بیگوسرائے کا سفر

بیگوسرائے کا سفر

شاہ عمران حسن 
(مدیرکتابی سلسلہ’ آپ بیتی‘ ،نئی دہلی)

نوٹ بندی، تالا بندی اور کورونا وائرس کی وبا کے بعد، میرا سفر ریاست بہار کے ضلع بیگوسرائے کی جانب ہوا۔ 16اکتوبر 2024ءکی شام کو میں غریب رتھ ایکسپریس سے نئی دہلی سے روانہ ہوا اور 21 اکتوبر 2024ءکی صبح وکرم شیلا ایکسپریس سے قومی دارالحکومت نئی دہلی واپس پہنچا۔ میرا یہ سفر دراصل اپنی ماموں زاد بہن روفی کی تقریب ِ نکاح(18 اکتوبر 2024ء) میں شرکت کے لیے تھا۔ اس دوران مختلف قسم کے تجربات و مشاہدات سے گزرنے کا موقع ملا، جس کی روداد مختصر طور پر پیش کی جا رہی ہے۔
غریب رتھ(Garib Rath Express) ایک ایئر کنڈیشنڈ (air-conditioned) ٹرین ہے، جس کا کرایہ دیگر ہندوستانی ایکسپریس ٹرینوں کے اے سی ٹکٹ کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، جو مسافروں کے لیے سہولت کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ اس ٹرین میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں، میں بھی اُن میں شامل ہوں۔
غریب رتھ کی خدمات کا آغاز سنہ 2006ءمیں اس وقت ہوا جب لالو پرساد یادو وزیر ریل تھے۔ پہلی غریب رتھ ٹرین’ سہرسہ سے امرتسر‘ کے درمیان چلائی گئی تھی، اور بعد میں یہ خدمات مختلف علاقوں میں فراہم کی گئیں۔ اس وقت ہندوستان بھر میں 52 مقامات پر غریب رتھ کی خدمات دستیاب ہیں۔
سفر کے دوران، میں نے ہندوستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ نیوز ایجنسی، ایشین نیوز انٹرنیشنل (ANI) کی ایک اہم خبر دیکھی کہ نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما عمر عبداللہ کو جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا گیا ہے۔ عمر عبداللہ اس سے پہلے 2009ءمیں بھی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد عمر عبداللہ نے ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر پیغام دیا:
I’m back.
5اگست 2019ءکو جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے تقریباً پانچ سال بعد، 2024 میں یہاں اسمبلی کے انتخابات منعقد کیے گئے، جن میں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے واضح کامیابی حاصل کی اور عمر عبداللہ کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔
دفعہ 370 کے باعث جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل تھا، جس سے مقامی عوام کو مختلف مراعات میسر تھیں۔ مثال کے طور پر، دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے کسی غیر ریاستی فرد کو یہاں زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی، مگر اب اس خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد ملک کے کسی بھی حصے سے آنے والا شہری جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔
مولانا وحید الدین خاں نے دفعہ 370 کے حوالے سے ہفت روزہ الجمعیةکے شمارہ 14 جون 1968ءمیں لکھا تھا کہ اس دفعہ سے کشمیریوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے، ور نہ خصوصی رعایت والی یہ دفع بھی چھین لی جائے گی ، مولانا کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیے :
کشمیر کے کچھ لوگ آئے اور پوچھا کہ کشمیر کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
میں نے کہا کہ کشمیر کے نوجوان خیالی تصور کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ انھیں عملی حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔ عملی اعتبار سے آپ کے لیے صرف یہ ممکن ہے کہ ہندوستان کے الحاق کو بطور واقعہ مان لیں۔ اور دستور ہند کی دفعہ370 کے تحت اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ آج اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آئندہ اس کا موقع بھی نکل جائے گا اور دفعہ 370 کے تحت ملنے والے خصوصی حقوق سے بھی آپ محروم ہو جائیں گے۔
میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو ہتھیار رکھ دینا چاہیے اور نئی دہلی سے صرف یہ مانگ کرنا چاہیے کہ دفعہ 370 کولیٹر اور اسپرٹ کے ساتھ پوری طرح نافذ کیا جائے۔ آپ لوگوں کی مسلح جدو جہد صرف خودکشی ہے ،اس کے سوا اور کچھ نہیں۔(ڈائری: 1991-1992 ، مولانا وحید الدین خاں ، صفحہ:35)
ایک دوربیں شخص حالات سے اُوپر اُٹھ کر غیر جانب دارانہ انداز میں چیزوں کا تجزیہ کر سکتا ہے اور نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں کی تحریر اس کی ایک عمدہ مثال ہے، جہاں انہوں نے تقریباً پانچ دہائی قبل پیش گوئی کی تھی کہ دفعہ 370 کشمیریوں سے واپس لے لی جائے گی۔ ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی، اور خصوصی مراعات والی یہ دفعہ ختم کر دی گئی، جس کا کشمیریوں کو خاطر خواہ فائدہ نہ مل سکا۔
دوسری اہم خبر جو زیر ِگردش رہی، وہ ہندوستان کے معروف صنعت کار رتن ٹاٹا کے انتقال سے متعلق تعزیتی نشستوں کی تھی۔ وہ 9 اکتوبر 2024ءکو ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں انتقال کر گئے۔ یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ ان کی پیدائش بھی صنعتی شہر ممبئی میں 86 سال قبل 28 دسمبر 1937ءکو ہوئی تھی۔
جب رتن ٹاٹا علاج کے لیے اسپتال میں داخل تھے تو میڈیا میں ان کے انتقال کی افواہیں گردش کرنے لگیں، حالاںکہ وہ زندہ تھے۔ حتیٰ کہ اپنی وفات سے دو دن قبل، 7 اکتوبر 2024 کو، انہیں اپنے دستخط کے ساتھ ایک بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ خیریت سے ہیں:
Thank you for thinking of ‘Me’.
I am aware of recent rumours circulating regarding my health and want to assure everyone that these claims are unfounded….
I am currently undergoing medical check-ups due to my age and related medical conditions.
اپنی سلامتی کے اعلان کے محض دو دن بعد رتن ٹاٹا اِس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ موت اَچانک آتی ہے اور ہمیں کسی تیاری کا موقع نہیں دیتی۔ رتن ٹاٹا کے پاس بے پناہ دولت، عزت اور شہرت تھی، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی زندگی کے ایک لمحے میں بھی اضافہ نہیں کر سکے۔
یہی اس دنیا کا قانون ہے، یہی اٹل حقیقت ہے۔
زندگی اور موت کا رشتہ بڑا ہی عجیب ہے۔ ذرا سوچئے کہ میں ابھی زندہ ہوں، چل پھر رہا ہوں، باتیں کر رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، پڑھ رہا ہوں، فون پر بات کر رہا ہوں، اپنی کامیابی اور کامرانی کا جشن منا رہا ہوں، چائے پی رہا ہوں، کھانا کھا رہا ہوں، مگر یہ سب کچھ پل بھر میں رک سکتا ہے۔
ایک لمحے میں میرا جسم مردہ ہو جائے گا، میری ساری حرکت و سکنات تھم جائیں گی۔ یہی اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے جسے ہر انسان کو سمجھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہاں نہیں آیا؛ اس کا وجود فانی ہے، اور ایک نہ ایک دن اسے اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہی ہے:
رات دن مستقل کوششیں زندگی کیسے بہتر بنے
اتنے دکھ زندگی کے لیے اور اس کا بھروسہ نہیں
ان خبروں کے علاوہ، تیسری بڑی خبر سوشل میڈیا پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کی یوم پیدائش کی تقریبات کے بارے میں تھی۔ ہر سال 17 اکتوبر کو’ یوم سر سید ‘منایا جاتا ہے۔ اس برس بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت دنیا بھر میں یوم سر سید منایا جا رہا تھا۔ اس موقع پر سر سید کی خدمات کو یاد کیا جاتا ہے اور انہیں عمدہ الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
21سال قبل میں نے سر سید احمد خان کی حیات و خدمات پر ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا، جو بہار کے کثیر الاشاعت روزنامہ’قومی تنظیم‘کے شمارہ 13 اکتوبر 2003ءمیں شائع ہوا تھا۔ یہاں اس مضمون کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
’سر سید احمد خان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی مایوسی کو دور کیا جائے، اور لوگوں کو جذباتیت سے نکال کر حقیقت پسندانہ اور عاقلانہ رویے اپنانے کی ترغیب دی جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان خود بھی ترقی کریں اور دوسروں کو بھی ترقی کی راہ پر چلنے میں مدد کریں۔ سر سید نے اپنی پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی کہ ہندوستانی مسلمانوں کے گھروں میں جدید تعلیم کا چراغ روشن ہو۔ ان کی انتھک کوششوں کے ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں؛ مسلم معاشرے میں جو تعلیمی بیداری نظر آتی ہے، وہ دراصل سر سید کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
سر سید احمد خان کے انتقال کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر اب تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طرز پر کوئی اور بڑا تعلیمی ادارہ قائم نہ ہو سکا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے، اور تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سر سید کا پیغام اور ان کی تعلیمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور مسلم معاشرے کی تعلیمی ترقی کے لیے ان کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت برقرار ہے۔
سر سید احمد خان کا پیغام دو سو سال پہلے جس طرح اہم تھا، وہ آج بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ سر سید کا دور اگرچہ دو سو سال پرانا ہے، مگر ان کی باتیں اور افکار آج بھی اتنے ہی اثر انگیز ہیں جتنے اس وقت تھے۔ آج بھی مسلم معاشرہ مکمل طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہے اور اس کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ محض ’17 اکتوبر‘ کو ’یوم سر سید‘ منانا کافی نہیں ہے، بلکہ ان کے افکار کو عملی جامہ پہنانا ہوگا، کیوں کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کو نہ پہچانے۔ آج بھی سر سید کی مانند مخالفتوں کے باوجود جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ ان کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا جا سکے۔‘
والدہ کے ہمراہ گھر سے روانگی کا وقت ڈھائی بجے مقرر تھا، مگراولاکیب (Cab Ola)بک ہونے میں تاخیر ہوگئی۔ 238 روپے پر آنندوہار ریلوے اسٹیشن کے لیے بکنگ کی تھی، لیکن اسٹیشن پہنچنے پر میٹر نے 385 روپے بتائے۔ یہ ہمارے لیے ایک ناپسندیدہ صورتحال تھی۔ یہ نیا طریقہ ہے جس سے مسافر کو زیادہ پیسے دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مسافر کم قیمت سمجھ کر گاڑی بک کرتا ہے، مگر منزل پر پہنچنے پر اسے اضافی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا، لیکن جلدی میں ہونے کی وجہ سے مجھے اس پر اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملا، کیوں کہ مجھے فوراً ٹرین پکڑنی تھی۔
کیب میں سفر کرتے ہوئے اَچانک والدہ نے بتایا کہ سفر کا ایک ضروری سامان گھر پر ہی رہ گیا ہے۔ خوش قسمتی سے، میرا سب سے چھوٹا بھائی فیضان اس وقت گھر پر موجود تھا، اور وہ فوری طور پر ریپیڈو بائیک سے اسٹیشن کی جانب نکل پڑا۔ وہ وقت پر اسٹیشن پہنچنے اور ہمیں سامان کا پیکٹ دینے میں کامیاب ہوگیا، مگر بھولے سے دو تھیلوں کے بجائے صرف ایک تھیلا لے آیا۔
فیضان کی طبیعت ناساز تھی، لیکن اس نے ہمت کی اور کسی طرح ہمیں اسٹیشن پر سامان پہنچا دیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس کی تھکن عیاں تھی۔ میں نے اسے جلدی گھر واپس جانے اور آرام کرنے کا مشورہ دیا تاکہ اس کی طبیعت مزید نہ بگڑ جائے۔
سفر میں جب کوئی ضروری چیز چھوٹ جائے تو واقعی بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا، اور اس نے یہ سکھایا کہ سفر کی تیاری میں مکمل احتیاط ضروری ہے تاکہ ایسی پریشانیاں نہ ہوں۔
ٹرین کا ماحول صاف ستھرا اور خوشگوار تھا، جو کہ غریب رتھ میں ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔ کوچ اٹینڈنٹ نے جو کمبل اور بستر فراہم کیے، وہ صاف اور دھلے ہوئے تھے، جس سے صاف صفائی کا ایک اچھا معیار دیکھنے کو ملا۔ حتیٰ کہ ٹوائلٹ بھی صاف تھا، اور مسافروں نے راستے بھر اس صفائی کا خیال رکھا، جو کہ پہلے کم ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب صفائی کا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے۔
غریب رتھ شام کے پانچ بج کر بیس منٹ پر آنندوہار ریلوے اسٹیشن(نئی دہلی) سے روانہ ہوئی اور تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر سے جمالپورجنکشن(مونگیر،بہار) پہنچی۔ جب ٹکٹ کنفرم ہوا تو معلوم ہوا کہ ہمیں مڈل اور اَپر برتھ ملی ہے، جو والدہ کے لیے کسی حد تک مشکل تھی۔ لیکن خوش قسمتی سے ایک مسافر نے ہماری مشکل کو محسوس کیا اور از خود ہمیں لوئر برتھ دے دی، جس سے والدہ کو آرام کرنے میں آسانی ہو گئی۔ یہ ایک بہت ہی اچھا تجربہ تھا، جہاں لوگوں کی مدد اور خیال رکھنے کا جذبہ نظر آیا۔
شام کے وقت ٹرین پر سوار ہونے کے بعد جلد ہی رات ہوگئی اور مسافر آرام کی تیاری کرنے لگے۔ میں نے بھی گھر کا تیار کردہ کھانا کھایا اور پھر آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا۔
اسی دوران میری ملاقات ریڈی میڈ کپڑوں کے ایک تاجر سے ہوئی جو کئی سالوں سے دہلی کے گاندھی مارکیٹ سے کپڑے تھوک میں خرید کر بہار کے ضلع مدھوبنی میں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کاروبار اچھا چل رہاہے اور وہ خاصا منافع کما رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کپڑوں کی تجارت شروع کرنے سے پہلے کپڑوں کے معیار اور مارکیٹ کی مانگ کے بارے میں تجربہ ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اس فیلڈ میں تجربے کے بغیر کوئی بھی دکان کھولنا خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ کسی بھی کاروبار میں کامیابی کے لیے معلومات اور تجربہ کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
گزشتہ برس کا ایک تلخ تجربہ یاد آتا ہے جب میں نے ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان کھولی تھی۔ صرف دو ماہ کے اندر ہی نقصان اتنا زیادہ ہو گیا کہ دکان بند کرنی پڑی۔ 2 ستمبر 2023 ءکو دکان کرائے پر لی، 12 ستمبر 2023ءکو افتتاح ہوا، اور 5 نومبر 2023ءکو دکان بند کر دی گئی۔ یہ دکان جنس اور ٹی شرٹس کی تھی، جس پر ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ سامان کو دکان تک پہنچانے کے لیے میں نے ایک رکشے والے کی خدمات حاصل کیں، اور بدقسمتی سے اسی رکشے والے سے سامان واپس گھر بھیجنا پڑا۔ ڈیڑھ لاکھ روپے کی مالیت کا سامان صرف 60 ہزار روپے میں فروخت کرنا پڑا۔
دکان بند کرنے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ میں ایک ایسے کاروبار میں چلا گیا تھا جس کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، دکان ایسے علاقے میں تھی جہاں کپڑوں کی مارکیٹ کی زیادہ گنجائش نہیں تھی۔ جب مزید نقصان کا خدشہ بڑھا، تو باہمی مشورے سے دکان بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ واقعہ میرے لیے ایک قیمتی سبق ثابت ہوا کہ کاروبار میں تجربے اور صحیح مقام کے انتخاب کی کتنی اہمیت ہے۔
ابو کی وفات کے بعد جب میں نے امی کے ساتھ مونگیر کی سرزمین پر قدم رکھا تو دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہوا۔ بے اختیار میرے ابو یاد آئے، جنہیں ہم سے جدا ہوئے آٹھ سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کل ہی کی بات ہو، جب وہ ہمارے درمیان موجود تھے۔ وہ ہم سے باتیں کرتے، ہم پر کبھی غصہ کرتے اور کبھی بے پناہ محبت نچھاور کرتے تھے۔ ابو کے بغیر مونگیر شہر کا تصور میرے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے، مگر زندگی کا یہ عجیب المیہ ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کو ان حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے جن کا آپ نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا ہوتا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے، اور ان سے دوبارہ ملنا ممکن نہیں۔ جیسا کہ احمد امیٹھوی نے خوبصورت انداز میں کہا ہے:
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
آٹھ برس کے بعد مونگیر کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھتے ہوئے، مجھے یہاں کی ہر چیز بدلی ہوئی نظر آئی۔ پرانی عمارتیں اب نئے مکانات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہاں تک کہ جانی پہچانی شاہراہ’ شاہ زبیر روڈ‘ کی گلیاں بھی میرے حافظے سے دھندلا چکی تھیں۔ مجھے تو ایک صاحب سے یہ پوچھنے کی نوبت آ گئی کہ باٹلو بھائی جان کا گھر کس طرف ہے؟
وقت نے اس شہر کی شکل و صورت کو بدل دیا ہے، مگر ابو کی یادیں اب بھی میری زندگی کا حصہ ہیں، جو اس شہر سے جڑی ہوئی ہیں۔
میرا یہ سفر اصل میں بیگوسرائے کے لیے تھا، اور اس میں مونگیر کا پروگرام شامل نہیں تھا۔ مگر بالکل آخری وقت میں مونگیر جانے کا ارادہ بن گیا۔ ٹکٹ بنوانے سے ایک دن پہلے، 14 اکتوبر 2024ءکی صبح، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں باٹلو بھائی جان کے گھر پہنچا ہوں، اور بڑی امّی نے دروازہ کھولا۔ یہ خواب دیکھنے کے بعد یہ اتفاق ہوا کہ میں مونگیر پہنچ گیا۔
15 اکتوبر 2024ءکو جب میرا ٹکٹ کنفرم ہوگیا، تو میں نے اپنے بردار، شاہ عزیزالرحمٰن عرف باٹلو بھائی جان کو اطلاع دی کہ میں ماموں زاد بہن کی شادی میں شرکت کے لیے مونگیر ہوتے ہوئے بیگوسرائے جاو¿ں گا۔ اور 17 اکتوبر 2024ءکو چند گھنٹے آپ کے یہاں رکنا چاہوں گا۔ انہوں نے نہ صرف میرے پیغام سے خوشی کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ کم از کم ایک دن ہمارے یہاں ٹھہر کر آگے کا سفر کریں۔
جب میں باٹلو بھائی جان کے گھر پہنچا، تو صرف بڑی امّی موجود تھیں، اور باٹلو بھائی جان کالج جا چکے تھے، حالاں کہ صبح اٹھ کر انہوں نے میرا انتظار کیا تھا، لیکن میں جمالپور اسٹیشن سے مونگیر پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہوگیا تھا۔
بڑی امّی نے ہمارے لیے ناشتہ پہلے ہی تیار کر رکھا تھا، میں نے ناشتہ کیا اور پھر آگے کی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ بڑی امّی ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی، اللہ نے ہمیں ملایا، ورنہ اسی وبا کے دوران ان کی بڑی صاحبزادی، ڈاکٹر کنیز فاطمہ ’ترنم‘ کا انتقال ہوگیا تھا۔
اسی گھر میں، ترنم آپا سے میری آخری ملاقات 3 جولائی 2016ءکو ہوئی تھی، جب وہ میرے والد کے انتقال کے موقع پر آئیں تھیں اور مجھ سے لپٹ کر رو پڑی تھیں۔ وہی ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس دن انہوں نے میرا موبائل نمبر لیا تھا اور واٹس ایپ پر چند بار میری ان سے بات چیت بھی ہوئی تھی۔ وہ میری کتابیں بہت شوق سے پڑھا کرتی تھیں اور میری خوب تعریف کیا کرتی تھیں۔ افسوس کہ کورونا وائرس نے انہیں بھی اپنا شکار بنا لیا اور وہ 3 جون 2021ءکو اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔
مونگیر میرے لیے ایک علمی محسن کی طرح رہا ہے، اور میں اس کی گلی کوچوں سے بخوبی واقف ہوں۔ یہاں بچپن اور لڑکپن کے حسین لمحے گزارے ہیں۔ جب رکشے سے مونگیر کے مختلف مقامات سے گزرا، تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، اور وہ سب یادیں مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔
بمشکل دو گھنٹے مونگیر شہر میں رکنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں کئی مرتبہ ای رکشا پر سوار ہوا، کچھ پیدل بھی چلنے کا موقع ملا، خریداری بھی کی اور شہر پرایک طائرانہ نظر بھی ڈالی۔ اکا دکا پرانی دکانیں دکھائی دیں، ورنہ بیشتر دکانوں کی شکلیں بدل چکی تھیں۔
اسی گھنٹے بھر کے وقفے میں، میری ملاقات جمعیة علما ہند، ضلع مونگیرکے صدر مولانا عبداللہ بخاری اور ان کے صاحبزادے مولانا عطاءاللہ بخاری سے ہوئی۔ میں نے اپنی کتاب’ مولانا وحید الدین خاں: اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں‘ انہیں دی۔
خیال رہے کہ 496 صفحات پر مشتمل مذکورہ بالا کتاب 2022ءمیں منظر عام پر آئی۔ یہ دراصل مولانا وحید الدین خاںکی حیات و خدمات پر تحریر کیے گئے مختلف مضامین اور تاثرات کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا انتخاب سینکڑوں مضامین میں سے کیا گیا ہے، اور اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ ایسے مضامین قارئین تک پہنچیں جو مطالعہ کی غرض سے بہترین ہوں۔ رسمی مضامین کو کتاب میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری، جاوید احمد غامدی، پروفیسر اخترالواسع، سید سعادت اللہ حسینی، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، مولانا محمد ذکوان ندوی، پروفیسر ظہیرالدین خواجہ، ڈاکٹر محی الدین غازی، فاروق ارگلی، نایاب حسن، حقانی القاسمی، ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، مولانا رضی الاسلام ندوی، سید منصور آغاز، مالک اشتر، شیخ محمد سلیمان القائد، ڈاکٹر وارث مظہری، عبدالسلام عاصم، مراق مرزا، مولانا عبیداللہ چترویدی، مولانا سلطان احمد اصلاحی، محمد عارف اقبال، پروفیسر محسن عثمانی ندوی، مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی وغیرہ کے مضامین و تاثرات شامل ہیں۔
مذکورہ بالا کتاب میں مولانا وحید الدین خاں سے متعلق ان کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مولاناکے تعلق سے لکھا کہ : مولاناوحیدالدین خاںکا وجودملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم نعمت ِخداوندی کا احساس دلاتا تھا۔ان کے علمی کارنامے گنائے نہیں جاسکتے، وہ بیک وقت عالم دین، فکر و فن میں یکتائے زمانہ، علمی و تحقیقی سمندر کے تیراک، بے شمارکتابوں کے مصنف نیز ادیان ِ عالم پر گہری نظر رکھنے والے معتبر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ان کی زبان اس قدر شریں اور لہجہ اتنا میٹھا کہ پاس بیٹھنے والا محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتاتھا۔ ایسی عہد ساز شخصیت کا ملت کے درمیان سے اٹھ جانا یقینا ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ ہے، جس پر وقتی طور پر محرومی کا احساس ہونا فطری امر ہے۔(صفحہ:477)
وہ ریاست بہار کے واحد عالم دین ہیں جن کے تاثرات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی۔ انہوں نے کتاب دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔
مونگیر میں بڑی تعداد میں دکانیں کھل گئی ہیں۔ بڑے شہروں جیسی چکاچوندھ یہاں بھی نظر آ رہی تھی۔ ہر جگہ ای رکشا اور آٹو رکشا سواریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ لوگوں نے پیدل چلنے کے بجائے سواری کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ای رکشا کو مقامی افرادصرف ٹوٹو (Toto)کہتے ہیں۔
جب میں مونگیر کی مشہور لائبریری سیوا سدن (Seva Sadan) کے پاس سے گزرا تو یاد آیا کہ ضلع اسکول کے زمانہ طالب علمی میں میرا یہاں ایک دو بار جانا ہوا تھا۔ اسی لائبریری میں پہلی دفعہ مجھے ترکی کے سابق حکمراں اَتا ترک مصطفی کمال پاشا (1938-1888)ءکی سوانح ہندی زبان میں پڑھنے کا موقع پایا۔ اس کی کہانی بہت ہی انقلابی ہے، اس نے ترکی کو جدید دنیا میں داخل کرنے کے لیے متعدد اصلاحات کیں جن میں ترکی کے رسم الخط کی تبدیلی اور عثمانی خلافت کا خاتمہ بہت اہم ہے، جس کی وجہ سے اس پر مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے۔
17اکتوبر 2024ءکو تقریباً دو بجے میں بذریعہ سڑک لکھمنیا اسٹیشن پہنچا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے بذریعہ سڑک لکھمنیا تک کا سفر کیا۔
جب میںپُل پر سے گزر رہا تھا تو یاد آیا کہ پہلے یہاں پانی کا ایک بڑا جہاز چلا کرتا تھا۔ بہت دنوں تک، میں پانی کے اس جہاز سے اپنے والدین اور ماموں کے ہمراہ سفر کرتا رہا،پھریہاں کشتی چلنے لگی اورمیں نے کشتی سے بھی متعدد اسفار کیے۔ ایک بار کشتی میں پانی آگیا تھا، میں بہت ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ ڈوب نہ جائے، اس کے بعد مانجھی کشتی کو کنارے پر لے آیا جہاںسے چلی تھی۔بالآخر میں اَپنی نانی کے گاو¿ں سعدپور واپس لوٹ گیا، اس وقت میں نانی کے گھر سے مونگیر جا رہا تھا۔
گنگا ندی پرپُل بننے سے اس علاقے کے باشندوں کو بہت آسانی ہوگئی۔ جب میں نے دسویں جماعت پاس کر لیا تو گنگا ندی پرپُل کی تعمیر کی بات چلی۔ اس کے بعد میرے ہوش و ہواس میں گنگا ندی پر 2002 میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے ہاتھوں اس پل کا سنگ بنیاد ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے رکھا گیا، اور اس زمانے کے وزیر ریل نتیش کمار براہِ راست سنگ بنیاد رکھنے مونگیر آئے تھے۔
تقریباً 16 برسوں کے طویل عرصے بعد پُل کی تعمیر مکمل ہوئی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اس پُل کا افتتاح ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پٹنہ سے 2 مارچ 2016ءکو کیا۔ میرے والد نے اپنی وفات سے قبل پُل پر چلنے والی ٹرین کے کئی اسفار کیے تھے، انھیں بہت خواہش تھی کہ اس ندی پر پُل بن جائے، مگر جب پُل پر مستقل آمدورفت شروع ہوئی تو میرے والد اِس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
والد کی وفات کے بعد مجھے بھی چند دفعہ سے پُل پر سے سفر کرنے کا موقع ملا۔ریاست بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر شری کرشن سنہا (1887-1961) ءکے نام پر اس پل کا نام ’شری کرشن سیتو‘ رکھا گیا۔
لکھمنیا اسٹیشن پہنچ کر ہمارا سفر ختم نہیں ہوا، بلکہ یہاں سے ہمیں مزید دس کلومیٹر کا سفر کرنا تھا۔ یہاں میں نے بچوں کے لیے مٹھائی وغیرہ خریدی اور ایک مشترکہ سواری گاڑی میں سوار ہوگیا۔ گذشتہ 24 گھنٹوں سے مسلسل سفر میں رہنے کی وجہ سے ہم لوگ تھک چکے تھے۔ جب تک میں سعدپور پہنچا، تب تک شام ہوچلی تھی۔ گھر میں شادی کا فنکشن چل رہا تھا، دوسرے دن بارات آنے والی تھی۔ تاہم ہم لوگوں کو دیکھ کر سبھی نے خوشی کا اظہار کیا۔ میری مامی نے میرے لیے فوراً کھانے پینے کا انتظام کیا۔
دورانِ سفر بہار اُردو اکادمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری سے فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ان دنوں وہ میری کتاب ’تجرباتِ سفر‘ (شائع شدہ: 2024) کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تمہارے اندر سفرنامہ نگاری کی تکنیک عمدگی کے ساتھ موجود ہے، جس علاقے میں تم جاتے ہو، اس کی اہمیت نہیں ہے، لیکن اصل اہمیت یہ ہے کہ تم کس انداز میں اپنی باتیں پیش کرتے ہو۔
مشتاق احمد نوری نے بتایا کہ میں نے تمہارے ایران کا سفرنامہ دو مرتبہ پڑھا، اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ میری مذکورہ بالا کتاب پر ایک تفصیلی تبصرہ لکھیں گے۔
عرصہ پہلے انھوں نے میرا ایک سفرنامہ ’شاملی کا سفر‘ پڑھا تھا اور لکھا: پیارے شاہ عمران حسن! تم نے بھی ایک سفر کیا، ایک غیر معروف شہر ’شاملی‘ کا جس کا نام میں نے نہیں سنا تھا۔ سوچا پڑھ لوں کہ شاملی کو جان جاو¿ں لیکن اس سفرنامے میں شاملی کہاں ہے؟ میں نے بہت سا سفرنامہ پڑھا ہے جس میں سفر کیے گئے شہر کا بھرپور تذکرہ ہے لیکن پیارے تمہارے اس سفرنامے نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے (اگر اور بھی طبق ہوتے تو وہ بھی روشن ہو جاتے)۔ بھائی، ایسے بھی کوئی سفرنامہ لکھتا ہے!
بس اسٹینڈ کسی سفر کا پہلا پڑاو¿ ہوتا ہے لیکن کوئی یہ تھوڑا بتاتا ہے کہ یہاں 166 بسیں کھڑی ہو سکتی ہیں، روزانہ 1800 بسیں مسافروں کو لے کر مختلف روٹوں پر نکلتی ہیں۔ بس پانی پت سے روزانہ گزرتی ہیں لیکن تم نے پانی پت کی تینوں لڑائیوں کی تفصیل بتا دی۔ مجھے ان جنگوں کی تھوڑی بہت جانکاری تھی لیکن تم نے تفصیل بتا کر میرے علم میں اضافہ کیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ ظہیرالدین بابر اور دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے درمیان 1526ءمیں ہوئی تھی۔ ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ سے زائد فوج کو بابر کی بارہ ہزار کی فوج نے روند کر رکھ دیا۔ تم یہیں نہ رکے، 1556ءاور 1761ءکی پانی پت کی جنگوں کی تفصیل لکھ کر میرے علم میں مزید اضافہ کیا۔
پانی پت کے حوالے سے مولانا الطاف حسین حالی کا بھی ذکر خیر ہوا۔ راستے میں سرنگوں ترنگے پر نظر پڑتے ہی تم نے ملکہ الزبیتھ کی موت کی خبر کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ وہ تین بار ہندوستان کے دورے پر آئیں اور تم نے ملکہ کی جیون گاتھا بھی سنا دی۔ شاملی کے ایک علاقے کا نام ’کاندھلہ‘ ہے تو تم نے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا ذکر شروع کر کے بتایا کہ انھوں نے 1926ءمیں تبلیغ شروع کی، پھر ’تبلیغی جماعت‘ کی تفصیل سامنے آ گئی۔اس سفرنامے میں وہ سب کچھ ہے جو دیگر سفرناموں میں نہیں ہوتا۔ مجھے محسوس ہوا کہ تمہارے پاس ’بھانومتی‘ کا پٹارہ ہے، جب چاہتے ہو پٹارے سے ایک داستان نکال کر بیٹھ جاتے ہو۔ عزیزم، یقین جانو، میں نے ایسا ’نادر سفرنامہ‘ پہلی بار پڑھا۔ (کتابی سلسلہ: آپ بیتی 2، بابت جولائی، اگست، ستمبر 2023ئ، صفحہ 283-284)
جب میں نے گاو¿ں سعدپور کی سرزمین پر قدم رکھا تو مجھے ایک نئے سعدپور نے ’سواگت‘ کیا۔ سعدپور کی دُنیا پوری طرح سے بدل چکی تھی۔ شہری سہولتوں نے یہاں بھی دستک دینا شروع کر دی ہے، درختوں کی چھاو¿ں میں گرمی میں سونے والے لوگ اب پنکھے کا استعمال کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ چند برس پہلے یہاں کچھ بھی نہیں تھا، مگر اب یہاں بہت کچھ آ چکا ہے، بجلی اور پانی کی سہولتیں حکومت نے مہیا کر دی ہیں۔
میں نے باضابطہ طور پر سنہ 1994ءمیں سعدپور کو خیر باد کہا تھا۔ تین دہائیوں کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران میرا سعدپور جانا نہیں کے برابر ہوا۔ اس بار گاو¿ں میں ایک الگ قسم کی تبدیلی دکھائی دے رہی تھی۔
سرکاری اسپتال دوبارہ کھل گئے ہیں، پنچایت بھون بن گئے ہیں، ہر پانچ سال بعدپنچایت کے الیکشن ہو رہے ہیں، لکڑی کے بجائے لوگ گیس پر کھانا بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میرے بچپن میں پورے سعدپور میں صرف دو تین پرچون کی دکانیں تھیں، اب نہ صرف متعدد پرچون کی دکانیں کھل چکی ہیں بلکہ ہوٹل بھی کھل گئے ہیں۔ گویا اَب بنیادی ضرورتوں کے لیے گاو¿ں کے لوگوں کودس کلومیٹر دور ’بلیا بازار‘ نہیں جانا پڑتا۔
میرے ماموں زاد بھائی محمد دانش نے پرانا مکان منہدم کرکے اس کی جگہ نیا پکا مکان ماموں محمد اختر حسین کی زندگی میں ہی بنوالیا تھا۔ تاہم میرے ماموںکو اس مکان میں زیادہ دنوں تک رہنے کا موقع نصیب نہ ہوا۔ جلد ہی ان کی وفات ہوگئی۔
جس مقام پر دانش نے مکان بنایا ہے، وہاں تقریباً تین دہائیاں قبل آلو کی کھیتی ہوتی تھی۔ میرے ماموں وہاں آلو کی فصل اُگایا کرتے تھے، جب کہ وہ ایک دوسرے محلے میں رہا کرتے تھے۔ اس محلے سے ماموں اکثر اس محلے میں آتے تھے اور کبھی کبھار مجھے بھی اپنے کندھے پر بٹھا کر ساتھ لاتے تھے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ میری والدہ نے کسی بات پر میری پٹائی کردی، میں رونے لگا اور پھر بہت غصہ ہوگیا۔ غصے میں گھر سے بھاگ کر اس محلے میں چلا آیا، جہاں میرے ماموں آلو کی کھیتی کرتے تھے۔ گاو¿ں کے لوگوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا مگر میں کچھ بتا نہ سکا، تاہم لوگوں نے میرے صاف ستھرے لباس سے پہچان لیا کہ میں اختر کا بھانجہ ہوں۔ میں آلو کے کھیت میں تنہا بیٹھا رہا، تب تک میرے ماموں بھی آگئے اور مجھے گھر لے گئے۔
میرا نانیہالی خاندان پرانے محلے میں ہندو بھائیوں کے درمیان اکیلا رہتا تھا، مگر ہمیں کبھی کسی قسم کا ڈر یا خوف محسوس نہیں ہوا۔ میرے نانا ایک دیندارانسان تھے، جو صبح کے وقت بچوں کو دینیات کی تعلیم مفت دیا کرتے تھے۔ دور دراز سے بچے ان کے پاس پڑھنے آیا کرتے تھے۔
ہمارے گھر کی خواتین پردہ نشیں تھیں، اور ان کا گھر سے باہر آنا جانا محدود تھا۔ باوجود اس کے، محلے کی خواتین تقریباً روزانہ ہماری نانی اور خالا¶ں سے ملنے آیا کرتی تھیں۔ تہواروں کے مواقع پر مختلف گھروں سے تحائف اور کھانے پینے کی اشیا ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔
جب میرے والد گا¶ں آتے تو تمام لوگ ان کا پرتپاک استقبال کرتے، انہیں اپنے گھروں پر بلاتے اور ضیافت کرتے۔ گا¶ں کے لوگ ان کو ’کُوٹُم±ب‘ یعنی کنبے کے سربراہ کے طور پر یاد کرتے تھے۔
گا¶ں میں ایک استاد تھے، جگدیش ماسٹر، جو روزانہ سائیکل پر دوسرے گا¶ں پڑھانے جاتے اور واپس آتے۔ وہ اکثر والد صاحب کو اپنے برامدے میں لے جاتے، اور ان دونوں کے درمیان گھنٹوں بات چیت ہوتی تھی۔ جگدیش ماسٹر کے دو بیٹے بپن اور ٹن ٹن، اور دو بیٹیاں پرم شیلا اور ریبھا تھیں۔ پرم شیلا اور ریبھا کا ہمارے گھر میں ہمیشہ آنا جانا رہتا تھا۔
اس گا¶ں میں ہندو مسلم کی تفریق محسوس نہیں ہوتی تھی۔ سب مل جل کر رہتے تھے اور میرے نانا کی گا¶ں میں بہت عزت تھی، سب لوگ انہیں ’بابا‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہولی کے دن بھی جب وہ باہر جاتے، تو کوئی ان پر رنگ نہیں ڈالتا تھا۔
مگر بابری مسجدپر پہلے سیاست اورپھراس کی شہادت کے بعد یہ گنگا جمنی تہذیب کمزور پڑ گئی، اور مسلمانوں اور ہندو¶ں کے محلے الگ الگ ہونا شروع ہو گئے۔ سیاست نے آپسی بھائی چارے کو اتنا نقصان پہنچایا کہ اب اس کو واپس لانا مشکل ہے۔جیسا کہ اجمل سلطانپوری نے اپنی مشہورزمانہ نظم ’کہاں ہے میرا ہندوستان‘میں تحریر کیا ہے:
کہاں ہے میرا ہندوستان
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مرے بچپن کا ہندوستان
نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان
مری آشا مرا ارمان
وہ پورا پورا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
وہ میرا بچپن وہ اسکول
وہ کچی سڑکیں اڑتی دھول
لہکتے باغ مہکتے پھول
وہ میرے کھیت مرے کھلیان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
وہ اُردو غزلیں ہندی گیت
کہیں وہ پیار کہیں وہ پریت
پہاڑی جھرنوں کے سنگیت
دیہاتی لہرا پُربی تان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جہاں کے کرشن جہاں کے رام
جہاں کی شام سلونی شام
جہاں کی صبح بنارس دھام
جہاں بھگوان کریں اشنان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جہاں تھے تلسی اور کبیر
جائسی جیسے پیر فقیر
جہاں تھے مومن غالب میر
جہاں تھے رحمن اور رسخان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
وہ میرے پرکھوں کی جاگیر
کراچی لاہور و کشمیر
وہ بالکل شیر کی سی تصویر
وہ پورا پورا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جہاں کی پاک پوتر زمین
جہاں کی مٹی خلد نشین
جہاں مہراج معین الدین
غریب نواز ہند سلطان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم
جو دے یکجہتی کی تعلیم
مٹا کر کنبوں کی تقسیم
جو کر دے ہر قالب اک جان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
یہ بھوکا شاعر پیاسا کوی
سسکتا چاند سلگتا روی
ہو جس مدرا میں ایسی چھوی
کرا دے اجمل کو جل پان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
گا¶ں میں پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ نارائین کے گھر کے سامنے لگا ہوا ایک سرکاری ہینڈ پمپ (Hand-pump) تھا۔ اس وقت پلاسٹک کے ڈبے عام نہیں تھے، لہٰذا پانی بالٹیوں میں بھر کر استعمال کیا جاتا تھا۔ جب ہینڈ پمپ خراب ہو جاتا، تو سب لوگ چندہ کر کے اس کی مرمت کرواتے۔ میرے ماموں نے بھی ہینڈ پمپ کی مرمت کرنا سیکھ لیا تھا۔
سنہ 1992ءکے فسادات کے دوران، ‘نیا ٹولہ ‘کے لوگوں نے میرے ماموں کو مشورہ دیا کہ وہ وہاں منتقل ہو جائیں، جہاں مسلمانوں کے 40-50 گھر ہیں۔ انہوں نے مشورہ مانا اور نیا ٹولہ میں آ کر آباد ہو گئے۔
ابتدائی طور پر، میرے نانا اور ماموں نے نیا ٹولہ میں پھوس کی ایک جھونپڑی بنائی۔ کئی سالوں تک ہم اسی میں رہے، بعد میں وہاں ایک پکا مکان بنایا گیا۔ اس دوران محلے کی خواتین ہماری مدد کرتی تھیں، جب کہ ہمارے گھر کی پردہ نشین خواتین باہر نہیں نکلتی تھیں۔
اب نیا ٹولہ میں میرے ماموں زاد بھائی دانش نے جدید طرز کا ایک کشادہ مکان تعمیر کر لیا ہے، اور بستی کے دیگر لوگ بھی پکے مکانات بنا چکے ہیں۔ جہاں پہلے پھوس اور کھپرا پوش مکان ہوا کرتے تھے، وہاں اب چھتیں اور پانی کی ٹنکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
ماضی میں، کچی دیواروں میں پیسے چھپانے کا رواج عام تھا۔ مٹی کے لیپ سے بنی ہوئی دیواروں میں اینٹ نکال کر پیسے رکھ دیے جاتے تھے۔ آج کے دور نے ان روایات کو ختم کر دیا ہے، اور دولت کو اب چھپانے کے بجائے دکھایا جاتا ہے۔
گاو¿ں میں اسکول بھی کھل گئے ہیں اور بڑی تعداد میں بچے پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں، لڑکیاں اور لڑکے دونوں تعلیم کی طرف مائل دکھائی دے رہے ہیں۔ نیز، دن بھر مٹرگشتی کرنے والے بچوں نے کھیلنا کودنا بند کردیا ہے، اَب سب موبائل کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ اَب لوگ دیر گئے رات تک جاگنے لگے ہیں:
پکے گھروں نے آنکھوں کی نیند بھی چھین لی
کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے
گاو¿ں کی لڑکیاں اَب موبائل چلا کر کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی کھیتوں پر پانی دے رہی ہے، تو کوئی جانوروں کو چارہ ڈال رہی ہے۔ کوئی اناج سوکھا رہی ہے اور یوٹیوب دیکھ رہی ہے۔ اسی طرح بکری چرانے والے چرواہے کے ہاتھ میں اینڈروئیڈ موبائل (Android Mobile) نظر آتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر گھر میں بجلی (electricity) آگئی ہے، اور میں اسے ایک چمتکار سمجھتا ہوں۔ سعدپور جیسے دیہی علاقے میں بھی بجلی آسکتی ہے، لوگوں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ہر گھر میں سیپٹک ٹوائلٹ (septic toilet) بن گیا ہے۔ میرے بچپن میں گاو¿ں کی عورتیں صبح اور شام کو گروپ کی شکل میں حاجت کے لیے کھیتوں میں جایا کرتی تھیں، اور شاذ و نادر ہی کسی گھر میں ٹوائلٹ ہوتے تھے۔ اَب تو سب کے گھر میں ٹوائلٹ ہے۔ اب کسی کو حاجت کے لیے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔
ریاست بہار کے بیشتر گھروں میں بیت الخلا میں خالی کنستر رکھے ہوتے تھے۔ جب کنستر فضلہ سے بھر جاتا تو ’مہترانی‘ آتی اور اس فضلہ کو اپنے سر پر اُٹھا کر لے جاتی تھی اور دور کہیں جا کر پھینک دیتی تھی، اور لوگوں کی حاجت کے لیے دوسرا کنستر موجود رہتا تھا۔ ہمارے گھر میں بھی مہترانی آتی تھی اور فضلہ سر پر اُٹھا کر لے جاتی تھی۔ اس کے عوض اسے کچھ معاوضہ دیا جاتا تھا جو کہ بہت قلیل ہوتا تھا۔ اور تو اور، گندگی صاف کرنے والے کوبُرا سمجھا جاتا تھا اور اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ اسے گھر کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، وہ باہر رہتی اور اسے پیسے یا کھانے کی دیگر اشیاءدی جاتی تھیں۔
حکومت ِہند کی جانب سے 1993ءمیں سر پر فضلہ اُٹھانے پر روک لگا دی گئی۔ اب اگر کوئی کسی سے سر پر فضلہ اٹھواتا ہے تو وہ حکومت ِہند کی نظر میں ’مجرم‘ ہے اور اس پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے قانون بنانے کے باوجود کئی برسوں تک سر پر فضلہ اُٹھانے کا سلسلہ جاری رہا، پھر دھیرے دھیرے یہ کلچر ختم ہوا۔
دانش نے گھر میں تمام جدید سہولتیں جمع کر رکھی ہیں، جیسے کہ فریج، واشنگ مشین، ٹی وی وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس نے انڈین اور ویسٹرن دونوں قسم کے ٹوائلٹس بنوائے ہیں۔ نہانے کے لیے صاف ستھرا باتھ روم بھی ہے۔ جب میں نہانے کے لیے باتھ روم گیا اور شاور (Shower) کا استعمال کیا تو مجھے ایسا لگا کہ میں سعدپور میں کوئی سنہرا خواب دیکھ رہا ہوں۔
اَب نہ صرف شہر میں لوگ صاف ستھرے رہتے ہیں، صاف شفاف لباس زیب تن کرتے ہیں بلکہ اَب دیہی علاقوں میں بھی ایسا کلچر بن چکا ہے۔ جہاں سعدپور کے بچے شرٹ اور ہاف پینٹ پہنا کرتے تھے اور نوجوان لونگی اور بنیان میں نظر آتے تھے، وہیں اب سبھی کے جسم پر خوبصورت ٹی شرٹس (T-Shirts) اور لوئر (Lower) آ گئے ہیں۔
سنہ 1992ءمیں میرے ماموں کی شادی ہوئی تھی، اس موقع پر گھر کے سبھی لوگوں کے کپڑے سلوائے گئے تھے۔ جب میری باری آئی تو میرے ایک رشتہ دار نے کہا تھا کہ یہ تو بچہ ہے، اس کا فل پینٹ (full pant) نہیں سلا جائے گا۔تین دہائیوں کے بعد کلچر بدل چکا ہے۔ اب لباس پر کوئی روک نہیں ہے۔ جو چاہے، وہ لباس زیب تن کر رہا ہے۔ عید کے موقع پر عام طور پر گھروں میں آل اوور (all-over) پہننے کا رواج تھا، یعنی تھان کا ایک ہی رنگ کا کپڑا سب کے لیے سلا جاتا تھا۔چاہے مرد ہوں، عورتیں ہوں یا بچے۔
سبھی لوگ چپل یا جوتا پہنے ہوئے نظر آئے، جب کہ میرے بچپن میں چپل پہننے کا رواج نہ تھا۔ سبھی لوگ ننگے پاو¿ں رہا کرتے تھے۔ جب شام ہوتی تو ہینڈپمپ سے بالٹی میں پانی بھرتے اور اپنے پیروں کو دھو کر چپل پہنتے۔ میرے گھر والے میرے لیے چپل لا کر دیتے تھے، مگر گاو¿ں کے بچوں کی تقلید میں، میں بھی ننگے پاو¿ں رہتا اور صرف شام کو ہاتھ، منہ اور پیر دھو کر چپل پہنتا، پھر سونے کے لیے بستر پر چلا جاتا۔ بچپن میں جب تک میرا قیام رہا، سب لوگ ایسا ہی کرتے تھے۔
میں نے سعدپور میں تین راتیں اور تین دن بتائے، مگر میرا کوئی رفیق یا دوست نہ ملا۔ 30 سالوں کے بعد میں اپنے ہم عمر دوستوں کی تلاش کر رہا تھا، مگر مجھے ناکامی ہی ملی۔
سعدپور میں میرے بہت سارے دوست ہوا کرتے تھے، ان میں میرا ایک بہت ہی قریبی دوست عبدالصمد تھا، جس کے ساتھ میں شام کا وقت اکثر گزارا کرتا تھا۔ عبدالصمد بعد میں راج مستری بن گیا اور عمارتیں تعمیر کرنے کا کام کرنے لگا۔ سعدپور میں اس نے اپنے پرانے مکان کو توڑ کر نیا مکان بنالیا اور اس کی شادی بھی ہوگئی اور بچے بھی۔
سعدپور مستقل چھوڑنے کے بعد دوبارہ اس سے میری ملاقات اب تک نہ ہوسکی۔ عبدالصمد کے علاوہ میری دوستی پرویز، اظہار، طارق، فاروق، امیت، نسیم، نسیم عالم، شمشاد عالم، اسرافیل، پپو، مشتاق، اعظم، رضی، مکیش، ونود کمار ورما اور سنجے کمار وغیرہ سے ہوئی تھی۔
امیت کمار ایک چمار تھا، اس کے والد کا نام ستیش تھا، جسے لوگ ستو بولا کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں کی طرح لباس زیب تن کرتا تھا۔ امیت سے میری دوستی کافی اچھی رہی۔ ان دوستوں کے بس اب نام یاد ہیں، شکلیں میں بھول چکا ہوں اور یہ بھی کہ کون کس کا بیٹا تھا، یہ بھی یاد نہیں۔ اب مجھے ان میں سے کسی کی بھی کوئی خبر نہیں ہے۔
میں اپنے دوستوں کے ساتھ دور جنگل کی طرف نکل جایا کرتا تھا۔ اسے جنگل نہیں کہا جاسکتا کیوںکہ وہ ایک باغیچہ تھا، جہاں سے میں سوکھی لکڑیاں اور سوکھے پتے اکٹھا کرکے لایا کرتا تھا۔ یہ لکڑیاں اور سوکھے پتے ہمارے گھروالے کھانا پکانے کے لیے استعمال کرتے۔ لکڑی اور سوکھے پتوں سے آگ بہت جلدی پکڑتی تھی اور یہ ایندھن کافی اچھا ہوتا تھا۔ اس وقت گاو¿ں میں گیس کی سہولت نہیں تھی۔
گاو¿ں میں گرچہ گھنا جنگل نہیں تھا، تاہم وہ باغ اتنا گھنا تھا کہ بچپن میں ہمیں وہ جنگل ہی لگتا تھا۔ وہ باغ بہت ہی ہیبت ناک تھا۔ میرے پاس بکریاں نہیں تھیں، مگر اور دوستوں کے پاس بکریاں تھیں، جن کے ساتھ کبھی کبھی میں بھی جایا کرتا تھا۔ میرے گھر میں بکریاں چرانا ایک بُری بات مانی جاتی تھی۔
اگر میں اب تک سعدپور میں رہتا تو میرا تعلیمی سلسلہ کبھی شروع نہ ہو پاتا اور میں بھی راج مستری یا یومیہ مزدوری پر کام کر رہا ہوتا۔ یہ میرے والدین کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ مجھے لے کر شہر مونگیر آگئے اور میری تعلیم شروع ہو پائی۔ میں نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں گاو¿ں سے نکل کر شہر جاو¿ں گا اور مونگیر میں قیام کروں گا۔ بلکہ گاو¿ں میں رہتے ہوئے میری سوچ یہ تھی کہ نئی دہلی جاکر کمائی کروں گا اور خوب پیسے کما کر اپنا گھر بناو¿ں گا۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں تعلیم حاصل کر سکوں گا۔ ماحول ایسا تھا کہ میں اپنی سوچ کو آگے لے جا کر نئے امکانات کے بارے میں سوچنے کا نہیں سوچ پاتا تھا۔
دہلی جاکر کمانے کا خیال اس لیے آیا کہ میرے ماموں اختر حسین اور خالو ابشار عالم دونوں نئی دہلی چلے گئے تھے، لیکن وہ وہاں سے ایک ماہ کے اندر طبیعت خراب ہونے پر واپس لوٹ آئے تھے۔ جب وہ گئے تو میں یہ سوچا کرتا تھا کہ اب گھر کا سارا کام مجھے کرنا ہوگا کیوںکہ میرے نانا ملاّ محمد حسین ضعیف ہو چکے تھے اور ان سے باہر کا کام نہیں ہو پاتا تھا۔ اس لیے جب سے ماموں پردیش گئے، میرے کام میں اضافہ ہو گیا تھا۔
یہ میرے رب کا بڑا فضل ہے کہ اس نے مجھے دہلی پہنچایا، اور وہ بھی تعلیم کی غرض سے۔ میں دہلی کمانے کے لیے نہیں آیا تھا، بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ میں دہلی میں مستقل طور پر رہنے لگا۔
سعدپور میں نہ تو میری عمر کا کوئی اور تھا، نہ ہی کوئی ایسا شخص تھا جو مجھے پہچانتا۔ جنہیں میں گاو¿ں کے کلچر کے مطابق نانا اور ماموں کہا کرتا تھا، وہ بھی اِس دُنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اسرائیل، ظریف، بٹورن، اسلم ماسٹر، سلیم، ارشاد، عثمان، اویس وغیرہ بے شمار لوگ اِس دُنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور اُن کی جگہ پر نئے بوڑھے آ گئے ہیں، وہ لوگ جو ساری زندگی پردیس میں کمائی کرتے رہے اور اب کسی کام کے قابل نہ رہے تو گھر آ کر رہنے لگے۔سعدپور کے رہنے والے نہ تو اَب مجھے پہچانتے تھے اور نہ ہی میں کسی کو جانتا تھا۔ گاوں سے ہجرت کرنے کی یہ سزا مجھے مل رہی تھی۔ منور رانا نے شاید درست کہا ہے:
ممکن ہے ہمیں گاوں بھی پہچان نہ پائے
بچپن میں ہی ہم گھر سے کمانے نکل آئے
میں گاو¿ں کی ایک گلی سے گزر رہا تھا، جب میری نظر پرچون کی دکانوں پر کھلے عام فروخت ہو رہے سینیٹری پیڈ (sanitary pads) پر پڑی۔ یہ میرے لیے ایک نہایت انوکھی اور غیر متوقع بات تھی، کیوںکہ گا¶ں میں اس کا رواج پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی، جو میں اپنے گا¶ں میں دیکھ رہا تھا۔
ماضی میں، گا¶ں کی خواتین ماہواری (menstrual cycle) کے دوران سینیٹری پیڈ استعمال نہیں کرتی تھیں۔ اس کے بجائے، وہ پرانے اور غیر صحت مند کپڑوں (unhygienic cloth) کا استعمال کیا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا رہتی تھیں۔ ان کی صحت کے مسائل کے علاوہ، وہ ذہنی دبا¶ کا بھی شکار تھیں، کیوںکہ اس موضوع سے متعلق گمراہ کن تصورات نے ان کی زندگی مشکل بنا دی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہواری ایک قدرتی عمل ہے، مگر اس پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ اب یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ دیہی علاقوں میں اس موضوع پر مکمل تبدیلی آ چکی ہے، لیکن شہری علاقوں میں بیداری کا عمل ضرور نظر آتا ہے۔ آج بھی دیہی علاقوں میں اس ضمن میں خاصی کمی پائی جاتی ہے، اور شاید اسی وجہ سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ماہواری کے دوران سینیٹری پیڈ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
دنیا اکیسویں صدی عیسوی میں داخل ہو چکی ہے، اور ہمارے یہاں اس موضوع پر فلمیں بنائی جا رہی ہیں اور بیداری مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ اس موضوع پر بالی ووڈ کے مشہور اداکار اکشے کمار نے 2018ءمیں ’پیڈمین‘ (Padman)نامی فلم بنائی۔ اس فلم نے 140 منٹ کے دوران ماہواری کے زمانے میں خواتین کو درپیش سماجی برائیوں اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کو اُجاگر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو’نیشنل فلم ایوارڈ‘ بھی ملا ہے۔
اس کے علاوہ، سماج کے اندر پھیلے گمراہ کن تصورات کو دور کرنے کے لیے فیس بک اور انسٹاگرام جیسے رابطہ عامہ کی ویب سائٹس پر چھوٹے چھوٹے ویڈیوز بھی بنائے جا رہے ہیں۔
کچھ وقت پہلے تک، ماہواری کو سماجی اعتبار سے’ شجر ممنوعہ‘ تصور کیا جاتا تھا، اور اس دوران خواتین اور بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ انھیں تعلیمی اداروں سے بھی دور رکھا جاتا تھا۔ تاہم، جب سے سینیٹری پیڈ کا استعمال عام ہوا ہے، لڑکیوں اور خواتین کے بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اب وہ ماہواری کے دوران بھی بلا جھجھک اپنے روزمرہ کے کام جاری رکھ سکتی ہیں، اور دفاتر و تعلیمی اداروں میں بھی بلا روک ٹوک جا سکتی ہیں۔ البتہ، اس سماجی تبدیلی تک پہنچنے میں بہت وقت اور جدوجہد لگی ہے۔
18اکتوبر 2024ءکی صبح، جب میں چہل قدمی کرتا ہوا دور تک گیا، تو ایک جگہ پر پہنچا جو گاو¿ں کا معروف مقام’دورگا استھان‘ تھا۔ وہاں ایک پان کی دکان تھی جو آج بھی ویسے ہی برقرار ہے۔ گاو¿ں کی پان دکان دیکھ کر مجھے خواہش ہوئی کہ پان کا ذائقہ لیا جائے، اور شوقیہ طور پر میں نے پان کھا لیا۔ لیکن پان کھانے کے بعد ایک حادثہ پیش آیا۔ میرا اوپری دانت ٹوٹ کر گر گیا۔ پان کھانے کے دوران مجھے اس کا اندازہ نہیں ہوا، مگر جب میں نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو ٹوٹے ہوئے دانت کی وجہ سے شکل بُری لگنے لگی۔
اس واقعے کے بعد میں نے سوچا کہ خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز کتنی پرفیکٹ ہے، اور ہر چیز اپنے درست مقام پر بنائی گئی ہے۔ نہ کان کی جگہ آنکھ لے سکتا ہے، نہ آنکھ کی جگہ کان۔ اللہ کی حکمت اور کاریگری بے مثال ہے۔
واقعی، اللہ رب العزت نے درست فرمایا ہے: فَبِا¿ِ یِّ آلَائِ رَبِّک±مَا ت±کَذِّبَانیعنی تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو¿ گے؟(تفہیم القرآن، جلد 5، سورہ الرحمٰن، صفحہ: 253، ترجمہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی)
بے شک، میرا رب عظیم ہے، اور انسان کی عقل محدود ہے جو خدا کی کاریگری کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بے شک، اس نے کوئی بھی چیز بیکار یا عبث نہیں بنائی۔
18 اکتوبر 2024ءکو جب میں جمعہ کی نماز کے لیے مسجد گیا، تو بے اختیار نانا مرحوم ملاّ محمد حسین اور ماموں کی یاد آ گئی۔ جب وہ یہاں امامت کیا کرتے تھے۔ پہلی مرتبہ جب میں نے جمعہ کی نماز ادا کی تھی، تو وہ میرے نانا کی امامت میں تھی۔ جب تک میں سعدپور میں رہا، گاو¿ں کی مسجد میں جمعہ کی نماز اپنے نانا کی امامت میں ادا کرتا رہا۔ نانا کے ضعیف ہونے کے بعد ماموں نے امامت شروع کی، اور وہ چند برسوں تک مسجد کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ پھر انہوں نے مسجد کی ذمہ داری سے علاحدگی اختیار کر لی، اور اب ان کی جگہ گاو¿ں کے دوسرے لوگوں نے مسجد کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔
مسجد کا سنگ بنیاد میرے نانا کی زندگی میں ہی رکھا گیا تھا، مگر اس کی تعمیر میں برسوں لگ گئے۔ آج وہ مسجد جدید کاری سے آراستہ ہو چکی ہے۔ پنکھے لگ گئے ہیں، انورٹر بھی لگا ہوا ہے تاکہ اگر بجلی چلی جائے تو انورٹر اس کا بدل بن سکے۔ ہینڈ پمپ سے پانی بھرنے کی ضرورت نہیں، نل کھولیے اور پانی کا استعمال کیجیے۔
اردو کے بجائے اَب مسجد میں ہندی زبان کا غلبہ نظر آتا ہے۔ حتیٰ کہ’ تبلیغی جماعت‘ کی مشہور کتاب ’فضائل اعمال‘بھی ہندی میں رکھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اسے دیکھ کر افسوس ہوا۔ اردو اتنی شریں زبان تھی، اور اَب اس کو مسجد سے ہٹا دیا گیا۔ مسجد میں موبائل فون کو آف کرنے کی ہدایات بھی ہندی زبان میں تحریر کی گئی تھیں، جس میں لکھا تھا:’کرپیا کرکے مسجد میں اپنا موبائل فون بند رکھیں۔‘
ایک شام میں چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا؛ ایک صاحب مکہ اور مدینہ کی جدید تصاویر دکھا رہے تھے۔ وہ وہاں کی جدیدکاری کی خوب تعریف کر رہے تھے۔
میں نے کہا کہ اس کی جدید کاری دراصل یورپ اور امریکہ کی دین ہے۔ اس پر وہ غصہ ہوگئے اور کہنے لگے،’پیسے ہم نے لگائے اور اس نے بنا دیا، ورنہ اس کی کیا اوقات؟‘
شام ڈھلے، میرے ابتدائی دنوں کے استاد محمد محبوب عالم سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ میرے ٹیوشن کے استاد تھے، جن سے میں صبح و شام پڑھا کرتا تھا۔ وہ 20 روپے ماہانہ ٹیوشن فیس لیتے تھے۔ میں ان سے زیادہ دنوں تک نہیں پڑھ پایا کیونکہ جلد ہی شہر مونگیر چلا گیا تھا۔ تاہم، وہ مجھے یاد تھے اور میں بھی انہیں یاد تھا۔
انھوں نے اس ملاقات میں بتایا کہ بچپن میں جب تمہیں کوئی بچہ مارتا تھا تو تم رو دیتے تھے، مگر بدلے میں کبھی کارروائی نہیں کرتے تھے۔ تم روتے روتے چپ ہو جاتے تھے اور پھر ہنسنے لگتے تھے۔ تم نے کبھی اس کی شکایت اپنے گھروالوں سے بھی نہیں کی تھی۔
یہ تقریباً تیس برس بعد ہماری ملاقات تھی، اور ان کی شکل و صورت میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی، البتہ عمر کے اثرات ضرور دکھائی دے رہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، سنہ 1994ءکے بعد ہم کبھی نہیں ملے، اور جب میں سعدپور ایک یا دو بار آیا بھی، تو انہیں وہاں نہ پایا کیوںکہ وہ جل کوڑہ (ضلع کھگڑیا) منتقل ہو چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سنہ 2004ءسے سعدپور سے باہر ہیں اور اس وقت ایک پرائمری اسکول میں استاد کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ہم دونوں کی طویل بات چیت ہوئی، اور پھر ہم نے عشاءکی نماز ایک ساتھ ادا کی۔ نماز کے بعد میں کچھ دیگر کاموں میں مصروف ہو گیا، اس لیے ان سے مزید ملاقات نہ ہو سکی۔ اس لمحے میں میرے ذہن میں جاوید اختر آزاد کا یہ شعر گونج رہا تھا:
از راہِ اتفاق ملاقات ہوگئی آپ سے
فرصت کسے ہے اتنی کرے کوئی عمر بھر کی بات
ماموں مرحوم کی سب سے بڑی بیٹی کی شادی تھی، اس لیے زیادہ تر نانیہالی رشتہ دار سعدپور آئے ہوئے تھے۔ ان سب سے بس رسمی ملاقات ہی ہو سکی کیونکہ زیادہ تر افراد اگلی صبح ہی اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، اور میں بھی اپنی مصروفیات میں محو ہو گیا۔
شادی کے موقع پر زیادہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کام میں آسانی ہو، اورمجھ سے بھاگ دوڑ والا کام نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نے دانش سے کہہ دیا کہ جو کام بیٹھ کر کرنے والے ہوں، وہ میں کروں گا۔
پھر ایسا ہی ہوا، میں نے باراتی کی ضیافت کے لیے ناشتے کے پیکٹ تیار کیے۔ چند بچے اور نوجوانوں کو جمع کیا اور تقریباً ڈھائی سو پیکٹ ایک گھنٹے میں تیار ہو گئے۔ یہ نکاح سے قبل تقسیم کیے گئے جب کہ بارات دروازے پر آ پہنچی تھی۔
عشاءکی نماز کے بعد بارات آئی جو چند افراد پر مشتمل تھی، جن میں بیشتر افراد نوشے کے گھروالے تھے۔ نکاح سے قبل نوشے کے چھوٹے بھائی نے ازدواجی زندگی کی اہمیت و افادیت پر ایک مختصر تقریر کی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے بہت اچھے انداز میں اہم باتیں کیں، اس طرح کی تقاریب میں اس قسم کی باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جزاک اللہ خیر۔
نکاح پڑھانے والی قاضی نے 4100 روپے لیے، جو میرے خیال میں زائد رقم تھی، تاہم لڑکے والوں نے یہ رقم ادا کر دی اور روفی کا نبیل سے نکاح ہوگیا۔ نبیل کا تعلق لکھمنیا سے ہے۔ نکاح کے فوراً بعد نبیل نے مہر کی رقم، جو کہ 40 ہزار روپے تھی، ادا کر دی۔ مجھے یہ طریقہ بہت پسند آیا۔ انھوں نے’مہر معجل‘ کا طریقہ اپنایا۔ ایک لمبی مدت تک عموماً یہی طریقہ رائج تھا، بعد میں اس میں تبدیلی آئی اور’مہر مو¿جل‘ پر عمل کیا جانے لگا۔ حالاںکہ مہر مو¿جل بھی دراصل ایک مقررہ مدت میں ادا کرنے کا نام تھا، لیکن لوگ اس کو پورے زندگی میں کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ خیر، یہ ایک الگ بحث ہے۔
ساڑھے گیارہ بجے رات بارات دلہن کو لے کر رخصت ہو گئی۔
میں نے بہار کی پہلی ایسی شادی دیکھی جس میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اور تمام معاملات حسن و خوبی سے انجام پائے۔ یہ اللہ کا بڑا کرم ہے۔ میں نے دعا کی کہ اللہ نئے جوڑے کو سلامت رکھے اور ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے۔ آمین!
میں نے دانش کو شاباشی دی کہ اس نے ایک ذمہ دار بھائی کا فرض بحسن و خوبی ادا کیا ہے۔ ماموں کے انتقال کے بعد سے گھر کی ساری ذمہ داریاں دانش کے کاندھوں پر آ گئی ہیں، اور وہ انہیں بڑی خوبی سے نبھا رہے ہیں۔
18 اور 19 اکتوبر 2024ءکی درمیانی شب تک سب لوگ جاگتے رہے اور باتیں کرتے رہے، میں بھی ان محفلوں میں شامل رہا۔ جب صبح اٹھا تو جسم میں تھکاوٹ کی شدت سے پورا بدن ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ غسل کیا اور پھر تھکاوٹ کی شدت کی وجہ سے سو گیا، حالانکہ شدید گرمی تھی اور بجلی بھی نہیں تھی، پھر بھی نیند آ گئی۔
19 اکتوبر 2024ءکی شام کو طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوئی تو میں نے لکھمنیا جاکر اپنے چچازاد بھائی شباب سے ملنے کا ارادہ کیا۔ اب سعدپور سے بلیا، لکھمنیا جانا خاصا آسان ہو گیا ہے۔ میں ایک ای رکشا میں سوار ہوا اور محض آدھے گھنٹے میں لکھمنیا پہنچ گیا۔ میرے ہمراہ سلطانہ کا بڑا بیٹا شان الرحمٰن بھی تھا۔
لکھمنیا میں شباب بھائی اور ان کی اہلیہ سے ملاقات بہت خوشگوار رہی۔ میرے ان دونوں سے دوہرے رشتے ہیں؛ شباب میرے چچازاد بھائی ہیں، جب کہ ان کی اہلیہ میری پھوپھی زاد بہن ہیں۔
یہ جان کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ دو سال پہلے، دیہی علاقے میں تعلیم کی شمع روشن کرنے کے جذبے کے تحت، شباب فہیم نے بچوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے۔ ان کے اسکول کا نام فیوچر فاو¿نڈیشن (Future Foundation) ہے۔
پہلے شیشن 2023-2024 میں وہاں صرف پلے اسکول (Play-School) تھا، جبکہ موجودہ شیشن 2024-2025ءمیں اس کو چھٹی جماعت تک توسیع دے دی گئی ہے۔ اس وقت اسکول میں 350 بچے زیر تعلیم ہیں۔بدقسمتی سے میرے پاس وقت کی کمی تھی، اس لیے اسکول کا مشاہدہ نہ کر سکا۔
ہمارے خاندان میں تعلیم کی شمع کو عام کرنے کی روایت آج بھی برقرار ہے۔ پچاس سال پہلے، 1972ءمیں، میرے بڑے چچا پروفیسر شاہ عظیم الرحمٰن نے شہر مونگیر میں لڑکیوں کے لیے’نیشنل اردو گرلس اسکول‘ قائم کیا تھا۔ مونگیر کی ایک بڑی مسلم آبادی میں، چچا مرحوم کی کوششوں سے تعلیم کا چراغ روشن ہوا۔ اب شباب فہیم نے اسکول کھول کر اس خاندانی روایت کو جاری رکھا ہے۔ شباب فہیم کے والد، شمیم بیتاب، بھی زندگی بھر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ خود میرے والد، شاہ شبیر حسن، نے بھی ایک طویل مدت تک مونگیر شہر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھایا، یہاں تک کہ مونگیر کے بہت سارے لوگ انھیں ’ماسٹر صاحب‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
میں بھی ایک عرصے تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہا ہوں۔ اپنی خاندانی روایت کا تسلسل دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ مسلم سماج میں آج بھی زیادہ سے زیادہ تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد دولت ہے جو انسان کی ہر اعتبار سے ترقی کی ضمانت دیتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے برسوں پہلے کہا تھا:
بس اب وقت کا حکم ناطق یہی ہے
کہ جو کچھ ہے دنیا میں تعلیم ہی ہے
میرے چچازاد بھائی، شباب فہیم، ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی ہیں۔ ان دنوں وہ پرشانت کشور کی سیاسی جماعت ’جن سوراج پارٹی‘ سے منسلک ہیں۔ یہ اتفاق دیکھئے کہ گاندھی جینتی کے موقع پر پرشانت کشور نے نئی پارٹی کا اعلان کیا، حالاںکہ اس پر وہ کئی سالوں سے کام کر رہے تھے۔
عموماً جس گھر میں جائیے، میزبان زبردستی چائے پلاتے ہیں، اور مجھے یہ عادت زیادہ پسند نہیں ہے۔ شباب بھائی کے یہاں بھی چائے کے لیے پوچھا گیا، مگر میں نے معذرت کر لی اور یہ بات اچھی لگی کہ انہوں نے میری معذرت قبول کر لی۔ شباب کے دونوں بچے اب بڑے ہو چکے ہیں، حالاںکہ آٹھ سال پہلے وہ بہت چھوٹے تھے۔ وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے! اس موقع پر منور رانا کا شعر بالکل موزوں لگتا ہے:
بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں
جب میں لکھمنیا پہنچا تو سنجھلے ابی، یعنی شمیم بیتاب کی بہت یاد آئی۔ ان سے میری آخری ملاقات اس دن ہوئی تھی جب میرے والد کی دوسری برسی تھی، یعنی 2 جولائی 2018ئ۔
تقریباً 40-50 منٹ میں نے شباب بھائی کے یہاں گزارے اور ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ ان لوگوں سے مل کر بہت اچھا لگا۔ اس دوران میرے ماموں زاد بھائی دانش مجھے لینے کے لیے آگئے۔ وہ بائیک پر تھے، اور میں ان کے ساتھ ان کے لیب پر چلا گیا۔ راستے میں، انہوں نے بلیا بازار کی ایک مشہور دکان سے اسپنچ والی مٹھائی کھلائی۔
جب میں ان کے لیب ’بھارت پیتھ لیب‘(Bharat Path Lab) پر پہنچا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ دانش اَب اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ ساوتھ افریقہ سے واپس آنے کے بعد تقریباً ایک سال تک بے روزگار رہا۔ اس نے دہلی میں بھی کام تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ آخرکار، اس نے بلیا بازار میں’بھارت پیتھ لیب‘ کھول لیا ہے۔ میں کچھ دیر دانش کے لیب پر بیٹھا، پھر ہم دونوں بائیک پر سوار ہو کر سعدپور کے لیے روانہ ہو گئے۔
19اکتوبر 2024ءکی شام کو، میں بائیک پر بلیا سے سعدپور آیا۔ دانش بائیک چلا رہے تھے۔ بہت سال پہلے، میں پہلی بار بائیک پر بیٹھا تھا اور اس وقت بھی میں بلیا سے سعدپور آیا تھا۔ میرے والد اور میں پیدل جارہے تھے کہ راستے میں ان کے کسی واقف کار نے ہمیں دیکھ لیا اور اپنی بائیک پر ہمیں بٹھا لیا۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے، مجھے پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس بار جب میں بائیک پر سعدپور پہنچا، تو اس واقعے کو تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ بعض اتفاقات واقعی زندگی میں انوکھے ہوتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ سعدپور جانے والی سڑک کے کنارے پر پولٹری فارم (Poultry Farm) اور پٹرول پمپ (Petrol Pump) کھل گئے ہیں، جس سے گاو¿ں والوں کو بہت سہولت ہو گئی ہے۔ جدید سہولیات کی دستیابی نے علاقے کی زندگی کو آسان اور آرام دہ بنا دیا ہے۔
قومی شاہراہ نمبر 31 کے کنارے جانی پور ریلوے کراسنگ ہے، وہاں سے ایک سیدھی سڑک سعدپور کی طرف جاتی تھی، مگر اَب وہ بند ہو چکی ہے۔ اس راستے سے میں بارہا اپنے ماموں اور والد کے ساتھ بلیا جا چکا ہوں۔ یہ راستہ سعدپور کے رہنے والوں کے لیے ایک بڑی سہولت تھا، لیکن حکومت نے ایک نیا راستہ منتخب کیا ہے جو زیادہ دیہاتوں کو جوڑتا ہے، جیسے کہ ڈیہا، ڈومریا، کٹہری وغیرہ۔
20 اکتوبر 2024ءکو میری سعدپور سے واپسی ہوئی۔ علیٰ الصباح، میری ممانی نے میرے ناشتے کا انتظام کیا۔ وہ تھکی ہوئی تھیں، پھر بھی انہوں نے میرے لیے تازہ روٹیاں بنائیں۔ میں نے ناشتہ کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ میرے بھائی دانش نے اپنی بائیک پر مجھے صرف پندرہ منٹ میں لکھمنیا ریلوے اسٹیشن پہنچا دیا۔ میں نے مونگیر جانے والی ٹرین کا ٹکٹ لیا اور ٹرین میں سوار ہوگیا۔
نئی دہلی سے آتے ہوئے، میں ایک گھنٹے کے لیے مونگیر میں رکا تھا، لیکن اس وقت باٹلو بھائی جان سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ واپسی کے وقت، اتوار کا دن تھا، اس لیے باٹلو بھائی جان گھر پر تھے اور ملاقات ممکن ہو گئی۔ چند گھنٹے میں نے ان کے ساتھ گزارے۔ باٹلو بھائی جان نے کہا کہ ان کا دل نہیں بھرا۔
باٹلو بھائی جان کا اصل نام شاہ عزیزالرحمٰن ہے، لیکن وہ اپنے عرفی نام ’باٹلو‘ سے مشہور ہیں۔ فی الحال وہ جے ایم ایس کالج، مونگیر (بہار) میں اسسٹنٹ لائبریرین (Assistant Librarian) کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے ساتھ وقت گزارنا ہمیشہ خوشگوار رہا ہے، اور مونگیر میں گزرا ہوا وقت ان کی صحبت کی وجہ سے یادگار بن گیا۔
میں نے دیکھا کہ میری کتابیں اور کتابی سلسلہ ’آپ بیتی‘ کے تمام شمارے ان کے ڈرائینگ روم میں موجود ہیں، جہاں انھوں نے بڑی نفاست اور سلیقے سے انہیں ایک خوبصورت الماری میں سجا رکھا ہے۔ یہ الماری تقریباً میری تمام کتابوں سے بھری ہوئی ہے، جو ان کی مطالعے سے محبت اور میری تحریروں کے ساتھ ان کے لگاو¿ کی عکاسی کرتی ہے۔ انھوں نے 2021ءمیں میری کتاب ’مولانا وحید الدین خاں اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں‘ کا تعارف نامہ لکھا، جو قارئین کے حلقے میں بے حد مقبول ہوا۔ ان کے تعارف نامے نے کتاب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ان کے ادبی ذوق کا اظہار بھی کیا۔
انھوں نے لکھا تھا کہ’عزیزم شاہ عمران حسن میرے چچا زاد بھائی ہیں۔ وہ ساتویں جماعت میں تھے جب انہوں نے ڈائری لکھنے کی ابتدا کی۔ بچپن سے ہی وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اور محنتی شخصیت کے مالک رہے ہیں۔ آج، ان کی علمی خدمات اور اَدبی کام نے انہیں ایک نمایاں مقام پر پہنچا دیا ہے۔
یہ ایک دلچسپ حسن اتفاق ہے کہ شاہ عمران حسن نے مولانا وحید الدین خاں کی زندگی میں ان کی خودنوشت بعنوان ’اوراقِ حیات‘مرتب کی جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔اورمولانا کی وفات کے بعد بھی ان پر ایک اور کتاب مرتب کرنے کا اعزازبھی اُن ہی کے حصے میں آیا۔ ان کی تازہ کتاب، ’مولانا وحید الدین خاں: اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں‘، مختلف اصحاب ِقلم کے مضامین کو شامل کرتے ہوئے ایک جامع تصنیف ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ کتاب بھی ان کی پچھلی کتابوں کی طرح علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔
شاہ عمران حسن نے اپنی تصنیف و تالیف کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے اور میرے خاندان میں وہ واحد فرد ہیں جو اِس اَدبی مشن کے ساتھ مستقل طور پر وابستہ ہیں۔ میں اُن کی تحریریں ابتدا سے پڑھتا آ رہا ہوں، اور اُن کا ہر نیا کام میرے لیے علمی خوشی کا باعث بنتا ہے۔میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے قلم کو مزید مضبوطی عطا فرمائے اوراُنھیں ہمیشہ علمی دُنیا میں کامیابیاں نصیب ہوں۔ میری دعا ہے کہ وہ اِسی جذبے اور لگن کے ساتھ ملک و ملت کی خدمت کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر مشکل سے محفوظ رکھے اور کامیابیوں سے نوازے۔ آمین!‘
باٹلو بھائی جان کی اس عبارت کو اہل علم اور قارئین کی جانب سے خوب سراہا گیا۔ ان کے لکھے ہوئے تعارف نامہ نے قارئین کی توجہ حاصل کی اور میری کتاب، جس کا عنوان ’مولانا وحید الدین خاں اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں‘ ہے، ہندوستان بھر میں بڑی تعداد میں فروخت ہوئی۔
20 اکتوبر 2024 ءکی ملاقات میں باٹلو بھائی جان نے بتایا کہ ان کے والد مرحوم نے جو مکان بنایا تھا، وہ اب خستہ حال ہو چکا ہے، اور اس کی مرمت کا کام جاری ہے۔ اس وقت گھر پر مزدور کام کر رہے تھے۔ یہ مکان سنہ 80 کی دہائی میں میرے بڑے ابی، پروفیسر شاہ عظیم الرحمٰن، نے بنایا تھا، جو کافی کشادہ تھا۔ تاہم، اَب اس کی حالت خراب ہونے لگی ہے، اور باٹلو بھائی جان اس کی مرمت کروا کر کام چلا رہے ہیں۔ مکان کی ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ یہ بغیر ستونوں کے بنایا گیا تھا، اور اس کے پانچ کمرے تھے۔ اگر سریے کے ستون استعمال کیے گئے ہوتے، تو یہ مکان آج بھی مضبوط حالت میں ہوتا۔ میرے بڑے ابی ایک مضبوط مکان بنا سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مکان خستہ حال ہو چکا ہے۔
یہ وہی مکان ہے جہاں کبھی نیشنل اردو گرلس اسکول چلتا تھا، جس میں ہزاروں بچیاں تعلیم حاصل کیا کرتی تھیں۔ بڑے ابی کے انتقال کے بعد، اسکول دھیرے دھیرے ختم ہو گیا۔ اس مکان سے میری زندگی کے کئی لمحے وابستہ ہیں۔ میں نے گھر کے مختلف حصوں میں گھوم کر اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ حتیٰ کہ میں اس مکان کی چھت پر بھی چڑھا، جہاں دو دہائیوں کے بعد میں دوبارہ گیا تھا۔ یہ وہی چھت تھی جہاں میں نے بچپن میں اپنے چچازاد بھائی کامران کے ساتھ بارش کے دنوں میں نہایا تھا، اور اس کے دوست شام کو کھیلنے آیا کرتے تھے۔ کامران کے دوستوں میں دو مزید لڑکے بھی عمران نام کے تھے، اس طرح تین عمران اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا، کیونکہ میں اپنی نانی کے گاو¿ں سعدپور لوٹ گیا تھا۔
باٹلو بھائی جان نے اپنے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے(CCTV Camera) بھی نصب کروا لیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کی حفاظت کے لیے یہ اب ایک ضرورت بن چکا ہے۔ بعض اوقات گھر خالی رہتا ہے، اور کبھی کبھار ان کی والدہ بھی اکیلی ہوتی ہیں۔ ایسے میں حفاظت کے خاطر سی سی ٹی وی کیمرا ایک لازمی انتظام معلوم ہوتا ہے۔آج کل سی سی ٹی وی کیمرا ایک سماجی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ پہلے زمانے میں، محلے کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے گھروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں، ہر کوئی اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے ہی قلعے میں بند ہونے پر مجبور ہے۔ اسی صورتحال کو جون ایلیا نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا تھا:
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
آج ؛جہاں میں ہمیشہ رہا کرتا تھا، وہاں چند گھنٹوں کا مہمان تھا۔ باٹلو بھائی جان اور میری بڑی چچی نے میرے ساتھ بہت محبت سے پیش آیا۔ انھوں نے میرے لیے سفر کا زاد راہ بھی تیار کر دیا۔ جب واپسی کا وقت آیا، تو بڑی امی نے دعائیہ کلمات سے مجھے رخصت کیا۔ باٹلو بھائی مجھے آٹو اسٹینڈ تک چھوڑنے آئے اور جاتے وقت میری جیب میں پانچ سو روپے کا نوٹ رکھتے ہوئے کہا، ’تم میرے چھوٹے بھائی ہو، راستے میں کچھ کھانے پینے کا سامان لے لینا۔‘
میں آٹو میں سوار ہوکر جمالپور کی طرف روانہ ہو گیا۔
میرے پاس دہلی جانے کے لیے کنفرم ٹکٹ نہیں تھا، اس لیے میں نے جنرل ٹکٹ خریدا اور وکرم شیلا ٹرین میں سوار ہوکر ٹی ٹی ای سے مل کر سلِپر کلاس کا ٹکٹ بنوایا۔ پیسے زیادہ خرچ ہوئے، مگر کام ہو گیا۔ ٹرین کے سفر میں کوئی خاص بات نہ ہوئی، صرف رسمی بات چیت کے علاوہ اجنبی مسافروں سے کوئی خاص گفتگو نہیں ہوئی۔
راستے میں ایک مسافر نے غلطی سے زنجیر کھینچ لی، جس کی وجہ سے ٹرین رک گئی۔ پولیس والے بڑی تعداد میں کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور اس شخص کی تلاش شروع کی جس نے زنجیر کھینچی تھی۔ بالآخر وہ شخص ملا، اور پولیس نے اسے پکڑ لیا۔ اس شخص نے ایک اور غلطی یہ کی کہ پولیس کو رشوت دینے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا۔ میں نے سوچا کہ کبھی کبھی ہم اپنی بے وقوفی سے بھی مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔
اسی کمپارٹمنٹ میں ایک اور ادھیڑ عمر شخص تھا جس کے ساتھ ایک مسافر نے بدتمیزی کی۔ اس نے فوراً ایمرجنسی نمبر پر کال کی، اور پولیس اگلے اسٹیشن پر اس کی مدد کے لیے پہنچی۔ مگر جب پولیس آئی، تو اس نے کہا کہ بدتمیزی کرنے والا شخص پہلے ہی اُتر چکا ہے، جس کے بعد اس نے پولیس کو مطمئن کرنے میں کافی وقت لیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ بعد میں اس شخص نے مجھ سے کہا کہ اگر پولیس اس شخص کو پکڑ کر لے جاتی، تو خواہ مخواہ اس کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔
رات کو میں ٹرین میں دیر سے سویا، اور جب بیدار ہوا، تو ٹرین قومی دارالحکومت نئی دہلی کے سرحدی علاقے یعنی این سی آر (National Capital Region-NCR) سے گزر رہی تھی۔ 21 اکتوبر 2024ءکی صبح ساڑھے سات بجے میں آنند وہار ریلوے اسٹیشن پر اترا، اور دہلی میٹرو میں سوار ہوکر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اکبر حیدرآبادی کا یہ شعر میرے ذہن میں گونج رہا تھا:
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
یہ سفر ایک یادگار تجربہ تھا، جس نے مجھے پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
***
Shah Imran Hasan
Editor Kitabi Silsila Aapbeeti
Sarita Vihar, New Delhi: 110076,
Moblie No. 9810862382,
E-mail: sihasan83@gmail.com
***
ایران کا سفر از شاہ عمران حسن بھی پڑھیں. 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے