کنڑ افسانہ نگار : بانو مشتاق
انگریزی ترجمہ نگار: دیپا بھاستی
انگریزی سے اردو ترجمہ نگار: محمد عامر حسینی
ادارتی نوٹ:
بانو مشتاق کو جب 2025 کا انٹرنیشنل بکر پرائز ملا تو دنیا بھر کے فکشن پریمیوں نے ان کی کہانیوں کو پڑھنا چاہا. اردو کے کئی لوگوں نے ان کی کہانیوں کی قرات کے بعد جو ریٹنگز دیں وہ منفی تھیں. یہی وجہ ہے کہ ارجمند آرا نے دی وایر پر شایع اپنی ترجمہ کردہ کہانی پر نوٹ میں لکھا کہ بانو مشتاق کی کہانیوں کو سماجی سروکار کے لیے پڑھنا چاہیے. اس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ بانو مشتاق کی کہانیوں میں فن کا کوئی وجود نہیں ہے.
میں نے ان کی دو تین کہانیاں پڑھیں اور مجھے انھیں غور سے پڑھنا پڑھا، لیکن جب محمد عامر حسینی کا ترجمہ نظروں سے گزرا تب ان کہانیوں کا اصل لطف حاصل ہوا. ایک ہی شہہ پارے کے دو تین ترجمے پڑھنے سے ترجمے کے فن کا حسن و ہنر بھی نظر آتا ہے.
اشتراک ڈاٹ کام نے محمد عامر حسینی کے ترجمہ کردہ دو افسانوں کو شایع کیا ہے. ان ترجموں کو پڑھ کر ایک قاری فیصلہ کر سکتا ہے کہ بانو مشتاق کی کہانیوں میں فن کا وجود ہے یا نہیں؟ یہاں بانو مشتاق اور محمد عامر حسینی کا تعارف بھی شامل کیا گیا ہے. تصویر کی کاپی رائٹ کی وجہ سے بینر بنانے میں ہم نے آرٹی فیشل انٹلی جنس کی مدد لی ہے.
بانو مشتاق کے بارے میں:
کنڑ زبان کی ممتاز افسانہ نگار بانو مشتاق کی کتاب ہارٹ لیمپ (چراغ دل) کے انگریزی ترجمے کو سال 2025 کا انٹرنیشنل بکر پرائز عطا کیا گیا۔ یہ کنڑ زبان کے لیے پہلا موقع ہے کہ اسے عالمی سطح پر اتنا بڑا اعزاز حاصل ہوا۔ یاد رہے کہ بکر پرائز، میک کانیل کمپنی نے 1968ء میں قائم کیا تھا اور اس کا پہلا انعام 1969ء میں دیا گیا تھا۔
بانو مشتاق کا اصل نام سیدہ خوشتربانو ہے۔ وہ 1948ء میں ہندستان کے صوبۂ کرناٹک میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ایک مشنری اسکول میں حاصل کی۔ ان کے والد، جو سینئر ہیلتھ انسپکٹر تھے، ملازمت کے سبب مختلف شہروں میں منتقل ہوتے رہتے تھے۔ وہ بانو مشتاق کو پیار سے "بیٹا” کہہ کر پکارتے تھے۔ بانو مشتاق کی والدہ محض بارہ برس کی عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور چودہ برس کی عمر میں بانو کو جنم دیا۔ اپنی والدہ کی کم عمری کی شادی کا ذکر بانو مشتاق نے جس انداز سے کیا ہے، اس سے ان کے معاشرتی شعور اور فکر مندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انھیں بچپن والد کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ان کے دادا ایک گاؤں کے قاضی اور اُردو اسکول کے استاد تھے۔ بانو مشتاق چھ بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انھوں نے ایک اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ بعد ازاں آل انڈیا ریڈیو بنگلور سے وابستہ رہیں اور کچھ عرصہ وکالت کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ یوں انھوں نے سماجی سطح پر نہایت متحرک گزاری۔
بانو مشتاق کو پہلے بھی کرناٹک ساہتیہ اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ہارٹ لیمپ میں بارہ کہانیاں شامل ہیں جو 1990ء سے 2023ء کے دوران مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئیں۔ ان کہانیوں کا انگریزی ترجمہ دیبا بھاستھی نے کیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل ایک کہانی کا عالمی ادبی جریدے پیرس ریویو میں شایع ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ بانو مشتاق کی شہرت پہلے ہی اپنے ملک سے نکل کر دنیا تک پہنچ چکی تھی۔
بانو مشتاق کی کہانیوں کا مرکزی موضوع شادی شدہ عورت کی زندگی ہے، جو روایتی طور پر وفاداری اور گھریلو ذمہ داریوں سے جڑی سمجھی جاتی ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں عورت کی ازدواجی زندگی اور اس سے وابستہ نفسیاتی و سماجی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔
محمد عامر حسینی کے بارے میں :
محمد عامر حسینی کا تعلق پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ایک اہم شہر، خانیوال سے ہے۔ صحافت، فکشن نگاری، ترجمہ نگاری اور شاعری میں ان کی طبع آزمائی سے ان کی شخصیت و فن کو تنوع اور کثیر الجہتی حاصل ہوئی ہے. فیس بک کے ذریعے میں ان کی نگارشات سے مستفید و محظوظ ہورہا ہوں. اب تک ان کی چھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جو تنقید، سماجیات، سیاسی تجزیے اور ادبی موضوعات پر محیط ہیں۔ صحافت ان کا خاص میدان ہے لیکن وہ صرف صحافت تک محدود نہیں بلکہ فکشن بھی لکھتے ہیں اور شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کا ایک اور اہم پہلو غیر ملکی ادب کے اردو تراجم ہیں، جن کے ذریعے انھوں نے عالمی ادب کو اردو زبان میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں ان کی کاوشیں علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں.
افسانے یہاں پڑھیں : 👇