آہنگ کا ارتعاش روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ یہ معراج نامہ موضوعاتی ہوتے ہوئے ان کے اندازا بیان کی وجہ سے تاثراتی فضا میں ڈھل گیا ہے اور یہی اس کی بنیادی صفت ہے جو اسے دوسرے معراج ناموں سے ممتاز کرتی ہے۔‘‘
قصیدۂ معراجیہ ۶۷؍اشعار پر مشتمل ہے۔ اعلیٰ حضرت نے دوسرے قصیدہ نگار کے برعکس اپنے پہلے شعر میں قصیدے کا موضوع واضح فرمادیا ہے۔ قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے؎
وہ سرورکشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں، عرب کے مہمان کے لیے تھے
جب ہم قصیدہ کے اجزائے ترکیبی پر غور کرتے ہیں تو قصیدے کا آغاز تشبیب سے ہوتا ہے۔ اور قصیدہ نگار تشبیب میں اپنی شعری صلاحیت کا خوب مظاہرہ کرتا ہے۔ تشبیب میں موسم، حالات زمانہ، فلسفہ، حکمت اور علوم و فنون کے حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے قصیدہ میں بھی علوم و فنون کے ساتھ علم و حکمت پر مبنی اشعار کے ذریعہ قاری کی ضیافت فرمائی ہے۔ تشبیب چوں کہ عربی کا لفظ ہے اور اردو میں فارسی کے راستے سے آیا ہے اس لیے قصیدۂ معراجیہ کی تشبیب میں عربی اور فارسی دونوں زبانوں کی برکات سے محظوظ ہوا جاتا ہے۔ قصیدہ معراجیہ میں عشقیہ فضا سے مزین تشبیب کے اشعار بھی موجود ہیں۔ یہاں ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ اعلیٰ حضرت نے حقائق کے اظہار میں ذرا بھی کمی نہیں کی ہے۔ بہرکیف تشبیب کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
وہاں فلک پر یہاں زمیں پر، رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
ادھر سے انوار ہنستے آتے، ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا، سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اک تل، میں رنگ لاکھوں بناو کے تھے
یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا، نکھار ہر شئے کا ہورہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا، اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب الٹے وہ مہرانور، جلال رخسار گرمیوں پر!
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی، ٹپکتے انجم کے آبلے تھے
مذہبی قصیدہ نگاروں میں محسن کا کوروی کا نام سرفہرست ہے۔ محسن نے اپنے قصیدے کی تشبیب میں ہندو صنمیات کے حوالے سے اشعار کہہ کر اہالیان ادب کو متوجہ کیا۔ اعلیٰ حضرت جیسے عالم دین کے قصائد میں ہندو صنمیات کی گنجائش نہیں تھی. البتہ اعلیٰ حضرت نے ہندی لفظیات کو شعری جامہ پہنانے کی جو کوشش کی ہے، وہ یقیناً قابل توجہ ہے۔ قصیدۂ معراجیہ میں پیش کردہ تراکیب بھی ہمیں خاص متوجہ کرتے ہیں۔ خرد کا سرجھکانا، جہت کو لالے پڑجانا، بے خودی کا پکار اٹھنا، مرغ عقل اڑنا، خرد کے جنگل، انوار کو ہنستے آنا جیسی تراکیب اور محاورے جہاں اعلیٰ حضرت کی قادر الکلامی کی گواہی دے رہے ہیں وہیں شاعر کی شعری صلاحیت پر مہرثبت کررہے ہیں۔
اعلیٰ حضرت نے اپنے قصیدۂ معراجیہ میں بیت اللہ شریف سے بیت المقدس تک کے سفر کے حالات کو تقریباً سولہ اشعار میں پیش کیا ہے۔ ان اشعار کو ہم بہ آسانی تشبیب کے اشعار کہہ سکتے ہیں۔ مسجد بیت المقدس جسے قرآن نے مسجد اقصیٰ کہا ہے، میں تمام انبیائے سابقین کی نماز ادا کرنا اور اس نماز کی امامت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اس واقعہ کو اعلیٰ حضرت نے تلمیحاً پیش کیا ہے، وہ شعر معنی خیز ہے ؎
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر، عیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر، جو سلطنت آگے کر گئے تھے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کے ساتھ ساتھ انبیاے سابقین کے مقام و مرتبے کو جس طریقے سے اجاگر کیا ہے وہ بہت خوب ہے۔ اعلیٰ حضرت کا یہ شعر اقبال کی فکر کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ اقبال نے بھی سرکار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اول و آخر قرار دیا ہے۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں، وہی یٰسیں وہی طہٰ
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ نعت مصطفیٰ اور عقائد اہل سنت کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت اور شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کی فکر میں جو یکسانیت ہے وہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ البتہ یہاں یہ بات ضرور ہے کہ اردو کے ناقدین دونوں بزرگوں کی فکر کے سلسلے میں تضاد کا شکار ہیں۔ اعلیٰ حضرت کی مذہبی فکر میں تو ان کو بدعت اور شرک نظر آتا ہے لیکن جب اقبال کی بات آتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے اشعار میں متعدد مقامات پر اپنے آپ کو ’’عبد مصطفیٰ‘‘ لکھا ہے جس پر ناقدین کو اعتراض ہے کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے، جب کہ اقبال نے محض اللہ تبارک وتعالیٰ کا بندہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ جن کو اللہ وحدہٗ لاشریک سے محبت ہے ان کا بندہ بنے کی بھی اقبال کی آرزو ہے۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اعلیٰ حضرت نے اپنے قصیدے میں عرشِ اعظم سے لامکاں تک کے سفر کو بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ یہاں اعلیٰ حضرت کی فکر حضرت شیخ سعدی شیرازی کی فکر سے مل کر قاری کے عقیدے کو دوبالا کر رہی ہے۔ عرش اعظم کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا اکیلے لامکاں تک تشریف لے جانے والے واقعہ کے ضمن میں شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی حالت کو یوں بیان فرمایا کہ اگر جبرئیل علیہ السلام ایک بال کے برابر آگے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ کی تجلی سے جبرئیل کے پرجل جائیں گے۔ اعلیٰ حضرت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سلسلے میں جو تاویل پیش کی ہے وہ بہت ہی مناسب ہے۔ یہاں اعلیٰ حضرت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے مقام و مرتبے کا پورا خیال رکھتے ہوئے شعر کہا ہے:
تھکے تھے روح الامیں کے بازو، چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہ حسرت کے ولولے تھے
جھلک سی اک قدسیوں پر آئی، ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سواری دولھا کی دور پہنچی، برات میں ہوش ہی گئے تھے
اعلیٰ حضرت نے لامکاں کے سفر کے واقعات کو شعری جامہ پہنانے کے وقت اپنی شعری صلاحیت کا بھی بھرپور اور ناقابل بیان مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے صنائع بدائع کا بھی خوب خوب استعمال فرمایا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیا جائے:
قوی تھے مرغانِ وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر
اٹھائی سینے کو ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
یہ سن کےبے خود پکار اٹھا، نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرش اعلیٰ، گرے تھے سجدے میں بزم بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
قصیدہ میں اصل مدح ہے۔ چوں کہ قصیدہ نگاروں نے اپنے قصیدوں میں شاہانِ وقت کی مدح سرا ئی پر زور دیا ہے۔ ان کا مقصد اس کے ذریعہ انعامات حاصل کرنا تھا۔ اعلیٰ حضرت کے قصیدے کی انفرادیت ہے کہ وہ شایان وقت کی تعریف و توصیف میں نہیں ہیں بلکہ انھوں نے شاہ بنانے والی شخصیت کی مدح سرائی کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ نان پارہ کے نواب نے اعلیٰ حضرت سے قصیدہ کی فرمائش کی۔ چوں کہ حضرت نوری میاں کا وہ نواب مرید تھا اس لیے اس نے نوری حضرت میاں علیہ الرحمہ کو واسطہ بنایا۔ اعلیٰ حضرت کو جب نانپارہ کے نواب کی آرزو کی خبر ملی تھی آپ نے فوراً قلم لیا اور نعت نبی لکھنے لگے اور مقطع میں ارشاد فرمایا ؎
کروں مدح اہل دول رضا، پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ ناں نہیں
اس نعت کا مطلع بھی بہت خوب ہے۔ اس نعت کا تعلق بھی معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے وہ بھی ملاحظہ کریں:
وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے سرعرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
بہر کیف! قصیدۂ معراجیہ میں اعلیٰ حضرت نے اپنے ممدوح کی تعریف و توصیف مقدور بھر کی ہے۔ یوں تو اس قصیدے کا ہر شعر بالواسطہ یا بلا واسطہ محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا پر مبنی ہے۔ اعلیٰ حضرت نے لامکاں پر پہنچنے کے واقعات کے ضمن میں اپنے نبی کی تعریف میں قلم کو توڑ دیا ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی چند اشعار سے قلب کو منور کیا جائے :
یہی سماں تھا کہ پیک رحمت، خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو، کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد، قریب آسرور ممجد
نثار جاؤں یہ کیا نداتھی، یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
قصیدہ میں شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کے ساتھ ساتھ مخالفین کی ہجو میں بھی اشعار کہتا ہے۔ سوداؔ کے یہاں تو ہجویہ قصیدہ ملتا ہے۔ اعلیٰ حضرت چوں کہ ایک عالم دین تھے اور عالم کی شان کسی کی ہجو بیان کرنا نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد مخالفین اور ممدوح کے مقام کے منکرین کی اصلاح ہوتا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے قصیدۂ معراجیہ میں ہجویہ اشعار سے احتراز فرمایا ہے البتہ شعری تقاضے کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے منکرین معراج پر جو طنز کیا ہے وہ اس قصیدے کے ادبی وقار کو دوبالا کررہا ہے:
سراغ این و متیٰ کہاں تھا، نشان کیف و الیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی، نہ سنگ منزل نہ مرحلے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو، تم اول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
قصیدے میں تقابل کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ شاعر دیگر شعرا کے مقابل میں عمدہ اشعار کے ذریعہ اپنے ممدوح کے مقام کو بلند کرنا چاہتا ہے۔ قصیدۂ معراجیہ میں بھی تقابلی اشعار مل جاتے ہیں۔ اس کی مثال اوپر لکھے گئے اشعار میں موجود ہے۔ محض ایک شعر ملاحظہ کریں:
تبارک اللہ شان تیری، تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی، کہیں تقاضے وصال کے تھے
قصیدہ معراجیہ میں شاعر نے محض سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وثنا پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ شاعر ممدوح کی ذات سے متصف معراج کے معجزہ کی حقیقت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ شاعر نے یہاں یہ بھی بتایا ہے کہ جب خود خالق کائنات اپنے محبوب کے وصال کا مشتاق ہو تو معراج کا واقعہ کیوں نا ممکن ہو؟ یہاں اعلیٰ حضرت نے رب کے حضور آقا ئے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا نقشہ بھی بہت عمدہ انداز میں پیش فرمایا ہے۔ اسی قبیل کے چند اشعار بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں ؎
ادھر سے پیہم تقاضے آنا، ادھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا، جمال ورحمت ابھار تے تھے
بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے، حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے، تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا ادھر کا
تنزلوں میں ترقی افزا دنیٰ تدلّی کے سلسلے تھے
اٹھے جو قصر دنیٰ کے پردے، کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی، نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے، ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر، وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے، اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
قصیدہ کے اجزائے ترکیبی میں دعا اور طلب بھی شامل ہے۔ قصیدہ نگار شعرا اس مقام پرعمدہ اشعار کے ذریعہ شاہان وقت سے داد اور انعام حاصل کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے قصیدۂ معراجیہ میں دونوں اجزا کے لیے محض دو اشعار خلق فرمایا ہے۔ اعلیٰ حضرت کا عقیدہ ہے کہ میرا محبوب عام شاہوں کی طرح نہیں بلکہ ان کی سلطنت تو مومن صادق کے دلوں پر ہے۔ اس لیے وہاں زبان کھولنا بے ادبی کے مترادف ہے۔ اعلیٰ حضرت نے تو ایک مقام پر اپنے محبوب کے سلسلے میں یوں اظہار خیال فرمایا ہے:
حاجیوں آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو * کعبہ تودیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
جس شاعر کی نظر میں اس کا محبوب کعبے کا کعبہ ہو، اس کی بارگاہ میں طلب کی ضرورت نہیں اور اس کے لیے دعا کی گنجائش کہاں؟ بہر حال قصیدہ معراجیہ میں پیش کی گئی طلب اور دعا کے اشعار ملاحظہ ہوں:
نبی رحمت شفیع امت، رضاؔ پہ للّہِ ہو عنایت
اسے بھی اُن خلعتوں سے حصّہ، جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ، قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا، روی تھی کیا کیسے قافیے تھے
اعلیٰ حضرت نے اپنے پورے قصیدے میں جس انکساری کا مظاہرہ کیا ہے وہ دیگر شعرا سے آپ کے مقام کو اونچا کرتا ہے۔ پورے قصیدے میں اپنے محبوب کے لیے جملہ تعریفات نچھاور کرنا اعلیٰ حضرت جیسے سچے عاشق رسول کا ہی حصّہ ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے کلام کی اس خصوصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر ریاض مجید نے دل لگی باتیں کہی ہیں۔ راقم ان کی رائے سے ہی اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ پروفسیر ریاض مجید رقم طراز ہیں:
’’مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے الفاظ کے انتخاب اور تشبیہ و استعارہ میں خوشی کے عنصر کو ملحوظ رکھا ہے۔ بحر کا ترنم اور نشاطیہ آہنگ اس پر مستزاد۔ اس معراجیہ نظم میں اشارہ و کنایہ سے موضوع کی اس خوبصورتی سے ترجمانی کی گئی ہے کہ مولانا کی شعری استعداد کا اندازہ ہوتا ہے۔ خصوصاً قرب الہٰی کی کیفیت، اس کیفیت کا عالم محسوسات سے ورا ہونا اور اعراض یعنی این و متی کیف و کم کا اس عالم قرب میں گم ہونا، زماں و مکاں اور ابتدا و انتہا، نیز اطراف و حدود کے تعینات سے دور معراج رسول اکرم کی کیفیت و مشاہدہ کا اظہار مولانا نے جس ایما و کنایہ سے کیا ہے وہ ان کی معجزبیانی کا شاہ کار ہے۔‘‘
٭٭٭
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : صفدر امام قادری کا تنقیدی شعور

رضا بریلوی کا قصیدۂ معراجیہ: ایک جائزہ
شیئر کیجیے