انجنئیر محمد عادل فراز
علی گڑھ، ہند
اردو مرثیہ گوئی ایک ایسی ادبی صنف ہے جو اپنی فکری گہرائی، جذباتی شدت، اور شاعرانہ بلاغت کے لیے مشہور ہے۔ یہ روایت نہ صرف واقعہ کربلا کی عظیم داستان کو بیان کرتی ہے بلکہ اس میں شاعرانہ تخیل، لسانی خوبصورتی، اور فکری وسعت کا امتزاج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ میر انیسؔ، مرزا سلامت علی دبیرؔ، ؔ جیسے شعرا نے اپنے مرثیوں میں نہ صرف مذہبی اور جذباتی موضوعات کو اجاگر کیا ہے بلکہ فطرت، کائنات، اور انسانی شعور کے دیگر پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ یہ ہی سبب ہے کہ ان کے اشعار میں سائنسی شعور کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں، جو اس دور کے علمی ماحول اور شعرا کی فکری وسعت کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ مقالہ بہ عنوان ”اردو مرثیہ گو شعرا کا سائنسی شعور“ مرثیہ گو شعرا کے اشعار کی روشنی میں ان کے سائنسی شعور کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہے۔ راقم الحروف نے اس مضمون میں اردو مرثیہ کے اشعار میں آئے کائناتی، طبیعیاتی، فلکیاتی، ماحولیاتی، اور نفسیاتی عناصر کے شعور کا جائزہ لیا ہے۔
سائنسی شعور سے مراد وہ فکری رجحان ہے جو مشاہدے، تجربے، اور منطقی استدلال پر مبنی ہیں۔ مرثیہ گو شعرا کے اشعار میں سائنسی شعور کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جدید سائنسی نظریات سے مکمل طور پر آگاہ تھے، بلکہ یہ کہ انھوں نے اپنے مشاہدات اور فطری مظاہر کو اپنی شاعری میں اس طرح پیش کیا کہ وہ سائنسی سوچ کے قریب تر نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں فلکیاتی مظاہر (سورج، چاند، ستاروں، اور سیاروں کے حوالے)، ماحولیاتی مناظر کی تصویر کشی، اور انسانی شعور کے نفسیاتی پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے۔ یہ مقالہ ہر شاعر کے سائنسی شعور کو چار اہم زمرے ”فلکیاتی مشاہدات، ماحولیاتی حساسیت، طبیعیاتی بصیرت، اور نفسیاتی مشاہدات“ کے تحت تجزیہ کرتا ہے۔
میر انیس کا سائنسی شعور:
میر انیسؔ (1803-1874) اردو مرثیہ گوئی کے سب سے عظیم شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری اپنی بلاغت، جذباتی شدت، اور فکری گہرائی کے لیے مشہور ہے۔ ان کے مرثیوں میں واقعہ کربلا کے روحانی اور جذباتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ فطرت اور کائنات کے مشاہدات بھی نمایاں ہیں۔ ان کے اشعار میں سائنسی شعور کی جھلکیاں ان کے گہرے مشاہدات اور فطری مظاہر کی شاعرانہ تفہیم سے عیاں ہوتی ہیں۔
فلکیاتی مشاہدات
میر انیس کے اشعار میں فلکیاتی مظاہر کا ذکر ایک شاعرانہ اور سائنسی انداز میں ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
ذروں میں روشنیِ تجلیِ طور ہے
اک آفتاب رخ کی ضیا دور دور ہے
کوسوں زمین عکس سے دریائے نور ہے
یہ اشعار روشنی کے پھیلاؤ اور اس کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔ ”نور خدا“ اور ”دریائے نور“ جیسے استعارے روشنی کے کائناتی پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو جدید فزکس میں روشنی کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے۔ روشنی کا زمین پر اثر اور اس کی عکاسی کا عمل ایک معروف طبیعیاتی مظہر ہے۔ انیس نے اسے شاعرانہ انداز میں پیش کیا، لیکن ان کا مشاہدہ سائنسی حقیقت سے قریب ہے۔ ”آفتاب رخ کی ضیا دور دور ہے“ سے روشنی کی وسعت اور اس کی کائناتی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، جو فلکیات کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔
اسی طرح، ان کا یہ مصرع:
دریا تو آسماں ہیں ستارے حباب ہیں
یہ مصرع پانی اور روشنی کے درمیان ایک گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ ستاروں کو ”حباب“ (بلبلوں) سے تشبیہ دینا نہ صرف شاعرانہ خوبصورتی کو بڑھاتا ہے بلکہ پانی کی سطح پر روشنی کے انعکاس کے سائنسی مظہر کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی شاعرانہ بصیرت ہے جو جدید آپٹکس کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ پانی کی سطح پر روشنی کا انعکاس اور اس کی چمک ایک ایسی حقیقت ہے جو سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے، اور انیس نے اسے اپنی شاعری میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا۔
ایک اور مصرع ملاحظہ کریں:
ذرے نہیں زمیں پہ ستارے چمکتے ہیں
یہ مصرع زمین پر موجود ذرات کو ستاروں سے تشبیہ دیتا ہے، جو ایک کائناتی تناظر کو پیش کرتا ہے۔ یہ تصور جدید فلکیات کے اس نظریے سے ملتا ہے کہ زمین اور ستارے ایک ہی کائناتی مادے سے بنے ہیں۔ انیس نے اسے علامتی طور پر پیش کیا، لیکن ان کا مشاہدہ سائنسی سوچ سے قریب ہے۔
ماحولیاتی حساسیت
میر انیس کے اشعار میں ماحولیاتی مناظر کی تصویر کشی غیر معمولی ہے۔ وہ فطرت کے عناصر، جیسے ہوائیں، درخت، پھول، اور سبزہ زار، کو اس طرح بیان کرتے ہیں جس سے ایک زندہ جیتا جاگتا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
یہ اشعار ہواؤں کی ٹھنڈک اور درختوں کی حرکت کو بیان کرتے ہیں، جو ایک ماحولیاتی توازن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہواؤں کا اثر اور درختوں کی حرکت ایک ایسی ماحولیاتی حساسیت کو ظاہر کرتی ہے جو جدید ماحولیاتی سائنس کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ انیس نے فطرت کے ان عناصر کو نہ صرف شاعری کا حصہ بنایا بلکہ ان کے ذریعے کربلا کے منظر کی شدت کو بھی اجاگر کیا۔ ”دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر“ سے درختوں کی حرکت اور ہوا کے اثرات کو ایک ایسی شاعرانہ تصویر میں پیش کیا گیا ہے جو ماحولیاتی نظام کے توازن کو سمجھنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
دشت سے جھوم کے جب بادِ صبا آتی تھی
صاف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی
یہ شعر ہوا کے جھونکوں اور پھولوں کے کھلنے کی آواز کو بیان کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی ماحولیاتی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے جو فطرت کے باریک مشاہدات پر مبنی ہے۔ پھولوں کے کھلنے کی آواز اور ہوا کے اثرات کا ذکر ایک ایسی سائنسی بصیرت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ماحولیاتی نظام کے اندرونی عمل کو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
طبیعیاتی بصیرت:
میر انیس کے اشعار میں طبیعیاتی مظاہر، جیسے گرمی، روشنی، اور حرکت، کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
یہ اشعار کربلا کے میدان کی گرمی اور پانی کی کمی کو بیان کرتے ہیں۔ ”شعلۂ جوالہ“ اور ”شرر فشاں“ جیسے الفاظ گرمی کی شدت اور اس کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں، جو ایک سائنسی مشاہدے کی عکاسی کرتے ہیں۔ پانی کا آگ کی طرح دکھائی دینا اور بلبلوں کا انگاروں سے تشبیہ پانا ایک ایسی شاعرانہ تصویر ہے جو حرارتی توانائی کے اثرات کو سمجھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی سائنسی حساسیت ہے جو جدید فزکس کے تصورات سے قریب ہے۔
ایک اور شعر دیکھیں:
پانی تھا آگ گرمیِ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
یہ شعر پانی کی گرمی اور اس کے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ ”پانی تھا آگ“ اور ”ماہی کباب تھی“ جیسے الفاظ گرمی کی شدت اور اس کے حیاتیاتی اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی شاعرانہ بصیرت ہے جو حرارتی توانائی اور اس کے ماحول پر اثرات کو سمجھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
نفسیاتی مشاہدات:
میر انیس کے اشعار میں انسانی شعور اور نفسیاتی مشاہدات بھی نمایاں ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
یہاں انسانی کردار کی فکری اور نفسیاتی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔ ”ذی شعور“ اور ”خوش فکر“ جیسے الفاظ انسانی ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کی گہرائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو جدید نفسیات کے تصورات سے قریب ہیں۔ انیس نے انسانی شعور کی ان خصوصیات کو کربلا کے شہدا کے تناظر میں پیش کیا، جو ان کی فکری وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
یہ شعر انسانی تقریر کی فصاحت اور اس کی نفسیاتی طاقت کو بیان کرتا ہے۔ ”کتابِ بلاغت“ اور ”شہد فصاحت“ جیسے استعارے انسانی دماغ کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کی زبان سے اثر ڈالنے کی قوت کو ظاہر کرتے ہیں، جو جدید نفسیات کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔
مرزا سلامت علی دبیر کا سائنسی شعور
مرزا سلامت علی دبیر (1803-1875) اپنی شاعری میں بلاغت اور فکری گہرائی کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے اشعار میں فلکیاتی، طبیعیاتی، اور ماحولیاتی مشاہدات کی جھلکیاں ملتی ہیں، جو ان کے سائنسی شعور کی عکاسی کرتی ہیں۔
فلکیاتی مشاہدات
دبیر کے اشعار میں سورج، چاند، اور ستاروں کے حوالے سے گہری بصیرت ملتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
خورشید درخشاں میں بتا نور ہے کس کا
کلمہ ورق ماہ پہ مسطور ہے کس کا
یہ شعر سورج اور چاند کی روشنی کی کائناتی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ ”خورشید درخشاں“ اور ”ورق ماہ“ جیسے الفاظ نہ صرف شاعرانہ خوبصورتی بڑھاتے ہیں بلکہ فلکیاتی مظاہر، جیسے روشنی کی عکاسی اور اس کی شدت، کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی شاعرانہ بصیرت ہے جو جدید فلکیات سے ہم آہنگ ہے۔ سورج کی روشنی اور چاند کی عکاسی کے تصورات فلکیات کے بنیادی اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
ایک مصرع ملاحظہ کریں:
ذرے کو کرے مہر یہ مقدور ہے کس کا
یہ مصرع ذرات اور سورج کی روشنی کے درمیان تعلق کو بیان کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی شاعرانہ تصویر ہے جو جدید فزکس کے تصورات، جیسے کہ روشنی کے ذرات پر اثرات، سے قریب ہے۔
ماحولیاتی حساسیت
دبیر کے اشعار میں ماحولیاتی مناظر کی تصویر کشی بھی نمایاں ہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
ہر صبح مہر و ماہ کی تو کم ہے روشنی
پر دیکھو ان کے عارضوں کی جلوہ افگنی
یہ شعر سورج اور چاند کی روشنی کے مقابلے میں انسانی حسن کی روشنی کو بیان کرتا ہے، لیکن اس میں فطرت کے عناصر کی خوبصورتی اور ان کے ماحولیاتی اثرات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ ”جلوہ افگنی“ سے روشنی کے ماحول پر اثرات کو بیان کیا گیا ہے، جو ایک ماحولیاتی حساسیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک اور شعر دیکھیں:
گرمیِ حسن مہر سے آب آب ہو گیا
گردوں پہ خشک چشمۂ مہتاب ہو گیا
یہ شعر گرمی اور روشنی کے ماحولیاتی اثرات کو بیان کرتا ہے۔ ”آب آب ہو گیا“ سے پانی کی کمی اور گرمی کی شدت کو ظاہر کیا گیا ہے، جو ماحولیاتی سائنس کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔
طبیعیاتی بصیرت
دبیر کے اشعار میں طبیعیاتی مظاہر کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
بجلی گری بجلی پہ اجل ڈر کے اجل پر
اک زلزلہ طاری ہوا گردوں کے محل پر
یہ شعر بجلی اور زلزلے جیسے قدرتی مظاہر کو بیان کرتا ہے۔ بجلی کی چمک اور اس کے اثرات کو ”زلزلہ“ سے تشبیہ دینا ایک ایسی شاعرانہ بصیرت ہے جو طبیعیاتی مظاہر کی شدت کو سمجھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بجلی کی برقی توانائی اور زلزلے کی ارضیاتی حرکت دونوں ہی سائنسی مظاہر ہیں، اور دبیر نے انہیں شاعرانہ انداز میں پیش کیا۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
سیارے ہٹے کر کے نظر تیغ کے پھل پر
خورشید تھا مریخ یہ مریخ زحل پر
یہ شعر سیاروں کی حرکت اور ان کے فلکیاتی مقامات کو بیان کرتا ہے۔ ”خورشید تھا مریخ“ اور ”مریخ زحل پر“ جیسے الفاظ سیاروں کی حرکات اور ان کے مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو فلکیاتی مشاہدات سے قریب ہیں۔
نفسیاتی مشاہدات
دبیر کے اشعار میں انسانی شعور کی نفسیاتی خصوصیات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
ہر عضو میں ہے دل کی طرح سے خدا کی یاد
قرآن پڑھنا ختم ہے ان پر دم جہاد
یہ شعر انسانی شعور کی روحانی اور نفسیاتی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔ ”خدا کی یاد“ اور ”دم جہاد“ جیسے الفاظ انسانی دماغ کی جذباتی اور فکری طاقت کو ظاہر کرتے ہیں، جو جدید نفسیات کے تصورات سے ہم آہنگ ہیں۔
میر مظفر حسین ضمیر کا سائنسی شعور (1855-1777) : مرزا سلامت علی دبیرؔ کے شاگرد
میر مظفر حسین ضمیرؔ کے اشعار میں فکری گہرائی اور شاعرانہ تخیل کا امتزاج ملتا ہے۔ ان کے اشعار میں سائنسی شعور کی جھلکیاں خاص طور پر انسانی شعور اور کائناتی مشاہدات میں نظر آتی ہیں۔
نفسیاتی بصیرت
ضمیر کے اشعار میں انسانی ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کی رفتار کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
میں چشم تصور میں لگا کھینچنے تصویر
بس ذہن میں سرعت سے نہ ٹھہرا کسی تدبیر
یہ شعر انسانی ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کی تیزی کو بیان کرتا ہے۔ ”چشم تصور“ اور ”سرعت“جیسے الفاظ انسانی دماغ کی رفتار اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو جدید نفسیات اور دماغی علوم سے قریب ہیں۔ ضمیر نے انسانی ذہن کی اس صلاحیت کو ایک ایسی شاعرانہ تصویر میں پیش کیا جو کربلا کے تناظر میں فکری وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
جب بندش مضمون میں باندھا دم تحریر
دی کلک نے آواز پری کو کیا تسخیر
یہ شعر تخلیقی عمل اور اس کی نفسیاتی طاقت کو بیان کرتا ہے۔ ”دم تحریر“ اور ”آواز پری کو تسخیر“جیسے الفاظ شاعری کے تخلیقی عمل کو ایک ایسی صلاحیت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو انسانی دماغ کی گہرائی سے نکلتی ہے۔ یہ جدید نفسیات کے تخلیقی عمل کے مطالعے سے ہم آہنگ ہے۔
کائناتی مشاہدات
ضمیر کے اشعار میں کائناتی حسن اور انسانی شعور کی حیرت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
آمد ہی میں حیران قیاس بشری ہے
یہ کون سی تصویر تجلی سے بھری ہے
یہ شعر کائناتی حسن اور انسانی شعور کی حیرت کو بیان کرتا ہے۔ ”قیاس بشری“ اور ”تجلی“جیسے الفاظ انسانی مشاہدے اور کائناتی مظاہر کے درمیان ایک گہرے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی شاعرانہ بصیرت ہے جو سائنسی سوچ سے ہم آہنگ ہے، کیونکہ یہ انسانی شعور کی کائنات کو سمجھنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔
سید علی میاں کامل کا سائنسی شعور:
سید علی میاں کامل کے اشعار میں سائنسی شعور کی جھلکیاں خاص طور پر فطرت اور کائنات کے مشاہدات میں ملتی ہیں۔ ان کے اشعار میں فطرت کی تبدیلی اور اس کی خوبصورتی کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
فطری تبدیلی
کامل کے اشعار میں فطرت کی تبدیلی اور اس کی خوبصورتی کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
میں اگر قصد کروں سنگ کو گوہر کردوں
خار کو فیض لطافت سے گل تر کردوں
یہ شعر فطرت کی تبدیلی اور اس کی خوبصورتی کو بیان کرتا ہے۔ ”سنگ کو گوہر“ اور ”خار کو گل“جیسے استعارے کیمیائی اور حیاتیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو جدید سائنس کے تصورات، جیسے کہ مادے کی تبدیلی اور حیاتیاتی ارتقا سے قریب ہیں۔ کامل نے فطرت کی اس صلاحیت کو ایک ایسی شاعرانہ تصویر میں پیش کیا جو سائنسی مشاہدات سے ہم آہنگ ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
ذرے کو داغ جبین مہ انور کردوں
شب تاریک کو بے شمع منور کردوں
یہ شعر روشنی اور مادے کے درمیان تعلق کو بیان کرتا ہے۔ ”ذرے کو مہ انور“ اور ”شب تاریک کو منور“جیسے الفاظ روشنی کی تبدیلی کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں، جو جدید فزکس کے تصورات سے قریب ہیں۔
ماحولیاتی حساسیت
کامل کے اشعار میں ماحولیاتی وسائل اور ان کی اہمیت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کے اشعار دیکھیں:
جو کہوں منھ سے وہی چرخ کہن دے مجھ کو
پنکھڑی پھول کی مانگوں تو چمن دے مجھ کو
طالب مشک اگر ہوں تو ختن دے مجھ کو
سنگریزے کے عوض در عدن دے مجھ کو
یہ شعر فطرت کی فراوانی اور اس کی خوبصورتی کو بیان کرتا ہے۔ ”پنکھڑی پھول“ اور ”مشک“ جیسے الفاظ فطرت کے وسائل اور ان کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو ماحولیاتی سائنس کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ کامل نے فطرت کی اس فراوانی کو ایک ایسی شاعرانہ تصویر میں پیش کیا جو ماحولیاتی توازن کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
نفسیاتی مشاہدات
کامل کے اشعار میں انسانی شعور کی تخلیقی صلاحیتوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
ذہن سے کہہ دوں تو ہنگامۂ جودت ہوجائے
گنگ کو چاہوں تو مشاق طلاقت ہوجائے
یہ شعر انسانی ذہن کی تخلیقی طاقت اور اس کی صلاحیتوں کو بیان کرتا ہے۔ ”ہنگامۂ جودت“ اور ”مشاق طلاقت“ جیسے الفاظ انسانی دماغ کی فکری وسعت اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو جدید نفسیات کے تصورات سے ہم آہنگ ہیں۔
الغرض اردو مرثیہ گو شعرا، جیسے کہ میر انیسؔ، مرزا سلامت علی دبیرؔ، میر مظفر حسین ضمیرؔ، اور سید علی میاں کاملؔ، نے اپنی شاعری میں نہ صرف مذہبی اور جذباتی موضوعات کو اجاگر کیا بلکہ فطرت، کائنات، اور انسانی شعور کے دیگر پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ ان کے اشعار میں سائنسی شعور کی جھلکیاں ان کے گہرے مشاہدات، فطری مظاہر کی سمجھ، اور شاعرانہ تخیل کا نتیجہ ہیں۔ اگرچہ ان کا سائنسی شعور جدید سائنسی نظریات سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھا، لیکن ان کی شاعری میں موجود فلکیاتی، ماحولیاتی، اور فکری عناصر ان کی وسعتِ فکر کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ مقالہ ثابت کرتا ہے کہ اردو مرثیہ گوئی محض ایک مذہبی یا جذباتی صنف نہیں بلکہ ایک ایسی ادبی روایت ہے جو سائنسی مشاہدات اور فکری گہرائی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ان شعرا کی شاعری ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ادب اور سائنس کے درمیان ایک گہرا تعلق ہو سکتا ہے، اور شعرا کا شاعرانہ تخیل سائنسی شعور کو نئی جہتیں عطا کر سکتا ہے۔
***
انجینئر محمد عادل فرازؔ
ہلال ہاؤس4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
E.R MOHD ADIL FARAZ
HILAL HOUSE
HNO.4/114 JAGJEEVAN COLONY NAGLAH MALLAH CIVIL LINE ALIGARH 202001
Email:mohdadil75@yahoo.com
8273672110 Mobile :
انجینئر محمد عادل فراز کی گذشتہ نگارش:قیصر خالد کی شاعری میں سائنسی عناصر: تنقیدی جائزہ

اردو مرثیہ گو شعرا کا سائنسی شعور
شیئر کیجیے