افسانہ نگار : نیلما شرما (neavy41@gmail.com)
ہندی سے ترجمہ : شہادت
786shahadatkhan@gmail.com
المکتوم ایئرپورٹ سے ایئر ایمریٹس کے اڑان بھرتے ہی شیریں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے اپنی بیٹی صبا کا ہاتھ کس کر تھام لیا۔ بیس برس، ہاں، اتنے لمبے عرصے کے بعد وہ اپنے وطن انڈیا واپس لوٹ رہی تھی۔
‘ساڈا چڑیا دا چنبا وے بابل اساں اڑ جانا، ساڈی لمبی اڈاری وے اساں تیرے ویڑے نہیو آنا۔۔۔’
امی کتنے چاؤ سے پڑوسی گھروں کی شادی میں یہ گانا گایا کرتی تھیں۔ کیا معلوم تھا ان کی اپنی بیٹیاں ہی اس آنگن کو ترس جائیں گی جہاں وہ گھر گھر کھیلتی تھیں۔ پٹھان کوٹ کے دینا نگر قصبے میں بیس ہندو سکھ گھروں والی گلی کے آخری چھور پر اس کے نانا ابو کا گھر تھا۔ گوری چٹی نانی امی جب ٹیک لگاکر پنجابی ہیر گاتی تھیں تو سب منترمگدھ ہوکر سنتے تھے۔۔۔
‘ہیر آکھدی وے جو گیا وے جھوٹھ بولے
وے کون رٹھڑے یار مناوندا ای
وے ایسا کوئی نہ ملیا وے میں ڈھونڈھ تھکی، ہاں۔۔۔’
ٹپے اور بولیاں پانے کے ساتھ گدا پانے میں امی اور ممانی کا بھی کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔ امی اور نایلا ممانی ممیری پھپھیری بہنوں کے ساتھ ساتھ پکی سہیلیاں تھیں۔ دسویں کے بعد دونوں کا نکاح ایک ہی شام کو ایک دوسرے کے بھائی سے کر دیا گیا تھا۔
نایلا ممانی کے ہاتھ میں غضب کا ذائقہ اور ہنر تھا۔ جب وہ گوشت پکایا کرتی تھیں تو آس پاس کے پنجابی گھروں تک خوشبو جاتی تھی۔ گلی کے ہر گھر میں اس دن کسی کو اپنے گھر کی سبزی سالن میں ذائقہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ کئی بار ان کی پڑوسن پرمجیت آنٹی ریسپی پوچھ کر خود بھی ویسا چکن بنانے کی کوشش کرتی تھی تو بھی ویسا ذائقہ نہیں آتا تھا۔ ممانی اکثر زیادہ ہی گوشت پکاتی تھی جو خوشبو سونگھ کر مانگنے آنے والوں کو دینا ہی ہوتا تھا۔
ممانی کے ہاتھ کا ذائقہ یاد کر شیریں کو بھوک لگ آئی تھی۔ اس دن بھی تو ممانی نے ملائی گوشت ہی پکایا تھا جب ان کے بیٹے فہیم کا جنم دن تھا۔ ان دنوں مامو اور ابو میں کسی مسئلے کو لے کر آپس میں بول چال بند تھی۔ اس بات کا اثر گھر پر بھی تھا۔ کوئی نانی کے گھر نہیں جائے گا، کا فرمان جاری کر ابو کام پر چلے جاتے تھے۔ ان کے کام پر جاتے ہی جیسے سب سرحدیں کھل جاتی تھیں۔ بےروک ٹوک دونوں گھروں میں اکثر چھت ٹاپ کر آنا جانا شروع ہو جاتا تھا۔ پوری گلی کے سب گھروں کی چھتیں آپس میں ملتی تھیں، سب بچہ چھوٹی سی منڈیر کو کودتے سیڑھی اترتے بھاگتے گھروں کی سرحد کو نہیں پہچانتے تھے۔ گرمی کی رات کو سارے گھروں کی چھت پر کھاٹ بچھا کر سب مرد لوگ سوتے تھے۔ شام کو جب گلی کے نکڑ سے سب کو اپنے اپنے ابو کی موٹر سائیکل اور اسکوٹر کی آواز سنائی دیتی تو پھر سے سب گھروں کے بیچ کرفیو سا لگ جایا کرتا تھا۔
فہیم اکثر ابو سے ڈانٹ کھایا کرتا تھا۔ اکثر ابو کے آنے پر وہ ہمارے گھر میں کبوتروں کو دانہ کھلا رہا ہوتا تھا یا مٹھی میں امی کی بنائی پنجیری بھرے چھت پر سے بھاگنے کی تیاری میں رہتا تھا۔ شیریں کی بڑی بہن زیبا کو فہیم ذرا پسند نہیں تھا۔ فہیم اور ممانی سے اس کا ہمیشہ ہی جھگڑا ہی رہتا تھا۔ زیبا بالکل ابو جیسی تھی، تنک مزاج جلد غصے میں آ جانے والی ضدی بھی۔ لیکن شیریں ایک دم حلوے کی طرح منہ میں گھل جانے والی زبان بولتی ہوئی معصوم لڑکی تھی۔ ایسا اکثر ممانی کہا کرتی تھی۔
اس شام بھی ممانی کے بنائے کھانے کی خوشبو سے پورا محلہ مہک رہا تھا۔ ممانی ایک شام پہلے ہی خود آکر اپنے بڑے بھائی کو نیوتا دے کر گئی تھیں اور ابو اپنی چھوٹی بہن کے بلاوے پر صرف امی کو چلے جانے کا فرمان دےکر کام پر چلے گئے تھے۔
امی بھی زیبا کو ساتھ لے کر اپنے اکلوتے بھتیجے کی سال گرہ کی دعوت کے لیے صبح سے ہی اس گھر میں چلی گئی تھی۔ شام کے وقت شیریں نے بھی نیلا ساٹن کا سوٹ پہنا، سنہرے لمبے جھمکوں کے ساتھ اس نے اپنے لمبے بالوں میں پراندی پہن کر آنکھوں میں سرما لگایا تو آئینہ بھی ماشاءاللہ بول اٹھا۔ نیچرل کلر کی لپسٹک سے اس نے پہلے ہونٹوں کو خوب رنگا پھر رومال کے کونے سے اس نے لپسٹک کو پونچھ دیا۔
جعلی والی موتیوں سے کڑھائی کی چنی کو پہن کر جو اس نے دیکھا تو وہ مچڑی نظر آ رہی تھی۔ ادھر دعوت شروع ہونے والی تھی۔ اس نے امی کی الماری کھولی تو نیلی ہری رنگ کی بھاری کڑھائی والی پھلکاری کی دو چنیاں نظر آئیں جو امی اور ممانی نے کبھی اپنے ہاتھ سے کڑھائی کر اس کے اور زیبا کے جہیز کے لیے سنبھال رکھی تھی۔ یہ امیاں بھی بیٹیوں کو اپنے خاندان میں بیاہنے کی قواعد کرتی ہیں لیکن جہیز ایسے جوڑتی ہیں جیسے کوئی سوتیلی ساس ملنے والی ہے۔ ایک بار پہن لیتے ہیں، کون سا کل میرا اور زیبا کا نکاح ہو رہا ہے سوچ کر بھاری دوپٹہ پہن اس نے آئینہ کے سامنے گول چکر لگایا اور باہر گلی میں تیز بارش کے بعد جمع کیچڑ دیکھ کر جلدی سے سیڑھی چڑھ کر چھت سے ہی ممانی کے گھر چلی جاتی ہوں، سوچ کر جلدی جلدی چل دی۔ سیڑھی کے آخری چھور پر فہیم کھڑا تھا۔
“بن ٹھن کے کہاں جا رہی ہو؟”
“ہٹ راستہ چھوڑ، تجھے کیا؟ مجھے آج ممانی نے اپنے بیٹے کے سال گرہ کی دعوت پر بلایا ہے۔”
“اس کی اٹھارہویں سالگرہ ہے، گفٹ کیا دو گی؟”
“میرے پاس کہاں پیسے ہیں جو گفٹ دوں، تونے تو آج تک ہار گئی شرط کے پیسے بھی نہیں دیے،۔”
“اوے، کون سی شرط؟
“وہی جو لوڈو میں سب سے زیادہ گوٹی کاٹے گا وہ دوسرے کو پچاس روپے دے گا یا قلفی کھلائے گا۔”
شیریں نے آنکھیں گھماتے ہوئے فہیم کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی کالی بڑی آنکھوں میں جیسے کوئی نشہ طاری تھا، جیت تو کوئی بھی ہو چہرے پر گمان لے ہی آتی ہے۔
“ارے کھلائی تو تھی وہ ٹھیلے والے سے لے کر اورینج والی آئس کریم، لیکن تونے ایک بار ہی لمبا گہرا سا چوس کر آئس کریم اسٹک واپس کر دیا تھا کہ یہ شرط کے نام کی نہیں چاہیے، شرط کے تو پیسے ہی چاہیے۔”
“تو۔۔۔ تو۔۔۔ صحیح تو کہا تھا، اب میرے پاس روپے ہوتے تو سفید رومال خرید کر نیلے رنگ سے ایف کڑھائی کرکے تجھے دے دیتی نا۔”
“اچھا! تو یہ لے شرط کے پچاس روپے لیکن تحفہ تو مجھے ابھی چاہئے۔”
“ابھی! ایسے کیسے لے کر آؤں؟ پیچھے مڑ کر دیکھ نہ کتنی تیز بارش ہو رہی ہے۔”
“اگر ابھی بازار نہیں جا سکتی تو کچھ اور تحفہ دے دو آج۔”
“کیا؟”
“جو میں تحفہ مانگو وہ دے دینا بس۔”
“چل، آج مل کا شیریں خوش ہے، تم مانگ لو جو مانگنا ہے۔”
“پکا نا؟”
کہتے کہتے فہیم نے اس کے ایک ہاتھ کی انگلی میں اپنی انگلیاں پھنسا دی۔ شیریں گھبراہٹ کے مارے کسمسا اٹھی۔ اس کا دوسرا ہاتھ پکڑکر فہیم نے دیوار کے ساتھ ٹکا دیا۔ شیریں کی دھڑکن تیز ہو گئی، اس کے گلابی ہونٹ جو لپسٹک پونچھ دیےجانے کے باوجود بھی چمک رہے تھے، تھرتھرا اٹھے۔ آنکھیں ایک گھبرائی ہرنی سی گھومنے لگی۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی پرزور کوشش کی، لیکن فہیم کی پکڑ سخت ہوتی جا رہی تھی۔ شیریں کی طرف بڑھتے فہیم کی آنکھیں کسی کشتی سی تھی جو اس کی جھیل سی آنکھوں کو خود میں کھینا چاہتی تھیں۔ شیریں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لی اور جیسے ہی اس کو اپنے کان کے پاس ایک گہری سانس کا لمس محسوس ہوا اس نے ایک دم ‘نہیں’ کہا اور دھم سے نیچے جھک گئی اور ہاتھ چھڑاکر ایک دم سیڑھی اترنے لگی۔ فہیم نے جلدی سے اس کا دوپٹہ پکڑ لیا۔
“جھلی سی لڑکی۔۔۔ یہ تحفہ تو میں کبھی نہ کبھی لیکر رہوں گا۔” کہہ کر زوردار ٹھہاکا لگایا۔
“صرف رومال ملے گا تحفے میں، وہ بھی کبھی تمھارے کمرے میں رکھ آؤں گی۔” کہہ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے سینہ کو ڈھنکے شیریں کھٹ کھٹ سیڑھیاں اتر گئی۔
دوپٹہ فہیم کے ہاتھ میں ہی رہ گیا تھا۔ باہر بارش تیز ہو گئی تھی اور بھیتر دھڑکن۔ بنا دعوت کے بھی دونوں کے منہ کا ذائقہ اچھا ہو گیا تھا۔
“امی سیٹ بیلٹ باندھ لو فلائٹ دلی پہنچنے والی ہے۔” صبا اس کو کہہ رہی تھی۔ ٹرمنل تین سے باہر نکلتے ہی سامنے اس کے شوہر کے چچیرے بھائی ظفر احمد اپنی انووا لےکر کھڑے تھے۔
“سلام بھابھی! ماشاءاللہ صبا بہت پیاری ہو گئی ہو، خدا تم کو صحت مند رکھے۔”
“سلام چاچو!” کہہ کر صبا نے سامان رکھوانا شروع کیا اور چاچو کے ساتھ لگاتار بات کرتی جا رہی تھی۔ صبا کے ددھیال سے ہر برس کوئی نہ کوئی عید پر ان کے پاس دبئی آتا جاتا رہتا تھا۔ اس لیے صبا کو کبھی انڈیا آنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ انووا سرپٹ دلی کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ چنڈی گڑھ آنے میں ابھی چار گھنٹے لگنے تھے۔ اس کی بٹیا چنڈی گڑھ کے ایم. سی. ایم کالج سے سائکولوجی میں گریجویشن کرنا چاہتی تھی۔ داخلے کی ساری کاروائیاں پوری ہو چکی تھیں۔ پیچھے کی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اس نے صبا کو غور سے دیکھا جو ہوبہو اس کے جیسی تھی۔ ویسی ہی سفید سنگ مرمر سی رنگت، ملایم توچا، گلابی ہونٹ، پتلی سی ستواں ناک، نکیلی سی ٹھڈی، لمبی گردن اور دبلا سا شریر۔ بس فرق تھا تو بالوں کا۔ شیریں کے بال سیاہ کالے لمبے تھے وہیں صبا نے گلوبل خضاب کراکر بالوں کو سنہرا رنگ دے دیا تھا۔ اس کا اپنا جسم ضرور بھر گیا تھا۔ ویسے بھی اب وہ تین بچوں کی امی تھی۔ صبا کے دو چھوٹے جڑواں بھائی تھے جو دبئی میں اپنے ابو کے پاس رک گئے تھے۔
فلائی اوور سے گزرتی گاڑی سے باہر دیکھتی شیریں خاموش تھی لیکن اس کے اندر جیسے کوئی بہت کچھ ٹٹول رہا تھا۔ عرصے سے بھول گئی باتیں جو دل کے کسی اندرونی کونے میں کسی نایاب ہیرے کی طرح چھپاکر رکھی گئی تھی، آج یہاں آنے پر سامنے یادوں کی گٹھری کی طرح کھل گئی تھی اور دل افسردہ ہو اٹھا تھا۔
اسے یاد آیا جب وہ سال گرہ میں شرکت کرنے نہیں پہنچی تھی تو ممانی خود آکر اس کو لے کر گئی تھی، جلدی جلدی میں اس نے وہی پہلے کا مچڑا دوپٹہ اٹھاکر اچھے سے اوڑھ لیا تھا۔ زیبا نے جب اس کے تیار ہونے پر طنز کسا تو نانی امی اپنی بیٹی کو کہہ اٹھی تھیں “اس مری زیبا کو تو پاکستان والے ہی لے جائیں۔ جیسی اس کی قینچی جیسی زبان ہے نہ اس کو تو اس کا شوہر کہیں تین لفظ کہہ کر تمہارے گھر واپس ہی نہ چھوڑ جائے۔”
نانی امی نے شیریں کی بلائیں اتارتے ہوئے امی کو کہا کہ شیریں کو تو ہم فہیم کی دلہن بناکر ہمیشہ کے لیے اس گھر میں لے آئیں گے۔ تم بس اپنی زیبا کے لیے کوئی لڑکا کھوج لو۔
امی نے زیبا کے لیے ایسےلفظ سن کر کہا، “ہائے امی توبہ توبہ! ایسے تو نا کہو۔ اللہ نے اس کی قسمت میں کوئی میٹھی مراد بھی لکھی ہوگی نہ۔ پڑھنے لکھنے میں ذرا کمزور ہے اس لیے زبان ذرا ترش ہو گئی ہے۔ دیکھنا اس کی قسمت میں تو سات سمندر پار کا کوئی شہزادہ لکھا ہوگا۔"
“سات سمندر پار کا نہیں بس سرحد پار کا کہو نہ۔ شہزادہ نہیں کوئی چرواہا ہی ہوگا۔" فہیم نے دھیمے سے کہا تھا لیکن ممانی نے آنکھیں تریرکر خاموش رہنے کو کہا۔
زیبا گدا ڈالتی لڑکیوں کے ساتھ خوش تھی۔
آپے لے جان گے جنہا نو لگےگی پیاری، و آپے لے جان گے۔۔۔
فہیم اور شیریں نانی امی سے اپنی جوڑی کی بات سن ایک دوسرے کو دیکھ شرماتے ہوئے مسکرا دیے، تھے۔
اس برس پھر شیریں کے ابو کو بزنس میں کچھ زیادہ گھاٹا ہو گیا تھا۔ قرض دار تقاضا کرنے کے لیے آنے لگے تھے تو انھوں نے ماموں سے کچھ روپے کی مدد مانگی۔ لیکن ماموں ان کے تلخ مزاج اور رئیسی طبیعت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ اگر ایک بار لاکھوں کا ادھار دے دیا تو لوٹانے کے لیے کہنا مطلب پنگے پینا ہو جائے گا۔ پیسے کی مدد نہ ملنے سے ابو سخت ناراض ہو گئے اور انھوں نے کھاڑی دیشوں میں جانے کے لیے جگاڑ لگانا شروع کر دیا۔ دبئی میں رہنے والے ابو کے ایک دوست قریشی انکل اپنے بیٹے کے لیے دلہن کھوج رہے تھے۔ ابو نے ان کو زیبا کا فوٹو بھجوا دیا۔ مزاج سے زیبا جیسی بھی تھی دیکھنے میں مادھوری دیکشت سے کم خوب صورت نہیں تھی۔ خوب صورت امی کی خوبصورت بیٹی ہے کہہ کر قریشی انکل نے سب کو دبئی آنے کے ٹکٹ بھجوا دیے، تھے۔
آنا فانا میں گھر بیچ کر ابو نے سب قرض چکائے اور اب سب ابو کے ساتھ دبئی جانے کی تیاری کرنے لگے۔ امی نانی اور ممانی کے گلے لگ کر خوب روئی تھی۔ نانا ابا بھی خوب روئے تھے، پر ماموں خاموش تھے۔ فہیم ان دنوں سرینگر ہاسٹل میں پڑھتا تھا۔ ابو کے ڈر سے کوئی چٹھی پتری تو نہیں آتی جاتی تھی لیکن ممانی کبھی کبھی لینڈ لائن پر اس کی اور فہیم کی بات کروا دیتی تھیں۔ ان دنوں امتحان کے دن تھے اس لیے فہیم کو ہاسٹل سے گھر فون کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
جس روز شام کی روانگی تھی اس دن کی بات ہے۔ شیریں نے اس کے لیے چھ رومالوں پر ایف کڑھائی کیا ہوا تھا کہ جب لوٹ کر آئے گا تو چپ چاپ یہ تحفہ دے گی لیکن اب۔۔۔ وہ چپکے سے سیڑھیوں سے اتر کر سیدھے فہیم کے کمرے میں گئی اور اس کی کتابوں کے بیچ رومال تہہ لگاکر رکھ آئی۔ پھر دروازے تک جاکر واپس لوٹ کر اس نے فہیم کی ایک کاپی اٹھائی جس میں اس نے ریاضی کے سوال حل کیے تھے اور اس کا چار الگ الگ رنگ کے رفل والا پین اپنی شلوار میں اٹکاکر قمیض نیچے کر چھپا لیا، پھر اس نے ممانی کی لال لپسٹک اٹھائی اور واپس رومال اٹھاکر سب رومالوں پر کونوں میں اپنے ہونٹوں کے لپسٹک والے نشان چسپاں کر دیے،۔ اپنے بالوں میں بندھے نیلے ربن کو اتار کر اس نے کاپی کے بیچ کے صفحے پر سب رومال رکھ کر پیک کئے اور ربن سے باندھ کر اس پر لکھا ادھار پریم کی قینچی ہیں۔۔۔ تمھارے اس برس کے جنم دن کا تحفہ۔۔۔ مجھے بھول مت جانا، اللہ چاہے گا تو ہم پھر ملیں گے۔۔۔ اور کتابوں کے بیچ چھپاکر رکھ دیا۔ دوپٹے سے اس نے اپنے لپسٹک لگے ہونٹھوں کو پونچھ لیا۔ اس کی سرخ آنکھیں دیکھ سب سمجھ رہے تھے کہ اس کو دبئی جانے کا غم ہے لیکن غم بےیقینی کا تھا کہ فہیم سے ملنا کل ہو یا بھی نہ ہو۔ سالے اور جیجا کے بیچ تلخیاں اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو ملنے بھی نہیں آئے۔ یہ ایک ایسا طوفان اچانک آیا تھا جو شیریں کو مع پریوار دبئی لے گیا تھا اور فہیم کو اس کا علم بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی پڑھائی میں جان ہی نہیں پایا کہ اس کی زندگی میں ایک سیلاب آیا اور چپکے سے سب تباہ کرکے چلا بھی گیا۔
ابو نے دبئی جاکر امی کو کبھی مائیکے میں فون کرنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ چھ مہینے میں ہی زیبا کا سلیم بھائی کے ساتھ دھوم دھام سے نکاح ہو گیا تھا۔ وہی سلیم کا بھائی نادم جو لندن سے پڑھ کر آیا تھا اور شیریں سے نکاح کی ضد پکڑ بیٹھا۔ ابو کو گھر بیٹھے بٹھائے بیٹیوں کے لیے اچھے دولہے مل رہے تھے۔ سمدھیانے والوں نے ان کی دبئی میں پہلے ہی اچھی نوکری بھی لگوا دی تھی تو زیبا کے بیٹے کے عقیقے والے دن ہی شیریں کا بھی نکاح نادم سے کر دیا گیا۔ ددھیال کے سب لوگ نکاح میں شامل تھے۔ ننہیال سے اکیلی نانی امی آئی تھی۔ لاکھ منت کے باوجود ممانی اور فہیم کو دبئی آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ سب کے لاکھ منت منوول کے باوجود ابو نے کسی کی ایک نہ سنی۔
"امی! اتریے نہ۔۔۔" صبا نے آواز دی تو اس نے دیکھا کرنال کے حویلی ریستوراں کے سامنے انووا رکی تھی۔ بھوک تو اس کو بھی لگ آئی تھی۔ اس کو یاد آیا کہ ممانی نے ایک بار اسی حویلی کے باہر کھڑے فہیم کی تصویر اس کو یاہو پر دکھائی تھی۔ بہت رونے دھونے کے بعد آخر دس برس بعد فہیم کا بھی نکاح ہو گیا تھا۔ امی کو اس کے نکاح پر انڈیا آنے کی اجازت تو مل گئی تھی لیکن عین موقع پر ان کو اپینڈکس کا درد اٹھا اور امی ہاسپٹل سے واپس ہی نہیں آئی تھی۔ ابو کو لگتا تھا کہ یہاں انڈیا میں اب سب منحوسیت ہی ہے، اب کوئی انڈیا میں ننہیال سے واسطہ نہیں رکھے گا۔
حویلی سے چل کر صبا اور شیریں نے کرنال امبالہ ہائی وے پر ایک مال میں خریداری کی۔ اپنے ہاسٹل کے لیے سامان خریدتی صبا ایک دکان سے دوسری دکان گھوم رہی تھی۔ مارک اینڈ اسپینسر کے شوروم میں اچانک رومال دیکھ کر شیریں کی نظر تھم گئی۔ اس نے نیلے رنگ کے رومال کا بکس خرید لیا جن پر ایف لفظ کڑھے ہوئے تھے اور چپ چاپ اپنے پرس میں رکھ لیا۔
ایک ہفتہ چنڈی گڑھ میں مصروفیت کے ساتھ بیت گیا۔ صبا کا داخلہ ہو گیا تھا۔ ہاسٹل میں بھی سب انتظام ہو گیا تھا۔ اب شیریں کا من اپنی نانی امی سے ملنے کو تڑپ اٹھا کہ جانے پھر کب انڈیا آنا ہو تو اس نے دھیمے سے صبا سے اپنی مرضی ظاہر کی تو صبا نے ان کو ہمت دی۔
"اپنے فیصلے خود کرنا سیکھو امی۔۔۔ ابو مجھے امریکہ بھیجنا چاہتے تھے لیکن میں جان بوجھ کر انڈیا آئی ہوں، کیونکہ مجھے اپنا سنگنگ کا پیشن پورا کرنا ہے۔ آپ چلو میں آپ کو نانی امی کے پاس لے چلتی ہوں۔"
ڈرائیور کے ساتھ کرایے کی کار لے کر صبا اور شیریں پٹھان کوٹ چل دیے، راستے میں امرتسر میں گولڈن ٹیمپل، جلیانوالا باغ گھومتے، پھر ویاس ندی کے کنارے ایک ڈھابے میں دال مکھنی کھاتے اس کو لگا ہی نہیں کہ وہ اپنی بیٹی صبا کی امی بن کر آئی ہے۔ اس کے اندر وہ سترہ برس والی شیریں پھر سے زندہ ہو گئی تھی۔ ہواؤں کی پرنم خوشبو اس کے سینہ میں ایک سکون بھر رہی تھی، بارش کی بوندیں اس کا بچپن لوٹا رہی تھیں۔
بربس پنجابی گانے اس کے ہونٹ گنگنانے لگے "سانوں نہر والے پل تے بلا کے۔۔۔ تے کھورے ماہی کتھے رہ گیا۔۔۔"
گھر کے باہر کوئی کار رکنے کی آواز سن کر اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکتی نانی امی نے آواز لگائی، "ارے کوئی دیکھو، کون آیا ہے باہر۔"
پھر خود ہی سوٹی ٹیکتے ہوئے لوہے کا گیٹ کھولنے کو آنگن میں چلی آئی تھیں۔
"آج کلیجہ میں کچھ ہو رہا ہے نہ معلوم کیا ہونے والا ہے!"
تبھی شیریں نے ان کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں باندھ لیا، "میری اچھی نانی امی!" ایک پل کو اپنی انگلی کے پوروں سے اس کے چہرے کو ٹٹول کر نانی امی میری بچی کہہ کر زوروں سے رو دی۔ شور سن کر بچہ اور ممانی بھی آنگن میں آ گئے تھے۔ ممانی بھی ان کو بانہوں میں بھرکر آنسو بہانے لگیں۔ تھوڑی دیر تک سب کا گلے لگ کر یہ رونا ملنا چلتا رہا۔ ماموں بھی "بچیوں تم نے تو آکر میرے گناہ بخش دیے" کہہ کر رو دیے تھے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دینے لگے تھے۔ تبھی شیریں کی نظر دونوں ہاتھوں میں نیلی چوڑیاں پہنے کاجل لگائے گالوں میں ڈمپل والی مسکراتی میٹھی آواز والی گدرائی سی دلہن کی طرف گئی جو ہاتھ میں شربت کی ٹرے لیے کھڑی تھی۔ اس نے ممانی کی طرف دیکھا۔ ممانی نے بھیگی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا، "ہاں فہیم کی دلہن نوری۔۔۔"
شربت کی ٹرے لے کر میز پر رکھتے ہوئے شیریں نے اس کو گلے سے لگا لیا۔ پھر اس کے چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں بھرکر ماتھے پر بوسہ لیا اور دعا دی، “میرا سوہنا رب تمہاری سب میٹھیں مرادیں پوری کرے! تم کو وہ سب بھی عطا کرے جو مجھے میری قسمت میں نہیں ملا۔"
"کیا بات ہے آج گھر میں گوشت کس خوشی میں پکایا جا رہا ہے۔۔۔ آج تو امی باورچی خانے میں گھسی لگتی ہیں۔" فہیم نے گھر کے اندر ایکٹوا کھڑی کرتے ہوئے کہا لیکن دہلیز پر ٹھٹھک کر رہ گیا۔ سامنے واش بیسن کے پاس ایک لڑکی اپنا چہرہ صاف کر رہی تھی۔ اس لڑکی کو دیکھ اس کا دل زور سے دھڑکا اور اس کو لگا جیسے وقت رک گیا ہے۔ وہ کوئی سپنا تو نہیں دیکھ رہا ہے!
"ابو ابو دبئی سے مہمان آئے ہیں۔"
بچوں کی آواز سے حقیقت سے روبرو ہوتے فہیم نے واش یسن کی طرف دیکھا ہوبہو ویسی ہی، یہ آج بھی ویسی کی ویسی۔
"آداب مامو!" اس آواز پر چونکے فہیم کو ممانی نے آواز لگائی۔
"فہیم، دبئی سے شیریں اور اس کی بٹیا صبا آئے ہیں۔۔۔"
اچانک فہیم کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس کے ہاتھ پسینے سے بھیگ اٹھے۔ آباد رہو کہہ کر اس نے اپنی دادی امی کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔
سامنے اس کی چھوٹی زندگی بینت کی کرسی پر بیٹھی تھی۔ وہی کشش، وہی نزاکت، وہی نفاست، وہی تازگی، وہی خوشبو۔۔۔ وہی اس کا من پسند نیلے رنگ کا کریپ کا سوٹ، سر پر دوپٹہ پہنے اف! اس کو دیکھتے ہوئے فہیم بھول گیا تھا کہ سب اس کو دیکھ رہے ہیں۔
آج اس گھر میں رونق بھرا شور تھا۔ لیکن خاموش تھے تو دو دل۔ ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ روبرو مل کر کیا کہنا ہے کیا بات کرنی ہے؟
بچہ دبئی سے آئے کھلونے اور چاکلیٹ پاکر بہت خوش تھے۔ ممانی نوری کے سنگ مل کر آج شیریں کی من پسند بریانی اور گوشت بنا رہی تھیں۔ صبا نانی امی سے ہیر (پنجابی ورہ گیت) سن رہی تھی اور سب کے ویڈیو بناکر انسٹاگرام پر پوسٹ کر رہی تھی۔ نانی کی آواز میں آج بھی کشش باقی تھی۔
ہیر اکھاں جو گیا جھوٹھ بولے
کون وچھڑے یار ملاوداں ای
ایسا کوئی نا ملیا ویں میں ڈھونڈھ تھکی
جیڑا گیا نوں موڑ لییاوندا ای
میل روہاں دے ازل دے روز ہوئے
تے سچے عشق دی نیوں تعمیر ہوئی
پھل کھل گئے پاک موہبتاں دے
کوئی رانجھا ہویا، کوئی ہیر ہوئی
ساڈے چم دیاں جتیاں کرے سوئی
جیڑا جیو دا روگ گواودانئی
بھلا دس خاں چڑی و چھنیاں نوں
قدوں رب سچا گھریں لے آودانئی
اک باز توں کنگ نو کونج کھوئی
ویکھاں چپ ہے کے کرلاودانئی
دکھاں والییاں نو گلاں سکھدیاں تے
قصہ جوڑ جہان سناودانئی
اک جٹ دے کھیت نوں اگ لگی
ویکھاں آن کے قدوں بجھاودانئی
دیواں چوریاں گھیوں دے بال دوے
وارس شاہ جے سنا میں گانودانئی
میرا جوجا ما جیڑا آن ملے
سر صدقہ اوس دے ناندانئی
بھلا موئے تے وچھڑے کون ملے
اینوے جیوڑا لوگ بلاودانئی
شیریں بھی ہاتھ پیر دھوکر گھر بھر میں پرانی یادوں کے ٹکڑے بٹور رہی تھی۔ چلتے چلتے ڈرائنگ روم میں پہنچ گئی، یہ نیا بنایا کمرا تھا۔
وہاں سامنے پہنچتے ہی اس نے دیکھا کہ پھلکاری کا نیلا دوپٹہ گولڈن رنگ کے فریم میں سامنے کی بڑی سی دیوار پر لگا ہے۔ یہ دوپٹہ وہی والا تھا جو اس دن فہیم کے ہاتھ رہ گیا تھا۔ دل دھڑک اٹھا شیریں کا۔ کیا آج بھی فہیم اس کو۔۔۔ اف اس کی کنپٹی گرم ہو گئی تھی۔ اس نے جیسے ہی واپس قدم اٹھائے تو دروازے کے پاس فہیم کھڑا تھا۔
"کچھ یاد آیا دوپٹہ کون سا ہے؟"
"امی دبئی جاتے وقت یہ دوپٹہ کھوجتی رہی تھیں۔"
"تو ان کو بتانا تھا کہ یہ دوپٹہ کس کے پاس ہے؟"
ایک سناٹا بیچ میں پھیلا تھا۔ کیسے بتاتی اور کیا بتاتی کہ امی کو کیا بتایا تھا؟ امی اور اس نے کتنی کوشش کی تھی لیکن کیا فائدہ اب۔ نانی کی آواز میں ہیر ابھی بھی سنائی دے رہی تھی۔۔۔ درد صرف ان کی آواز میں نہیں تھا، یہاں بھی دونوں دل کتنی اذیت میں تھے صرف وہی جانتے تھے۔
"مجھے وہ نیلے ربن سے بندھے رومال بھی مل گئے تھے۔" فہیم نے گہری بھیدتی نظر سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے دھیمے سے کہا۔
شیریں کا من ہوا کہ وہ بنا پلک جھپکائے لگاتار فہیم کو دیکھتی رہے۔ اپنی پتلی انگلیوں سے فہیم کے ہونٹ پر خاموشی کو باندھ دے، لیکن فہیم، وہ تو جیسے سب کہہ دینا چاہتا تھا۔
"کیا نوری سب جانتی ہے؟" شیریں نے پلکیں اٹھاکر دھیمے سے سوال کیا۔
"میری بیگم تمھارے بارے میں کچھ نہیں جانتی، وہ میرے بارے میں بھی زیادہ نہیں جانتی سوا اس کے کہ مجھے پھلکاری کے دوپٹے پسند ہیں۔ نیلے ربن اور چوڑیاں جھمکے پسند ہیں اور پراندے بھی۔"
"لیکن میں اب یہ سب نہیں پہنتی۔"
"لیکن سوٹ تو نیلا ہی پہنا ہے۔"
سناٹا ایک لمبی رات جیسا دونوں کے بیچ پسرا تھا۔
"کیا تم سچ مچ کل صبح ہی لوٹ جاؤگی؟ رک جاؤ نہ کچھ دن پلیز۔"
ایسی بے بسی شیریں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی اور محسوس کی تھی۔ شیریں نے نا میں گردن ہلا دی۔
“سنو شیریں، اس عمر میں میری قسمت میں نہیں ہو۔ بس ایک وعدہ کرو اس بار بھی جانے سے پہلے اس بار جیسے کچھ نشانی میری نظر کرتی جانا۔ اس کو دیکھتے دیکھتے زندگی آسان ہو جائیگی۔” فہیم نے تھوڑا اور قریب آکر ہولے سے کہا۔
شیریں نے اپنے پرس سے نیلے رومالوں کا پیکیٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ فہیم نے قاطر نظروں سے اس کی طرف دیکھا، "تم جانتی ہو نہ، میں کس تحفے کی بات کر رہا ہوں،؟" ہیر کی آنکھوں سے ہجر کے موتی برس رہے تھے۔
"شیریں، شاید پھر اس جنم ملاقات ہو نہ ہو۔" فہیم بیٹھک کا دروازہ روکے کھڑا تھا۔
شیریں نے کھڑکی سے باہر ہر طرف مڑ کر دیکھا۔ اس کی کالی آنکھیں بارش سے لبالب بھری جھیل سی ہو گئی تھیں۔ اس نے فہیم کا ہاتھ تھاما۔ چاروں طرف دیکھتے ہوئے ان پر اپنے دونوں ہونٹوں کی مہر لگا دی۔ ساتھ ہی آنسوؤں کی کچھ بوندیں بھی ان پر گر گئیں۔ فہیم نے ان نشانوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
***
آپ یہ افسانہ بھی پڑھ سکتے ہیں : پہلا احتلام

قرض محبت کی قینچی
شیئر کیجیے