صوفیہ معین
لیڈی برابورن کالج، کولکاتا
"نئے مزاج کا ساون" بنگال کی نئی نسل کے نمائندہ شاعر جناب ارشاد مظہری صاحب کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جو سال2019ء میں منظر عام پر آیا۔ ارشاد صاحب کی پیدائش کلکتہ میں ہوئی۔ کلکتہ ایک زمانے سے ہی اپنے سینے میں موجود ادب و ثقافت کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے اور ان سب معاملوں میں بھی یہ شہر کسی سے کم نہیں ہے اور یہاں کی مٹی نے ہر زمانے میں اپنی زرخیزی سے ادب کے نئے اور کار آمد پودوں کو جنم دیا ہے. ارشاد مظہری بھی ان میں سے ایک ہیں۔
"نئے مزاج کا ساون" ارشاد مظہری کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو 136 صفحات پر مشتمل ہے. شاعر خود اپنے مجموعہ کلام کے بارے میں کہتے ہیں:
"اس کی تخلیق میں میرے مشاہدات و تجربات کا ہر وہ منظر قید ہے جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور جسے میرے دل نے محسوس کیا، چاہے وہ رنج و غم کی چادر میں لپٹی سیاہ راتوں کے خواب ہوں یا چاندنی رات میں آنگن میں جگمگاتے ہوئے جگنوؤں کی برات۔"
اس مختصر لیکن جامع گفتگو کے ساتھ وہ آگے بڑھتے ہیں اور سب سے پہلے حمد سے اس کتاب کی شروعات کرتے ہیں جس کا مطلع انسانی مزاج کی عکاسی ایک الگ زاویے سے کرتا ہے، یعنی واقعی ہم ہوش کی حالت میں ہو کر بھی بے ہوشی والے اعمال کرتے ہیں لیکن اگر کسی چیز کا ہوش ہے تو وہ یہ کہ مالک کون ہے خالق کون ہے:
تو رحیم ہے، تو کریم ہے، تو جمال ہے، تو جلال ہے
مرے ہوش مجھ سے جدا سہی، مجھے پھر بھی اتنا خیال ہے
اس مجموعۂ کلام میں دو حمد، دو نعت شریف، دو منقبت جس میں پہلی منقبت حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرا غوثِ پاک رحمتہ اللہ علیہ کے لیے لکھا گیا ہے۔ اس میں کل 97 غزلیں، 9 نظمیں، اور 3 قطعات موجود ہیں۔
اگر ہم ان کی غزلوں کی طرف نظر دوڑائیں تو اس مجموعے میں موجود پہلی غزل کا مطلع صرف مطلع نہیں بلکہ اعلان توجہ ہے جو قاری کو خود سے جوڑنے کی بہت پیاری کوشش ہے اور اپنائیت بھی موجود ہے.
ہماری فکر تمہارے گمان تک پہنچے
زمیں کی خاک کبھی آسمان تک پہنچے
شاعر موصوف کے استاد نم اعظمی صاحب کا ماننا تھا اور خود ان کا بھی یہی ماننا ہے: "شاعر شعر نہ کہے تو مر جائے."شاعری سماج کی عکاسی کرتی ہے اور سماج میں ہونے والے بیشتر افعال شاعری سے منسلک ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے. شاعر کا یہ شعر دیکھئے:
خواب دونوں نے مل کے دیکھے تھے
میری آنکھیں ہی کیوں چھلکتی ہیں
شاعر اس شعر میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے سماج کا وہ عکس دکھانے کی کوشش میں ہے جو واقعی دیکھنے لائق ہے تاکہ رشتوں کا رستہ صاف نظر آئے. خواب تو دو لوگ مل کر دیکھتے ہیں لیکن آخر میں آنکھیں صرف ان کی ہی چھلکتی ہیں جو دل اور روح سے رشتہ نبھاتے ہیں، یعنی جو بے لوث ہوتا ہے اسی کا loss ہوتا ہے۔
اگلا شعر دیکھیے، عمومی طور پر یہ شعر عشقیہ دکھ رہا ہے۔ کیوں کہ شاعر خود فرماتے ہیں کہ "شاعری سماج کا عکس ہے اور سماج میں عشقیہ آئینے بھی موجود ہیں، چہرے بھی۔"
کرن سی تیز ہے ارشاد رفتار حیات نو
گھڑی کی سوئی سے آگے نکل پاؤ تو اچھا ہے
رات کی تاریکیوں سے ہی ملے گی صبح نو
ساتھ میرے جانب حد گماں چلتے رہو
ارشاد مظہری کے یہاں تقریباً ہر دو غزل کے بعد آنے والی غزل کے کسی نہ کسی شعر میں "رات اور حیات" کے حوالے سے کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جس سے ان کے موضوعات میں بہت حد تک رنگینی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے یہاں زندگی کے اس کٹھن سفر میں فرد کی حسی کشمکش میں جہاں کہیں بھی کوئی امید کی کرن زمانے کی دھند میں نظر نہیں آتی تو سورج کی کرن ایک نور شاعر کی زندگی کی آنکھوں میں بھر دیتا ہے۔ اور یہ شاعری ایک قاری کے لیے ان حالات میں امید کا سہارا بن جاتی ہے جس سے ان کے یہاں ان الفاظ کی اپنی اہمیت و معنویت بر قرار رہتی ہے۔ دیکھیے زندگی کو کتنے الگ انداز میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش ہے جو واقعی بتاتی ہے کہ شاعر کو لفظوں کا درست استعمال آتا ہے:
ریت کی دیوار ہوں میں پانیوں سی زندگی
پاس رہ کر بھی پرے ہے تتلیوں سی زندگی
خواہشوں کی بھٹیوں میں لمحہ لمحہ ان دنوں
جل رہی ہے گیلی گیلی لکڑیوں سی زندگی
رات کے خوابوں کی حد سے دن کے روشن دان تک
بن رہی ہے جال ہر سو مکڑیوں سی زندگی
میں نے مانگی تھی خوشی بس چار ہی دن کے لیے
پھنس گئی میرے گلے میں ہڈیوں سی زندگی
ساتھ چھوٹا تھا جہاں ارشاد ان گلیوں میں اب
موت اوڑھے گھومتی ہے پگلیوں سی زندگی
ارشاد مظہری کی اس غزل میں متنوع زاویوں سے زندگی اور اس کے رنگوں کی کہانی درج ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا اسلوب بہت دور سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ شاعر نے زندگی اور زندگی سے منسلک اشیا کو بہت ہی قرینے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری میں حیات و کائنات کے مسائل بھی درجہ بہ درجہ بیان ہوتے ہیں اور اس بیان نے ان کے یہاں جمالیاتی رنگ پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری ان احساسات کو احساس کی زبان بنا لینے میں کامیاب ہے۔
اگر ہم ارشاد مظہری کے مجموعۂ کلام "نئے مزاج کا ساون" کا مکمل مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی شاعری میں ہمیں حقیقت پسندی دکھائی دیتی ہے اور اسی کے ساتھ ان کی تمام غزلوں، نظموں، اور قطعات میں سچے اور اچھے الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ ان کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں تصنع سے پرہیز کیا گیا ہے۔
ان کی شاعری کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے زندگی اور وقت کو ایک ہی شے قرار دیا ہے جو ایک بار چلے جانے کے بعد واپس نہیں آسکتی۔
انھوں نے اس مجموعے میں 9 نظمیں بھی لکھیں ہیں جن میں سے زیادہ تر نظمیں آزاد ہیں جیسے بس ایک خواب، خریدار، آرزو، بے حسی، عید وغیرہ۔
جو آیا ہے اس کو واپس ہونا ہے
سچ ہے یارو! کہنے والے کہتے ہیں
یہ بھی سچ ہے موت نہیں آتی ہےسب کو
مر کر زندہ رہنے والے رہتے ہیں
یہ قطعہ ان کے مجموعہ کلام کا آخری حصہ ہے اسی کے ساتھ اس کتاب کا اختتام ہوتا ہے اور اس کے قاری کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا حسین موقع فراہم ہوتا ہے بلکہ مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں کہ نئے مزاج کے ساون کی ان بوندوں میں بھیگنے سے شعری جمالیات کا خوب صورت احساس بھی ہوگا اور قارئین اس ساون سے زندگی کے بہتیروں اہم پہلؤوں کو اچھے سے دیکھ بھی سکتے ہیں.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: کتاب: بن پھول
کتاب: "نئے مزاج کا ساون" (شعری مجموعہ)
شیئر کیجیے