وسیم احمد علیمی
(اور جب کھلی تاکید آچکی کہ فارغینِ مدارس نہیں پڑھیں گے اس قصے کو۔ پس جو ایسا کر گزرے وہ سخت نقصان اٹھانے والا ہوگا۔ اور بے شک جانتے ہیں عقل والے کہ بے نیاز ہوجاتے ہیں لکھنے والے سب اپنی اگلی پچھلی تحریروں سے۔)
صبح اذان فجر سے بہت پہلے جب رات کی سیاہ دھاری صبح کی سفید دھاری کو چیرتی ہے وہ خبیث الوری ہمارے ہاسٹل کی چھت پر اپنا روایتی ڈنڈا زور زور سے بجانے لگتا۔ یہ انکر الاصوات ہمارے لیے پہلی وارننگ ہوتی۔ تھوڑی دیر بعد جب اذان فجر پکار دی جاتی وہ پھر آتا اور ہم لوگوں کو بھینس بکریوں کی طرح وضو خانے کی طرف ہانک دیتا۔
کچھ بڑے لڑکے اپنی لنگی بالٹی لیے غسل خانے کی طرف دوڑتے اور کچھ ڈنڈے کے خوف سے ناپاک حالت میں ہی مسجد جاکر نیت باندھ کر کھڑے ہوجاتے۔ لیکن اس افراتفری میں مبتدا بھائی کو کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ اور ہو بھی کیوں کہ ایک تو وہ ایک نمبر کا چاپلوس تھا، خالی اوقات میں گھوم گھوم کر اساتذہ کے تلوے چاٹتا اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ پڑھاکو بھی اول نمبر کا تھا۔ ہر امتحان میں ٹاپ کرتا تھا۔ سات آٹھ سو لڑکوں پر مشتمل ایک بڑے مدرسے میں طلبہ اس کی صلاحیت کی قسمیں کھاتے تھے۔ نو وارد طلبہ اس کی شہرت کے قصے سنتے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے خواہاں ہوتے۔ جب وہ مدرسے کے گراونڈ میں نکلتا تو نووارد طالبانِ علوم نبویہ اس کی طرف مصافحہ کرنے کو لپکتے۔ کھانا لینے قطار میں لگتا تو جونیئر لڑکے اس کے حصے کی ٹفن لا دیتے، استنجے کی لائن میں کھڑا ہوجاتا تو آگے کھڑے طلبہ اپنی باری اس کے حوالے کردیتے۔ مدرسے میں اس کی شان و شوکت دیکھ کر ہم لوگوں میں پڑھائی (ٹاپ کرنے) کا بڑا جذبہ پیدا ہوجاتا تھا۔
مدرسوں میں ‘تکرار’ ایک بڑی اہم چیز ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے درس گاہ میں پڑھائے گئے سبق کا ہم درسوں کے ساتھ بعد نماز مغرب اعادہ کرنا۔ تکرار میں کلاس کا سب سے نمایاں طالب علم استاد کی نقالی کرتا ہے اور باقی رفقا ہمہ تن گوش ہو کر درس سنتے ہیں، اعتراض اچھالا جاتا ہے اور تکرار کا میر کارواں شبہات کا ازالہ کرتا ہے۔ کچھ ذہین قسم کے طلبہ تکرار میں استاد سے بھی زیادہ اچھوتے انداز میں سبق کی گھتیاں سلجھادیا کرتے ہیں۔ مبتدا بھائی اسی قسم کے طالب علم تھے۔ ان کے تکرار کا پورے مدرسے میں شہرہ تھا۔ یہاں تک کہ دوسری جماعتوں کے طلبہ بھی ان کی صلاحیتوں کا تماشا دیکھنے تکرار میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں مبتدا بھائی کی قابلیت سے بہت متاثر تھا۔ میں ان کی طرح بننا چاہتا تھا۔ ابنُ الکتاب تھا وہ جیسے کہ پیدا ہی کسی کتابوں سے بھرے کمرے میں ہوا ہو۔
میرے دل میں یہی ارمان مچلتے کہ کاش مبتدا بھائی مجھے روزانہ قیلولہ کے اوقات میں بس نصف ساعت پڑھا دیا کریں تو میں بھی اپنی جماعت کا ٹاپر بن جاؤں۔ میں نے اس سلسلے میں کئی دفعہ کوشش بھی کی ان سے بات کرنے کی مگر میرے راستے کا سب سے بڑا پتھر تھا مبتدا کا لنگوٹیا یار، مجرور!۔ مبتدا کا ہم پیالہ ہونے کی وجہ سے مجرور کو ہم لوگ حضرت مجرور کہہ کر پکارتے تھے۔ عجب اتفاق کہ دونوں کے نام میم سے شروع ہوتے ہیں اس لیے پورے مدرسے میں ان کی جوڑی ’میمین‘ کے نام سے مشہور تھی۔
دونوں ایک دوسرے کا نان و نمک کھاتے اور باہم شیر و شکر کی طرح رہتے۔ لیکن کسی کو ان کے درمیان وجہ دوستی سمجھ نہیں آتی کیوں کہ دونوں کی جوڑی کسی اجتماع ضدین کی بہترین مثال تھی۔ ایک زبردست پڑھاکو تو دوسرا پرلے درجے کا چھانٹ۔ ایک صوم و صلاۃ کا پابند تو دوسرا لہو و لعب کا دل دادہ۔ مبتدا کے خالی اوقات کتابوں سے عشق لڑانے میں صرف ہوتے تو مجرور وہیں اس کے پہلو میں بیٹھ کر بلیو فلموں کے مناظر سے اپنی آنکھیں سینکتا۔ وہ اتنا رنگیلا تھا کہ بال ہیرو جیسا کٹواتا، سفید پوشوں کی نگری میں بھی کرتے کے اندر ہی سہی رنگ برنگ کی ٹی شٹیں پہنتا اور متبدا کا رازداں ہونے کے باوجود ہر امتحان ادنی نمبرات سے ہی پاس کرتا۔ جب کوئی اس سے کہتا کہ مبتدا کی صحبت میں رہ کے بھی تمہارا یہ حال ہے تو زہر خند ہنسی ہنستے ہوئے بولتا: ”ہم لوگ وہ والے دوست نہیں ہیں، ساتھ رہتے ہیں صحبت تھوڑی کرتے ہیں۔“
ایسا نہیں ہے کہ مجرور کو کتابوں کے آنچل کی ہواؤں سے بالکل بھی ٹھنڈک نہیں پہنچتی، وہ بھی کتابوں کا عاشق دلگیر تھا مگر صرف ایسی کتابیں جن میں آدابِ مباشرت، قوانین جماع اور فقہ میں حیض و نفاس استحاضہ اور نکاح سے قبل منگیتر کو دیکھنے (باب النظر الی المخطوبہ) کابیان ہو۔ نطفہ، رحمِ مادر، پردۂ بکارت، احتلام، حمل، باندی سے مباشرت، عزل وغیرہ سے متعلق مسائل فقہیہ کے متون تو متون، آں جناب کو حواشی تک ازبر ہوجاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جناب شسماہی امتحان میں اپنے فیورٹ مضمون میں فیل ہوگئے۔ ہوا یوں کہ پرچہ میں پانی کے اقسام پر تفصیلی روشنی ڈالنے کو کہا گیا اور قبلہ رحم نسوانی سے خارج ہونے والے پانیوں پر اپنی صلاحیتیں انڈیل کر چلے آئے۔ نتیجہ کے بعد حضرت کے اس کارنامے کا اعلان استاد فقہ حضرت مولانا زنبیل صاحب فوقانوی نے بذات خود درس گاہ میں کیا تھا۔ حضرت مجرور کا یہ قصہ مدرسے میں برسوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا۔
میں ان دونوں سے بہت جونیئر تھا۔ میرا اسی سال داخلہ ہوا تھا۔ پورے مدرسے میں مبتدا بھائی کا طوطی بولتا تھا۔ میں اور ہم جیسے اکثر جدید طلبہ مبتدا بھائی جیسا بننا چاہتے تھے لیکن اس بیہودہ مجرور کو مبتدا بھائی سے کسی کی قربت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ مبتدا کی قابلیت سے کوئی مستفید ہو اور مجرور اس کی کوئی قیمت نہ وصول لے ایسا ہو نہیں سکتا۔ سرکاری کلرک سے بنا رشوت کے کام نکلوانا تو پھر بھی ایک بات ہے لیکن مجرور کو کچھ نذرانہ پیش کیے بغیر مبتدا سے کسی کا علمی فائدہ ہوجائے ایسا جس دن ہوا اس دن سے قیامت کو صرف چالیس سال ہی رہ جائیں گے۔ ایسا نذرانہ پیش کرنے والوں کی فہرست لمبی ہے۔ ہم جیسے چھوٹی عمر کے اکثر لڑکے اس کے درشت لہجے سے ہراساں تھے۔ ایک دن عصر سے پہلے وضو خانے میں میرا اس نامراد سے سامنا ہوگیا۔ مجھ سے کہنے لگا
”کیا بے ملیح، تجھے آج کل بڑا دیکھ رہا ہوں، خوب مبتدا کے آگے پیچھے کر رہا ہے“
”جی مجرور بھائی! میں ان سے بہت متاثر ہوں۔ ان کی طرح بننا چاہتا ہوں“ میں نے ڈرے سہمے جواب دیا۔
”ان کی طرح بننا ہے تو تو بھی کوئی مجھ جیسا دوست بنا لے جس سے تیرا چولی دامن کا ساتھ ہو“
”جی نہیں سمجھا حضرت مجرور صاحب! کیا مبتدا بھائی جیسی علمی صلاحیت پیدا کرنے میں آپ جیسا دوست ضروری ہے؟
میں نے قدرے تملقانہ لہجے میں عرض کیا۔
”ابے الو کے پٹھے! تو خوب مبتدا مبتدا کا نام جپتا ہے لیکن اب تک اس کی شخصیت کی کلید کو نہیں سمجھ سکا؟“
”یعنی ان کی شخصیت کی کلید آپ ہیں؟“ میں نے سمجھنے کی کوشش کی۔
”بالکل” مجرور نے فخریہ لہجے میں جواب دیا۔
”اچھا ایک بات بتا، تو بالغ ہے؟”
میں حضرت مجرور کے غیر سیاقانہ سوال سے قدرے سہم گیا۔
”جی نہیں سمجھا! آپ کی مراد کیا ہے اس طرح کے سوال سے؟”
”ابے مطلب یہ کہ تجھے کبھی احتلام ہوا ہے؟”
”جی نہیں معلوم، وہ کب ہوتا ہے اور آپ ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں؟” میں نے نرمی سے پوچھا۔
”ارے میرے باپ! تو سوال بہت کرتا ہے، مطلب یہ کہ تجھے ابھی احتلام نہیں یعنی تو ابھی نابالغ ہے اور ہم لوگ نابالغ چوزوں کو اپنی صحبت میں نہیں رکھتے۔ بلا وجہ پورے مدرسے میں الم غلم کہانیاں گردش کرنے لگتی ہیں۔” مجرور صاحب نے مقررانہ انداز میں بیان کیا۔
”یعنی مبتدا بھائی سے درس حاصل کرنے کے لیے میرا بالغ ہونا ضروری ہے؟”
”ہاں ں ں ں ں ں ں ں ”
مجرور صاحب نے کسی فلمی کردار کی طرح ایک لمبی ہامی بھری۔
میں ان کی اس عجیب و غریب شرط سے مایوس ہو گیا اور گزرتے دن کے ساتھ اپنے بالغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ دن مہینے سال گزرے اور میں اگلی جماعت میں داخل ہوگیا۔ سالانہ امتحانات میں میرے نمبرات کچھ خاص نہیں رہے اور مبتدا بھائی سے درس لیے بغیر مجھے ٹاپ کرنا اور بھی دشوار سا لگنے لگا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ میرے زیر ناف خاردار جھاڑیوں کی طرح بھوری بھوری بدرنگ روئیاں نکل آئیں ہیں جن میں کسیلی راکھ کی مانند نہ جانے کیا کچھ بدبدا سا لگا ہوا ہے۔ میں نے اپنی عمر سے تھوڑے بڑے ہم درس سے اس کا ذکر کیا تو اس نے ایک غیر مناسب مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا۔ وہ کہنے لگا:
” واہ بھئی مبارک ہو! تیرے اندر جوانی کا آتش فشاں پھوٹنے والا ہے۔”
اس کی بات سے میں گھبرا گیا اور اندر ہی اندر ایک عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔ میں نے اسے تفصیل سے سمجھانے کی گزارش کی۔ جمعرات کا دن تھا۔ دوپہر تیزی سے ڈھل رہی تھی۔ پورے مدرسے میں ایک زبردست سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ بیشتر طلبہ اور اساتذہ قیلولہ کی آغوش میں آرام فرما رہے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ مجھے سب کچھ تفصیل سے سمجھا دے گا اگر میں اس کے ساتھ سہ منزلہ درس گاہی بلڈنگ کی چھت پر آؤں۔ اس وقت سہ منزلہ درس گاہی بلڈنگ کی چھت پر کوئی نہیں آتا۔ اور جب سے اس چھت سے گرکر ایک طالب علم کی موت ہوئی ہے وہ چھت طلبہ کے لیے ایک دشت ممنوعہ ہے۔ لیکن میں علم کی تلاش میں بے خطر کود پڑا۔ چھت پر اس نے پہلے مجھے قدرے رد و بدل کے ساتھ احتلام سے متعلق وہی سب سوالات کیے جو حضرت مجرور نے کیے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ مدرسے کی زندگی میں بالغ ہونا بہت ضروری ہے۔ پھر اس نے مجھے وہ زیر ناف کی بدرنگ روئیاں دکھانے کو کہیں جن میں کسیلی راکھ کی مانند نہ جانے کیا کچھ بدبدا سا لگا ہوا تھا۔ بالغانہ امور کے سب کچھ مجھ پر عیاں ہوجائیں اس کے لیے یہ امر مجھے ناگزیر معلوم ہوا۔ میں نے سہمے سہمے اپنی چھوٹی سی لنگی کا حجاب اٹھا دیا۔ وہ میری مچھلی کو کسی ماہر طبیب کی طرح نرمی سے پکڑ کے اس کے ارد گرد کے جنگلات کا جائزہ لینے لگا۔ اس دوران میرے شریانوں میں خون کا بہاؤ تیز ہو گیا اور ایک نادیدہ تلذذ کے احساس کے ساتھ مچھلی اچانک ذرا سی بڑھ گئی اور اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ پھر وہیں ٹہلتے ہوئے اس نے مجھے تعلیم دی کہ دین فطرت کے مطابق موئے زیر ناف کا تراشنا ضروری ہے۔
بس کیا تھا مجھ پر اس فطری عمل کی بجا آوری کا دھن سوار ہوگیا۔ اگلے دن خالی اوقات میں میں نے یہ کام بیت الخلا میں انجام دیا۔ مدرسوں میں بیت الخلا بھی کسی عجائب گھر سے کم نہیں ہوا کرتا۔ یہ رفع حاجت نہیں بلکہ رفع حوائج کثیرہ کا مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں طلبہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ جیسے کہ بڑے لڑکے موئے زیر ناف تراش کر اپنی ریزر مشین مع بلیڈ یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ہر بیت الخلا میں استعمال شدہ ریزر بلیڈ کا انبار ہوتا ہے اور جوان ہو رہے ہم جیسے ننھے منھے طلبہ ریزر مستعمل کو خوب استعمال میں لاتے ہیں۔ منتقلی امراض کا خوف تو خیر یہاں کسی کو ہوتا ہی نہیں ہے۔ کچھ لکھاری قسم کے طلبہ اپنے قلم کا جوہر بیت الخلا کی دیواروں پر نقش کر جاتے ہیں تو کچھ اپنی زیریں مشین گن سے نکلنے والی مائل بہ سفید باقیات سے درو دیوار کو پراگندہ کرنا اپنی نوجوانی کا فریضہ تصور کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مبتدا بھائی کا لکھا ایک جداریہ ایک زمانے میں خوب مشہور ہوا تھا۔ اس جداریہ کو طلبہ نے ہفتوں تک لائن لگا کر پڑھا تھا۔
مدرسوں میں تحریری صلاحیت نکھارنے کا بہترین ذریعہ جداریہ ہی ہے۔ یہ ایک قسم کی وال میگزین ہے جس میں ہر جماعت کے طلبہ ہفتہ وار یا ماہوار اپنی تحریریں اپنے ہاتھوں سے سنجو کر مخصوص دیوار پر چسپاں کرتے ہیں۔ ہر جماعت کا جداریہ اس جماعت کے علمی، فکری اور تحریری صلاحیتوں کا نمائندہ ہوا کرتا ہے۔ ہر جداریہ اپنا ایک الگ نام اور مقام رکھتا ہے۔ ان دنوں مبتدا بھائی کی جداریہ نگاری کے آگے دوسرے تمام جداریے بونے نظر آتے تھے۔ مبتدا کے کچھ نمائندہ جداریوں کے چیدہ چیدہ اقتباسات مجھے آج بھی یاد ہیں جنہیں میں نے تحریری مشق کے لیے اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا تھا۔
موسموں کی آوا جاہی کے ساتھ مجھے یہی انتظار رہنے لگا کہ بس جلدی سے کسی طرح بالغ ہو جاؤں تاکہ مجرور بھائی کی شرط پوری ہو اور مبتدا بھائی سے درس لے سکوں اور ٹاپ کر سکوں۔ عنفوان شباب میں کیا کچھ اتفاقات ہوتے ہیں کون نہیں جانتا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب مجھے پہلی دفعہ احتلام ہوا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے دونوں زانوؤں کے درمیان مکروہ سی چپچپاہٹ اور کھجور کے بیج کی سی بدبو کے ساتھ زندگی نے مجھے ایک جھٹکے میں دیار نوجوانی میں داخل کر لیا تھا۔ وہ موسم گرما تھا۔ ہم طلبہ ریلوے پلیٹ فارم پر سوئے مسافرین کی طرح بڑی تعداد میں اپنے مدرسے کی چھت پر سوتے تھے۔ صبح جماعت کے بڑی عمر کے لڑکوں نے مجھے احتلام سے متعلق سب کچھ تفصیل سے بتادیا تھا۔
بڑے لڑکے کہتے تھے کہ احتلامِ اول کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے رخسار کا سبزہ آب حیات سے سینچا گیا ہے اور میرے چہرے کی تابندگی آفتاب کی کرنوں سے عکس لے کر آئی ہے اور میری اگتی ہوئی بدرنگ داڑھیاں سبزہ خود رو کی طرح ہیں جو نہر کنارے اگ آتے ہیں۔ میرے قد و قامت کی نمکینیت کی وجہ سے وہ مجھے ملیح کہنے لگے تھے۔ کھانا تقسیم کے وقت قطار میں کھڑے ہوتے ہوئے، بیت الخلا کی لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے وقت، عصر کے بعد کھیتوں کی طرف سیر و تفریح کے دوران، نماز سے پہلے وضو کرتے وقت یہاں تک کہ درس گاہ چھوڑ کر ہر وہ جگہ جہاں ہم گپیں لڑا سکتے تھے وہاں بڑے لڑکے مجھے عنفوان شباب کی باریکیاں سمجھاتے تھے جن میں ان کی سب سے پہلی دفعہ کی مشت زنی، پہلے پہل کا احتلام اور بار اول موئے زیر ناف تراشنے کے احساسات شامل ہوتے۔
ان ناہنجاروں کی بالغانہ باتیں سن کر میرے من میں مشت زنی کے جراثیم سگبگانے لگ جاتے اور میں۔۔۔۔۔۔۔
عید الضحی کی تعطیل ہونے کو تھی۔ مجرور صاحب پہلے ہی گھر جا چکے تھے۔ ایسا میں نے سوچا تھا کہ تعطیل کے بعد جیسے ہی وہ لوٹیں گے میں انھیں اپنی بلوغت کی خبر دوں گا اور پھر وہ مبتدا بھائی سے میری سفارش کریں گے اور شاید ٹاپر بننے کا میرا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے۔
آج جمعرات کا دن تھا۔ مدرسوں کا ویکینڈ۔ یہ دن ہمارے لیے عید اور رات شب برات کی طرح ہوتی۔ شام کو مغرب کے بعد ہر جماعت کی طرف سے علاحدہ علاحدہ بزم کا اہتمام کیا جاتا۔ ہم لوگ حاضری لگا کر مبتدا بھائی کی جماعت والی بزم میں چلے جاتے لیکن صرف اسی ہفتے جب مبتدا بھائی بحیثیت مصلح مقرر ہوتے۔ ایسے بھی بزم میں ہوتا کیا ہے۔ جن کی ڈیوٹی ہوتی وہ میدان خطابت کے شہسوار بننے اور نعت گوئی میں حسان الہند کا تمغہ حاصل کرنے کی پریکٹس کرتے۔ باقی طلبہ پیچھے بیٹھ کر آپس میں بلیو ٹوتھ سے فلمیں ٹرانسفر کرتے۔ یہ فلمیں ان کی شب گزاری کے لیے مے و مینا و ایاغ کا کام کرتیں۔ ورنہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ان بزموں کا مقصد طلبہ میں نظامت، خطابت، نعت خوانی اور فقہی مسائل کی پریکٹس کرانا ہے۔ ان بزموں کا سب سے دل چسپ پہلو اصلاح ہی ہے جب اختتام سے ذرا پہلے مصلح بزم پوری محفل میں پیش کی جانے والی نعتوں، تقریروں، نظامت اور دیگر امور پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ مبتدا بھائی اپنی وسعت مطالعہ سے اس پہلو کو اتنا دل چسپ بنا دیتے تھے کہ انتہائی نامور کامیڈین کی کمیڈی شوز میں اتنی تالیاں نہیں بجتی ہوں گی جتنی داد و تحسین انھیں حاصل ہوجایا کرتی تھیں۔ اس وقت تک دوسری جماعت کے طلبہ بھی اپنی بزم سے فارغ ہوکر مبتدا بھائی کی اصلاح سننے جمع ہوجاتے تھے۔ اس دن مبتدا بھائی کے تبصروں کا الگ ہی رنگ تھا۔ ایک تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا
”ہاں جناب مولانا کفیل احمد صاحب! تردید مسالک غیریہ پر آپ کا خطاب حوالوں کی جڑی بوٹیوں سے خوب مرصع تھا۔ لیکن جناب دوران خطاب جوش میں آکر آپ نے اپنے خطیبانہ وقار کی دھجیاں اڑا دیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کسی دوراہے پر کوئی مداری چیخ چیخ کر ڈمرو بجا بجا کر قوت باہ میں اضافہ کرنے کی گولیاں فروخت کر رہا ہو۔ جناب آئندہ آپ اپنے مقررانہ احترام پر توجہ دیں گے۔“
اسی لَے میں انھوں نے اپنی جماعت کے خوش الحان کی نعت گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
”محترم المقام جناب مداح خیر الانام صاحب قبلہ! نعت گوئی تلوار کی دھار پہ چلنے کا فن ہے اور نعت خوانی آبلہ پائی کے ساتھ گلشن پرخار میں بھوکے پیاسے کانٹوں سے گزر جانے جیسا نازک کام۔ خوش الحانی کے معاملے میں تو آپ گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں لیکن فلمی گانوں کے آہنگ پر نعت خوانی سے عشق کے تقاضوں پر چوٹ پڑتی ہے۔ اگر آپ نے اس پر توجہ نہیں دی تو کبھی نہ کبھی عملی میدان میں اسٹیج سے کھدیڑ دیے جائیں گے، وہ بھی ذلت کے ساتھ۔“
آخر میں انھوں نے ناظم بزم اور فقہی مسائل بیان کرنے والوں کو اپنی اصلاحات کے تحفے دیے، اس کے بعد جب دیکھا کہ دیگر جماعت کے طلبہ کا بھی ایک بڑا جم غفیر جمع ہے تو اسٹوڈینس یونین کے کسی لیڈر کی طرح مدرسہ انتظامیہ پر جم کر برس پڑے۔ جیسے برسوں سے کسی روکھی پھیکی زمین پر بڑی بوندوں والی بارش مچل مچل کر برستی ہے۔ بیت الخلا کی گندگی، طعام و قیام کے گھٹتے معیار، باورچیوں کی من مانی، اساتذہ کے مطالعہ درس میں لا پرواہی، مدرسے میں پروان چڑھتے علاقائی تعصب، غرض کے ہر ممکن پہلوؤں پر جم کر تبصرے کیے۔ ایسا لگتا تھا کسی عدالت عالیہ کا جج اپنی الوداعی تقریب سے خطاب کر رہا ہو۔ ان کے خطاب سے طلبہ میں ایک طوفانی ولولہ پیدا ہو گیا۔ نعروں سے پوری بلڈنگ گونج اٹھی۔ مدرسوں میں احتجاج کا کوئی خاص کلچر نہیں ہوتا ورنہ اس وقت مبتدا کے ایک اشارے پر ہم لوگ پہاڑ سے بھی ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
صبح جمعہ کا دن تھا۔ طلبہ غسل و تطہیر میں مصروف تھے۔ لیکن پرنسپل کی درس گاہ کے باہر ایک بھیڑ اکٹھی تھی۔ معلوم ہوا کہ کسی احمق نے رات کو مبتدا بھائی کے ولولہ انگیز خطاب سے متاثر ہوکر پرنسپل اور انتظامیہ کے خلاف وہی ساری باتیں لکھ کر پرنسپل کی درس گاہ کے باہر چسپاں کر دی ہے۔ ایک تو رات میں ہی کسی چاپلوس نے پرنسپل کے کان بھر دیے ہوں گے دوم یہ کہ پورے مدرسے میں ایسی بے باکانہ تحریر لکھنے کا گودا کسی اور کی تشریف میں تھا ہی نہیں۔ لہذا شکوک و شبہات کی تمام سوئیاں مبتدا بھائی ہی کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔ پرنسپل کی درس گاہ کے اندر سرخ قالین پچھی ہوئی تھی جس پر بہ شمول پرنسپل تمام ذمے دار اساتذہ حلقہ بناکر بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں مبتدا بھائی ایک مجرم و گنہگار کی طرح نگاہ جھکائے کھڑے تھے۔ پرنسپل بھرپور طیش کے ساتھ تمام اساتذہ اور باہر کھڑی طلبہ کی بھیڑ کے بیچوں بیچ مبتدا کو ذلیل کر رہا تھا۔ ساتھ ہی اس پر کیے گئے احسانات بھی شمار کرتا جا رہا تھا کہ کیسے اس نے مبتدا کی سالہا سال آبیاری کی تھی، کیسے اس نے آل انڈیا مسابقۂ علم حدیث میں حصہ لینے کے لیے سات سو طلبہ میں صرف اس کا انتخاب کیا تھا اور کس شفقت کے ساتھ اس نے فاتح بن کر لوٹنے پر اس کے اعزاز میں نعرے لگوائے تھے، اور انعامات سے نوازا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے آئندہ برس فراغت کے بعد انتظامیہ کمیٹی سے اس کی تقرری کی بھی بات کر لی تھی۔ شام کے تخت نشیں صبح کو مجرم ٹھہرے۔ پرنسپل نے بنا کسی تحقیق کے مبتدا کے اخراج کا فیصلہ کر دیا لیکن دیگر اساتذہ مبتدا کی صلاحیتوں کے معترف تھے لہذا انھوں نے بس تنبیہ کر کے چھوڑ دینے کی وکالت کی۔ لیکن مبتدا بھائی یہ ذلت برداشت نہیں کر سکے۔ کہتے ہیں شہرت کے بعد کی بدنامی انسان کو بھیتر سے دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے۔ مبتدا بھائی عید الاضحی کی تعطیل میں گھر گئے اور دوبارہ کبھی نہیں لوٹے۔ اس طرح ایک بڑا بہت بڑا مبتدا ہم لوگوں کے لیے بس خبر بن کے رہ گیا۔
بدوستے کہ حرام است بعد ازو صحبت کہ ہیچ نطفہ چنو آدمی نہ خواہد بود(سعدی)
(قسم ہے اس دوست کی کہ اس کے بعد سب کی صحبت حرام ہے کیوں کہ اب کوئی بھی نطفہ اس قسم کا آدمی نہیں پید اکر سکے گا(سعدی)
٭٭٭
وسیم علیمی کی گذشتہ نگارش : عجیب ڈھنگ سے کٹی ہوئی انگلی

پہلا احتلام
شیئر کیجیے