کتاب: نئی فیکٹری(ناول)

کتاب: نئی فیکٹری(ناول)

مصنف: ذاکر فیضی
سنہ اشاعت:2023
صفحات:237
قیمت:300روپے
پبلشر: عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی
مبصر: ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، کلکتہ گرلس کالج، کولکاتا

اکیسویں صدی کے معاصر تخلیقی منظر نامے پر تیزی سے اپنی شناخت بنانے اور علمی و ادبی حلقوں میں اپنے پہلے افسانوی مجموعہ”نیا حمام“ سے شناخت کو مزید مستحکم کرنے میں مسلسل کوشاں نظر آنے والے ہمارے سینئر دوست اور تخلیق کار ڈاکٹر ذاکر فیضی کا نام بے حد اہم ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ ان کے پہلے افسانوی مجموعے کی بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی نے ان کے عزم و حوصلے کو مزید جلا بخشا، نتیجتاً ان کا پہلا ناول بھی ”نئی فیکٹری“ کے نام سے 2023ء میں منظر عام پر آچکا ہے جسے عرشیہ پبلی کیشنز نے بڑے اہتمام سے شایع کیا ہے۔ یہ ناول کل سترہ حصوں اور 237 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ہر حصہ ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ کوئی بھی حصہ بھرتی کا محسوس نہیں ہوتا، بلکہ کہانی اس طرح بُنی گئی ہے کہ آپ ایک ہی نششت میں پڑھتے چلے جائیے، کہیں بھی بوریت یا اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے اور آپ کرداروں سے متعارف ہوتے ہیں تو وہ سارے کردار آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور آپ کا تجسس مزید بڑھنے لگتا ہے، یہی تجسس  آپ کو پورے ناول کی قرأت پر مجبور کر دیتا ہے۔
جیسے جیسے آپ مختلف کرداروں کی کہانی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو آپ ان کے داخلی و خارجی جذبات و احساسات، مسائل، سیاسی و سماجی سروکار، تہذیبی و اقداری روایات کی ناقدری، جدید اصطلاحات کی نئے تناظر میں پیش کش، لا علاج نفسیاتی بیماریوں سے واقفیت، نسل نو کے مختلف رنگ و آہنگ، جرائم پیشہ افراد یا گروہ کی کار گزاریاں، سیاسی قائدین اور محکمہ پولیس کے آپسی تال میل اور دونوں کے درمیان لہو لہان ہوتا ہوا عام شہری، ملک اور سماج دشمن عناصر کی کار گزاریاں، آزای کا نعرہ، میس ہاسٹل، گارڈ، کیبن، سیکورٹی گارڈ، اور نئی فیکٹری کی منظر کشی، بد عنوان اور جرائم کے مکروہ چہروں کی نقاب کشائی، نسائی اور تانیثی آواز کے ساتھ ان کا انقلابی نقطۂ نظر، موجودہ ثقافتی عہد کے تضادات، جنسی و جذباتی کش مکش، واقعات و حادثات اور کرداروں کی المیاتی کیفیت وغیرہ سبھی کو نہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بلکہ تجربات و مشاہدات کا جیتا جاگتا عکس ابھر کر سامنے گردش کرنے لگتا ہے، جسے دیکھ کر قاری بے چین ہو اٹھتا ہے اور کرداروں کے ہمراہ چل کر ان کا حمایتی ہو جاتا ہے۔
یہی اس ناول کی کامیابی بھی ہے کہ وہ قاری کو نہ صرف اپنی گرفت میں رکھتا ہے بلکہ اسے پریشان اور بے چین بھی کرتا ہے اور پھر اسے مذکورہ چیزوں کے خلاف انسانیت کی بقا کی خاطر ایک خاموش صداے احتجاج کا حامی بنا دیتا ہے۔ کسی بھی ناول میں جب یہ خوبی پیدا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ نہ صرف ایک کامیاب ناول ہے بلکہ یہ بھی مانتا ہوں کی اس ناول نگار یا کہانی کار میں وہ تمام فنی و فکری خوبیاں موجود ہیں جو کہانی بُننے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ذاکر فیضی کے یہاں کہانی کہنے یا بُننے کا فن بدرجہ اتم موجود ہے جس کا جیتا جاگتا نمونہ انھوں نے ’نئی فیکٹری‘ کی شکل میں پیش کیا ہے۔
ناول کے مزید مطالعے سے ’اسرار منزل‘ کا سچ سامنے آجائے گا، گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں ہونے والی مہنگائی، حکومت کی فضول پالیسیوں اور بے جا ٹیکس کی وجہ سے کار خانوں اور فیکٹریوں کے بند ہونے، نئی فیکٹریوں کے کھلنے، بے روزگاری کا دن بدن بڑھنا، مزدوری کے نام پر مزدوروں کا استحصال کرنا، تعلیمی نظام کا درہم برہم ہونا، بے ایمانی اور دغا بازی کے کاروبار کا جنم لینا، جرائم کے کارخانوں کا قائم ہونا، حیوانیت کا ایکسپورٹ شروع کرنا، تباہیاں اور بربادیاں امپورٹ کرنا وغیرہ۔ یہ تمام باتیں آپ پر ناول کے مختلف ضمنی کرداروں مثلاً رابو، مرجے، شبری، ڈاکٹر شوشیل، مسٹر نٹھاری، مسٹر مال پوا، مس مہک، صبا، ناظم، راشد، جھنگا، ارباز قریشی کے علاوہ ناول کے مرکزی کرداروں میں علی، معراج، ابھے اور دیپا کے آپسی مکالموں کے ذریعے واضح ہوں گی۔
پنکی کے اغوا کیے جانے کے در پردہ موجودہ سماجی رویوں، نئی نسل کی بے راہ رویوں اور شارٹ کٹ طریقے سے بغیر محنت و مشقت کے پیسہ کمانے کے چکر میں نئی نسل کا کچھ بھی کر گزرنے اور کسی بھی حد تک جانے کا جذبہ رکھنا اور اپنے سیاسی مافیا آقاؤں کی پشت پناہی حاصل کرکے کچھ بھی کرنے کے لیے ہمہ تن تیار رہنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں، ان سب کی قلعی ناول میں کھلتی نظر آئے گی۔ ابھے کے در پردہ مختلف جامعات میں ہونے والی علمی، ادبی، سماجی کار گزاریاں دیکھی جا سکتی ہیں اور ملک کی سالمیت اور انسانیت کی بقاکے لیے اپنے جان کی بازی لگانے والے ابھے کے ساتھ دوسرے کردار بھی نظر آئیں گے۔
دیدی ’بچوں کا گھر‘ نام سے این. جی. او چلانے والی، ’بچپن بچاؤ تحریک‘ چلانے والی بہ ظاہر حکومت کے خلاف مہم چھیڑنے والی مگر بہ باطن بچوں کی تسکری کرنے والی خاتون کے روپ میں نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ ’گلابی کلب‘ اور ’پرکاش فر نیچر‘ کے پس پشت اغوا شدہ بچوں کو اپاہج بنا کر سڑکوں، گلیوں، چوراہوں، محلوں، اسٹیشنوں، بس اڈوں وغیرہ پر بھیک منگوانے کے تمام تر دیدہ واقعات ملیں گے۔ ساتھ ہی ناول کے اختتام پر نئی فیکٹری کی اصلیت آپ پر کھل کر سامنے آجائے گی اور آپ ایک نئی دنیا میں کھو جائیں گے اور کہیں گے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ مگر در پردہ ایسا ہو رہا ہے مگر ہم سب اس سے غافل اور نابلد ہیں جیسے ہم اس نئی فیکٹری کی ان اصطلاحوں سے مثلاً سیڈنگ، پروڈکشن، گروتھنگ، لیب، ٹریننگ، مووینگ، پارسل، پیکیجنگ، ایڈمن وغیرہ کے نئے معانی سے نا آشنا اور نا بلد تھے۔ ان مذکورہ اصطلاحوں کی واقفیت کے لیے آپ کو پورے ناول کا مطالعہ کرنا ناگزیر ہوگا۔ اس ناول کا مطالعہ یقیناً آپ کو ایک نئی فیکٹری کی ایک نئی دنیا سے روشناس کرائے گا جس دنیا کو آپ نے اپنی کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔ یہ ناول بھی ایک المیاتی ناول ہے جو ابھے، علی، دیپا اور مانو کے کار حادثے کے المیے پر اور معراج کی نئی فیکٹری والی کتاب کے المیے پر ختم ہوتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول اپنے منفرد موضوع اور کہانی پن کے ساتھ اپنے سادہ اور مکالماتی بیانیہ کی روشنی میں ایک اہم ناول ہے جسے کم از ایک بار ضرور پڑھا جانا چاہیے۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:اکیسویں صدی کا ’نیا حمام‘

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے