یومِ ولادت (۳؍اگست کے خصوصی موقعے سے)
محمد مرجان علی
ری سرچ اسکالر، جے پرکاش یونی ور سٹی، چھپرا
زندگی کے سفر میں کچھ شخصیات ایسی بھی ملتی ہیں جو محض راستہ دکھانے والے چراغ کے مانند نہیں ہوتیں بلکہ اپنے اقوال و افعال سے خود نور بن کر ہمارے اندر سرایت کر جاتی ہیں۔ اُن کا ساتھ ہمیں صرف سکھانے، پڑھانے یا ہماری اصلاح کرنے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمارے احساسات، خیالات اور فہم و فراست کو ایک نئی جہت عطا کرتی ہیں۔ میرے لیے ظفر کمالی صاحب بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں جن سے وابستگی صرف ادبی نہیں، ذاتی اور قلبی بھی ہے۔ وہ ایک معیاری فن کار اور استاد ہیں لیکن سب سے بڑھ کر ان کی حیثیت ایسے احساس کی طرح ہے جو میرے تعلیمی و تخلیقی سفر میں ہمہ وقت آگے بڑھنے اور لگن سے کام کرنے کا حوصلہ دیتا رہتا ہے۔ اُن کی نرم طبیعت، بچوں جیسی معصومیت اور فکر کی گہرائی نے صرف میری ادبی زندگی کو سنوارا نہیں بلکہ زندگی کی مشکل راہوں کو بہ خوشی جینے کا اُنھوں نے ہنر سکھایا ہے۔
موجودہ دَور کے ادبی منظر نامے پر جو لوگ سرِ فہرست ہیں، اُن سے چند اہم افراد سے ذاتی طور پر تعلقات قائم کرنے کا سہرا استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری کے ہی سر جاتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر کمالی سر سے بھی میری آشنائی صفدر سر کے ذریعہ ہی ہوئی۔ کلاس کے دوران بھی اُن کا تذکرہ بار بار آتا یا کبھی کوئی مثال دینی ہوتی تو صفدر سر ظفر کمالی صاحب کی نظمیں یا رباعیات سناتے تو کبھی اُن کے ساتھ گزرے لمحات کو خوش اسلوبی سے بیان فرماتے۔ آج بھی مجھے وہ مبارک لمحہ یاد ہے جب سنہ ۲۰۲۱ء میں ظفر کمالی سر کی ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ کتاب ’حوصلوں کی اُڑان‘ چھپ کر آئی تو صفدر سر نے اُسے میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا تھا: ’’جاؤ اِس پر تبصرہ لکھ کر کل صبح تک لے آنا۔‘‘ استادِ محترم کا یہ ظریفانہ لہجہ ہم شاگردانِ قادریہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر ضخیم کتابیں شاگردوں کے حوالے کرتے ہوئے یوں ہی فرماتے ہیں اور یہ بات میرے لیے بھی نئی نہیں تھی۔ چنانچہ مسکرا کر خاموشی سے ہامی بھرنے کے سوا میرے پاس چارۂ کار ہی کیا تھا؟ جب میں نے کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو یہ اندازہ ہوا کہ ظفر کمالی صاحب بچوں کے کس قدر نرم اور حسّاس قلم کار ہیں۔ مجھے اُسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ شخصیت بچوں ہی نہیں بلکہ شاگردوں کے لیے بھی اپنے دل میں بھر پور جذبۂ محبت رکھتی ہوگی۔ یہ میری اُن کی تحریروں سے آشنائی کا پہلا مرحلہ تھا۔
یہ بات ۲۰۲۱ء کی ہے جب میری پہلی ملاقات پروفیسر ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب سے ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح ایک دن شام کے وقت میں استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوا۔ وہاں پہنچا تو خلافِ معمول ایک خاص قسم کی سرگرمی محسوس ہوئی۔ کچھ تیاریوں کی گہما گہمی تھی۔ ابتدائی خیال یہی آیا کہ شاید سر کہیں سفر پر روانہ ہونے والے ہیں جیسا کہ اکثر اُن کا معمول ہوتا ہے۔ کبھی کسی سے می نار میں شرکت کے سلسلے سے تو کبھی دہلی میں اپنی صاحب زادی (شبیہہ آپی) سے ملاقات کے لیے مگر اس بار منظر کچھ الگ سا تھا۔ تیاریوں میں ایک خاص سنجیدگی اور شوق نظر آ رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ بیٹھتے ہی پوچھا: "سر، آپ کہیں جا رہے ہیں؟‘‘ صفدر سر نے اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر کہا: ’’کیوں، تمھیں بھی چلنا ہے؟‘‘ میں نے جھٹ سے ہامی بھر لی: ’’ہاں سر! اگر اجازت ہو تو ضرور ساتھ چلوں گا۔‘‘ سر نے فرمایا: ’’تو ٹھیک ہے، کل صبح نکلنا ہے۔ چار پانچ دن کے لیے جا رہے ہیں، شادی میں شرکت کرنی ہے، اسی حساب سے تیاری کر لینا۔‘‘ اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہاں جانا ہے اور میں چونکہ ان دنوں کچھ کم گو بھی ہوا کرتا تھا، اس لیے یہ پوچھنے کی جسارت نہ کر سکا۔ جو کہا گیا، بس اُسی پر ’’آمنّا و صدّقنا‘‘ کہہ کر تیاری میں لگ گیا۔
اگلے روز وقتِ مقررہ سے پہلے ہی سر کے دولت کدے پر حاضر ہو گیا۔ جب روانگی ہوئی تب معلوم ہوا کہ ہم لوگ سیوان جا رہے ہیں اور وہ بھی کسی عام تقریب میں نہیں بلکہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب کے یہاں اُن کے بڑے صاحب زادے کی شادی میں شرکت کے لیے۔ یہ جان کر دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ وہی ظفر کمالی جن کے تذکرے ہم نے کلاس کے دوران صفدر سر کی زبانی بارہا سنے تھے اور جن کی نظمیں ہم نے پڑھی تھیں۔ اُن کی علمی خدمات سے ہم آشنا تھے اور اُن کے بارے میں یہ بھی سنا تھا کہ بچوں سے وہ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ آج اُن سے روٗ بہ روٗ ہونے کا موقع ہاتھ آ نے والا تھا۔
سیوان پہنچنے تک خوشی کا یہ عالم تھا کہ جیسے کوئی خواب شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہو لیکن وہاں پہنچ کر جو منظر دیکھا، وہ مزید حیرت انگیز تھا۔ جس طرح صفدر سر کے یہاں کتابوں کا ایک جہان آباد تھا، بعینہٖ کمالی صاحب کے یہاں بھی کتابوں کا ایک لا متناہی سلسلہ نظر آیا۔ شادی کے سازوسامان سے زیادہ کتابیں نظر آ رہی تھیں۔ کتابوں سے الماریاں تو اَٹی پڑی تھیںہی، شادی کی تیاریوں کے بیچ فرش پر یا کسی گوشے میں علم و ادب کے یہ آثار بکھرے پڑے نظر آ رہے تھے۔
ہم لوگ کھانے کے وقت پہنچے تھے۔ پُرتکلف دسترخوان سجا اور خوب تواضع ہوئی مگر اس کے بعد ایک خلِش سی محسوس ہونے لگی۔ ماحول کچھ اجنبی سا لگ رہا تھا۔ دل میں بے چینی ہوئی تو میں نے تسلیم بھائی (ڈاکٹر تسلیم عارف، صدر شعبۂ اردو اور نوڈل اَفسر ، ایس ایس، وی کالج، کَہَل گانو، بھاگل پور)کو فون کیا اور کہا: ’’بھائی! پتا نہیں کہاں لے آئے سر ہم کو، دل نہیں لگ رہا، بہت بوریت محسوس ہو رہی ہے۔‘‘تسلیم بھائی جو پہلے سے ظفر کمالی صاحب کے مزاج سے واقف تھے، انھوں نے میری بات کا بڑا لطف لیا اور خوب زور سے ہنس کر بولے: ’’بس دو گھنٹے رُک جاؤ، پھر خود کہو گے کہ واپسی نہ ہو!‘‘ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے ظفر کمالی صاحب کو قریب سے جاننے کا موقع ملا ہو۔ شام تک اُن کی محبت، مہمان نوازی اور شگفتہ مزاجی نے ہمیں ایسا جکڑ لیا کہ بوریت کا لفظ ہم بھول ہی گئے۔ کبھی کوئی واقعہ، کبھی کوئی ظریفانہ بات، کبھی بے ساختہ ہنسی اور یوں محسوس ہوا کہ ہم کسی برگزیدہ علمی شخصیت کی نہیں ، ایک بے تکلف دوست کی محفل میں ہیں۔
قیامِ سیوان کے وہ پانچ دن محض ایک شادی میں شرکت کا موقع نہیں تھا بلکہ حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے علم دوست انسان کی مہمان نوازی، دوست داری، خلوص و للہیت اور ان کی شائستہ زندگی کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع بھی تھا۔ ظفر کمالی سر کی یہ میزبانی نہ صرف قابلِ تعریف تھی بلکہ قابلِ تقلید بھی۔ وہ جس محبت، خودداری اور ذاتی توجہ سے اپنے مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے رہے، وہ آج کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہم نے بار بار یہ منظر دیکھا کہ ظفر کمالی صاحب کسی کام کو کسی اور کے سپرد نہیں کرتے تھے۔ چائے ہو یا پانی، ناشتہ ہو یا کھانے کے لیے مہمانوں کو بلانا؛ ہر کام وہ خود کرتے۔ یہاں تک کہ چاے یا ناشتے کے لیے بھی وہ کسی شاگرد یا خادم کو نہیں بھیجتے تھے۔ خود دو منزلہ عمارت کے زینے طے کرکے اوپر آتے، دروازہ کھٹکھٹاتے اور نہایت نرم لہجے میں آواز دیتے۔
رہائش کے لیے انھوں نے جو کمرہ ہم لوگوں کو عنایت کیا تھا، وہ اُن کے ذاتی مطالعے اور تصنیف و تالیف کے لیے مخصوص کمرہ تھا جہاں ایک بڑا بستر، اٹیچڈ باتھ روم اور پُرسکون ماحول تھا۔ ہم نے بہت بار اُن کے طرزِ عمل میں یہ بات محسوس کی کہ وہ مہمان کو کسی صورت زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ شاید اسی لیے اُنھوں نے اپنا ذاتی کمرہ ہمارے لیے مخصوص کر دیا اور خود زینے چڑھ کر اوپر نیچے آتے جاتے رہے۔ فجر کے بعد جب کبھی صفدر سر آرام فرما رہے ہوتے اور کمالی صاحب چاے لے کر آتے تو دروازہ ہلکا سا کھول کر دیکھتے کہ نیند میں خلل نہ ہو۔ اگر سر سو رہے ہوتے تو لَوٹ جاتے اور کچھ دیر بعد دوبارہ آ کر پوچھتے کہ سر بیدار ہوئے یا نہیں۔ ایک دن نہیں، کئی دن یہی عمل دہرایا گیا۔
ناشتے کے وقت تو ان کی محبت اپنے شباب پر ہوتی۔ دسترخوان پر بیٹھتے ہی وہ اس طرح توجہ دیتے کہ اگر آپ کی پلیٹ میں روٹی موجود ہو تب بھی اس کے اوپر ایک اور تازہ روٹی ان کے ذریعہ رکھ دی جاتی۔ اُن کے ساتھ ناشتہ کرنا گویا محبت اور خلوص کی ضیافت میں شریک ہونا تھا۔ حالاں کہ اس موقعے پر ان کے بے شمار شاگرد سیوان میں موجود تھے جو ہر لمحہ حاضرِ خدمت رہتے مگر اُنھوں نے کبھی کسی کو اشارے سے بھی نہیں کہا کہ جا کر مہمانوں کو بلاؤ یا کچھ لا کر دو۔ وہ خود مہمانوں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے اور اسی میں شاید ان کی خوشی بھی پنہاں تھی۔
ظفر کمالی سر کی یہ عادت صرف ان کے مہمان نواز ہونے کا ہی پتا نہیں دیتی بلکہ ان کا ایک بڑا انسان ہونا بھی ثابت کرتی ہے۔ اُن پانچ دنوں میں ہم نے صرف ایک شادی میں شرکت نہیں کی بلکہ ایک شفیق، باوقار اور صاحبِ ظرف انسان کی زندگی کا وہ زاویہ دیکھا جو نصابی کتابوں میں کیا، اصل زندگی میں بھی آج کل ناپید ہے۔ یہ سفر میری زندگی کے اُن اسباق میں سے تھا جو صرف باعمل اور گہرا علم رکھنے والے اساتذہ کی صحبت اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے سے ہی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔
جب واپسی کا وقت قریب آیا تو ہم سب کے دل جیسے بھاری ہو رہے تھے۔ ظفر کمالی صاحب کی محبت، اپنائیت اور انکساری کا اثر اس قدر گہرا تھا کہ دل چاہتا ہم چند دن اور ٹھہر جائیں۔ مگر سفر کا تقاضا تھا اور واپسی بھی ضروری تھی۔رخصت کے وقت بھی اُن کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ اُنھوں نے نہ صرف صفدر سر کے لیے خاص شگون کے کپڑے بہ طورِ تحفہ عنایت کیے بلکہ اُن کا شاگرد ہونے کے ناطے مجھے بھی کپڑے کا ایک خوب صورت جوڑا تحفۃً عطا کیا گیا۔ حقیقی معنوں میں میرے لیے اصل تحفہ تو کچھ اور ہی تھا اور وہ تھا میرے لیے اُن کی تصنیف کردہ تمام کتابوں کی مکمّل سِٹ۔ کتابیں وصول کرتے ہوئے میرے دل میں ایک خواہش جاگی کہ اگر اِن میں سے کچھ پر اُن کے دستخط حاصل ہو جائیں تو وہ کتابیں میرے لیے صرف علمی نہیں بلکہ جذباتی اعتبار سے بھی قیمتی ہو جائیں گی۔ میں نے موقعے کو غنیمت جان کرکہا: ’’ اگر ممکن ہو تو اِن کتابوں میں سے آپ اپنی دو پسندیدہ کتابوں پر دستخط فرما دیں‘‘۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور خاموشی سے دو کتابیں منتخب کیں۔ ’حوصلوں کی اُڑان‘ اور‘تحقیقی تبصرے‘ اور اُن پر دستخط کرتے ہوئے فرمایا:ب’حوصلوں کی اڑان‘ اور ’تحقیقی تبصرے‘ میرے دل کے قریب ہیں۔ اس طرح یہ دونوں کتابیں میرے لیے محض مطالعے کا سامان نہ رہیں بلکہ ایک جذباتی یادگار بن گئیں۔ وہ دن، وہ محفلیں، وہ باتیں اور ظفر کمالی صاحب کی بے پناہ شفقت؛ سب کچھ ہمیشہ کے لیے یادوں میں نقش ہو گیا۔ اب جب بھی سیوان کا ذکر آتا ہے، دل ایک سکون اور اپنائیت کی کیفیت سے بھر جاتا ہے۔
پہلی ملاقات کے بعد ظفر کمالی صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ اب تک خدا کے کرم سے جاری ہے۔ کبھی اُن کے آبائی وطن سیوان میں، کبھی پٹنہ میں صفدر سر کی قیام گاہ پر اور کبھی کسی علمی یا ادبی تقریب میں لیکن ہر بار اُن سے ملنے کا تجربہ نہ صرف نیا ہوتا ہے بلکہ ایک علمی جستجو اور سراغ کا وہ موقع ہوتا ہے۔ ایک ایسا لمحہ جو ذہن میں کچھ نئی باتیں اُبھارتا ہے، کچھ نئی چیزیں پختہ کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے ذہن پر اپنے دیرینہ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔
ان کے اندر بے پایاں علمی جوش کی ٹھاٹھیں مارتی موجوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسالگتا ہے کہ وہ اپنے قریب ہر شخص، خاص طور پر نوجوانوں کو علم کے کسی نہ کسی دریا سے سیراب کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں ایک کشش، گہرائی اور سادگی پائی جاتی ہے جو سننے والوں کو نہ صرف متوجہ کرتی ہے بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھنے پر مجبور بھی کر دیتی ہے۔ اس محبت اور علمی وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کی باتوں میں کبھی کبھار ایک دَبی دَبی کسک بھی محسوس ہوتی ہے جسے ایک خاموش شکوہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ فرمایا کرتے ہیں کہ وہ ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج (زیڈ۔اے۔اسلامیہ کالج) کے شعبۂ فارسی سے وابستہ رہے مگر وہاں فارسی زبان کے ایسے طالب علم اُنھیں کم ہی ملے جن میں سچی علمی لگن ہو۔ کبھی کبھار ایک آدھ طالب علم ایسا آ جاتا لیکن وہ تعداد ہمیشہ ان کی خواہش سے کم رہی۔ وہ اس بات کا بھی تذکرہ کرتے کہ اردو کے شعبے یا ادب کے میدان سے انھیں ایسے شاگرد بہت کم ملے جن سے وہ ایک زندہ علمی رشتہ جوڑ سکتے. ایسے شاگرد جو اُن کے مزاج سے مطابقت رکھتے یا اُن کی فکری توانائی کا حق ادا کر سکتے، وہ شاید انھیں اِن رسمی اداروں سے میسّر نہ آ سکے۔ غور کیا جائے تو اُن کا شکوہ بہت حد تک بہ جا ہے۔ کچھ طلبہ اُنھیں ایسے ملے جن سے وہ علمی وابستگی چاہتے ہوئے بھی نہیں جوڑ سکتے تھے کیوں کہ اُن میں علم کی پیاس موجود نہ تھی۔ ظفر کمالی صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے طلبہ کے لیے علم بانٹنا گویا گنبد پر اخروٹ رکھنے کے مترادف ہے لیکن وقت کے ساتھ جب کچھ طلبہ ذاتی طور پر اُن سے جُڑنے لگے اور مجھے بھی جب ان کی صحبت میسر آئی تو اُنھوں نے ہم سب کو ہی اپنے’اصل شاگرد‘ کے طور پرقبول کر لیا۔ ان کے ساتھ وقت گزارنے اور ان سے گفتگو کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیں اپنے لطیف جملوں، مختلف واقعات، کسی ادبی یا مذہبی حوالے یا اشعار کے ذریعے باتوں باتوں میں تراش رہے ہیں۔ ان کی محفلیں رسمی اصلاح یا خطاب کی نہیں ہوتیں بلکہ زندگی کے کسی نکتے پر ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا دیر تک اُسے سوچتا رہتا ہے۔ ہم نے یہ محسوس کیا کہ اُن کا سب سے بڑا مشغلہ طلبہ میں علم بانٹنا، تعلیم کے تئیں فکر مندی پیدا کرنا اور شاگردوں کے ذہن میں زبان و ادب کی اہم باتوں کو کچھ ایسے پیوست کر دینا جو اُن کے تربیت یافتہ طلبہ اور نوجوانوں کے لیے برسوں مینارۂ نور کا کام کرتا رہے۔
ایک عالَم واقف ہے کہ ظفر کمالی صاحب کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی گُم نامی اور سادگی کے لیے خصوصی شناخت رکھتے ہیں۔ وہ زیادہ محفلوں میں نظر نہیں آتے، نہ ہی شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن ہم جیسے شاگردوں کے لیے اُن کی ذات ایک چلتا پھرتا کتب خانہ ہے جس کے ہر گوشے میں علم، مشاہدہ اور تجربے کی روشنی بکھری ہوئی ہے۔ ہمیں اُن کے ساتھ وقت گزارنے کا بارہا موقع ملا ہے اور یہ ملاقاتیں چند لمحوں یا گھنٹوں تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ کئی بار پورے دن یا ہفتوں تک چلتی ہیں۔ اُن کے ساتھ بیٹھنے کا فائدہ یہ ہے کہ کبھی بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے اور مختلف علمی اور ادبی باتوں کے ساتھ تعلیم پر توجہ اور دنیاکی بے ثباتی اور فکرِ آخرت کا توشہ بھی حاصل ہوتا رہتا ہے۔ ان لمحوں میں وہ ہمیں اردو ادب کی پرانی نسلوں کے بارے میں، خاص طور سے اُن سے پہلے کی ادبی نسل کی وہ باتیں بتاتے ہیں جو شاید کسی کتاب میں نہ مل سکیں۔
ظفر کمالی سر نے اردو ادب کی اُن قد آور شخصیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جنھوں نے اپنی زندگی علم و ادب کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ وہ ہمیں صرف ان کے بارے میں تعارفی معلومات نہیں فراہم کرتے بلکہ اُن کی شخصیات کے ایسے نادر گوشے ہمارے سامنے رکھتے ہیں جن سے ہمیں ادب سے جُڑنے کا ایک نیا جذبہ ملتا ہے۔ جمیل مظہری، عطا کاکوی، کلیم عاجز، رمز عظیم آبادی، کیف عظیم آبادی، قاضی عبد الودود، کلیم الدین احمد، عبد المغنی وغیرہ جیسے کئی بڑے ناموں کے حالاتِ زندگی، اُن کے عاداتِ و اطوار، ان کی علمی قابلیت، ان کی خوبیاں اور کم زوریاں؛ سب کچھ اس انداز میں ہمیں سُناتے ہیں جیسے وہ اُن شخصیات کا خاکہ بیان کر رہے ہوں اور وہ ہمارے درمیان چلتے پھرتے موجود ہوں۔
ظفر کمالی سر کی بنیادی حیثیت ایک ظرافت نگار کی بھی ہے، اس لیے اِن شخصیات کے تعلق سے کئی بار وہ ایسے قصے بھی سناتے ہیں جو اپنے آپ میں مزاحیہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ وہ اس لب و لہجے میں رازدارانہ انداز میں یہ دل چسپ قصے سناتے ہیں کہ محفل ہنسی سے گونج اٹھتی ہے۔بعض آگے بیان کرنے لائق ہوتی ہیں اور بعض کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کسی سے کہیے گا نہیں۔
ظفر کمالی صاحب کی گفتگو ہو یا ان کی شخصیت کا کوئی پہلو؛ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اُن کی باتوں میں ایک خاص نام کا تذکرہ نہ ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ہر تقریر، ہر تحریر اور ہرطرح کی رسمی اور غیر رسمی گفتگو، اُس شخصیت کے بغیر ادھوری ہے اور وہ شخصیت ہے ان کے اُستاد پروفیسر احمد جمال پاشا کی۔ ہم یہ تو ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ احمد جمال پاشا کب ڈاکٹر ظفر کمالی کی زندگی میں شامل ہوئے لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی آمد نے ظفر کمالی صاحب کی زندگی میں ایک فکری و روحانی اور علمی انقلاب برپا کر دیا۔ وہ صرف ایک استاد نہ تھے؛ وہ ایک مشفق باپ، ایک رہ نما، ایک سایہ دار درخت کے مانند تھے جن کی شفقت اور تربیت نے ظفر کمالی صاحب کو سنوارا، نکھارا اور ان کی علمی و ادبی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ظفر کمالی سر کی زبان پر جب بھی ادب کی کوئی بات آتی ہے، اُس میں احمد جمال پاشا کا حوالہ لازمی ہوتا ہے۔ مجھے اُن کی کوئی ایسی تقریر یاد نہیں جہاں اُنھوں نے احمد جمال پاشا کا تذکرہ نہ چھیڑا ہو۔ چاہے وہ کوئی سنجیدہ فکری نکتہ ہو یا ہنسی مذاق کی کوئی جھلک، خوشی کا لمحہ ہو یا کسی دکھ بھری یاد کا ذکر۔ اُن کی یادوں کا محور، اُن کی علمی گفتگو کا دائرہ، اور اُن کے احساسات و جذبات کا ہر رنگ؛ سب کچھ احمد جمال پاشا کی شخصیت سے جُڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر امتیاز وحید نے ’چہکاریں‘ کے مقدّمے میں ظفر کمالی صاحب کی ایک بات نقل کی ہے کہ ’ اُن کے بموجب’’ لوگوں کے پاس کئی رنگ ہیں مگر میرے پاس صرف ایک ہی رنگ ہے اور وہ ہے پاشا کا رنگ‘‘ (’چہکاریں‘ص۔ ۱۶)
ویسے تو پروفیسر ظفر کمالی نے ہمیں احمد جمال پاشا سے متعلق بے شمار باتیں بتائیں جن سب کا احاطہ یہاں ممکن نہیں لیکن اُن میں سے کچھ باتیں ایسی ہیں جو میرے دل کو چھو گئیں۔ خاص طور سے ایک موقعے پر جب وہ نہایت سنجیدگی سے ایک بات کو بیان فرما رہے تھے تو اُن کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جیسے وہ ہمیں کسی بڑے راز سے آگاہ کر رہے ہوں۔ جیسے کوئی خزانے کی چابی ہمارے حوالے کر رہے ہوں۔ یہ باتیں ہمارے جیسے نئے لکھنے والوں کے لیے نہ صرف کار آمد ہیں بلکہ ایک بزرگ کی جانب سے اپنے مریدین کو وصیت کرنے کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔ وہ ہم لوگوں سے ادب کے سلسلے میں جو کچھ فرماتے ہیں، وہ نہ صرف علمی طور پر ہمارا اثاثہ ہوتا ہے بلکہ جذباتی طور پر ان کی باتیں ہمیں حوصلہ و ہمت دینے کا کام کرتی ہیں۔انھوں نے ایک غیر رسمی ملاقات کے دَوران احمد جمال پاشا کی یہ وصیت سنائی:
’’ دیکھو تم جو کچھ لکھنا، ہمیشہ ایمان داری سے لکھنا۔ اگر کسی شخصیت پر لکھتے ہوئے یہ خوف ہو کہ اِس سے تمھیں نقصان ہوگا اور اُس نقصان کو تم برداشت کرنے کی قوّت نہیں رکھتے ہو تو مت لکھنا لیکن لکھنا تو صحیح لکھنا۔ یہ خوب جان لو کہ ادب میں مصلحت پسندی اگر چور دروازے سے داخل ہوتی ہے تو فن صدر دروازے سے رخصت ہو جاتا ہے۔‘‘
کبھی کبھی رشک آتا ہے کہ ظفر کمالی سر کو ایسا عظیم استاد میسر آیا اور اُتنا ہی رشک اس بات پر بھی آتا ہے کہ احمد جمال پاشا کو ظفر کمالی جیسا سنجیدہ، کچھ سیکھنے پڑھنے کا شوقین، ادب دوست شاگرد نصیب ہوا۔ یہ ایک ایسا رشتہ تھا جس میں صرف علمی تربیت ہی شامل نہیں بلکہ دلوں کو بدلنے، افکار کی تشکیل اور شخصیت کی تعمیر کا بھی عمل متوازی طور پرچلتا رہا۔ اگر کمالی صاحب میں وہ خلوص، لگن اور علم کا شوق نہ ہوتا تو شاید احمد جمال پاشا بھی اپنی بیش بہا خوبیوں کو اُن تک منتقل نہ کر پاتے۔ یہ دونوں کے مزاج کی ہم آہنگی تھی جس سے ایک استاد نے اپنے آپ کو مکمل کرنے والا شاگرد پایا اور شاگرد نے اپنے والدین کی طرح ایک عہد ساز استاد کا ہاتھ اپنے سر پر پایا۔ اسی لیے یہ کہنا بہ جا ہوگا کہ ظفر کمالی صاحب کی شخصیت، ان کے خیالات اور ان کی تحریریں احمد جمال پاشا کے فیضِ صحبت کی شہادت دے رہی ہیں۔
ظفر کمالی صاحب نے نہ صرف احمد جمال پاشا کی علمی لیاقت کو اپنے اندر جذب کیا بلکہ ان کی روزمرہ کی زندگی کے کئی اصولوں کو بھی اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا ہے۔ مہمان نوازی، شاگردوں کی تربیت، علمی اختلاف میں شائستگی، کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچانا؛ یہ سب وہ خوبیاں ہیں جو انھوں نے اپنے استاد سے سیکھیں اور خود پر نافذ کیں۔
احمد جمال پاشا کے بعض شاگردوں کے حوالے سے بھی ہمیں معلوم ہوا کہ وہ صرف انھیں تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ ان کی مالی کفالت بھی کرتے تھے تاکہ وہ دل جمعی سے تعلیم حاصل کر سکیں جن میں ایک اہم نام ظفر کمالی سر کا بھی ہے۔ ظفر کمالی سر نے احمد جمال پاشا کی انھی خوبیوں کو اپنے مزاج اور کردار میں ضم کر لیا ہے۔ ہم نے ایک دل چسپ بات یہ بھی دیکھی کہ اگر کبھی ظفر کمالی صاحب سفر پر جاتے ہیں تو ان کے پاس ایک ٹرالی بیگ ہوتا ہے جس میں سوئی دھاگا، چھاتا، چپل اور دیگر ضروری چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ ’’سر، آپ سوئی دھاگا کیوں ساتھ رکھتے ہیں؟‘‘ تو وہ مسکرا کر کہنے لگے: ’’میرے استاد احمد جمال پاشا ہمیشہ یہ چیزیں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔‘‘ پھر مسکراتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ استادِ محترم کسی تقریب میں صدارت کے لیے مدعو تھے اور جانے سے ذرا پہلے اُن کی پینٹ کا بٹن ٹوٹ گیا۔ فوراً اپنے بیگ سے سوئی دھاگا نکالا، خود سے بٹن ٹانکا، اور پھر پُرسکون انداز میں روانہ ہوئے۔ یہ واقعہ نہ صرف ہمیں محظوظ کرتا ہے بلکہ یہ بتاتا ہے کہ اساتذہ صرف کتابیں نہیں پڑھاتے، وہ جینے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں۔ یہی وہ اندازِ زندگی ہے جو ظفر کمالی صاحب نے اپنے استاد سے پایا ہے۔
ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب کے ساتھ مجھے کئی ادبی اسفار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مختلف کانفرنسوں اور علمی تقاریب میں ان کے ساتھ جانا ایک اعزاز کی بات رہی اور ہماری خوش نصیبی بھی لیکن ایک سفر کا تجربہ کچھ خاص تھا جو آج بھی یادوں میں تازہ ہے۔ یہ ۲۰۲۲ء کی بات ہے۔ فروری کا مہینہ تھا۔ ظفر کمالی صاحب پٹنہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ ہمارے اُستادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری نے بہار کے مشہور و معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر بودھ گیا، راج گیر اور نالندہ کا ایک علمی و تفریحی دَورہ طَے کیا۔ وقت مقرر ہوا اور ہم لوگ علی الصباح صفدر سر کے دولت کدے پر جمع ہوگئے۔ چار افراد پر مشتمل قافلہ روانہ ہوا جس میں استادِ محترم صفدر امام قادری، ظفر کمالی اور میرے علاوہ ہمارے ایک قریبی دوست پرویز بھائی بھی تھے۔
جانے سے پہلے ہم ظفر کمالی صاحب کے ساتھ صفدر سر کے گھر پر جہاں ظفر کمالی صاحب کا قیام تھا، وہاں بیٹھے؛ ادب و احترام کے ساتھ، جیسے شاگرد اپنے استاد کے سامنے اور کوئی مرید اپنے مرشد اور پیر کے سامنے بیٹھتا ہے۔ خاموش، بہ احترام اور محتاط کہ ذرا سا ہلے ڈلے تو بے ادبی سر زد ہو جائے گی اور ہم استاد کی محفل سے راندۂ درگاہ ہو جائیں گے۔ ہم ابھی ان کی شخصیت کو زیادہ قریب سے جانتے نہ تھے، صرف اُن کا علمی رعب دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا لیکن پھر ایک جملے نے ساری فضا ہی بدل دی۔ جیسے ہی اُنھوں نے ہمیں یوں ادب و احترام سے اور خاموش بیٹھے ہوئے دیکھا، وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے:
’’یہ کیا؟ تم لوگ تفریحی سفر پر جا رہے ہو یا کسی زبردستی کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہو؟ اگر تم لوگ اسی طرح تناو اور ادب کے بوجھ تلے دبے جاؤ گے، تو نہ تم ان لمحوں کو محسوس کر پاؤ گے، نہ ہم کچھ ایک دوسرے سے بانٹ سکیں گے۔ اگر واقعی گھومنے پھرنے جا رہے ہو تو دوست بن کر چلو اور ساتھی بن کر رہو۔ کھل کر بات کرو، جو پسند ہے وہ کہو، جو ناپسند ہے وہ بھی کہو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو بہتر ہے تم لوگ یہیں رہ جاؤ۔‘‘
یہ بات انھوں نے نہایت سنجیدگی اور محبت بھرے سخت لہجے میں کہی۔ ایک لمحے کے لیے ہم سب سَن رہ گئے اور اگلے لمحے ہماری ہنسی نکل گئی۔ ایسا لگا جیسے اچانک اُن کی علمی شخصیت کا رعب، جو ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا، ایک جھٹکے سے اُتر گیا اور اس کی جگہ ایک بے تکلف، ہم درد اور شفیق بزرگ دوست نے لے لی۔ اس ایک لمحے نے سفر کا سارا رنگ بدل دیا۔ ظفر کمالی صاحب نے خود ہمیں ہمت دی کہ کھانے پینے، گھومنے پھرنے، یا کسی چیز کی خواہش کا بلا جھجھک اظہار کریں۔ انھوں نے کہا، ’’تم لوگ جو کچھ چاہو، ہم اسے ممکن بنانے کی کوشش کریں گے، بس دوستوں کی طرح ساتھ چلو۔‘‘ اور پھر واقعی وہ سفر محض راج گیر اور نالندہ کی سیاحت نہیں رہا بلکہ ایک ایسے شخص کی قربت اور بے ساختہ محبت کا تجربہ بن گیا جس نے ہمیں یہ سکھایا کہ بعض اوقات استاد کی اصل شفقت اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ شاگرد کو دوست بننے کی اجازت دیتا ہے۔
ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب کی شخصیت میں کچھ ایسی خوبیاں ہیں جو آج کے زمانے میں اردو کے اساتذہ اور ادبا و شعرا میں ملنا تو دور کی بات، کسی نیک اور متقی پرہیز گار مسلمان میں بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، مصلّا اور قرآنِ مجید اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس جدید دور میں جب لوگ عمومی طور پر مذہب سے جُڑی ظاہری علامتوں کو نظر انداز کرتے ہیں، ظفر کمالی صاحب کی یہ روش ہمیں ماضی کے اُن بزرگوں کی یاد دلاتی ہے جو وضو کے لیے لوٹا، نماز کے لیے مصلّا اور روح کی تسکین کے لیے قرآنِ مجید کو کبھی خود سے جدا نہیں ہونے دیتے تھے۔
ہم نے صفدر امام قادری صاحب کے دولت کدے پر بھی کئی بار ظفر کمالی صاحب کو صبح فجر کے بعد قرآن پڑھتے دیکھا۔ پہلے پہل خیال آیا کہ شاید یہ قرآن وہیں کا ہو لیکن جب راج گیر کے سفر میں اُن کے ہم راہ ایک ہوٹل میں قیام کا موقع ملا تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ وہ واقعی قرآنِ پاک کو ہر سفر میں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کاہر دن تلاوت سے شروع ہوتا ہے اور یہی ان کی روحانی غذا بھی ہے۔
اس سفر کے دوران اُن کی زندگی کے کئی پہلو ہم پر آشکار ہوئے جن میں ایک پہلوٗ وہ تھا جس نے ہمیں پہلے حیران کیا، پھر پیٹ پکر کر ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ ہم بودھ گیا کے ایک بڑے ہوٹل میں مقیم تھے۔ ایسے ہوٹلوں میں عام طور پر مغربی طرز کے باتھ روم ہوتے ہیں۔ یعنی ’ویسٹرن ٹوائلٹس‘۔ ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب چوں کہ ساری عمر ہندستانی طرز کا طہارت خانہ استعمال کرتے آئے ہیں، اس لیے اُنھیں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ناشتے کی میز پر اُنھوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’میں نے قرآن شریف کی تلاوت کر لی، نماز بھی ادا کر لی لیکن دل میں خدشہ ہے کہ طہارت حاصل ہوئی یا نہیں۔‘‘ ہم نے کہا: ’’سر! اگر آپ کو شک ہے تو غسل فرما لیجیے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ اُنھوں نے مسکرا کر جواب دیا: ’’نہا تو لیا ہے مگر جس بات سے تسلی نہیں ہوئی وہ یہ ہے کہ جب بھی ویسٹرن ٹوائلٹ پر بیٹھا، پانی کا نشانہ کہیں اور لگا کہیں اور۔ تو اب بتاؤ، طہارت ہوئی یا نہیں؟‘‘ اُن کی یہ بات اتنے مزاحیہ انداز میں کہی گئی کہ ہم سب کے قہقہے چھوٹ گئے۔ اِردگرِد ناشتہ کر رہے لوگ بھی ہماری ہنسی کی شدت دیکھ کر چونک گئے کہ آخر بات کیا ہے؟ ہم نے کہا: ’’سر! آپ پہلے ہی اِس مسئلے سے ہمیں آگاہ کردیتے تو ہوٹل میں ایک آدھ ہندستانی طرز کے باتھ روم والے کمرے کا ہم انتظام کرا دیتے۔‘‘ مگر اُن کا جواب اور بھی زیادہ پیارا تھا: ’’نہیں بابو! میں کسی کو زحمت دینا پسند نہیں کرتا۔ اس لیے ناپاکی بھی برداشت کر لی۔‘‘
ایک چیز اور دیکھی کہ وہ دورانِ سفر یا کہیں اوپر کی جانب چڑھتے ہوئے تسبیح پر وظائف پڑھنے شروع کردیتے ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ کار میں چلتے وقت یا رُوپ وے پر چلتے وقت بھی وہ تسبیح کے دانے پر وِرد کرنا نہیں بھولتے۔
ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب صرف ایک علمی اور مخلص شخصیت کے حامل نہیں بلکہ اُن کی ذات میں وہ تمام خوبیاں پیوست ہیں جو کسی سچے عاشقِ رسول ﷺ میں ہونی چاہیے۔ وہ نرم گو، سادہ مزاج، ایک باادب، باوضو، بااخلاق اور باعمل انسان ہیں۔ وہ بے پناہ حلم و حیا کے پیکر ہیں۔ ان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ عاشقِ رسول ﷺ ہیں اور یہ عشق اُن کے وجود میں ایسے رچ بس گیا ہے جیسے پھول میں خوش بوٗ۔ وہ نہ زور سے ہنستے ہیں، نہ غیبت کی محفل میں بیٹھتے ہیں۔ صرف ایک ہلکی سی مسکراہٹ اُن کے چہرے پر مستقل زیور کے مانند چمکتی رہتی ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بڑے سب سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ چاہے وہ اُن کی باتیں مانیں یا نہ مانیں۔ کئی بار وہ اپنے شاگردوں کی چالاکیوں سے بھی خود کو واقف رکھتے ہوئے اُن کی تربیت کرتے ہیں۔ اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شاگرد یا فلاں شخص کے دل میں اُن کے لیے کون سی منفی بات ہے مگر پھر بھی وہ اُن کی اصلاح کرنے سے احتراز نہیں کرتے۔ عشقِ مصطفی ﷺ کی دین بھی یہی ہے کہ دلوں کا حال جانتے ہوئے بھی رنجش نہیں پالتے بلکہ اصلاح اور دعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سب خوبیاں اُن کے عاشقِ رسول ﷺ ہونے کی دلیل ہیں۔
ایک مرتبہ صفدر سر کے فلیٹ میں ہمیں رکنے کا موقع ملا۔ ظفر کمالی سر وہاں مہمان تھے۔ صفدر سر کہیں دوسرے شہر میں موجود تھے۔ ہمیں یہ حکم ہوا کہ ان کے ساتھ رات میں صفدر سر کے فلیٹ پر ہی قیام کروں تا کہ ظفر کمالی سر کو تنہائی محسوس نہ ہو۔ رات کے وقت سب کچھ معمول پر تھا۔ کھانا کھایا، تھوڑی گفتگو ہوئی اور پھر وہ جلدی سونے چلے گئے۔ اُن کی یہ عادت ہے کہ جلد سوتے ہیں۔ رات کے کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب اچانک ایک رونے کی آواز سنائی دی۔ شروع میں لگا شاید کوئی بلی کا بچّہ ہوگا لیکن پھر محسوس ہوا کہ یہ تو انسان کی سسکیوں جیسی آواز ہے۔ میں گھبرا گیا۔ فوراً دروازے پر گیا جس کمرے میں ظفر کمالی صاحب سو رہے تھے۔ میں نے آواز دی: ’’سر! آپ ٹھیک تو ہیں؟ کچھ پریشانی تو نہیں؟‘‘ اندر سے نرمی بھرا جواب آیا: ’’بابو! تم سو جاؤ، سب ٹھیک ہے۔‘‘ لیکن میں بے چین تھا۔ ایک بار پھر آواز دی۔ وہی جواب ملا۔ تب میں نے تسلیم بھائی کو فون کیا جو اُن کے قریبی شاگرد ہیں۔ تسلیم بھائی نے جو بات کہی، وہ میرے دل پر نقش ہو گئی:
’’ظفر کمالی صاحب پر بعض راتوں میں ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جب وہ تنہائی میں اللہ اور رسول ﷺ کو یاد کر کے رو پڑتے ہیں۔ یہ اُن کی روحانی زندگی کا ایک راز ہے۔ اُنھیں تنگ مت کرو، اُنھیں چھیڑو مت، نہ ان سے پوچھو کہ کیا ہوا. تھا۔ یہ عاشقوں کا حال ہوتا ہے۔‘‘
یہ جان کر میری پریشانی اور فکر مندی کچھ کم ہوئی۔ مَیں لوٹ کر اپنے کمرے میں آ گیا مگر اُس رات میری زندگی میں کچھ بدل گیا تھا۔ پہلی بار مَیں نے ایک ایسا انسان دیکھا جو تنہائی میں کسی دنیوی دکھ کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ اور اُس کے محبوب ﷺ کی یاد میں رُو رہا تھا۔ میرے ذہن میں بار بار وہ حدیث نبوی ﷺ گونج رہی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ جب رات ہوتی ہے تو تمام انسان تین گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں جن میں سب سے افضل اس گروہ کو بتایا گیا تھا جس کے لیے یہ رات نعمت ہے۔ کمائی اور بھلائی ہے۔ جو رات کی فرصت کو غنیمت سمجھتے ہیں اور جب سارے لوگ سونے میں مشغول ہوتے ہیں تو یہ لوگ عبادت، ریاضت اور اپنے رب کے ساتھ مناجات میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے افراد کے بارے میں بس میں نے کتابوں ہی میں پڑھا تھا لیکن بہ نفسِ نفیس کسی کو اس طرح مشہور عبادت کی راتوں کے علاوہ خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اللہ ہم سب کو بھی ایسے لوگوں میں شامل فرمائے جو اپنی راتوں کو اپنے بستروں سے دور رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہتے ہیں۔ ظفر کمالی کو اس طرح دیکھنا واقعی میری آنکھیں کھول دینے والا تھا اور تب پتا چلا کہ یہ ظرافت نگار سب کو ہنساتا ہے لیکن دل سے کس قدر خوفِ خدا میں مبتلا رہتا ہے اور اس کے حضور اپنی عاجزی اور انکساری دکھاتا ہے۔
اس واقعے کے کچھ مہینے بعد رمضان میں ظفر کمالی صاحب نے اپنے گھر پر افطار کی دعوت کی۔ ہم چند دوست استادِ محترم صفدر سر وہاں پہنچے۔ اس بار اُن سے تفصیل سے باتیں ہوئیں کیوں کہ وہ کچھ دن پہلے ہی عمرہ کر کے واپس آئے تھے۔ جب وہ مکہ اور مدینہ کی زیارت کا تذکرہ کر رہے تھے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور ہم اُن کی زبان سے زیادہ اُن کی آنکھوں سے عشق کا اظہار دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ مدینہ جانے سے پہلے انھوں نے خاص کپڑے بنوائے تھے۔ وہ کپڑے جنھیں اُن کے کسی عزیز ساتھی نے بہ طور تحفہ عطا کیا تھا اور اُنھوں نے اُنھی کپڑوں کو پہن کر روضۂ اقدس پر حاضری دی چوں کہ اس تحفے کو اس سے بڑا اعزاز نہیں دیا جا سکتا تھا۔ ظفر کمالی سر نے ہمیں مشورہ دیا:
’’اگر کبھی مکہ یا مدینہ جانا ہو، تو پہلے اُس جگہ کی تاریخ پڑھیے۔ اُحد کی پہاڑی صرف ایک پتھر نہیں، وہاں کے ذرّے ذرّے میں شہادت کی خوش بوٗ موجود ہے۔ اگر علم نہیں ہوگا، تو ہم صرف فوٹو کھینچ کر لوٹ آئیں گے۔‘‘
انھوں نے یہ بھی فرمایا:
’’مکّہ مدینہ میں اگر واقعی روحانی رابطہ چاہتے ہیں تو اکیلے جائیے۔ جب انسان اکیلا ہوتا ہے تب ہی اسے اپنے رب اور رسول ﷺسے سچا رابطہ حاصل ہو سکتاہے۔‘‘
ان باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مدینہ کی خوش بوٗ پورے کمرے میں پھیل گئی ہو۔ انھوں نے ایک واقعہ بتایا جس نے ہم سب کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ مدینہ منورہ میں روضۂ اقدس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے جب ایک عرب سپاہی نے انھیں آ کر دھکا دے دیا۔ وہ پیچھے کچھ دور پر جا پڑے مگر اُنھوں نے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا:
’’جب بڑے بڑے وقت کے قلندر، قطب اور ولیوں نے حضور کی بارگاہ میں دھکے کھائے ہیں تو میں کون ہوتا ہوں شکایت کرنے والا کیوں کہ حضور کی بارگاہِ اقدس میں دھکا کھانا بھی میرے لیے اعزاز کی بات ہے ‘‘
اُنھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا شاید اسی اخلاص کا صلہ تھا کہ تھوڑے ہی وقفے کے بعد ایک اور سپاہی نے مجھے حیرت انگیز طور پر وہیں روضۂ اقدس کے سامنے پانچ منٹ تک کھڑا رکھا۔ یہ وہ مقام تھاجہاں دوسرے لوگ دس سکنڈ میں آگے جانے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں اور وہاں رُک کر سلام عرض کرنے کی اجازت اچھے اچھوں کر نہیں ملتی۔ اُنھوں نے فرمایا: ’’میرے محبوب ﷺ کی طرف سے مجھے اُس صبر کا یہ انعام ملا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے دیکھ رہے ہیں، وہ زندہ ہیں اور وہ اپنے عاشقوں کو دھتکارتے نہیں بلکہ سینے سے لگاتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوئوں کی بارش ہونے لگی۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ لمحہ اُن کے وجود میں رچ بس گیا ہے۔ ان کی اس رقّتِ قلبی کے اثرات ہم پر بھی مرتَّب ہوئے اور ہم لوگوں کی آنکھیں بھی اس محبت کی کیفیت کو دیکھ کر بھیگ گئیں۔ ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ ہم سب نے مل کر نماز ادا کی مگر وہ ایک رسمی عبادت نہ تھی بلکہ ایک روحانی کیفیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اُن کا کمرہ جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے، مسجدِ نبوی کی خوش بوٗ سے مہک رہا تھا۔ ڈاکٹر ظفر کمالی کی باتوں نے ہمیں کچھ دیر کے لیے دنیوی دھندوں اور افکار سے نکال کر محبتِ رسول ﷺ کی اُس دنیا میں پہنچا دیا تھا جہاں فکرِ آخرت اور اتباعِ رسول کے سبب دلوں میں نرمی آ جاتی ہے اور آنکھوں سے محبت کی بارش ہونے لگتی ہے۔ پھر انسان کو اس کرایے کے گھر اور عارضی ٹھکانے کی چکاچوندھ سے بڑھ کر آخرت کی خواہش، جنت کی نعمتوں کی تڑپ اور اپنے محبوب رسول ﷺ کی ایک جھلک کی تمنا پیدا ہو جاتی ہے جسے اپنی آغوش میں لے کر ہر طرح کی فکر سے وہ ہمیں آزاد کر دیتی ہے۔
ظفر کمالی سر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف روایتی استاد نہیں ہیں کہ ادب سمجھا دیا یا پڑھا دیا بلکہ اپنے شاگردوں کے علمی سفر کی مسلسل خبر لیتے رہتے ہیں۔ انھیں یہ جاننے کی خواہش رہتی ہے کہ کون سا طالب علم کیا پڑھ رہا ہے، کیا لکھ رہا ہے اور پہلے کے مقابلے میں اس کی سوچ یا تحریر میں کیا نیا پن آیا ہے۔ ان کا ایک Routine Question ہوتا ہے کہ جب بھی کسی شاگرد سے ملاقات ہوتی ہے، وہ بہت محبت اور سنجیدگی سے پوچھتے ہیں: ’’اچھا بتائیے! آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟ اور کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘ یہ سوال بہ ظاہر عام سا لگتا ہے مگر اس کے پیچھے اُن کی ادب کے حوالے سے آپ کی سرگرمیوں کو جاننے کی ایک سنجیدہ کوشش ہوتی ہے۔ ابتدا میں ہم طلبہ اس سوال سے گھبرا جاتے تھے کیوں کہ سچ یہ تھا کہ کچھ وقت سے ہم نے نہ کچھ پڑھا تھا اور نہ ہی کچھ لکھا تھا۔ ایسے میں اگر ہم اُن سے ملاقات کرتے تو وہ ناراضگی کا اظہار بھی کرتے اور ساتھ ہی ہمیں پیار سے سمجھاتے بھی کہ ’’پڑھائی اور لکھائی کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ ہم سب نے یہ محسوس کیا کہ ظفر کمالی سر سے ملاقات سے پہلے تیار رہنا پڑتا ہے۔ جب پتا چلتا ہے کہ ظفر کمالی صاحب سے ملنے جا رہے ہیں، یا وہ کسی ادبی یا غیر ادبی تقریب میں شرکت کے سلسلے سے پٹنہ تشریف لارہے ہیں تو ہم ان کی ڈانٹ بالخصوص ناراضگی سے بچنے کے لیے بہ طور تیاری کچھ نہ کچھ پڑھنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُن کے تعلیم سے متعلق سوالوں کے معقول جواب دیے جا سکیں۔ ان کے اس خاص انداز سے ہم لوگ علم و ادب کے تئیں خصوصی طور سے متوجہ ہو جاتے ہیں اور اس سلسلے سے متحرک رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اگر ایک بڑے برتن میں پانی کھول رہا ہو تو ایک گلاس ٹھنڈا پانی اس پر ڈال دینے سے وہ ٹھنڈا پانی بھی گرم ہوکر کھولنے لگتا ہے۔ ظفر کمالی صاحب کی شخصیت بھی ہم لوگوں کے لیے ایسی ہی ہے جس کے قریب رہ کر ہم بھی جوش و جذبے سے بھر جاتے ہیں۔
یہ مقولہ مشہور ہے کہ اللہ والوں کی پہچان ہوتی ہے کہ ان کو دیکھ کر خدا یاد آ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر حقیقت میں ایک ادیب کو دیکھ کر ادب کی محبت جاگ جائے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ ادیب واقعی خالص ادیب ہے۔ ظفر کمالی ان دونوں معاملوں میں یکساں طور پر کمال کے حامل ہیں۔ ان کے قریب رہنے کی یہ برکت حاصل ہوتی ہے کہ ان سے ملتے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق جاگ اُٹھتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ کچھ نیا سیکھا جائے اور اپنے علم میں اضافہ کیا جائے۔ یہ بات صرف ہم طلبہ تک محدود نہیں ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ ایک دن انھوں نے ایک بہت ہی سینیر اور معزز اُستاد سے بھی وہی سوال کیا جو ہم سے کرتے ہیں: ’’ابھی آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘ یہ سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ سب کو برابری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چاہے شاگرد ہو یا استاد، ان کے دل میں سب کے لیے ادب اور علم کی چاہت پیدا کرنے کی ایک جیسی خواہش ہے۔
ظفر کمالی سرکی شخصیت کی کئی خوبیاں ہیں لیکن ایک خوبی جو ہم جیسے اُن کے چاہنے والے شاگردوں کے دل کو چھو جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ حوصلہ دیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں خلوص ہوتا ہے، ان کی تعریف صرف تعریف کے لیے نہیں ہوتی بل کہ وہ سوچ سمجھ کر کچھ کہتے ہیں۔ اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو کھل کر سراہتے ہیں اور اگر کوئی خامی ہو تو اسے نرمی سے درست کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایک تقریب میں اُنھوں نے ایک بڑی خاص بات کہی:
’’ظفر کمالی سے کوئی زبردستی تعریف نہیں کرا سکتا۔ جب تک کسی کے اندر واقعی خوبی نہ ہو، مَیں اسے کچھ نہیں کہتا۔ جو اچھا ہوگا، اُسے اچھا کہوں گا اور جو بُرا ہے، اسے برا کہوں گا۔ صرف کسی کو خوش کرنے کے لیے تعریفی بات نہیں کرتا۔ چاہے وہ ہمارے شاگرد ہوں، نو آموز لکھنے والے یا پھر ہمارے معزز ہم عصر۔‘‘
یہ جملہ ان کی شخصیت کے کھرے پن کو بہت اچھی طرح سے بیان کرتا ہے۔ چند دنوں قبل میں نے اپنے ایک قریبی کے سانحۂ ارتحال پر ایک مضمون لکھا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ مضمون ظفر کمالی سر کو بھیجوں یا نہیں۔ دل میں ہچکچاہٹ تھی لیکن پھر ہمت کر کے وہ مضمون انھیں بھیج ہی دیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اُنھوں نے مضمون کو جلدی میں اور سرسری طورپر نہیں بل کہ لفظ بہ لفظ غور سے دیکھا، نوٹس بنائے اور اس کے بعد وقت نکال کر مجھے فون کیا۔ بہت محبت اور شفقت سے دعائیں دیں اورمبارک بادپیش کی۔انھوں نے فرمایا:
’’تمھاری تحریر پڑھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ تم لکھ رہے ہو، یہ دیکھ کر میں اس عمر میں بھی جوانی کا جوش محسوس کرتا ہوں۔ مجھے حوصلہ مل رہا ہے کہ اب ہمارے درمیان سے کوئی بچہ آ رہا ہے جو اچھا لکھ رہا ہے۔ میری اِن باتوں کو تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تعریف و توصیف میں بول رہا ہوں کیوں کہ تمھاری تعریف کرکے مجھے کچھ حاصل ہونے والا تو ہے نہیں۔ پھر میں کیوں تمھاری بے جا تعریف کروں گا، اِس لیے اِس بات کوہوا میں نہ اڑا دینا۔‘‘
یہ بات میرے دل میں گھَرکر گئی۔ اس سے مجھے نہ صرف خوشی ملی بل کہ آگے اور بہتر لکھنے کا حوصلہ بھی ملا۔ فون پر اُنھوں نے مضمون کے کئی اچھے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور کچھ باتیں ایسی بھی کیں جو میرے سر کے اوپر سے نکل گئیں۔ بعد میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو اُنھوں نے اُن باتوں کو تفصیل سے سمجھایا۔فرمانے لگے: ’’تمھاری اِس تحریر میں نوّے فی صد ایک اچھے خاکے کے تمام بنیادی عناصر موجود ہیں۔‘‘ یہ سن کر دل خوش ہو گیا۔ پھر اُنھوں نے وہ بات کہہ دی جو میرے لیے ناقابلِ یقین تھی اور جسے سُن کر واقعی میرے قدم زمین پر نہیں پڑ سکتے تھے:
’’ایک پیراگراف تواس مضمون میں ایسا ہے جسے پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی اِس طرح کی باتیں لکھ پاتے۔‘‘ یہ بات میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔لیکن ظفر کمالی صاحب ایک جہاں دیدہ انسان ہیں اور ہمارے سینیر استاد بھائی تسلیم عارف نے تواُن کے تعلق سے جو خاکہ نما مضمون لکھا ہے، اس کا عنوان ہی ’دَرویش صفت ظرافت نگار‘ ہے۔ واقعی اس لمحے میں نے ظفر کمالی سر کی درویشی اور دوراندیشی کو محسوس کیا۔ انھیں یہ سمجھ میں آ گیا کہ اُن جیسے بڑے ادیب کے منہ سے ایسے تعریفی کلمات سن کر شاید میں تکبر اور نرگسیت کا شکار نہ بن جائوں، اس لیے اگلے ہی لمحے میری تربیت کے لیے فرمانے لگے:
’’میری طرف سے آپ یہ تعریفیں سن کر مرعوب مت ہو جائیے گا۔ جب کوئی آپ کی تعریف کرے تو اپنے دونوں کان بند کر لیجیے، سر جھکا لیجیے اور فوراً اُسے بھول جائیے لیکن اگر آپ پر کوئی نکتہ چینی کرے تو اسے پوری توجّہ سے سنیے۔‘‘
اُن کے اس اندازِ تربیت اورفہم و فراست کامیں تو قائل ہوگیا۔یہاں ایک طالبِ علم کو ایک طرف سراہا جا رہا ہے تو دوسری طرف اُسے علم کے زعم اور غرور میں مبتلا ہونے سے بھی بچایا جا رہاہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو ظفر کمالی صاحب کو طلبہ کی تربیت کے تعلق سے باقی اساتذہ سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس ملاقات میں ان سے مجھے یہ بھی سیکھنے کا موقع ملا کہ خاکے اور یادداشت میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے۔ظفر کمالی سر نے باتوں باتوں میں سمجھایا کہ لوگ آج کل ان دونوں اصناف کو ایک ہی جیسا سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ ادیب کو یہ فرق ضرور معلوم ہونا چاہیے۔آپ جب گھر تشریف لائیں گے تو تفصیل سے ان دونوں کے بیچ کے فرق کو آپ کو سمجھائوں گا۔ یہ وہ طریقۂ تربیت ہے جو اُن کے لیے ہمارے دل میں عزت کو بڑھاتا ہے اور ایک ماہر استاد کے طور پر دل میں ان کا رعب قائم کرتا ہے۔وہ اپنی باتوں کو ہمارے دل و دماغ میں پیوست کر دینا چاہتے ہیں کہ آیندہ جب کچھ ہم لکھیں تو بہتر لکھیں۔
ظفر کمالی صاحب طلبہ کی نہ صرف ادبی و علمی خبر گیری کرتے ہیں بل کہ ان کے مالی حالات کا بھی بہت باریکی سے خیال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس شاگرد کے مالی وسائل ٹھیک ہیں اور کون تنگ دستی کا شکارہے۔ اگر کبھی کسی کام کے سلسلے میں جیسے فوٹو کاپی کرانی ہو، کسی فائل کی زیراکس نکالنی ہو یا کوئی اور چھوٹا موٹا خرچ آ جائے تو وہ پہلے اپنی جیب سے پیسے نکال کر دیتے ہیں اور بعد میں کام کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی بھی وہ طالب علم کو شرمندگی کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ ان کے اس انداز سے شاگرد خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ پچھلے برس کا واقعہ ہے جب برادر تسلیم عارف کی بہ طورِ اسسٹنٹ پروفیسر کی تقرری ہوئی تھی، اس خوشی میں استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری نے ایک سے می نار اور اعزازیہ پروگرام رکھا تھا۔ انھوں نے اس موقع سے ان تمام اساتذہ کو اعزاز دیا ، جنھیں اس موقعے سے ملازمت ملی تھی۔ تسلیم بھائی اس خوشی کے موقعے پر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پٹنہ تشریف لائے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ایسے موقعے سے جب ظفر کمالی بھی اس پروگرام میں شرکت فرما رہے ہیںتو استادِ محترم صفدر امام قادری سر، ظفر کمالی سر کے ساتھ استادِمحترم کے خاص شاگردوں کی دعوت کریں۔استادِ محترم صفدر امام قادری نے ان کی اس تجویز کو بہ خوشی قبول فرما لیا اور پروگرام کی شب پٹنہ کے ’برکاس‘ ہوٹل میں ایک پُرتکلف دعوت کا پلان بنا۔ دعوت اور پروگرام میں آنے سے پہلے تسلیم بھائی نے ہم سے مشورہ کیا کہ ظفر کمالی صاحب کو کیسے بلایا جائے؟ ان کے آنے جانے کا انتظام کیسے ہو؟ کیا وہ دعوت میں آئیں گے؛ یہ سب سوال ان کے ذہن میں تھے۔ بعد میں جب صفدر سر نے ظفر کمالی صاحب سے دعوت میں شرکت کی بات کی تو ظفر صاحب نے بڑی محبت اور سنجیدگی سے کہا:
’’ہم دعوت میں ضرور آئیں گے لیکن تسلیم پر خرچ کا بوجھ نہیں پڑنا چاہیے۔ اس کی ابھی تنخواہ شروع نہیں ہوئی ہے تو وہ چاہے نوکری پر لگ گیا ہو لیکن اصل میں ابھی بھی بے روزگار ہے۔ دعوت سادہ ہونی چاہیے، کھانے میں فضول خرچی نہ ہو اور قیمتی چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔ ہم تو اس کی خوشی میں شامل ہو رہے ہیں، نہ کہ کھانے کے لیے۔‘‘
صفدر سر نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’تو پھر ہم لوگ کھچڑی کھا لیں گے!‘‘
اس پر ظفر صاحب نے برجستہ انھیںجواب دیا:
’’ہاں، کھچڑی بھی بہت اچھی ہے، بس سادہ کھانا ہونا چاہیے، دل کی خوشی کافی ہے۔‘‘
یہ ظفر کمالی سر کی جانب سے کوئی رسمی بات نہیں تھی بل کہ جب دعوت کے دن پروگرام کے بعد ہم لوگ ’برکاس‘ ہوٹل پہنچے توصفدر سر نے اپنے مخصوص انداز میں دسترخوان پر بہت ہی پُر تکلف کھانا آرڈر کیا ۔ ظفر کمالی صاحب نے جیسا کہا تھا، اسی طرح بہت سادگی سے اُنھوں نے کم ہی کھانے کی کوشش کی۔ وہ بار بار اس بات کا خیال رکھ رہے تھے کہ تسلیم بھائی کو کسی خرچ کا بوجھ نہ پڑے۔ یہ توکہیے کہ صفدر سر اور ہم طلبہ نے اس موقعے پر دسترخوان کی لاج رکھ لی ورنہ ظفر کمالی صاحب نے تو مختصر میں ہی خود کو خوش رکھا۔سچ بات یہ ہے کہ جب کوئی بشاشتِ قلب اور خوشی سے دعوت کھلانے کی کوشش کرے تو اس وقت اس کی خوشی کی خاطر تھوڑا زیادہ بھی کھانا تناول فرمایا جا سکتا ہے۔تسلیم بھائی کی مالی حالت بھلے اس وقت تھوڑی اچھی نہیں تھی لیکن ان کو اپنے اساتذہ کو اپنی ملازمت کی خوشی میں دعوت کھلانے سے جو روحانی سکون مل رہا تھا، ان کے چہرے کی چمک کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
ظفر کمالی صاحب ذی علم حضرات سے خاص شغف رکھتے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں وقت ضائع کرنے والے طلبہ نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کے قریبی حلقے میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ وہ ہر وقت ادب اور علمی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص محض وقت گزاری کے لیے اُنھیں فون کر دے تو وہ مختصر بات کر کے جلدی فون رکھ دیتے ہیں اور آیندہ اُس کا فون اٹھانے میں بھی احتیاط برتتے ہیں۔ صفدر سر اور ظفر کمالی سر کی دوستی اب تقریباًنصف صدی مکمل کرنے والی ہے۔ میں نے کئی مواقع پر اِن دونوں شخصیات کو ساتھ سفر کرتے دیکھا ہے۔ ظفر کمالی صاحب پٹنہ آتے رہے ہیں اور صفدر سر بھی اُن کے گھر سیوان جایا کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی اِن دونوں بزرگوں کو ادب سے ہٹ کر کوئی غیر سنجیدہ بات کرتے نہیں سنا۔ کبھی کسی نئی کتاب کی اشاعت پر گھنٹوں گفت و شنید کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو کبھی کسی مضمون یا کلاسیکی ادب پر سنجیدگی سے تبادلۂ خیال جاری رہتا ہے۔ ادبی اختلافات یا معاصر تحریروں میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ، اس پر بھی گفتگو ہوتی ہے تو اس میں بھی تنقید براے اصلاح کا جذبہ ہوتا ہے، نہ کہ تنقید براے تنقیص۔ اُن کے درمیان بات چیت ہمیشہ علم و ادب تک محدود رہتی ہے، ذاتی مخالفت یا انا کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ظفر کمالی صاحب جب بھی صفدر سر کے یہاں آتے ہیں تو سر انھیں اپنی خاص نشست پر بٹھاتے ہیں۔ اسی طرح جب صفدر سر ظفر کمالی صاحب کے دولت کدے پر تشریف لے جاتے ہیں تو وہ بھی اپنی جگہ خالی کر کے انھیں اُس پربِٹھاتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کی تعظیم اور حفظِ مراتب کا جس طرح خیال رکھتے ہیں،وہ ہم لوگوں کو بھی بہت کچھ سکھاتاہے۔ان دونوں بزرگوں کے درمیان اکثر طویل گفتگو ہوتی ہے۔ اگرچہ ملاقاتیں کبھی کبھار ہی ہوتی ہیں مگر جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو چھ سے آٹھ گھنٹے کی طویل نشست ہو جاتی ہے۔ فون پر بھی اُن کی بات چیت غیر معمولی حد تک طوالت اختیار کر جاتی ہے۔ایسا تو آج کے زمانے کے عشاق حضرات بھی اپنی محبوبہ سے اتنی طویل گفتگو نہیں کرتے ہوں گے جتنی یہ دونوں بزرگ کر جاتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے، پون گھنٹے یا کم از کم ایک گھنٹے کی گفتگو تو عام بات ہے۔ اکثر یہ وقت اس سے بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔ ان نشستوں میں متعدد موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ شاگردوں کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ کسی نے کوئی اچھی تحریر لکھی ہو تو اس کی ستائش کی جاتی ہے اور اگر کوئی شاگرد کم زوری کا مظاہرہ کر رہا ہو یا لکھنے پڑھنے سے گریز کر رہا ہو تو اس پر سنجیدگی سے دونوں تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔اسی سلسلے سے ایک بات یاد آ رہی ہے جب استادِ محترم صفدر امام قادری پر ظفر کمالی صاحب دو طویل جلدوں میں کتاب تیار کر رہے تھے تو ملک بھر میں پھیلے ان کے شاگردوں نے اس کتاب کے سلسلے سے مالی امداد کا ارادہ کیا۔صفدر سر کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا لیکن اس پلان کی ظفر کمالی صاحب کو اس بات کی خبر تھی اور وہ ان معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس سلسلے سے تسلیم بھائی اور منی بھوشن کمار اور دیگر شاگردانِ قادریہ کوشش میں لگے تھے۔حیرت کا مقام یہ تھا کہ جن شاگردوں نے صرف اور صرف صفدرسر کی مہربانی اور شاگردی کی وجہ سے ملازمت پائی یا اس لائق ہوئے کہ اپنے گھر بار کو بہ حسن و خوبی چلا سکیں، ایسے شاگرد جنھوں نے صفدر سر کے اَن گنت احسانات سے فائدہ اٹھا کر زندگی میں کچھ کیا، انھوں نے اس سعادت کے موقعے کو حاصل کرنے کے بجاے اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کے کیا کیا سوانگ نہ رچائے اور کیا کیا باتیں نہ کیں، کیا کیا ڈرامے نہ کیے۔شاگردوں کے تعاون سے سوا لاکھ سے کچھ زیادہ رقم جمع ہونے پر ظفر کمالی صاحب نے استادِ محترم کو ساری روداد فون پر سنائی اور ان سے فرمایا کہ’’ آپ کے شاگردوںکے کرتب دیکھ کر لگتا ہے کہ ’صفدر امام قادری کے شاگردوں کی استادیاں‘ عنوان سے ایک مضمون رقم کر دوں۔‘‘
فون پربات کرتے ہوئے ہم عصروں اور ادبی دنیا کے حالات پر بھی بات چیت ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ جب صفدرسر ظفر کمالی صاحب کے دولت کدے پرجاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے گئے تو انھوں نے ہمیں کچھ نادر و نایاب مخطوطات دکھائے جن پر وہ خود کام کر رہے تھے۔ ظفر کمالی صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر فرد کی صلاحیت کو پہچانتے ہیں اور جس شخص کو جس کام کا اہل سمجھتے ہیں، اس کے سپرد وہی کام کرتے ہیں۔
بعض حضرات ظفر کمالی صاحب کے بارے میں یہ راے رکھتے ہیں کہ وہ گُم نام رہنا پسندکرتے ہیں۔ استادِ محترم صفدر سر نے ان کے ساہتیہ اکادمی انعام کے سلسلے سے جو مضمون لکھا، اس کا عنوان ہی انھوں نے ’گوشہ گیری کو انعام‘ رکھا۔یہ سچ ہے کہ وہ زیادہ تر تنہائی میں وقت گزارتے ہیں، لوگوں سے زیادہ میل جول نہیں رکھتے اور خاموشی سے ادب کی خدمت کرتے ہیں لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بس ایک کمرے میں بند ہو کر دنیا سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں، وہ دراصل ظفر کمالی صاحب کی شخصیت کو پوری طرح سے جاننے سے محروم ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ وہ دنیا سے کٹے ہوئے انسان ہیں۔ ہم نے خود کئی بار اُن کے گھر جا کر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ کتنے اَپ ٹو ڈیٹ اور زمانے کے حالات سے باخبر انسان ہیں۔ اُن کی میز پر اکثر تازہ رسائل، نئی کتابیں اور ادبی جرائد رکھے ہوتے ہیں۔ ایک بار ہم نے دیکھا کہ ریختہ کی جو نئی میگزین ابھی ابھی چھپی تھی، وہ اُن کے مطالعے کی میز پر موجود تھی جب کہ وہ عام قارئین کی دسترس سے ابھی باہر تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر ہم عصر علمی و ادبی مواد پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے گھر میں ایک کمرہ ایسا بھی ہے جس میں وہ خاص طور پر دنیوی امور و ملکی اور غیر ملکی حالات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ صرف ادب تک محدود نہیں بل کہ سیاست، سماج، مسلمانوں کے مسائل، فلسطین کے سانحے، ہندستان کے حالات، ہندو مسلم تعلقات، امریکا میں کیا ہو رہا ہے، مشرقِ وسطیٰ کے حالات کیسے ہیں اور دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے؛ ان سب موضوعات کے سلسلے سے نہ صرف یہ کہ ظفرصاحب پڑھتے ہیں بل کہ ان پر سوچتے اور لکھتے بھی ہیں۔ان کی شاعری بالخصوص رباعیوں سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے جس میں کورونا کے تعلق سے ’ایسا تو کبھی ہم نے دیکھا نہ سُنا+بیمار کو اس کی ہی دوا چاٹ گئی‘ اور’ہرروز نہاتا ہوں اپنے خوں سے+محسوس یہ ہوتا ہے فلسطین ہوں میں‘ جیسے مصرعے اور اشعار کا استعمال ہوا ہے۔ ان کی ایسی شاعری سے ان کے ذہن میں موجود ہم عصر مسائل اور حالات کے کرب کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ظفر کمالی صاحب کی خاموشی کو اگر کوئی گُم نامی سمجھتا ہے تویہ اُس کی نادانی ہے۔ وہ ظاہری طور پراس شور شرابے سے دور ہیں لیکن فکری سطح پر بہت بیدار ہیں۔ وہ دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جو لوگ دہلی، لکھنؤ یا بڑے بڑے شہروں میں بیٹھ کر خود کو ادب اور وقت کا رہ نما سمجھتے ہیں، انھیں شاید اندازہ بھی نہیں ہو کہ شہرِسیوان میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے جو ان سب سے زیادہ با خبر اور ذی علم ہے۔ کارل مارکس کے بارے میں سُنا ہے کہ وہ ایک کتب خانے کے کمرے میں بیٹھ کر پوری دنیا میں انقلاب لانے کا خواب دیکھا کرتا تھا ، ظفر کمالی صاحب بھی اسی قبیل کے لوگوں میں نظر آتے ہیں۔
ظفر کمالی صاحب کی زندگی ہم طلبہ کے لیے واقعی ایک چلتی پھرتی درس گاہ ہے۔ عام طور پر جب ہم کچھ لکھنا چاہتے ہیں، کچھ پڑھنا چاہتے ہیں یا کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں کتب خانے کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ وہاں بیٹھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ ہمیں کس موضوع پر کیا پڑھنا ہے، کون سی کتابیں کام کی ہیں اور کیا وہ کتابیں ہمارے مطلب کی ہیں یا نہیں۔ کبھی کبھی ایک موضوع پر پانچ سات کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں تاکہ بات سمجھ میں آجائے لیکن اگر آپ ظفر کمالی صاحب کے پاس بیٹھ جائیں تو یہی علم آپ کو بڑی آسانی سے، کم وقت میں اور پورے خلاصے کے ساتھ حاصل ہو جاتا ہے۔ جو چیزیں آپ کئی ماہ لگا کر سیکھیں، وہ ان کی صحبت میں گزارے دو سے تین گھنٹوں میں سیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ وہ باتوں باتوں میں ایسے مشورے دیتے ہیں جو ایک طالب علم کے لیے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں کی ملاقات میں انھوں نے مشورہ دیا:
’’ اگر آپ کو اردو میں بھاری بھرکم، مرصع اور باوقار زبان لکھنی ہو تو قاضی عبدالستار کو پڑھیے۔ خاص طور پر ان کے ناول ’شب گزیدہ‘ کا مطالعہ کیجیے۔ اس میں آپ کو زبان کی خوب صورتی اور گہرائی دونوں ملیں گی۔‘‘
اگلی ملاقات میں یہ بھی فرمایا:
’’ اگر آپ کو سادہ، عام فہم اور نرم زبان اردو میں لکھنے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو سید محمد اشرف کی کتاب ’آخری سواریاں‘ پڑھنی چاہیے ۔ اس میں زبان نہایت آسان اور سادہ ہے۔‘‘
اب بھلا یہ باتیں اب کتابوں میں کہاں لکھی ملتی ہیں کہ ادب کی کس راہ پر کس مصنف کی کون سی کتاب رہ نمائی کر سکتی ہے۔ سچ ہی کہا گیا ہے کہ علم بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ہم لوگوں کو ظفرکمالی صاحب کی صحبت سے یہ موقع میسر آتا ہے اور حقیقی بات یہ ہے کہ آج کل کون سا ایسا استاد ہے جو اتنی قیمتی باتیں بغیر کسی مفاد اور صلے کی تمنا کے بتا دے۔الا ماشاء اللہ۔ شاید قیمت ادا کرنے کے بعد بھی کوئی ادب اور زندگی کے قیمتی تجربات سے آپ کو آگاہ نہ کر سکے۔ یہ علم تو اسی شخص سے حاصل ہو سکتا ہے جو خود اپنے آپ کو ہمہ تن اسی راہ کا مسافر بنائے ہوئے ہو اور یہ راستہ اس نے دل لگا کر طَے کر لیا ہو۔
میرے خیال سے ظفر کمالی صاحب نے اپنی پوری زندگی علم و ادب کے لیے وقف کر دی ہے۔ ان کے پاس صرف کتابوں کا مطالعہ نہیں بل کہ زندگی کا بھی گہرا تجربہ ہے۔ وہ جب بھی کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو باتوں ہی باتوں میں ایسی علمی اور تربیتی باتیں کر جاتے ہیں جن سے سننے والا بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ وہ نہ صرف استاد ہیں بل کہ ایک چلتی پھرتی لغت اور ایک زندہ درس گاہ کے مانند ہیں۔ ہم نے کئی بار محسوس کیا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی زبان کی درستی اور معنوی وضاحت پر زور دیتے ہیں۔ ایک بار ہم ان کے ساتھ بیٹھے تھے تو کسی نے وقت بتاتے ہوئے کہا: ’’سوا ایک بجے ہیں۔‘‘ فوراًٹوکتے ہوئے فرمایا: ’’ ’سوا‘ کا مطلب ہوتا ہے ایک بج کر پندرہ منٹ، اگر ابھی سوا بجنے والے ہیں تو سوا ایک کہنا غلط ہے۔ایک کہنے والے نے دوسرا جملہ کسا: ’’پونے ایک بجے ہیں‘‘ تو ان کا جواب تھا: ’’اصل لفظ ’پون بجے‘ہوتا ہے، یعنی ایک بجنے میں پندرہ منٹ باقی ہوں تو پون بجا کہتے ہیں، پونے ایک نہیں۔‘‘
دوسرے موقعے سے انھوں نے ’’طلسم ہوش رُبا‘‘کی وضاحت کی۔ بتایا:
’’ ’رُبا‘ ’ربودن‘ مصدر سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’اُچک لینا‘۔ یعنی ایسا طلسم جو ہوش اُچک لے جائے، صرف ہوش اُڑانا نہیں۔‘‘
اسی طرح علامہ اقبال کے شعر میں آئے لفظ ’’نورُستہ‘‘ کے بارے میں بتانے لگے:
’’ اس کا مطلب ہے نیا اُگا ہوا سبزہ، نہ کہ کوئی اور مطلب جیسا کہ لوگ عموماً سمجھتے ہیں۔ ‘‘
ظفر کمالی صاحب صرف علم و ادب کی باتوں پر ہی اکتفا نہیں کرتے بل کہ عملی زندگی کے آداب بھی سکھاتے ہیں۔ ایک دن وہ صفدر سر کے فلیٹ پر تشریف فرماتھے اور ناخن تراش رہے تھے۔ ناخن تراشنے کے بعد تراشے ہوئے ناخن کو اُنھوں نے میری ہتھیلی پر رکھا۔ ہم نے ناخن کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔ جب انھیں اندازہ ہوا کہ ہم نے اُن کے تراشے ہوئے ناخن کو کوڑے دان میں ڈالا ہے تو شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
’’تمھارے لیے یہ نصیحت ہے کہ ناخن پاک چیز ہے، اسے صاف پانی میں بہایا جاتا ہے، نہ کہ اِسے کوڑے دان میں پھینکا جاتا ہے۔‘‘
اس دن ہم نے یہ اہم بات سیکھی کہ بال اور ناخن کا احترام بھی ایک ضروری چیز ہے۔ ایک اور نصیحت جو بہت یادگار ہے کہ: ’’ہمیشہ سلام کرنے والے بنو، جواب دینے والے نہیں۔‘‘ یعنی سلام میں پہل کیجیے۔ آگے فرمایا:’’ اس سے عاجزی پیدا ہوتی ہے اور دل سے غرور ختم ہوتا ہے۔ ایک دن وہ کسی کام سے میرے شہر یعنی جے پرکاش یونی ورسٹی، چھپرا آئے۔ راستے سے گزر رہے تھے تو فون کیا اور کہا کہ ’’تمھارے شہر سے گزر رہے تھے، سوچا دعائیں دے دیں‘‘۔ ہمیں دل ہی دل میں کافی مسرت ہوئی اورانھیں ضد کے انداز میں دعوت دے دی کہ آپ ہمارے گھر ضرور تشریف لائیے۔ انھوں نے وعدہ نہیں کیا لیکن کہا کہ تمھارے گھر کی چاے ضرور پئیں گے۔ جمعہ کا دن تھا۔ انھیں یونی ورسٹی میں پنشن سے متعلق کچھ کاغذی کارروائی مکمل کرانی تھی۔ یونی ورسٹی کا کام ختم کرکے وہ اپنے چھوٹے بھائی جاوید اقبال بھائی کے پاس چلے گئے اور ظہرانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد میرے غریب خانے پرتشریف لائے ۔ ہمارے تمام گھر والوں کے لیے یہ بڑی عزت کی بات تھی۔ راستے میں ہی فون پر انھوں نے خاص تاکید کے ساتھ فرمایا: ’’میری بات غور سے سنو! مجھے چھپرا کی دکانوں کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے تم ایک اچھی سی مٹھائی پہلے سے خرید کر رکھو۔ میں وہی تمھارے گھر اپنی طرف سے پیش کروں گا۔‘‘ ان کے لہجے میں اُس وقت شدید سختی تھی جیسے وہ جانتے ہوں کہ میرا جواب کچھ نفی میںہوگا اورمَیں مٹھائی خریدنے سے انکار کروں گا۔ غالباً اسی خدشے کے پیش نظر وہ پہلے ہی باتوں کو سختی سے کہنے لگے تاکہ میرے پاس انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کی طرف سے تھوڑی سی مٹھائی خرید لایا بس اس خیال سے کہ ان کے زیادہ پیسے خرچ نہ ہوں، اور ان کے ہاتھوں سے مٹھائی پیش کرنے کی روایت بھی پوری ہو جائے۔ جب وہ میرے گھر پہنچے تو سب سے پہلا سوال یہی کیا: ’’کتنے کی مٹھائی لی ہے؟‘‘ میں نے جھجھکتے ہوئے کہا: ’’دو سو روپے کی۔‘‘ بس، پھر کیا تھا! وہ ذرا سی ناراضی اور ہلکے طنز بھرے لہجے میں بول اٹھے:’’دو سو روپے کی کون سی مٹھائی ہوتی ہے؟ تم میرا مذاق بنوا رہے ہو! تمھیں ذرا بھی احساس نہیں کہ مہمان کے طور پر تمھارے گھر کیا لے کر آنا ہے؟‘‘ راستے میں تو صرف لہجے میں سختی تھی مگر اب وہ باتوں سے خوب شکوہ بھی کرنے لگے۔ کافی دیر تک وہ طنزیہ انداز میں دہراتے رہے : ’’اتنی کم قیمت کی مٹھائی!‘‘ جاتے وقت اُنھوں نے میری خریدی ہوئی میٹھائی کے دو سو روپے مجھے واپس کیے اور پھر الگ سے اپنی جیب سے پانچ سو روپے نکالے، میرے ہاتھ میں زبردستی تھماے ۔ انھوں نے حکم دیا: ’’جاؤ! اب ایک اچھی مٹھائی لے کر آؤ۔ مہمان کی عزت اسی میں ہے!‘‘ میں شرمندگی سے کچھ کہہ نہ سکا۔ ان کا انداز سخت ضرور تھا مگر اس کے پیچھے شفقت، اصول اور تہذیبی روایت چھپی ہوئی تھی۔
جب وہ ہمارے گھر پہنچے تو میرے والد، چچا، بھائی سب دروازے پر استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ جب وہ اندر جا رہے تھے تو میں اپنے معمول کے مطابق اساتذہ کے ساتھ میں چلنے کے دوران دو قدم پیچھے ہی چل رہا تھا۔ انھوں نے دیکھا اور مجھے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ دو بارہ اشارہ کرنے کے باوجود جب میرے قدم اُن سے آگے نہیں نکل سکے تو فرمانے لگے : ’’جب کوئی پہلی بار تمھارے گھر آئے تو اُس کی رہ بری کرو، آگے چلو، پیچھے نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ ابّو تو آگے ہیں ہی رَہ بَری کر رہے ہیں۔ تو دوبارہ ارشادہوا : ’’لیکن مہمان تمھارا ہے، رہ بری تم کرو گے۔‘‘ وہ تقریباً ڈیڑھ۔دو گھنٹے ہمارے گھر پر رہے۔ ہم سب نے ان کی باتوں سے بہت کچھ سیکھا۔
ایک بار میں نے ظفر کمالی صاحب کو فون کیا۔ میرے ذہن میں کچھ الجھنیں تھیں۔خاص طور پر خاکہ، شخصی مضمون، تاثراتی مضمون جیسے موضوعات کو لے کر۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ہم جب کسی شخصیت پر لکھتے ہیں تو وہ ’خاکہ‘ کہلاتا ہے یا ’شخصی مضمون‘؟ یا پھر اس میں تاثرات شامل ہوں تو اس کا الگ نام ہو جاتا ہے؟ میں نے ظفر کمالی صاحب سے فون پر ہی اپنے سوال رکھے : ’’سر! ہم کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ کس صنف میں ہے؟‘‘ ظفر کمالی صاحب نے میری بات بڑے تحمل سے سنی اور بہت ہی سادہ مگر پُر اَثر جواب دیا:
’’آپ ان سب باتوں میں ابھی نہ الجھیں۔ فی الحال جو آپ لکھ رہے ہیں، وہ لکھیے۔ لکھنے کی مشق جاری رکھیں۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے بہت ہی پُر لطف مقولہ ارشاد فرمایا جسے سُن کر میں بہت محظوظ بھی ہوا اور میرے سوال کا جواب بھی مل گیا۔ انھوں نے فرمایا: ’’عروض کے بڑے ماہرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں وزن و بحر کی خامیاںکبھی راہ نہیں پاتیں لیکن ان کی شاعری میں کچھ خاص خوبیاں بھی نہیں ہوتیں‘‘ یعنی محض ضابطوں کا خیال رکھنا کافی نہیں ہوتا۔ اصل چیز تخلیقی جوش اور عملی تجربہ ہے۔ انھوں نے فرمایا:
’’آپ فی الحال صرف لکھنا سیکھیے، زبان کا سلیقہ سیکھیے، بات پیش کرنے کا شعور پیدا کیجیے۔ یہ دیکھیے کہ آپ کن باتوں کو منتخب کر رہے ہیں، کن باتوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ آپ کی توجہ یہ ہونی چاہیے کہ آپ کی بات کس انداز میں پہنچ رہی ہے، نہ کہ یہ کہ اس کا نام خاکہ ہے، شخصی مضمون ہے یا تاثراتی نوٹ۔‘‘
ان کا یہ کہنا میرے لیے ایک بڑی رہ نمائی تھی۔ میں نے سمجھا کہ لکھنے کے ابتدائی دور میں صنف کی الجھن میں پڑنے کے بجاے مشقِ سخن، زبان کی صفائی اور بات کہنے کا انداز سیکھنا زیادہ ضروری ہے۔
اس مختصر سے مضمون میں ظفر کمالی صاحب کی شخصیت کے چند روشن گوشوں کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی ہے جنھیں میں نے اپنی آنکھوں اور صدق دل سے جیسا دیکھا اور محسوس کیا، ٹھیک ٹھیک اُسی طرح صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ آخر ظفر کمالی کی شخصیت پر اس مضمون کولکھنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی۔ بلا مبالغہ یہ کہاجا سکتا ہے کہ ایسی شخصیت جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہے، اُنھیں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اِس پُر فِتن دور میں ایسی مخلص اور ذی علم شخصیت کا ملنا، ایک بڑی نعمت اور خدا کی طرف سے عطیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ظفر کمالی کی شخصیت ایسی قدآور اور دل چسپ ہے جس کے احاطے کے لیے یہ مضمون ناکافی ہے۔جو لوگ ان سے واقف نہیں ، ان کو اندازہ بھی نہیںلگ پاتا کہ ان کی اہمیت اور حیثیت موجودہ عہد میں کیا ہے۔ چند مخصوص لوگوں کے لیے ہی وہ اپنے علم کا اظہار کرتے ہیں اور کافی جانچ پرکھ کر ہی لوگوں کو اپنے قریب آنے کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں۔ میری ناقص راے میں اگر آپ واقعی کچھ لکھنا، پڑھنا یاسیکھنا چاہتے ہیں، زندگی کی باریکیوں سے خود کو روشناس کرنا چاہتے ہیں توعہدِ حاضر میں پروفیسر ظفر کمالی جیسے اشخاص کی صحبت سے فیض اُٹھاناآپ کے لیے ناگزیر ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان جیسے افراد سے آپ کو کبھی مایوسی حاصل نہیںہوگی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ظفر کمالی سر کی عمر میں برکت عطا کرے اوران کی شخصیت کے ذریعہ ہماری سرپرستی کی مُدّت طویل ہوتی رہے اور ہم اُن کے سایۂ شاگردی میں علمی تربیت پاکر عملی میدان میں بھی آگے بڑھیں اور احمد جمال پاشا کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے رہیںجس کی ذمہ داری ظفر کمالی سر کے استاد احمد جمال پاشا نے انھیں دی تھی۔ آمین! ثم آمین، یا ربَّ العالمین۔
٭٭٭
Md Marjan Ali
Research Scholar
Department of Urdu, Jai Prakash University, Chapra
Email Id: mdmarjanali07@gmail.com; Call & Whatsapp: 9931646092
https://amzn.to/47o2Xnk