یادوں کا متحرک تخلیقی بیانیہ: ” دیکھ لی دنیا ہم نے"

یادوں کا متحرک تخلیقی بیانیہ: ” دیکھ لی دنیا ہم نے"

(پروفیسر) صغیر افراہیم
سابق صدر شعبہ اردو
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ
s.afraheim@yahoo.in

چتر لیکھا کو ریکھا چتر کرنے والا فنکار جب یہ کہے کہ ”دیکھ لی دُنیا ہم نے" تو مسرت و شادمانی کے ساتھ حیرت و استعجاب کے بھی در وا ہوتے ہیں۔ زندگی کے سر ورق کا کتابی چہرہ عملی زندگی میں بھی ہر دم مسکراتا، خوشیاں بکھیرتا رہتا ہے۔ چھا جانے اور گھر کر لینے والا یہ چہرہ تو وبائی ایام ( کووڈ -۱۹) کے نفسا نفسی والے ماحول میں بھی تازہ دم رہا ہے۔ نئی نسل کے ماہر ڈاکٹروں کے مابین شب و روز بسر کرنے والے غضنفر دوسروں کے دُکھ درد میں شریک رہے ہیں. محض دل جوئی نہیں، مداوا کرتے ہوئے، تبھی تو یہ ادیب و فنکار محسن و مربی کہلایا ہے۔ اس بے حد ترقی یافتہ دنیا میں ایسے بے لوث خدمت خلق کرنے والے تخلیق کار کم ہوتے جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ مذکورہ خود نوشت کا یہ اہم سوال ہے، جو اس جانب بھی توجہ مبذول کراتا ہے کہ غضنفر کی اس مثالی تربیت میں اگر اُن کے والد محترم کی نگہبانی شامل ہے تو ڈاکٹر شہنا اور ڈاکٹر کامران کی پرورش و پرداخت میں مصنف نے بھی وہی روایت نبھائی ہے اور روایت کی ان دونوں کڑیوں کو ہر اعتبار سے پائیداری عطا کرنے والے مکھڑے کا نام ہے، بشری جس کے بغیر غضنفر ادھورا ہے۔
ان روشن ستاروں کی کہکشاں کا مرکز و محور، خوشیاں باٹنا، بکھیرنا ہے تو کتاب، کتابی چہرہ اور عنوان قاری کے ذہن پر دستک دیتا ہے، تجسس کو مہمیز کرتا ہے اور یہی کرید یکسوئی اور دلجمعی سے قرأت پر اکساتی ہے۔ اس خود نوشت سوانح میں محبوبیت، نرگیست ہے۔ آپ بیتی کو جگ بیتی میں تحلیل کرنے کا موثر انداز ہے۔ پیش کش کے اس فنکارانہ اظہار میں نہ تو زمانے کا خوف ہے اور نہ ہی احباب کی ناراضگی کا ڈر، نیز فنکار نے اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کا بھی کوئی جتن نہیں کیا ہے۔ اس بے باکی کی بنا پر روداد زندگی کے سفر کی حقیقت تخلیقی شکل میں جلوہ گر ہے۔
٦٧ برس کے غضنفر ٤٥ سال سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اُن کی سرگرم علمی اور ادبی زندگی اس امر پر گواہ ہے کہ وہ ہمارے عہد کے ممتاز فکشن نگار، بلند پایہ خاکہ نویس اور معروف شاعر ہیں۔ درس و تدریس کے عمل میں بھی انھوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور اب خود نوشت سوانح دیکھ لی دنیا ہم نے اُن کے ادبی تناظر و تفکر کی غماز ہے۔ سابقہ فن پاروں کی طرح غضنفر نے اس میں بھی جدت و ندرت سے کام لیا ہے۔ ۳٣٦ صفحات پر مشتمل اس تخلیق میں خاکہ، مرقع اور قلمی تصویر۔ کی خوبیوں کو اس طرح ہم آمیز کیا ہے کہ چرند و پرند، حیوانات و نباتات اور درود یوار بے جان اور ساکت نہیں بلکہ متحرک تصویروں کی شکل اختیار کرتے، چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مثلاً اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر، سولن (ہماچل پردیش ) میں محض امر سنگھ فگار ہی نہیں خمار آلود فضا اور سُرمئی اُجالا بھی سرگوشیاں کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اور یہی احساس ماضی کے در وا کرتا ہے۔ وابستہ یادوں کے دوش پر وقت گزر جاتا ہے، اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے حسین و طویل یادوں کا سلسلہ اور اس سلسلہ کے تمام نشیب و فراز کے لمس کو بھی قاری محسوس کر لیتا ہے۔ یہ قصہ کو بیان کرنے کا وہ ہنر ہے جس سے غضنفر بخوبی واقف ہیں۔
پہاڑوں کے فطری حُسن اور نشیب و فراز کا منظر بدلتا ہے تو باغات کی بستی اور گومتی کا کنارا اُبھرتا ہے۔ وہاں کی لطافت، نزاکت اور شرافت کے سائے میں گنبدوں، محرابوں اور میناروں کا ذکر رومانس کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ چار باغ، قیصر باغ، شاہ نجف، فرنگی محل کے ساتھ مدن موہن مالویہ مارگ اور اس سے وابستہ ادبی ہلچل کی روداد ہی نہیں، تعبیر و تفسیر بھی آپ بیتی میں سمٹ آئی ہے، جس میں تہذیب کے مٹنے کا کرب بھی ہے۔ اس کرب جاں کو آپ بھی ملاحظہ کریں:
"مجھے کہیں بھی وہ لکھنو نہیں ملا جو میرے ذہن میں بسا ہوا تھا۔ حضرت گنج میں صرف گنج رہ گیا تھا۔ قیصر باغ کیسر باغ ہو گیا تھا۔ امام باڑے گرد سے اٹ گئے تھے۔ بھول بھلیوں کی سرنگیں بند ہوگئی تھیں۔ بھول بھلیوں میں ہونے والا کھیل رک گیا تھا۔ امین آباد کی شام اداس پڑی تھی، قیصر باغ کی خوشبو ہوا ہو چکی تھی، نشاط گنج سے انبساط غائب تھی۔ ڈالی گنج کی ڈالی پھولوں سے خالی تھی۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔" (ص (۲۱۹)
اردو میں صنف خود نوشت سوانح کے فروغ، پسندیدگی اور اہمیت و معنویت کا مطالعہ کریں تو یہ نکات عیاں ہوں گے کہ تخیل کی کارفرمائی، فضا آفرینی اور اثر پذیری کے ساتھ افراد کے درمیان رشتوں کی معنویت اردو کی تقریباً تمام خود نوشتوں میں نظر آتی ہے کہ سب میں فوقیت اظہار ذات اور خواہش خود بینی ضرور جھلکتی ہے۔ جیسے اختر حسین رائے پوری کی ”گر دراہ" میں بیسویں صدی کی ہلچل ہے۔ انھوں نے واقعات سے زیادہ شخصیات پر زور دیا ہے۔ جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات میں مبالغے کے باوجود زبان کی ادائیگی میں ادبیت اور سیاسی بصیرت کا حسین امتزاج ہے۔ سر رضا علی نے اعمال نامہ میں ذہنی و جذباتی رویوں کے توسط سے یادِ ماضی کو دلکش اور موثر بنادیا ہے۔ اختر الایمان نے ” اس آباد خرابے میں" میں گزرے ہوئے واقعات کو ذاتی زندگی میں اس طرح پیوست کر دیا ہے کہ قاری کو اس میں اپنی پر چھائیاں نظر آتی ہیں۔ آل احمد سرور نے ”خواب باقی ہیں" اور اشتیاق عارف نے یادوں کی بازیافت میں اپنے عہد کی شورشوں پر نہایت بیباکانہ انداز میں لکھا ہے، پھر بھی ان سب میں مصنف کی شخصیت حاوی رہتی ہے۔ اسی طرح خواتین فنکاروں میں عصمت چغتائی "کاغذی ہے پیرہن" میں ایک ایسی باشعور خاتون نظر آتی ہیں جو طبقہ نسواں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام بندھنوں کو توڑ دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔ ادا جعفری نے ” جو رہی سو بے خبری رہی" میں
بدلتے ہوئے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے فن پارے "کارِ جہاں دراز ہے" میں ذات سے کائنات تک کا ایسا والہانہ ذکر ہے جس میں فطرت، مزاج، افتاد طبع، رجحانات و میلانات سبھی کچھ سمٹ آئے ہیں۔ کشور ناہید نے "بری عورت کی کتھا“ میں ذاتی زندگی کا بیان اس طرح کیا ہے کہ فرد واحد کی زبوں حالی، بیشتر عورتوں کی کہانی بن جاتی ہے۔ موضوع، برتاؤ اور پیش کش کے اعتبار سے یہ منفرد فن پارہ ہے۔ فصیح احمد صدیقی، اطہر صدیقی، انیس قدوائی اور نفیس با نو شمع نے بھی اس جانب توجہ دیتے ہوئے کامیاب آپ بیتیاں لکھی ہیں۔
غضنفر ہمارے عہد کے ایسے فنکار ہیں جنھوں نے جس صنف ادب کی جانب توجہ دی، کامیابی نے ان کے قدم چومے ہیں۔ "دیکھ لی دنیا ہم نے" میں شخصیت چاہے بوم فادر، احمد سورتی کی ہو، یا شہر یار کی، ایسی مستحکم ہے کہ مشفقانہ شفقتیں صاف جھلکتی ہیں۔ یونس اسلم، رشید قریشی اور سعید الدین مینائی سے قربت ہے، محض شناسائی نہیں۔ خلیل الرحمٰن اعظمی، قاضی عبدالستار، نادر علی خاں اور سید محمد امین کے بیان میں محض سیرت نہیں، خارجی پہلوؤں تک رسائی ہے۔ خدوخال اور عادات و اطوار کا اظہار پُر لطف انداز میں ہے۔ انھوں نے محض چہرہ بشرہ، رہن سہن اور طور طریق کو ہی نہیں اُبھارا ہے بلکہ تہ دار پہلوؤں سے بھی قاری کو اشاروں اشاروں میں واقف کرا دیا ہے۔ حقیقت اور تخیل کے توسط سے کہیں کہیں واقعہ میں حدود اربعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وقت اور مقام کے ساتھ کرداروں کا رنگ و روپ شخصی جھلکیاں، خواہشیں، آرزوئیں، نفسیاتی کیفیات اور برتاؤ بھی اُجاگر ہوتا ہے۔ فضا و ماحول کی عکاسی ایک فطرت شناس کی طرح کی ہے۔ ہر جملے سے خلوص، محبت اور اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ احباب علی گڑھ کے ہوں یا کسی اور شہر کے، نہ بیجا تعریف، نہ غیر مناسب تنقید۔ جہاں جہاں طنز و مزاح در آیا ہے وہ بھی بے تکلفی کی دلیل ہے۔
غضنفر کی اس آپ بیتی میں ہوش سنبھالنے سے دور حاضر تک کی جھلکیوں میں چاہے وہ خود ہوں یا دیگر اشخاص قصہ، ہر اچھے بُرے پہلو کی خوبیوں اور کمزوریوں کو افسانوی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اس رنگ آمیزی میں خود کلامی بھی ہے اور استفہامیہ لہجہ بھی۔ ایک منظر کے بعد دوسرے منظر میں، جنوں کی ہو، حصول علم کی یا دورانِ ملازمت کی، سبھی کے بیان میں تاثر تخیل اور تفکر کو ہم آمیز کر دیا ہے۔ قوت مشاہدہ و حافظہ کی بہترین مثال نو عمری کی بپتا ہے۔ سیوان اور گوپال گنج کی خوش گوار فضا میں پروان چڑھنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات و حادثات قاری کو لاشعوری طور پر اپنے بچپن میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں معصومیت، شرارت اور محبت ہے۔ ٹوٹ کر چاہنے کی للک، مروجہ رواج اور توہم کی تپش بھی ہے۔ اس منظر نامہ میں گاؤں اور قصبہ کے ساتھ ساتھ وہ شہر بھی اُبھرتا ہے جہاں "نفرت اور عداوت کے کلے نہیں پھوٹتے۔ دلوں کے درمیان دوری نہیں ہوتی"، اسی لیے وہاں کی فضا سونی نہیں ہوئی۔ یکجہتی اور مساوات کو دیمک نہیں لگی لیکن آسیبی ہواؤں نے اب وہاں کی فضا کو بھی مکدر کر دیا، صدیوں سے بہنے والے گنگا جمنی دھاروں کو آلودہ کر دیا۔ اچانک سوال اُبھرتا ہے کہ اس کدورت و کثافت کا ذمہ دار کون ہے؟ حساس قاری کے روبرو افتاد، افکار و نظریات کا منظر اُبھرتا ہے اور دھیرے دھیرے ذہن نشین ہوتا ہے کہ یہ کھیل مفاد پرستوں کا ہے جو ہوس منصب واقتدار میں اپنی ہی روایتوں اور مقدس یادوں کو فراموش کر رہے ہیں۔
غضنفر دوسروں پر طنز کرنے کے بجائے حالات سے چشم پوشی کے رویہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ صورت حال کا معروضی مطالعہ اُن کے تاثرات سے عیاں ہوتا ہے۔ حقائق بیان کرنے میں وہ کوتاہیوں اور لغزشوں سے گریز نہیں کرتے اور نہ ہی مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ احساسات و جذبات کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے غم دل کس طرح در آتا ہے اُس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
"۔۔۔ علی گڑھ کی زندگی میں میری اچھی خاصی رسم و راہ رہی۔ جن میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کی بدولت میرے شب و روز روشن ہوئے اور بعض ایسے بھی جن سے شعوری اور لاشعوری طور پر میرے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ ان کے روڑوں سے میں نے ٹھوکریں کھائیں، لہولہان ہوا اور جن کی جہ سے میری زندگی کی رفتار دھیمی پڑی، مگر ان کا ذکر نہیں کروں گا کہ میں نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے کہ کسی کے اندھیروں کو مجھے نہیں دکھانا ہے اور کبھی کسی ناگزیر واقع کا ذکر کرنا بھی پڑا تو میری نیت یہ ہوگی اور طریقہ کار بھی ایسا ہو گا کہ کوئی مثبت پہلو نکل آئے جس سے ان کے اندھیروں کی اصلاح ہو جائے یا ان میں سے بھی روشنی کی کوئی کرن پھوٹ پڑے۔" (ص: ۱۱۰)
غضنفر کی اس دیکھی بھالی دُنیا میں نہ تو شہر نگار خانہ چین ہے اور نہ اوراق مصور کی بستی مگر آثار اور افکار اس کے گواہ ہیں کہ اپنوں کی یہ بستی، بستے بستے بستی ہے، جس کے نقش و نگار کو منعکس کرنے میں غضنفر نے کمال ہنر مندی سے کام لیا ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :غضنفرکی خودنوشت ’دیکھ لی دنیا ہم نے‘ : اجتماعی زندگی کاعجائب گھر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے