حرفوں میں کھلونے پرونے والی شاعرہ: فوزیہ ردا

حرفوں میں کھلونے پرونے والی شاعرہ: فوزیہ ردا

امان ذخیروی
ذخیرہ، جموئی ،بہار ،ہند

میدان شعر و ادب میں فوزیہ ردا کا نام ملک گیر شہرت کا حامل ہے۔ ان کے فکر و فن کی خوش بو سرحدوں کے بندھن توڑ کر کشاں کشاں پھرتی ہوئی انھیں عالمی شہرت و مقبولیت عطا کرتی ہے۔ اپنے نام کی صورت فوز و فلاح پانے والی یہ شاعرہ آسمان ادب پر ماہ و اختر بن کر درخشندہ و تابندہ ہے۔ اپنی تخلیقات میں اپنے حسن و جمال کی روشنی بکھیرنے والی یی شاعرہ اس کم عمری میں دنیائے ادب میں اپنا وہ مقام بنا چکی ہے جو شاذ و نادر ہی کسی کے حصے میں آتا ہے۔ ایسے بہت کم قلم کار ہوتے ہیں جنھیں نثر و نظم پر یکساں عبور حاصل ہو۔ فوزیہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ خواتین قلم کار صرف نسائی ادب میں ہی اپنے کمالات دکھاتی ہیں، اور یہ ایک حد تک درست بھی ہے، کیونکہ شاعرات میں پروین شاکر کو چھوڑ کر بیشتر نے کچھ ایسی ہی شاعری کی، جسے نسائی ادب کا ترجمان قرار دیا جائے۔ لیکن جب ہماری زبان پر فوزیہ ردا کا نام آتا ہے تو یقیناً ہماری فکر کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ فوزیہ ردا نے اپنی شاعری کی شروعات غزل گوئی سے کی اور بہت جلد یہ ثابت کر دیا کہ وہ ذکور و اناث کی بندشوں سے ماورا ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی اشکال نہیں کہ، "مر کر بھی پروین شاکر کی روح اپنی ناتمام شاعری کی تکمیل میں بے قرار تھی۔ بسیار تلاش و جستجو کے بعد شہر نشاط میں پیدا ہوئی ایک کومل کامنی سی شاعرہ بنام فوزیہ ردا کے قلب میں سکونت اختیار کر، اس کے قلم کو برق بار کر دیا."
فوزیہ اختر کی غزل گوئی نے نئی نسل کو بہت متاثر کیا ہے۔ مشاعروں کی محفل میں انھیں بے پناہ داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے۔ اب تک ان کی غزلوں کے دو مجموعے منظر عام پر آ کر دیار غزل میں ہلچل پیدا کر چکے ہیں۔‌ سپتک اور روپک نامی قوس و قزح سے آسمان ادب کو مزین کر چکی فوزیہ ردا اب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔
کسی بھی قلم کار کی متنوع مزاجی اسے ہمیشہ ایک ہی راہ پر گامزن رہنے نہیں دیتی۔ اس کی طبیعت کی بے قراری اسے کشاں کشاں لیے پھرتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی راہ بدلتا رہتا ہے، جیسے ندی اپنے دھارے بدلتی رہتی ہے۔ مگر یہ امر ہرگز حکمت سے خالی نہیں۔ ندی اگر ایک ہی سمت و رفتار میں رواں دواں رہے تو یہ دنیا ان جغرافیائی نقوش سے محروم رہ جائے، جو آج ڈیلٹا، ایسچوئری، گوکر جھیل وغیرہ کی شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں۔‌ پتا چلا کہ یہ سیمابی کیفیت ہی ہے جس سے نئے امکانات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح قلم کار کی یہ فطری جبلت ہی اسے کچھ نیا کرنے کی راہ پر گامزن رکھتی ہے۔
فوزیہ ردا نے بھی اپنی انھی فطری خوبیوں سے معمور ہوکر اپنے رخ کو راہ غزل سے موڑ کر راہ ادب اطفال کی جانب مبذول کیا اور حرفوں سے کھلونے بنانے میں منہمک ہوئیں۔ چنانچہ ان کے اسی انہماک نے حرف کھلونے کی تخلیق کا سامان فراہم کیا۔ بچوں سے محبت یوں تو سب کرتے ہیں، لیکن اس کا سب سے بڑا سرمایا عورت کے حصے میں آیا ہے۔ بچوں سے عورت کی محبت ایک فطری عمل ہے۔ اس لیے ادب اطفال جب اس کے حصے میں آتا ہے تو اس کا قلم ایسے جوہر دکھاتا ہے کہ دنیا حیرت میں پڑ جاتی ہے۔ فوزیہ ردا بھی ایک خاتون ہیں۔ بچوں سے محبت ان کی بھی فطرت کا خاصہ ہے۔ لہذا بچوں کی شاعری پر جب انھوں نے قلم اٹھایا تو ان کے رشحات قلم سے ایک سے بڑھ کر ایک نظمیں عالم وجود میں آئیں۔ انھی خوب صورت نظموں کا ایک حسین انتخاب ہے ان کی یہ کتاب حرف کھلونے۔ مذکورہ کتاب میں چھوٹی بڑی کل 60 نظمیں شامل ہیں۔ ہر نظم ایک خاص مقصد لیے ہوئے نظر آتی ہے، جس میں بچوں کے لیے ان کی دل چسپی کا سامان بھی ہے، نصیحت آمیز گفتگو بھی ہے اور دبی دبی سی سرزنش بھی ہے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کی ہر طرح سے دلداری کرتی ہے، اس کے اچھے برے کا خیال رکھتی ہے، اس کی صحت و تندرستی کی فکر کرتی ہے، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتی ہے، اسے محبت سے سمجھاتی ہے، زندگی کے ہر نشیب و فراز سے اسے آگاہ کرتی ہے اور بات نہیں ماننے پر اسے خبردار بھی کرتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے فوزیہ اپنی نظموں کے ذریعے نسل نو کی ذہنی و فکری آبیاری کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ آج کے اس پر آشوب دور میں نسل نو کی صحیح سمت میں تربیت ایک چیلنج بن کر رہ گیا ہے۔ ٹی. وی اور موبائل سے معاشرے میں جو خرابیاں پید ہوئی ہیں، ان کا سب سے زیادہ شکار ہمارے بچے ہی ہوئے ہیں۔ ان کے معصوم ذہن و دل پر اس کے بڑے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہم سب کا یہ اہم فریضہ ہے کہ بچے جو ملک کے مستقبل ہوتے ہیں، ان کی از سر نو تربیت کریں۔ اس سلسلے میں فوزیہ ردا کی کتاب بڑی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بڑے سلیس و سہل انداز میں بچوں کی ذہن سازی کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی ہر نظم میں بچوں کو خدا سے جوڑنے کی کوشش  نظر آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی ابتدا حمد باری تعالیٰ سے کی ہے۔ رب کی عظمت کا احساس دلاتی ہوئی چھوٹی بحر کی یہ نظم واقعی بچوں کے لیے بڑی مفید ثابت ہوگی۔ ویسے میں نے خاص طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ اس کتاب کی زیادہ تر نظمیں چھوٹی بحر میں ہی کہی گئی ہیں۔ آسان اور رواں الفاظ کے استعمال نے انھیں اور با مقصد بنا دیا ہے۔
اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ذات میں اپنی یکتا اللہ
مجھ کو جان‌ سے پیارا اللہ

اس نے ہی قرآن اتارا
اپنا اک فرمان اتارا

پھر خدا کی نعمتوں کا بیان بھی بےحد لطیف ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں شاعرہ نے بچوں کو خدا کی نعمتوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے جو کچھ یوں ہے:
رب نے ہی دن رات بنائے
عرش بھی اس نے سات سجائے

اس نے بنائے چاند ستارے
پربت ساگر کتنے پیارے

فصلوں کی ہے دولت بخشی
روزی میں بھی برکت بخشی

اس کتاب کی دوسری نظم حسب دستور  رسول مقبول صلی اللہ علیہِ وسلم کی شان رسالت پر مبنی ہے۔ یہاں بھی شاعرہ نے بچوں کے ذہن و دل میں رسول کی محبت کو بسانے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کی تیسری نظم مسجد کے عنوان سے ہے۔ میرے خیال میں اس میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ جب خدا کو اپنا خالق و مالک مان لیا گیا، اس کے بھیجیے ہوئے رسول کو اپنا پیشوا مان‌ لیا گیا، تو اب ان کے حکم کی تعمیل بھی ضروری ہے۔ سو خدا کی عبادت کو خود پر فرض کر لیا جانا بھی لازم ہے۔ اور اس کی عبادت کی جگہ خاص تو مسجد ہی ہے۔‌ کم‌ سے کم ان تین‌ نظموں کی ترتیب سے تو شاعرہ کی ہنرمندی کا زبردست اظہار ہوتا ہے۔ نظم مسجد کے چند اشعار کا اظہار کچھ یوں ہوا ہے:

مسجد اللہ کا گھر بچو
اللہ کا یہ دفتر بچو

ہر سو مصلے بچھے ہیں دیکھو
سجدوں میں سر جھکے ہیں دیکھو

آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ نئی نسل کو اس سے آگاہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔ ورنہ ہماری قوم کے بچے زمانے کی رفتار کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ چنانچہ اسی تحریک کو نسل نو میں عام کرنے کے لیے شاعرہ موصوفہ نے سائنس کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے۔‌ یہاں انھوں نے ایک ایک کر تمام سائنسی ایجادات کا ذکر کیا ہے، مگر ان تمام کے عالم وجود میں آنے کا سبب خدا ہی کو قرار دے کر بچوں کو یہ احساس بھی دلا دیا ہے کہ ہر کام‌ کے ہونے یا نہ ہونے میں خدا کی مرضی کو ہی دخل ہے۔ اس نظم کا آغاز کچھ یوں ہوا ہے:

رب کی ہے یہ نعمت بچو
سائنس بڑی ہے دولت بچو

آج ہمارے معاشرے میں دروغ گوئی کی وباء بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ حق گوئی کی نعمت سے لوگ محروم ہوتے جا رہے ہیں۔‌ ظاہر ہے ہماری قوم کے بچے بھی اس مہلک مرض کے شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے فوزیہ ردا نے سچ سے راحت ہے کے عنوان سے ایک نظم قلم بند کی ہے اور سچ سے حاصل ہونے والی راحتوں کا ذکر کر بچوں کو سچ سے رشتہ جوڑنے کی تلقین کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمالیں:

جب بھی بولو سچ ہی بولو
کبھی نہ جھوٹ کے پیچھے ہو لو

سچ سے دل کو راحت ملتی
جینے کی ہے چاہت ملتی

اس کتاب میں شاعرہ موصوفہ نے جہاں پند و نصائح سے بچوں کی ذہنی تربیت کی ہے وہیں ان کی تفریح و ترجیح کا بھی خیال رکھا ہے۔ ان کی تفریح کے لیے شہر کی سیر، آنکھ مچولی اور جھولا جیسی نظمیں کہیں ہیں اور ان کی زبان کا ذائقہ بڑھانے کے لیے چاے، چینی، آم، آئس کریم، چاکلیٹ اور کیک کے عنوان سے بھی نظمیں کہی ہیں۔
امید ہے حرفوں کے کھلونوں سے آراستہ یہ کتاب نسل نو کی آبیاری میں ممد و مددگار ثابت ہوگی۔ اس شان دار کارنامے پر میں فوزیہ ردا کو عمیق دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
***
امان ذخیروی کی گذشتہ نگارش: 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے