لفافے کے مندر میں جشن

لفافے کے مندر میں جشن

ڈاکٹر قسیم اختر
اسسٹنٹ پروفیسر، مارواڑی کالج، کشن گنج، بہار

ایک چھوٹے سے گاؤں کے کنارے، جہاں سرسبز کھیت نرم دھوپ میں نہائے، ہلکی ہوا کے لمس سے مدھم مدھم لہرا رہے تھے، صبح کی کرنیں تازہ پتوں اور پھولوں پر پڑ کر ایک سنہرا سا فسوں بکھیر رہی تھیں۔ کوئل کی دھیمی کوک درختوں کی شاخوں سے ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی، جیسے کوئی پرانی لَے فضا میں بکھر رہی ہو۔ ہوا میں گیلی مٹی، کھِلے پھولوں اور دور کہیں جلتے اپلوں کی ملی جلی خوشبو رچی بسی تھی۔ فطرت جیسے اپنے جوبن پر تھی، اور ہر چیز میں ایک مدھم سی روشنی، ایک بے آواز سا نغمہ گونج رہا تھا—جیسے زمین کسی خواب میں ہو اور ابھی جاگنا نہ چاہتی ہو۔
اسی خاموش خواب میں ایک اجنبی قدموں کی چاپ سنائی دی۔ شہزاد نامی بلڈر، شہر کے ہنگاموں سے دور، اس گاؤں کی طرف آیا تو لگا جیسے فطرت کے اس ہموار پردے پر کوئی اجنبی رنگ چھڑک دیا گیا ہو۔ اسے محسوس ہوا جیسے یہ زمین اس سے ہم کلام ہو، جیسے اسے اپنی طرف بلا رہی ہو۔ جب اس نے اِدھر قدم رکھا، تو یوں لگا جیسے زمین خود اس سے سرگوشیاں کر رہی ہو—یا شاید یہ اس کے اندر کی وہی آواز تھی جو ہمیشہ اسے غلط راستوں کی طرف دھکیلتی تھی۔
شہزاد کوئی عام آدمی نہ تھا۔ اس کا دماغ چالاکی کا گڑھ تھا، اس کی رگوں میں عیاری کا لہو دوڑتا تھا، اور اس کے ہاتھ طاقت کے جال میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ شہر میں کئی بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر چکا تھا، مگر اب اس کی نظریں اس گاؤں کی زرخیز زمین پر جمی تھیں، جو شہر سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔
یہ زمین اگر اس کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ اسے سونے کی کان بنا دیتا—ایسی رہائشی کالونی جس کی چمک دمک اسے اربوں کا مالک بنا سکتی تھی۔ بس، فیصلہ ہو گیا! چالاکی کی بساط بچھ چکی تھی۔ شہزاد نے اپنا کھیل شروع کر دیا۔
وہ گاؤں میں جا پہنچا۔ کسانوں کے گھروں کے دروازوں پر دستک دینے لگا۔ ان کے ساتھ چائے کے پیالوں پر باتیں کرنے لگا۔ اس کے ذہن میں جو منصوبہ تھا، اس کے خدوخال واضح ہونے لگے۔ زبان کا جال بچھنے لگا، مکاری کے تیر چلنے لگے، اور وہ کسانوں کو اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے تیار ہو گیا۔
شہزاد کی زبان شہد کی مانند میٹھی تھی—شاید عیاری بھی گڑ کے کنویں کا مینڈک ہوتی ہے!
”دیکھو بھائی، تم لوگ سال بھر میں اس زمین سے کتنا کما لیتے ہو؟” اس نے بزرگ کسان رحیم چاچا سے پوچھا، جو پورے گاؤں میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد، شہزاد نے دوبارہ بات شروع کی:
”میں تمھیں اس زمین کی دس گنا قیمت دینے کو تیار ہوں۔ کہیں اور جا کر زمین لے لو، اپنی زندگی آسان کرو۔ یہ جگہ مجھے دے دو، میرے بچوں کے لیے۔"
رحیم چاچا نے تحمل سے اس کی بات سنی، اپنی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرا، اور دھیمے مگر پختہ لہجے میں بولے:
”شہزاد صاحب، یہ زمین ہماری ماں ہے۔ ہم اسے بیچ کر اپنے آباؤ اجداد کی روحوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ زمین سے نسلوں کا رشتہ ہے۔ ہمارے کتنے رشتہ دار مشکل وقت میں اس زمین کے سایےے میں رہے، لیکن ہم نے کبھی اسے بیچنے کا سوچا بھی نہیں۔"
شہزاد نے ایک لمبی سانس لی، سر جھکایا، پھر مسکرا کر کہا:
”چاچا، زمانہ بدل گیا ہے۔ زمین کوئی ماں نہیں ہوتی، یہ بس پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ آپ تو بالکل بھارت ماتا جیسے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ آپ سیاست کے جال میں الجھ رہے ہیں۔ زمین کو جذبات سے نہیں، عقل سے دیکھنا چاہیے۔"
رحیم چاچا نے شہزاد کی بات سنی، آنکھوں میں ایک سخت چمک ابھری۔ انھوں نے گہری نظر سے اسے دیکھا اور کہا:
”ہم اپنی زمین کسی قیمت پر نہیں بیچیں گے۔ ابھی نہیں، کبھی نہیں۔"
ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔ مگر اس خاموشی کے پیچھے طوفان چھپا تھا۔ شہزاد کے اندر غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ واپس شہر لوٹا اور اپنا جال بچھانے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے مختلف لوگوں سے ملاقات کی، پیسوں کا بندوبست کیا اور اپنے مقصد کے لیے راستے تلاش کرنے لگا۔
آخر کار، اس نے مقامی پٹواری سے رابطہ کیا۔
”بھائی، کچھ کاغذات میں گڑبڑ کرنی ہے۔ زمین کو متنازع بنا دو، کسانوں کے نام ہٹا دو۔"اس نے ایک موٹا لفافہ پٹواری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
پٹواری نے لفافہ کھولا، نوٹوں کی خوشبو سونگھی، اور ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ وہ بولا:
”شہزاد صاحب، کام ہو جائے گا، بس تھوڑا وقت درکار ہے۔ لیکن لفافہ تو ٹھیک ہے، مگر اس کی موٹائی کچھ کم لگ رہی ہے۔”
شہزاد نے معنی خیز نظروں سے پٹواری کو دیکھا، ایک اور لفافہ نکالا، اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ پٹواری نے سر ہلایا، اور ایمان کی جگہ لفافے کی وفاداری کو قبول کر لیا۔
چند دنوں کے اندر اندر زمین کے کاغذات میں ردو بدل ہوا۔ کچھ ریکارڈ غائب کر دیے گئے، اور کسانوں کے نام سرکاری دستاویزات سے مٹنے لگے۔
جب رحیم چاچا کو اس سازش کا علم ہوا، تو اس نے پورے گاؤں کو اکٹھا کیا۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟" اس نے گرجدار آواز میں پوچھا۔ ”ہماری زمین ہمارے ہاتھوں سے نکل رہی ہے! ہم نے اسے نسلوں سے سنبھالا ہے، یہ کیسے چھینی جا سکتی ہے؟"
گاؤں والوں کے جسم میں خون کھول اٹھا۔ ایک نوجوان کسان، اسلم، آگے بڑھا اور بولا:
”چاچا، ہم عدالت جائیں گے۔ یہ ظلم ہم برداشت نہیں کریں گے۔"
رحیم چاچا نے اس کی آنکھوں میں امید کی روشنی دیکھی اور سر ہلاتے ہوئے کہا:
”ٹھیک ہے، کل ہی چلتے ہیں۔"
گاؤں والوں نے متفق ہو کر ہاں میں ہاں ملائی۔ مگر دوسری طرف، شہزاد کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ اس نے اپنے وکیل کو بلایا اور کہا:
”مقدمے کو جتنا ہو سکے طول دو۔ جتنا وقت ملے گا، اتنا ہی زمین پر گرفت مضبوط ہوگی۔"
اس کے وکیل نے ایک چالاک مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔ جنگ شروع ہو چکی تھی، زمین پر قبضے اور عدالت کے کھیل کا پہلا پتہ پھینکا جا چکا تھا۔وکیل نے مسکراتے ہوئے کہا، ”شہزاد صاحب، یہ میرا کام ہے، آپ بے فکر رہیں۔"
عدالت میں تاخیری حربوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کبھی گواہ لاپتہ، کبھی فائلیں گم۔ رحیم چاچا روزِ اوّل سے ہی عدالت کے دروازے پر کھڑا نظر آتا، مگر ہر سماعت پر تاریخ آگے سرک جاتی۔ ایک دن اس نے عاجزی سے التجا کی، ”جناب، ہماری زمین ہاتھوں سے نکل رہی ہے، کچھ کیجیے!"
وکیل نے فائل کی ورق گردانی کی اور سر اٹھا کر بولا، ”چاچا، پہلے کاغذات مکمل کرو، پھر دیکھتے ہیں۔"
دوسری طرف، شہزاد نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ اس نے مزدوروں کو حکم دیا، ”کام فوراً شروع کرو، راتوں رات باڑ لگاؤ، کھیتوں کو ہموار کرو!"
اندھیرے میں مشینوں کی گرج سنائی دینے لگی، اور سنہری گندم کی لہلہاتی فصل دیکھتے ہی دیکھتے مٹی میں بدل گئی۔ جب صبح کی روشنی پھیلی تو رحیم چاچا نے اپنی زمین کو اجڑا ہوا پایا۔ اس نے دل گرفتہ ہو کر چیخ ماری، ”یہ ظلم ہے! ہماری زمین!"
اس نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور زمین پر دھرنا دینے کی کوشش کی، مگر شہزاد نے پولیس انسپکٹر کو بلا کر کہا، ”انھیں ہٹا دو، جیسے بھی ممکن ہو!"
انسپکٹر نے لفافہ جیب میں ڈالا اور یقین دہانی کرائی، ”شہزاد صاحب، سب سنبھال لیں گے۔" پھر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، رحیم چاچا کے سفید بالوں میں سرخ خون اتر آیا، لیکن شہزاد نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔
چند مہینوں میں کالونی کھڑی ہوگئی—بلند و بالا عمارتیں، چمکتے فلیٹس، اور پختہ سڑکیں۔ شہزاد نے اپنے ایجنٹ سے کہا، ”اشتہار چھپواؤ، لکھو: شہر کے قریب اپنا گھر حاصل کریں!"
لیکن جب کالونی کے دروازے کھلے تو خریداروں کے قدم وہاں نہ پہنچے۔ خبر پھیل چکی تھی کہ زمین متنازع ہے۔ ایک ممکنہ خریدار نے شہزاد سے سوال کیا، ”یہ وہی زمین ہے جس پر مقدمہ چل رہا ہے؟"
شہزاد نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا، ”بھائی، یہ سب افواہیں ہیں،  اگر شک ہے تو نہ خریدیں۔"
لیکن کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہ تھا۔ شہزاد کے خوابوں پر اوس پڑنے لگی۔ کسان عدالت میں تھے، کالونی خالی، اور سرمایہ جمود کا شکار۔
تب شہزاد کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا—سیاست!
الیکشن قریب تھا، وہ حکومتی جماعت کے لیڈر سلیم خان سے ملا۔ ”سلیم بھائی، کالونی خالی پڑی ہے، اگر غریبوں میں بانٹ دی جائے تو میرا نقصان بھی پورا ہوگا، اور آپ کو ووٹ بھی ملیں گے!"
اس نے بڑی عاجزی سے اپنا منصوبہ پیش کیا، حکومت کے مفاد کا ذکر کیا، اور اپنے نقصان کا رونا رویا۔
سلیم خان نے غور سے سنا، پھر پوچھا، ”اور کسانوں کا کیا ہوگا؟"
شہزاد نے ہنستے ہوئے کہا، ”سرکار! غریبوں کا اللہ ہے۔ ہمارے حق میں فیصلہ ہوتے ہی ان کا مقدمہ کمزور پڑ جائے گا، بس اعلان آپ کو کرنا ہے!"
سلیم خان لمحہ بھر کے لیے سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا، ”ٹھیک ہے، لیکن ہم اس منصوبے کو غریبوں کی فلاح کا رنگ دیں گے۔"
چند دن بعد حکومت نے اعلان کیا، ”ہم غریبوں کے لیے سستی رہائش فراہم کر رہے ہیں!"
اخبارات میں اشتہارات چھپنے لگے—”یہ کالونی اب معمولی قسط پر عوام کے لیے دستیاب ہے!"
یہ خبر سن کر اسلم نامی ایک غریب شخص نے اپنی بیوی سے کہا، ”دس ہزار کی قسط تو ہم دے سکتے ہیں، بچوں کو چھت تو مل جائے گی!"
ویسے بھی ہماری زمین جا رہی ہے۔
بیوی نے مسکرا کر کہا: ”ٹھیک ہے، لیکن دھوکہ نہ ہو۔"
اسلم ہزاروں غریبوں کے ساتھ قطار میں لگ گیا۔ شہزاد نے فلیٹس بیچنے شروع کر دیے۔ کسانوں کا مقدمہ کمزور پڑ گیا۔ رحیم چاچا نے وکیل سے پوچھا: ”اب کیا ہوگا؟”
وکیل نے سرد آہ بھر کر کہا: ”چاچا، اب غریبوں کا نام آ گیا ہے، معاملہ مزید مشکل ہو گیا۔ دیکھئے نا، کیسے غریب گھر لے رہے ہیں۔ حکومت چند کسانوں کے لیے اتنے بے گھر لوگوں کو ناراض نہیں کرے گی۔ آخرکار، حکومت زیادہ لوگوں کو سکون دینا چاہتی ہے۔"
وقت گزرتا رہا۔ حالات بدلتے رہے۔ سیاست عروج کی گود میں سوتی رہی۔ بالآخر سلیم خان کی پارٹی جیت گئی۔
شہزاد نے سلیم سے کہا: ”اب قسط بڑھائیں گے۔ دس ہزار سے بیس ہزار، پھر چالیس ہزار۔ یوں میں کم قیمت میں قسط والے فلیٹس خرید کر زیادہ منافع کما سکوں گا۔"
سیاست کے فیصلے کسانوں کے خلاف پلٹ گئے۔ زمین پر بجلی گرنے والی تھی۔ سلیم اور شہزاد کی سیاست نئی شکل میں ابھر رہی تھی۔
سلیم نے پوچھا: ”اگر غریب چیخیں گے تو کیا ہوگا؟"
شہزاد ہنسا: ”غریبوں کا کام تو چیخنا ہے۔ اگر ان کی آواز میں دم ہوتا تو خدا نہ سن لیتا؟ کب کسی غریب کی چیخ سنی گئی ہے؟ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پولیس کو رشوت دو، وہ خاموش کرا دے گی۔"
اسلم کئی دن تک سوچتا رہا۔ پھر وہ بھی شہزاد کے جال میں آ گیا۔ حکومت میں اس کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا۔ وہ جو چاہتا، کرتا۔
قسط بڑھتی گئی۔ مہینے مہینے فلیٹ لینے والے کسانوں پر دباؤ بڑھتا رہا۔ احتجاج جاری تھا، مگر سننے والا کوئی نہ تھا۔ کسان شہزاد اور اسلم کے پاس آ کر گڑگڑاتے، مگر وہ ان پر جملوں کی بندوق تان دیتے۔
اسلم نے چیخ کر کہا: ”یہ کیا دھوکہ ہے؟ قیمت بڑھ رہی ہے، حالات بدلے جا رہے ہیں، مہنگائی آسمان پر جا پہنچی ہے۔"
”کس نے کہہ دیا کہ یہ دھوکہ ہے؟" شہزاد نے مسکرا کر جواب دیا۔
”ہم سے دس ہزار کا وعدہ تھا!" کسان کی بیوی رو پڑی۔ ”اب ہم کہاں جائیں؟"
غریبوں نے احتجاج کیا، مگر پولیس نے انھیں بھگا دیا۔ شہزاد نے فخریہ انداز میں سلیم سے کہا: ”بھائی، ہم جیت گئے۔ دوبارہ جیت گئے!"
شہزاد کا نقصان پورا ہو چکا تھا، منافع کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ کسانوں کی زمین ہاتھ سے نکل گئی۔
رحیم چاچا نے گاؤں والوں سے افسوس بھرے لہجے میں کہا: ”ہم ہار گئے۔"
اسلم نے بیوی سے کہا: ”اگلے الیکشن کا انتظار کریں گے۔ شاید الیکشن کے موسم میں کوئی ہمارا مسیحا بن کر آئے۔"
کسان اپنے آنسوؤں میں ڈوب رہے تھے اور دوسری طرف اقتدار کے ایوانوں میں جشن منایا جا رہا تھا!
***
قسیم اختر کی گذشتہ نگارش : قدیم اُردو شاعری کا نیا استعارہ__ انور ایرج 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے