دیکھ! اِس طرح سے کہتے ہیں سخن وَر سہرا

دیکھ! اِس طرح سے کہتے ہیں سخن وَر سہرا

محمد مرجان علی
ری سرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جے پرکاش یونی ور سٹی، چھپرا، بہار، ہند 

ملک کے مشہور و معروف ادارے غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی کے اشتراک سے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ نے گذشتہ دنوں جو پروگرام بہ عنوان ’غالب اور عظیم آباد‘ منعقد کیا، وہ اپنے عنوان کے لحاظ سے منفرد تو تھا ہی، اس میں ملک بھر کے نمایندہ اسکالرز کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اِسی ضمن میں معروف نقّاد و محقق، کالم نگار اور معتبر و مشہورِ زمانہ استاد پروفیسر صفدر امام قادری کو کلیدی خطبہ پیش کرنے کی ذمہ داری عطا کی گئی۔ ایک عالَم واقف ہے کہ استادِ محترم اردو کی علمی اور ادبی دنیا میں اپنی بے پناہ صلاحیت، معروضی نقطۂ نظر اور دو ٹوک بات پیش کرنے کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ کوئی نئی بات نہ تھی کہ وہ کسی ادبی و علمی تقریب میں مرکزی مقرر بنائے گئے یا کلیدی خطبہ پیش کرنے کے لیے منتخب کیے گئے مگر اس موقعے سے استادِ محترم کچھ زیادہ ہی سنجیدگی، علمی وقار اور باطنی خلش کے احساس کے ساتھ اس علمی کام میں لگے جیسا انھیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس لیے اس سلسلے سے جو تحریر وجود میں آئی، وہ ان کی دیگر تحریروں اور مضامین سے یکسر ممتاز حیثیت اختیار کر گئی۔
اِس بات کے کہنے کی وجہ یہ رہی ہے کہ ہمارے استادِ محترم جس انداز سے اپنے مضامین تیار کرتے ہیں، اس سے دس گنا توجہ سے یہ مضمون بہ عنوان ’غالب اور عظیم آباد‘ مکمّل کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ مجھے استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری کے ساتھ رہتے ہوئے جو بھی وقت گزرا ہے، اس میں اکثر یہ سعادت میرے نصیب میں آئی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے خطبات، مقالات اور مقدّمات کی کمپیوٹر کتابت کی ذمہ داری مجھے ہی عطا کرتے ہیں۔ اس مضمون کو تیار کرتے وقت میں بھی ان کے ساتھ ہر مرحلے میں ایک خاموش مشاہد کی طرح نہیں بل کہ ایک متحرک کردار کے طور پر شامل تھا اور جس طرح تمام باتیں میرے سامنے رونما ہوئیں، وہ میرے لیے بالکل نئی تھیں۔
مجھے اس مضمون کی تیاری کے ابتدائی مرحلے سے ہی محسوس ہونے لگا کہ یہ کوئی بہت اہم اور تاریخی کام ہونے جا رہا ہے اور یہ کہ یہ کوئی عام خطاب تیار نہیں ہو رہا ہے بل کہ غالب اور عظیم آباد کے باہمی رشتے کو ایک گہرے تناظر میں پرکھنے اور جاننے کی کوشش ہو رہی ہے۔ استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری نے مضمون تیار کرنے کے پہلے مرحلے میں اپنی ذاتی لائبریری میں کتابیں موجود ہونے کے باوجود اُن کتابوں کو دوبارہ خریدیں کیوں کہ وہ کتابیں بکھری ہوئی اور غیر منظم حالت میں تھیں۔ گویا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ نئے زاویے سے سے ان متون کو دیکھنا چاہتے ہوں۔
جیسے جیسے خطبے کا دن قریب آتا گیا، استادِ محترم کے علمی انہماک، تلاش و جستجو کے جذبے میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ وہ دن کا زیادہ تر حصہ خدا بخش لائبریری میں گزارتے اور شام تک وہاں کتابوں کی تلاش میں غرق رہتے۔ اس سلسلے سے انھوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کے پرانے رسائل و جرائد کی ورق گردانی کی، باضابطہ طور پر نوٹس بنائے، کتابیں اور مضامین کے اِشاریے دیکھے، کتابوں سے اہم اقتباسات کو نشان زد کرکے محفوظ کرنا اور اسی کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر ہم سے تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے اہم باتوں کی طرف توجہ دلانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ مجھے یہ خوش نصیبی حاصل ہوئی کہ میں اس پورے مرحلے میں ان کے ساتھ رہ کر بڑی باریک بینی سے ان کے کام کرنے کے انداز کو دیکھتا رہا۔ اس طرح تحقیقی اصول سیکھتے ہوئے تحقیق کے آداب سے خود کو واقف کراتے ہوئے نوٹس لینے کے مرحلے میں مَیں پرانی کتابوں کی خوش بو میں ڈوب جاتا۔ علم کی گہرائی میں غوطہ زن ہونے کی کوشش کرتا اور اس جذبے کو توانا کرنے میں استادِ محترم کی علمی و فکری گہرائی اور انہماک مجھے زبردست حوصلہ عطا کر رہی تھی۔
اِس سے پہلے بھی۲۰۲۲ء میں جب وہ اپنی تحقیقی کتاب ’اردو صحافت: دو صدی کا احتساب‘ پر کام کر رہے تھے، مجھے ان کے ساتھ پرانے رسائل کی خاک چھاننے کے مواقع ملے تھے مگر اس بار کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ غالب سے متعلق انیسویں اور بیسویں صدی کے تقریباً تمام اہم رسائل خاص طور پر بہار سے نکلنے والے ادبی رسائل مثلاً ’معاصر‘، ’معیار‘، ’مطالعہ‘، ’ندیم‘، ’صنم‘ وغیرہ کا گہرا مطالعہ کر رہے تھے۔ کبھی کوئی مضمون مجھے دکھاتے، اس کی تاریخی اور ادبی اہمیت سمجھاتے اور ایسا لگتا جیسے وہ اپنے تبحرِ علمی سے مجھے بھی سیراب کرنا چاہتے ہوں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ لائبریری بند ہونے کا وقت بھی اُن کے مطالعے کا تسلسل توڑنے کا سبب بنتا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں با دلِ نا خواستہ وہاں سے ہٹنا پڑتا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ ایک دن میں سو سے زائد کتابیں لائبریری میں نکالنے کی ضرورت پڑتی اور کبھی کبھی بہ یک وقت پندرہ بیس کتابیں درکار ہوتیں۔ اس سے ایسا بھی ہوتا کہ کبھی کبھی لائبریری کے عملوں کی جانب سے اعتراضات بھی ہوتے۔ میں بعض اوقات احتجاج پر آمادہ ہوتا تو استادِ محترم کی جانب سے مجھے ہی ڈانٹ پلائی جاتی۔ میں خاموشی اختیار کر لیتا۔ کچھ لمحے بعد مسکراتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں فرماتے: ’’اگر اِن سے الجھوگے تو یہ کتابیں بھی وقت پر نہ ملیں گی۔‘‘ اُن کا یہ جملہ صرف ایک لمحاتی مشورہ نہ تھا بل کہ پوری زندگی کے لیے انھوں نے ایک سبق دیا کہ تحقیق میں جس صبر، برداشت اور مزاج میں استقامت کی ضرورت ہے، وہ کیا ہے اور اپنی تحقیق کے راستے میں حائل ہونے والی ان چھوٹی موٹی رکاوٹوں سے حکمت اور درگزر کے ساتھ کام نکالنے کی ضرورت آخر کار کیوں ہے؟
استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری شاگردوں کے لائبریری کارڈ طلب کر کے اپنے پاس محفوظ رکھتے اور ان سب کے ذریعہ کتابیں ایشو کرائی جاتیں اور روزانہ پندرہ بیس کتابیں گھر لائی جاتیں۔لائبریری میں بھی استادِ محترم بیٹھ کر روزانہ پچاس سو سے زیادہ کتابوں کی ورق گردانی کرتے۔ اس مرحلے میں جن کتابوں میں کوئی اہم مضمون ملتا تو فوراً اسکین یا کاپی کرنے کی ہمیں ہدایت دی جاتی۔ متعدد کتابوں کا ایک ایک ورق پلٹنے کے بعد بھی اگر اُن کے موضوع سے متعلق مواد نہ ملتا تو اس موقعے سے میں نے اُنھیں کبھی بھی عجلت پسندی اختیار کرتے نہ دیکھا بل کہ اداسی یا مایوسی کے بجاے چہرے پر خوشی اور علم کا جوش ہی موجزن دیکھا۔ ہمارے ساتھ علمی یا ادبی مضمون تیار کرتے ہوئے ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنے مفاد کے لیے جو چیزیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور بر وقت وہ چیزیں ہمیں نہیں ملتی ہیں تو تلاش و جستجو کے اِس مرحلے میں ہم اپنا کنٹرول کھو دیتے ہیں مگر استادِ محترم کو کبھی اس حالت میں مبتلا نہ پایا۔ یہ میرے لیے ایک منفرد تجربہ تھا اور اس سے میری سمجھ میں آیا کہ ایک حقیقی اور سچا محقق صرف اپنے نتائج کی حصول یابی پر ہی نظر نہیں رکھتا بل کہ اس کے لیے تلاش کا عمل خود ایک عبادت کے مانند ہوتا ہے۔ استادِ محترم نے جس صبر و وقار اور خود پر قابو کے ساتھ تحقیق کے ہر مرحلے کو جھیلتے ہوئے حلم اور بُردباری کا مظاہرہ کیا، وہ اس بات کی شہادت دیتا تھا کہ علم کا راستا صرف عقل کا نہیں بل کہ کردار اور مزاج کا امتحان بھی ہے۔ اُن کی موجودگی نے مجھے یہ سکھایا کہ اصل استاد وہی ہے جو صرف کتابوں سے نہیں بل کہ اپنے رویّے اور طرزِ عمل سے بھی شاگردوں کی تربیت کرتا ہے۔ ایسا کام کوئی حقیقی محقق ہی کر سکتا ہے، کوئی عام قاری نہیں۔
استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری ہمیشہ اس بات کا تذکرہ ہم شاگردوں سے کرتے رہتے ہیں کہ اُنھوں نے اشوک راج پتھ پر ہی مکان لینا صرف اور صرف اس لیے منتخب کیا کہ وہ دنیا میں اردو کی اہم ترین لائبریری کتب خانۂ خدا بخش کے آس پاس رہتے ہیں اور گورنمنٹ اردو لائبریری بھی اسی سڑک پر موجود ہے؛ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے تحقیقی کاموں میں کوئی رکاوٹ آئے اور وہ جب چاہیں لائبریری دس منٹ میں دوڑتے بھاگتے بھی پہنچ جائیں۔ ایسا ہوتے بارہا میں نے دیکھا ہے۔ پہلے مجھے ان کی اس بات کی سنجیدگی اور اہمیت کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی تھی مگر اس بار کی تحقیقی سرگرمیوں نے اس کو ثابت کر دیا کہ یہ استادِ محترم کا بہت ہی سنجیدگی اور غور و فکر سے لیا گیا بہت ہی اہم فیصلہ تھا، جس سے ان کی علمی اور تحقیقی زندگی کو زرخیزی اور توانائی ملتی ہے۔ اس کے ذریعہ وہ اپنے اور اپنے حلقے (جس میں دوست، احباب اور شاگرد آتے ہیں) اور اپنے اردگرد کے ماحول کو ایک زرخیز علمی میدان میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
تلاش و جستجو کا قصہ جب تمام ہوا تو کئی دنوں تک مطالعے کا دور چلتا رہا۔ جب مضمون لکھنے کا آغاز ہوا تو اس کے لیے استادِ محترم نے عام طور پر رات کا وقت مقرّر کیا کیوں کہ دن بھر مختلف طرح کی مشغولیات کے بعد سکون اور یک سوئی سے مضمون لکھانے کا شاید ان کے ذہن میں تنہائی میں ہی خاکا اُبھرتا ہو۔ مجھے حکم ہوتا کہ اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے مَیں اُن کے گھر پر ہی قیام کروں۔ رات دس بجے کے بعد جب کچھ فراغت ہو جاتی تو وہ مضمون لکھنے کا عمل شروع کرتے۔ میں نے سر کے ساتھ گزرے ہوئے پچھلے آٹھ برسوں میں کبھی بھی یہ نہیں دیکھا کہ استادِ محترم نے اپنے مقالات کو اپنے ہاتھوں سے تحریر کیا ہو۔ اُن کی زبان میں ایسی روانی ہے کہ وہ اپنے مقالات کا املا کراتے ہیں اور خاک سار کے علاوہ اور بھی چند خوش نصیب شاگرد بہ راہِ راست اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتے ہیں۔
بہ ہر حال! کبھی دو دو اور کبھی تین تین بجے رات تک لکھنے کا کام جاری رہتا۔ اس دوران دیر رات یہ بھی ہوتا کہ استادِ محترم نیند کی حالت میں بھی جملے رقم کراتے ہوئے نیند کے غلبے کی وجہ سے بعض جملے کئی بار دہرائے جاتے۔ بعض اوقات ایک پیراگراف پر رُک کر کتابیں پلٹتے، رسائل دیکھتے، آن لائن لائبریری پر سرچ کرنے کو کہتے اور اِس کے بعد بھی جب اُن کو تشفّی بخش مواد نہ مل پاتا تو اگلے دن لائبریری کھلنے تک کے لیے لکھنے کا کام ملتوی کر دیا جاتا مگر مطالعے کا کام تب بھی جاری رہتا۔ بعض اوقات تین بجے تک لکھنے پڑھنے کا کام جاری رہتا۔ استادِ محترم کو جب اندازہ ہو جاتا تھا کہ مجھ پر بھی نیند حاوی ہو رہی ہے تو کہتے کہ اب سو جاتے ہیں۔ صبح کام کریں گے۔ اگلے روز علی الصباح سات بجے سے پھر لکھنے پڑھنے کا عمل شروع ہو جاتا۔ اللہ نے اُنھیں لکھنے پڑھنے کی جو روحانی طاقت اور اس سلسلے سے انہماک عطا کیا ہے، وہ قابلِ رشک ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ اِس زمانے کے نئے محققّین کو اُن سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس سارے عمل میں ان کا حافظہ بار بار ہمیں چونکا دیتا۔ خدا بخش لائبریری کی کون سی کتاب کس کونے میں ہے، کس سنہ میں کون سا شمارہ شایع ہوا، خصوصی شمارے کی اشاعت کب ہے، کس موقعے سے کون سا خصوصی شمارہ نکلا، مدیر کون تھا وغیرہ وغیرہ، یہاں تک کہ کئی بار وہ ACC نمبر تک زبانی بتا کر ہمیں انگشت بہ دنداں کر دیتے۔ ایسی باتیں کسی کمپیوٹر کی نہیں، ایک مدت کی محنت اور ریاضتِ نیم شب کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
تحقیق کے دوران اُنھوں نے قاضی عبد الودود، کلیم الدین احمد، عطا کاکوی، اختر اورینوی جیسے محققین و ناقدین کی تحریروں پر خاص توجہ دی۔ وہ نہ صرف ان کے اقتباسات بیان کرتے بل کہ اُن کی علمی زندگی کے دل چسپ گوشے بھی سناتے۔ وہ کہا کرتے کہ ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے استادِ محترم کو قاضی عبد الودود اور کلیم الدین احمد کی تحریروں کو پوری توجّہ اور انہماک سے پڑھتے اور رشک کرتے دیکھا مگر جس والہانہ انداز میں وہ رات کی تنہائیوں میں اُن مصنفین کی تحریروں کے مطالعے میں ڈوب جاتے، وہ منظر کچھ اور ہی ہوتا۔ میں نے اُنھیں اکثر ان کتابوں سے یوں لپٹے ہوئے دیکھا جیسے کوئی اپنے محبوب کے خطوط سے لَو لگائے بیٹھا ہو۔ ایسا لگتا گویا وہ تحریریں اُن کے لیے صرف علمی مواد نہیں بل کہ روحانی سرشاری کا ذریعہ ہوں۔
اس سارے عمل نے مجھے نہ صرف تحقیقی آداب سے روشناس کرایا بل کہ اس زندہ روایت میں شامل ہونے کا مجھے موقع عطا کیا۔ میں نے بھلے کلیم الدین احمد یا قاضی عبدالودود جیسے جید ناقد و محقق کو نہیں دیکھا لیکن استادِ محترم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بھی ان کے ہی جیسے رہے ہوں گے۔ یہاں میں نے یہ بھی سیکھا کہ پرانی کتابوں کے کئی نسخوں میں فرق کیسے کیا جاتا ہے، اولین اشاعت اور آخری اشاعت کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ ہر لفظ کی ترتیب میں کیسے ایک محقق کا لہو شامل ہوتا ہے۔ تحقیق صرف معلومات کا ذخیرہ نہیں بل کہ فہم، مطالعے اور علمی جذبے کا امتحان ہے۔ یہ سب محض ایک خطبے کی تیاری نہ تھی بل کہ ایک جیتا جاگتا علمی تجربہ تھا۔ ایک ایسی روایت جو سانس لے رہی تھی اور ہمیں بتا رہی تھی کہ علم صرف ڈگری کا نام نہیں بل کہ ایک فکری اور روحانی تجربے کا نام ہے۔ استادِ محترم کے ساتھ گزرے یہ دن دراصل ایک زندہ کلاس تھے جب ہر لمحہ، ہر کتاب، ہر رسالے اور ہر سطر نے مجھے ایک علمی سمندر سے جوڑ دیا۔ میری اِس تحریر میں تحقیق کے اس ذاتی اور جذباتی سفر کا بیان ہے جس میں استادِ محترم پروفیسر صفدر امام قادری کی علمی رہ نمائی، محنت اور سچائی نے ہمیں علم کے حقیقی مفہوم سے روشناس کرایا۔ یہ سفر صرف غالب کو سمجھنے کا نہیں بل کہ خود کو جاننے اور تحقیق سے محبت کرنے کا سفر بھی تھا۔
***
محمد مرجان علی کی گذشتہ نگارش : ہمہ وقت ادیب اور استاد: صفدر امام قادری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے