ڈاکٹر مجاہدالاسلام
(اسسٹنٹ پرفیسر، شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، لکھنؤ کیمپس، لکھنؤ۔ موبائل: 9628845713
جیسا کہ ایشیائی ملکوں میں روایت ہے کہ کسی بھی چیز کا چلن اس وقت عام ہوتا ہے جب وہ اپنے پیدائشی ملک میں ختم ہو چکی ہوتی ہے یا پھر اپنا اثر کھو چکی ہوتی ہے اور اس کی جگہ پر کوئی دوسری نئی چیز وقوع پذیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے اس طرح کی ذہنیت پر طنز کیا ہے اور اپنے ایک شعر میں اس طرح اس کی عکاسی کی ہے :
آئین نو سے ڈرناطرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ژاک دریدا (1930-2004) کی رد تشکیل ( Deconstruction) کی تھیوری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان کی اس تھیوری کا اثر جب یوروپی ممالک میں کم ہونے لگا توہمارے یہاں کی ادبیات میں اس کی مقبولیت نے زور پکڑنا شروع کیا۔ کئی ناقدین نے اس تھیوری کے حوالے سے لکھا اور اسے مقبولیت دلانے کی کوشش کی ۔ حالانکہ کم ہی لوگوں نے اس کو صحیح طور پر سمجھا۔
ژاک دریدا الجیریا کے ایک شہر ‘ الابیار’ میں1930میں پیدا ہوا۔ ‘ الابیار’ ان دنوں فرانس کے زیر نگیں تھا۔دریدا نے فرانس کی راجدھانی پیرس میں واقع مشہور تعلیمی ادارے Ecole Normale Superieure میں اعلیٰ تعلیم پائی اور پھر بعد میں وہ اسی ادارے میں فلسفہ وتاریخ کا پروفیسر مقرر ہوا۔بیسویں صدی کے بہت سے فلسفیانہ نظریات اور اس سے وقوع پذیر ہونے والی سوچ کو دریدا کی فکر نے متاثر کیا۔دریدا درجنوں کتابوں کا مصنف ہے جس میں اس کی درج ذیل کتابوں خاصی شہرت ملی:
1. Writing And Difference
2. Speech and phenomena
3. Of Grammatology
ان کتابوں کوان کی زندگی کا حاصل سمجھا جاتا ہے۔ دریدا کو اس بات میں تفوق حاصل ہے کہ ردّتشکیل کی تھیوری اس نے ہی سب سے پہلے پیش کی اور اس کی ابتدا کا سہرا اسی کے سر باندھا گیا ۔ اس کی اس تھیوری نے جہاں اپنے وقت میں یوروپی اور غیر یوروپی ملکوں میں کافی ہلچل مچائی، وہیں کسی نہ کسی صورت میں کہیں نہ کہیں آج بھی اس کی دھمک سنائی دے جاتی ہے۔
اردو میں ابھی تک اس تھیوری پر کوئی مفصل کام نہیں ہو اہے ، اگر میں کہوں کہ اردو میں ا س کی مثال’ چار اندھے اور ہاتھی’ کی ہے تو بے جا نہ ہوگا کہ جس نے جیسا محسوس کیا بیان کیا۔ اگرچہ یہاں پرکچھ اندھے ایسے ہیں جو ساتھ ہی گونگے بھی ہیں ،جنہوں نے گرچہ ہاتھی کو کسی نہ کسی شکل میں محسوس تو کیا مگر اپنے گونگے پن کی وجہ سے وہ کچھ بھی واضح انداز میں بیان کرنے سے قاصر رہے (اس طرح کے لوگوں کا نام لینے سے یہاں پر میں عمداً گریز کر رہا ہوں )۔ مشہور ناقد شمس الرحمان فاروقی ‘رد تشکیل’ کے ذیل میں مناظر عاشق ہرگانوی کے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
”ما بعد ساختیاتی تنقیدزیادہ تر مارکسی تصورات کو بعض نئے پہلوئوں اور نئے رنگ سے پیش کرنے کی کوشش ہے،لیکن اس کا کوئی ایک رنگ نہیں ،سوائے اس کے اس میں Literary Value اورHuman Values سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ‘مابعد ساختیاتی’ محض ایک لیبل ہے جس کے تحت بھانت بھانت کے لوگ آتے ہیں۔لیکن Value سے عدم دلچسپی ان میں مشترک ہے۔ ‘ساخت شکن’ تنقید پیاز کی طرح چھلکے ہی چھلکے ہیں مغز نہیں۔”
(کاروان ادب(بھوپال) مرتبین :کوثر صدیقی/ جاوید یزدانی۔جلد سوم ۔شمارہ ص410)
فاروقی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی اصل ہوتی ہے،جس پر اس چیز کی بنیا د رکھی جاتی ہے مگر رد تشکیل کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں ہیں۔ژاک دریدا کی رد تشکیل کی اس تھیوری کوناچیز کلی طور سے سمجھنے کا دعویٰ تو نہیں کرتا مگر مختلف وسیلوں سے جو کچھ بھی سمجھ سکا ہے، اس کواپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہاہے:
رد تشکیل(Deconstruction) یہ ایک ایسی تھیوری ہے جس میں مصنف پہلے کسی چیز کا ایک ہیولاتعمیر(Construct )خلق کرتاہے ،ایک ضابطہ یا پھر دستوالعمل تیار کرتا ہے ۔ یہ سیاسی ،سماجی ،ادبی کچھ بھی ہو سکتا ہے ،مگر یہ تعمیر شدہ ہیولا خود مصنف کی ہی بعد کی تحریروں سے مسمار یا Deconstruct ہوتا چلاجا تاہے ۔
رد تشکیل کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کا خیال ہے:
”بعض دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ Deconstructionسے مراد منہدم کرنا یا تباہ کرنا ہے،حالانکہ خود دریدا اس سے مراد Free-Playing Joyful Destruction نہیں لیتا بلکہ اسے ایک ایسی Dismantling قرار دیتا ہے جس سے ‘جاننے کا عمل’ شوخ تر ہو جاتا ہے ۔ ویسے دیکھا جائے تو ساخت شکنی کے عمل کے بھی دو پہلو ہیں، ایک وہ جس کے تحت نقاد مصنف کے اس نظام اقدار کو Dismantlie کرتا ہے جس پر اس نے اپنی تصنیف کی بنیادیں استوار کی ہوتی ہیں۔مثلا ً جب دریدا ‘مصنف ‘کی موجودگی کو Logocentrism کے حوالے سے Disconstruct کرتا ہے اور ساختیاتی تنقید کے پیش کردہ اسٹرکچر کو Metaphysics of Structure کے حوالے سے تو گویا وہ مغرب کی ما بعد الطبعیات کو Deconstruct کرتا ہے،علاوہ ازیں وہ یہ بھی کہتا ہے یہ سب کچھ جو نظر آرہا ہے کسی نظام یا اسٹرکچر کے تابع نہیں ہے بلکہ اصلاً ایک Labyrinth یاگورکھ دھندا ہے۔”
(معنی اور تناظر ( مضمون )ساختیات، ساخت شکنی اور ساختیاتی تنقید،وزیر آغا، انیس آفسیٹ پرنٹرز،نئی دہلی،.2000 ص154)
وزیر آغا نے اس قضیے کو اپنے ایک مضمون ‘ منٹو کے افسانوں میں عورت’ میں اس طرح سے سلجھایاہے:
”میں نے اپنے اس مضمون میں یہ دکھانے کی کو شش کی ہے کہ منٹو کے افسانوں کے نسوانی کردار مرداور اس کے معاشرہ کے خلاف ‘بغاوت’کے ہتھیاروں سے لیس ہوکرابھرے ہیں اور خود مصنف بھی ان کرداروں کی اس بغاوت کو نمایاں کرتا نظر آیا ہے۔مگر افسانوں کے اندر یہی نسوانی کردار اپنی’بغاوت ‘ کو (اسی حوالے سے مصنف کیIntentionکو )تار تار کرتے چلے گئے ہیں۔اس طور کہ بغاوت کا علم اٹھائے منٹو کے نسوانی کرداروں کے اندر ہزاروں برس پرانی پتی پوجا والی نیز مامتا کے جذبے میں بھیگی ہوئی عورت صاف نظر آنے لگی ہے ۔”(معنی اور تناظر (مضمون)ساختیات ،ساخت شکنی اور ساختیاتی تنقید ۔وزیر آغا۔انیس آفسیٹ پرنٹرز ،نئ دہلی ۔سن 2000.ص 157)
اسی طرح سے’ رد تعمیر’ کے بارے میں مشہور ناقد’پروفیسر شارب ردولوی کا خیال ہے،اقتباس ملاحظہ ہو:
”رد تعمیر ”نقطۂ نظرمابعد ساختیاتی رجحان ہے اس کی ابتدا دو غیر ادبی (نفسیات و فلسفے کے)فرانسسی ماہرین کی تحریروں سے ہوئی،اس رجحان کے اہم ناقدین کرسٹوفرنارس،جوناتھن کلراور مرے کرائیگر وغیرہ امریکہ کی یونیورسٹوں سے تعلق رکھتے تھے اس کا اصل اصول ہے کہ ہر ادبی ادب کے اپنے معینہ معنی کو رد کرنے کا مادہ خود اس کے اندر ہوتا ہے اس میں معنی کے تعین میں قاری کی اہمیت سب سے زیادہ ہے،دوسرے الفاظ میں اسے کسی حد تک قاری کا رد عمل بھی کہہ سکتے ہیں ۔”(جدید اردو تنقید اصول و نظریات پروفیسرشارب ردولوی ۔اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ۔سن ۔1987ص510)
شارب ردولوی اپنی ان باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے مثال سے اس کو اس طرح سے سلجھاتے ہیں:
” اس بحث سے اندازہ ہو گا کہ ہرتعمیر نقطہ نظر کے مطابق مصنف جو تعمیر کرتا ہے خود اس کو رد کرتا جاتا ہے ،جیسا کہ ژاک دریدا کسی تصنیف میں کسی مرکزی یا درمیانی نقطے کا قائل نہیں ہے اس کا کہنا ہے اس میں معنی کو متعین یا کنٹرول کرنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے اس سلسلے میں اس نے سوسئیر(Saussure)کی تحریر کا تجزیہ کیا ہے۔ سوسئیر(Saussure)نے اپنی کتاب میں تحریر کو تقریر پر فوقیت کا اظہار کیا ہے ،لیکن ایک جگہ اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ تحریر و تقریر کی یکساں اہمیت ہے۔دریدا نے اس پہلو کو پیش کرتے ہوئے مصنف کی تحریر میں خود رد تعمیر کی نشاندہی کی ہے۔”(جدید اردو تنقید اصول و نظریات پروفیسرشارب ردولوی ۔اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ۔سن ۔1987ص512)
رد تشکیل کی تھیوری کو سمجھ لینے کے بعد میری کوشش ہوگی کہ اردو کے معروف نقاد پروفیسر شارب ردولوی کی آپ بیتی’نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم ‘ سے اس کی کچھ مثالیں پیش کی جائیں کہ شارب ردولوی کس طرح سے پہلے کسی چیز کا ہیولا خلق کرتے ہیں اور پھر خود اپنی بعد کی تحریروں سے اسے رد کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
شارب ردولوی نے اعلیٰ تعلیم لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی ، پھروہیں سے انھوں نے پروفیسر احتشام حسین کی نگرانی میں ‘جدیداردو تنقیداصول و نظریات ‘کے موضوع پر مقالہ لکھ کرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں یہی مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا تو انھیں خاطر خواہ شہرت حاصل ہوئی۔اس کے علاوہ بھی مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، تنقیدی عمل، تنقیدی مباحث،آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید، تنقیدی مطالعے، معاصر اردو تنقید، ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعراء ، جگر فن اور شخصیت ان کی وہ کتابیں ہیں جو اردو کے طلباء و اساتذہ میں یکساں مقبول ہیں۔
شارب ردولوی نے پہلے دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج میں ملازمت کی ۔پھربحیثیت ریڈر دہلی یونیورسٹی کے ہی شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے ۔سن 2000 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے ، اور پھر وہیں سے2002 میں سبکدوش ہوئے۔ باقی زندگی انھوں نے لکھنؤ میں گزاری۔ جہاں تک شارب ردولوی کی پرسنل لائف کا تعلق ہے تو اس خاکسار کی دہلی کے علاوہ لکھنؤ میں بھی ان سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک نستعلیقی شخصیت کے مالک تھے ،ہمہ وقت خود کو لیے دیے رہتے تھے۔میں نے کبھی بھی ان کو وقت و حالات کاشکوہ کناں نہیں دیکھا۔ یہاں پر میں اس بات کی بھی وضاحت کر تا چلوں کہ پروفیسر شارب ردولوی جیسی علمی و ادبی شخصیت کے بارے میں میرے لئے اپنی طرف سے کچھ بھی کہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا ۔میرے اس مضمون میں اقتباسات کی کچھ کثرت ضرور ہو گئ ہے مگر یہ میری مجبوری تھی ۔ آل احمد سرور نے اپنے ایک گراں قدر مضمون "تنقید کیا ہے”میں ایک جگہ لکھا ہے:
"جو لوگ اقتباسات کی کثرت سے بدگمان ہو جاتے ہیں انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ تنقید ہوائی نہیں ہو سکتی اقتباسات تنقید کو صحت سے قریب رکھتے ہیں۔ جو لوگ اقتباسات کو دیکھتے ہیں۔ اس تلاش و جستجو کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو اقتباسات میں صرف ہوتی ہے اور ہونی چاہیے. وہ ادب کا کوئی اچھا تصور نہیں رکھتے ان کی ذہنی استعداد کے متعلق کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔”(تنقید کیا ہے: ال احمد سرور۔ مکتبہ جامعہ نئی دہلی ۔ سن ۔2011ص 146)
پروفیسر شارب ردولوی کے ایک قریبی دوست عارف نقوی نے اپنے مضمون ‘شارب ردولوی :بہترین انسان ‘میں ان کی یونیورسٹی لائف کے بارے میں لکھا ہے:
”شارب کا ہمارے شعبے کی لڑکیاں بہت احترام کرتی تھیں، اس کی وجہ ان کا خوبصورت مسکین چہرہ تھا ۔ نرم سنجیدہ لہجہ یا خرام ناز سے چلنے کا انداز،یہ تو وہی بتا سکتی ہیں یا شمیم نکہت جو بعد میں ان کی شریک حیات بن گئیں ،البتہ وہ لڑکیوں میں شارب بھائی بن کر رہ گئے تھے ۔” (سہ ماہی سہیل ۔شارب ردولوی نمبر،جنوری تا مارچ2022،ص32)
اسی طرح ا پنے مضمون ‘شارب ردولوی: خم خانۂ علم و ہنر’میں فاروق ارگلی لکھتے ہیں:
”شارب ردولوی نہایت سادہ لوح ،حق گو ،با اصول اور خوش مزاج انسان تھے ۔علم و بصیرت اور فطری شرافت کا نور ان کے بشرے جھلکتا ہے ،انہوں نے کبھی کسی کو قول یا عمل سے نقصان نہیں پہنچایا ۔صبر و ضبط ان کی فطرت کا حصہ ہے ۔غرور، غصہ اور رشک انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے ۔ان کی گھریلو زندگی بے حد شاندار کہی جائے گی کہ انھیں ڈاکٹر شمیم نکہت جیسی عالمہ اور مشہور و معروف شریک حیات ملیں۔” (سہ ماہی سہیل ،شارب ردولوی نمبر، جنوری تا مارچ2022، ص47)
اور یہی کچھ پروفیسر شارب ردولوی کے بارے میں مجتبیٰ حسین کے مضمون: "شارب ردولوی: ایک نستعلیق شخصیت" سے مترشح ہوتا ہے:
”زندگی کو برتنے کے معاملے میں جو لوگ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ان سے ہم ہمیشہ بیس قدم دور ضرور رہتے ہیں۔ ایسی نستعلیق، مقطع، چقطع، خود بیں و خود آرا، اپنے آپ میں گم سم اور ہر دم نپی تلی بات کرنے والی شخصیت سے پہلے تو ہم نہیں ملتے اور اگر بحالت مجبور ی ملنے کی نوبت آجائے تو جی یہ چاہتا ہے کہ پہلے وضو کر لیا جائے، سر پر ٹوپی اوڑھی جائے اور توفیق عطا ہو تو گلے میں رومال ڈال لیا جائے، ہاتھوں میں سرمہ بھی لگ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لہذا چند دنوں تک ہم ادبی محفلوں میں دور ہی سے شارب ردولوی کا دیدار کرنے کے علاوہ ان سانچوں کے بارے میں سوچ سوچ کر محظوظ رہے کہ جن سے ایسی شخصیتیں ڈھل کر ایک زمانے میں نمودار ہوا کرتی تھیں۔ انھیں جوں جوں دیکھتے تھے یہ احساس ہوتا تھا کہ بے چاری نرگس ہزاروں سال تک کیوں روتی ہے اور دیدہ ور کو پیدا ہونے میں دیر کیوں پیش آتی ہے۔"
(سہ ماہی سہیل، شارب ردولوی نمبر، جنوری تا مارچ، 2022، ص:40)
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم شارب ردولوی کی آپ بیتی ہے جو 2021 میں شائع ہوئی۔ یہاں میرا اس آپ بیتی کے انھی حصوں سے سروکار رہے گا جس کا تعلق بلا واسطہ طور سے میرے موضوع سے ہے۔ شارب ردولوی اس کتاب کے شروع ہی میں ایک اخلاقی ضابطہ خلق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” کسی نے خوب کھل کھیلا’ اور معاشقوں کے بیان میں کپڑوں کا بھی خیال نہیں رکھا۔ کسی کو دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا تو اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ شخص جواب دینے کے لیے دنیا میں نہیں ہے، اگر جرأت تھی تو یہ سب اس کی زندگی میں لکھتے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ بعض باتیں خود نوشت کا حصہ بننے کے لائق نہیں ہوتیں، وہ خواہ کسی کی زندگی میں کتنی ہی اہم کیوں نہ رہی ہوں، انھیں نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہے اور اگر یہ بتانا ہی ہے کہ چاند جیسے سفید بال ہمیشہ ایسے نہیں تھے کبھی انھوں نے بھی بہتوں کو غالب کے الفاظ میں "مار" کر رکھا تھا تو استعاروں اور کنایوں میں اس طرح کے بیان کی بہت گنجائش ہے، ایسی باتیں جن کا اظہار زندگی میں مناسب نہیں سمجھا گیا ان کا بالاعلان اظہار وہ کتنی ہی سچائی پر مبنی کیوں نہ ہو معیوب ہے۔ اپنی عاشقی کا ذکر خواہ ایک ہو یا ایک سے زائد، دل چسپ سہی لیکن ہوس رانیوں کے بیان پر سوال ضرور پیدا ہو سکتاہے۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص26)
شارب رودولوی کا یہ ضابطہ اعلا اخلاق پر مبنی ہے مگر وہ اس پر بہت دیر تک قائم نہیں رہ پاتے، جیسے جیسے ان کی خودنوشت کا قاری کتاب کے صفحات کو پلٹتے ہوئے اپنے مطالعے کو آگے بڑھاتا ہے، شارب ردولوی کا یہ ضا بطہ اس کو رد ( Deconstruct) ہوتا ہوا محسوس ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے ہم اس بیان کو لیتے ہیں، جو انھوں نے پروفیسر محمد حسن کے بارے میں لکھا ہے۔ پروفیسر محمد حسن کی شادی خانہ آبادی کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”لکھنؤ یونی ورسٹی میں ان کے ایک عزیز ایک بڑے کالج میں تھے، انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں ان کی بہت مدد کی تھی، ان کی بیٹی کی طرف ملتفت تھے لیکن علی گڑھ میں اپنی طالبہ ایک جج کی بیٹی یا بھتیجی سے شادی کرلی۔ نہیں معلوم یہ اتفاق تھا یا قدرت کا کھیل کہ شادی کے چند دنوں بعد یہ لوگ شام کو چہل قدمی کے لیے نکلے، ابھی ہنستے باتیں کرتے جارہے تھے کہ ان کی بیوی نے کچھ پولیس والوں کو دیکھا اور شور کرنا شروع کردیا، بچائو بچائو یہ مجھ کو پریشان کر رہا ہے۔ پولیس والے محمد حسن کو پکڑ کر تھانے لے گئے، محمد حسن کی بیوی نے بعد میں بھی کچھ نہیں کہا کہ یہ مذاق تھا. جب یونی ورسٹی کے لوگوں کو پتہ چلا تو گئے اور تھانے سے محمد حسن کو گھر لائے، بہر حال محمد حسن صبر و شکر کے ساتھ ان کے ساتھ گزر کرتے رہے۔ گھر کی اس بے چینی اور بے اطمینانی نے ان کے کردار پر بہت خراب اثر ڈالا۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:452)
پروفیسر محمد حسن کی جنسی نا تشفی کا ذکرتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں:
”ان کے تین بچے ضرور تھے، لیکن جذباتی نا تشفی کی وجہ سے جہاں موقع ملتا ان کے ایک داستاں گونجنے لگتی۔ ان کی بیوی اپنی بیٹی سے زیادہ ان پر نگاہ رکھتی تھی لیکن اس شدید نگرانی کے باوجود نگاہ ادھر ادھر ہوجائے تو بچوں کی طرح مار پڑتی اور پھر مقدمے کے فیصلے کے لیے کبھی میں اور کبھی شمیم بلائی جاتیں اور گھنٹوں بھابی کو سمجھانے میں لگ جاتے، بھابی ہر جلسہ میں ساتھ جاتی تھیں اور یہ ممکن نہ تھا کہ محمد حسن کے پاس کوئی عورت یا لڑکی بیٹھ جائے اور اگر جلسہ کی صدارت میں محمد حسن کے ساتھ کوئی خاتون بھی ہوتیں تو پھر محمد حسن کا ان کی طرف دیکھنا یا بولنا قیامت ہو جاتا۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص: 452)
اپنے اس دعوے کو شارب ردولوی ایک شاعرہ کی مثال سے بھی مصدق کرتے ہیں:
” ایک بار پاکستان سے ایک مشہور شاعرہ ہندوستان آئیں اس زمانے میں ایسے مہمانوں کا آل انڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر انٹرویو ضرور ہوتاتھا اور یہ کام عام طور پر گوپی چند نارنگ، محمد حسن صاحب، قمر رئیس صاحب اور میرے سپرد ہوتا تھا، ْشاعرہ سے انٹرویو محمد حسن صاحب کے سپر د ہوا۔ انھوں نے بیوی کو نہیں بتایا اور ریڈیو اسٹیشن چلے گئے۔ بیوی کو بعد میں معلوم ہوا بس فوراً وہ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں، محمد حسن انٹرویو کے بعد اسٹوڈیو سے نکلے تھے اور ریڈیو اسٹیشن کے بر آمدے میں خاتون کے ساتھ باتیں کرتے چلے آرہے تھے کہ ایک دم طوفان کی طرح برس پڑیں اور گوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:452)
ان سب کو لے کر پروفیسر محمد حسن کی بیوی ان سے کافی جزبز رہتیں، یہاں تک کہ ان کی مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ آگے پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں:
”بھابی زیادہ تر نارمل تھیں، ہنسی مذاق خاطر تواضع کسی چیز میں کمی نہیں تھی، کبھی فون کرکے بلا لیتیں کہ میں نے فلاں چیز پکائی ہے تم دونوں آجاؤ۔ اور اپنے ہاتھ سے پہلا نوالہ کھلاتی، ہم لوگوں سے کبھی خفا نہیں ہوئیں، ان کا سارا غصہ محمد حسن صاحب پر کچھ اپنی بیٹی اور ماں پر اترتا تھا اور یہ سب جب ان کی مار سے زخمی ہوتے تو ہمارے گھر آجاتے تھے۔ شمیم دوائیں لگاتیں، دن بھر اپنے یہاں رکھتیں اور پھر شام کو ان کے گھر لے کر جاتیں، بھابی کو سمجھا تیں اور ان کے پاس چھوڑ آتیں۔ ڈاکٹر محمد حسن کے ساتھ یہ آئے دن ہوا کرتا تھا، وہ خود اپنی ڈاک نہیں دیکھ سکتے تھے۔مسز حسن نکال کر لاتیں، ایک ایک خط پڑھ کر انھیں دیتیں، اگر کسی شاعرہ، ادیبہ یا طالبہ کا خط ہوتا تو پھاڑ کر پھینک دیتیں اور محمد حسن صاحب کو الٹی سیدھی باتیں سننی پڑتیں، ان کو صرف جے. این. یو تک آنے جانے کے بیس روپے روز ملتے تھے، ان کے آنے کے بعد ان کی جیبوں اور بیگ کی تلاشی ہوتی تھی، ان کے چمڑے کا ایک بیگ تھا جس میں کتابیں اور کاغذات لاتے لے جاتے تھے، اس میں بیگ کو چوڑا کرنے کے لیے نیچے ایک دفتی کی دو انچ کی پٹی لگی ہوتی تھی، اس کو کھول کر دبا دینے سے بیگ کا وہ حصہ چوڑا ہو جاتا تھا۔محمد حسن صاحب اس کو بینک لاکر کے طور پر استعمال کرتے تھے اور جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا یا کہیں سے ملتا وہ اسی پٹی کے نیچے دبا دیتے تھے۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:453)
یہی نہیں آگے کی سطروں میں شارب ردولوی پروفیسر محمد حسن کے عشق ِبے مہابا اور ان کی دوسری شادی کا بھی ذکر کرتے ہیں، اقتباس ملاحظہ ہو:
”انھیں حالات میں محمد حسن صا حب نے ایک عشق کر ڈالا۔ لکھنؤ کی ایک خاتون تھیں ان کا نام لکھنا مناسب نہیں ہے، ان کا انتقال ہو چکا ہے، وہ ایک بڑے کالج میں لکچرر تھیں، انھوں نے محمد حسن صاحب کی نگرانی میں پی.ایچ. ڈی کی درخواست کی لیکن اس سے پہلے جب وہ یوپی اردو اکیڈمی کے چیئرمین تھے اس زمانے میں ان کا یہ عشق فروغ پایا۔ خاتون خوب صورت اور نہایت شریف تھیں، عمر بڑھ گئی تھی اور شادی نہیں ہو سکی تھی، ان کو یہ رشتہ اچھا لگا اور چند لوگوں نے محمد حسن صاحب کا عقد کرادیا، یہ سارا مقدمہ میرے سر پڑا۔ بھابی نے مجھے بتایا کہ صباح الدین عمر صاحب نکاح کے گواہ ہیں اور انھوں نے ہی یہ سب کچھ کیا ہے۔روز بھابی میرے ساتھ آکر بیٹھ جاتیں کہ منیجر کو فون کرو، صباح الدین عمر کو فون کرو اور کہو کہ مجھے فوراً طلاق نامہ لکھ کر بھیجیں۔ ادھر محمد حسن نے ان کو پی.ایچ. ڈی میں داخلہ دے کر جے این یو اپنے مکان میں بلالیا جس کا پتہ بھابی کو بہت بعد میں چلا. بہر حال ان کا طلاق ہوا اور وہ لکھنؤ واپس گئیں لیکن چند ہی برسوں کے بعد ان کا انتقال ہو گیا. لوگ کہتے ہیں کہ مسز حسن پاگل تھیں. محمد حسن صاحب نے انھیں مینٹل ہاسپیٹل میں بھی داخل کرانے کی کوشش کی تھی، میں سمجھتا ہوں کہ قطعاً پاگل نہیں تھیں، وہ بہت زیادہ سمجھ دار تھیں، محمد حسن کے معاملے کو چھوڑ کر وہ کسی بھی معاملے میں نہ بیوقوف تھیں اور نہ پاگل۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:454)
یونی ورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری کے دوران محمد حسن کی سخت گیری کو لے کر بھی شارب ردولوی بہت کچھ لکھتے ہیں اور اس کی وجہ لکھنؤ یونی ورسٹی میں ان کی تقرری نہ ہونے کو بتاتے ہیں:
”لکھنؤ یونی ورسٹی میں ملازمت کے لیے کوشاں رہے، جگہ بھی تھی، یہ کچھ دن پڑھا بھی چکے تھے، طلبہ اور ٹیچرز سب مطمئن اور ان کی صلاحیت سے متاثر تھے. جگہ خالی ہوئی، رضیہ سجاد ظہر کے ساتھ وہ درخواست دینے والوں میں تھے۔ محمد حسن اور رضیہ سجاد ظہیر جیسے دونوں امیدواروں کی موجودگی میں ایک بالکل غیر معروف شخص کا تقرر ہو گیا. جس کا بدلہ انھوں نے ساری زندگی لیا."
(نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:451)
اس سلسلے میں وہ خود اپنا دہلی یونی ورسٹی میں تقرری نہ ہونے کا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں۔ جس کا الزام وہ محمد حسن کے سر ہی دھرتے ہیں، اقتباس ملاحظہ ہو:
”اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ سنا دوں جس سے اندازہ ہوگا کہ محمد حسن صاحب کتنے [؟] دوست تھے۔ایک بار دہلی یونی ورسٹی میں ریڈر کی پوسٹ نکلی، ڈاکٹر محمد حسن اکسپرٹ کی حیثیت سے بلائے گئے۔ڈاکٹر محمد حسن سے ہم لوگوں کے گھریلو تعلقات تھے، ان کے گھر کے بیشتر کاموں میں میرا یا شمیم کا دخل ضرور رہتا تھا۔ کبھی گھر میں آپس میں کشیدگی ہوئی تو وہ اور ان کے بچے میرے گھر آجاتے تھے، اس لیے مجھے امید تھی کہ ڈاکٹر محمد حسن میرا ساتھ ضرور دیں گے، لیکن جب نتیجہ آیا تو تقرر فضل حق صاحب کا ہوا۔ فضل حق اچھے آدمی تھے، مجھ سے کہتے تھے کہ پڑھنے لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، ان کاموں کے طریقے الگ ہیں، انھوں نے اپنی ہی ایک شاگردہ سے جو ہم لوگوں کی بھی شاگردہ تھی شادی کرلی تھی۔ بہر حال اس سلیکشن کمیٹی میں فضل حق صاحب ریڈر ہو گئے۔اس بار مجھے واقعی تکلیف پہنچی، اس لیے کہ محمد حسن سے زیادہ مجھے کون جانتا تھا؟ جب پروفیسر شبیہ الحسن صاحب نے ان سے اس بات کی شکایت کی تو انھوں نے کہا کہ:
"شارب نے تو مجھ سے کہا نہیں تھا۔"
ان کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، انھوں نے ڈاکٹر فضل الحق کے تقرر کے سلسلے میں اپنے یہاں ایک استقبالیہ جلسہ کیا، جس میں مجھے بھی بلایا اور میں نے جاکر فضل الحق صاحب کو مبارک باد دی۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:337)
جے. این. یو میں ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر محمد حسن شعبے ہی میں پروفیسر ایمرٹس بنا دیے گئے۔پروفیسر ایمرٹس کو یونی ورسٹی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اس کے پاس ایک چیمبر ہو، جہاں پر وہ آکر بیٹھیں تاکہ یونی ورسٹی کے اساتذہ و طلبہ ان سے استفادہ کر سکیں۔ پروفیسر محمد حسن نے ریٹائر منٹ کے بعد بھی اپنے چیمبر کی کنجی خود اپنے پاس رکھی، کیوں کہ وہ وہاں آکر بیٹھا کرتے تھے. پروفیسر شارب ردولوی چاہتے تھے کہ اب وہ چیمبر ان کو مل جائے، کیوں کہ ان کا تقرر محمد حسن کی جگہ پر ہی ہوا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:
”جے. این. یو میں نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم دونوں مختلف تھے۔ روایتی تدریس کا ماحول نہیں تھا۔ Text کے بجائے Theory پر زیادہ زور تھا۔ کچھ نئے پیپر تھے. ہر پروفیسر کا ایک چیمبر مخصوص تھا، طلبہ کی تعداد کم ہوتی تھی اور پروفیسر عام طور پر اپنے چیمبر ہی میں کلاس لیتا تھا۔ میں نے جب جوائن کیا تو میرے لیے یہ دشواری آئی کہ کوئی کمرہ خالی نہیں تھا، اس لیے میں کچھ دن ادھر ادھر دوسروں کے کمروں میں بیٹھتا رہا، پروفیسر محمد حسن ریٹائر ہو چکے تھے، لیکن ایک کمرہ ان کے قبضہ میں تھا، اصولاً وہی کمرہ مجھے ملنا چاہیے تھا، اس لیے کہ میرا تقرر انہی کی جگہ ہوا تھا۔میں نے ایک دن ذاتی طور پر ان سے درخواست کی، ڈاکٹر صاحب اپنا کمرہ مجھے دے دیجئے، آپ جس دن جے. این. یو آئیں گے میں کہیں اور بیٹھ جاؤں گا، ان کا ایک بہت صاف جواب تھا۔ "کمرہ فراہم کرنا جے. این. یو کی ذمہ داری ہے میری نہیں۔" انھوں نے اس کا بھی خیال نہیں کیا کہ میرے ان کے بہت قریبی اور پرانے تعلقات ہیں۔ ایک دن پروفیسر نامور سنگھ آئے، ایسے ہی وہاں میرے لیے کمرہ کا ذکر آگیا کہ میرے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ نامور سنگھ نے فوراً اپنے جیب سے کمرے کی کنجی نکالی اور مجھے دے دی کہ تم بیٹھو میں تو وہاں بیٹھتا نہیں ہوں، میں نے احتراماً اپنے ریٹائرمنٹ تک اس کمرے پر نامور سنگھ کے نام کی پلیٹ رہنے دی." (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:340)
خودنوشت کی شروعات میں پروفیسر شارب نے جو اعلا اخلاقی ضابطہ بیان کیا تھا، آگے کے صفحات میں قاری کو محمد حسن کے تعلق سے پروفیسر شارب کے یہ بیانات ان کے اعلا اخلاقی ضابطے کے منافی نظر آتے ہیں، کیونکہ پروفیسر محمد حسن اب ان باتوں کی وضاحت کے لیے خود موجود نہیں ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف پروفیسر محمد حسن تک ہی محدود نہیں ہیں۔ شارب ردولوی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنی تقرری کو لے کر یہی کچھ الزام گوپی چند نارنگ پر بھی لگاتے ہیں، مزے کی بات یہ کہ اس کے باوجود وہ اپنی ایک اہم تصنیف "اسرار الحق مجاز" کا انتساب گوپی چند نارنگ کے نام کرتے ہیں:
”جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جانا نہیں چاہتا تھا، لیکن مجبوراً ایک بار میں نے وہاں بھی درخواست دی، وہاں گوپی چند نارنگ کی حکومت تھی، مسعود حسین خاں صاحب وائس چانسلر تھے، انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ میری کتابیں دیکھنا چاہتے ہیں، مجھے امید بندھی اور میں نے جلدی سے اپنی کتابیں انھیں پہنچا دیں۔نارنگ صاحب میری مخالفت پر آمادہ تھے، انھوں نے یہ بات پھیلا رکھی تھی کہ میں حسن صاحب سے زیادہ قربت رکھتا ہوں اور ان کے رسالے عصری آگاہی کا سارا کام میں ہی کرتا ہوں۔ محمد حسن صاحب نے عصری آگاہی کے بعض شماروں میں عابد حسین صاحب کے رسالے اسلام اور عصری آگاہی کے خلاف اداریہ لکھا تھا۔نارنگ صاحب نے عابد صاحب کو یہ کہہ کر کہ یہ اداریہ میرے لکھے ہوئے ہیں، انھیں میرے خلاف کردیا۔ سلیکشن کمیٹی کے دن مسعود حسین خاں صاحب خود میری کتابوں کا بنڈل لے کر آئے، لیکن میں وہاں بھی ناکام رہا، جب کہ عصری آگہی سے میرا کبھی کوئی کسی طرح کا تعلق نہیں رہا۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص: 336)
اسی طرح سے شارب ردولوی اپنی اہلیہ شمیم نکہت کی دہلی یونی ورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرری کو لے کر ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق کو وشواش گھاتک اور منافق تک کہہ ڈالتے ہیں، اقتباس ملاحظہ ہو:
”گرمیوں کی تعطیل میں ہم لوگوں کا پروگرام کچھ دنوں کے لیے لکھنؤ جانے کا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ وہ کسی ایسے ریڈر کو جارج دے کر جائیں جو چھٹیوں میں شعبہ میں موجود رہے، مجھ سے انھوں نے مشورہ کیا، میں نے کہا تمہارے بعد ڈاکٹر عبدالحق صدر شعبہ ہوں گے، اس لیے مناسب ہے کہ اس وقت بھی انھیں چارج دیا جائے اور شمیم نکہت عارضی طور پر انھیں چارج دے کر لکھنؤ چلی گئیں۔ ہم لوگ جب تقریباً ایک ماہ بعد واپس آئے تو عبد الحق صاحب یہاں کافی پھیر بدل کر چکے تھے۔ انھوں نے پروفیسر کی سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ طے کرادی تھی اور اپنی مرضی کے ممبر نامزد کرا دیے۔ شمیم نکہت کا تقرر پروفیسر کی حیثیت سے نہیں ہوا اور عبد الحق پروفیسر ہوگئے۔ یہ خاصی تکلیف دہ بات تھی، اس لیے کہ اب تک Personal Promotion میں کسی کو Reject نہیں کیا گیا تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ اگر شمیم نکہت اور ڈاکٹر عبد الحق دونوں پروفیسر ہوجاتے تو صدر شعبہ شمیم ہی ہوتیں، اس لیے کہ وہ عبد الحق سے بہت سینئر تھیں، اس لیے عبد الحق نے یہ سازش کی کہ ان کی تقرری نہ ہو جائے۔ میں نے پہلے سلیکشن کمیٹی کے ممبروں کے بارے میں معلومات فراہم کی تو معلوم ہوا کہ ایک صاحب ممبر ہونے کے اہل نہیں تھے، میں نے اپنے دوست پروفیسرخادم عباس (شعبہ فارسی) کی مدد سے ان کے کاغذات کی نقلیں منگوالیں اور ایک طرح کے کیس کی تفصیلات جمع کرکے اپنی یونی ورسٹی کی ایگزیکٹو کے ممبران سے ملا، ان میں بیشتر لوگ مجھ سے واقف تھے اور انھوں نے میری تائید کا وعدہ کیا۔ اس سلیکشن کمیٹی کا وہ فیصلہ ایگزیکٹو کی منظوری سے پہلے واپس لے لیا گیا اور ایک دوسری سلیکشن کمیٹی مقرر کردی گئی۔ جس نے ڈاکٹر شمیم کا نام پروفیسر کے لیے منظور کر لیا اور یونی ورسٹی نے بھی اپنی منظوری کی مہر لگا دی۔ عبدالحق صاحب جو بہ ظاہر بہت دوست اور محبت کرنے والے تھے ایسے منافق نکلیں گے یہ کبھی میں نے سو چا نہیں تھا۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص: 338)
شارب ردولوی اور ان کی اہلیہ شمیم نکہت کے پروفیسر قمر رئیس سے گھریلو تعلقات تھے، اکثر معاملوں میں یہ لوگ ان کو اور وہ ان کو مشورہ دیا کرتے تھے۔ اپنی اس آپ بیتی میں کئی جگہوں پر شارب ردولوی نے اس بات کو دہرایا ہے۔ مگر جب شارب ردولوی کے پروگریسو رائٹرز ایسو سی ایشن (PWA) کے سکرٹری بننے کی بات آئی تو قمر رئیس نے ان کے خلاف سازش کی. طلبہ و کارکنان کو لام بند کیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”ایک دن سری نواس لاہوتی مجھے مل گئے، باتوں باتوں میں انھوں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم لوگوں نے اس بار طے کیا ہے کہ انجمن کا جنرل سکریٹری آپ کو بنایا جائے اور ہم لوگوں کی پوری تیاری ہے۔ یہاں کے لوگوں سے بھی بات کر لیتا تو اچھا تھا، میں نے کہا کہ قمر رئیس یونی ورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی کانفرنس کی تیاری میں لگے ہیں، اس لیے ابھی ان سے گفتگو کا موقع نہیں ہے، بعد میں دیکھا جائے گا. انھوں نے کہا میں خود اس سلسلے میں ان سے بات کروں گا۔ٹیچرز کانفرنس میں اور لوگ بھی مصروف ہو گئے، کانفرنس کے آخری دن شب میں قمر رئیس نے ہم خیال اساتذہ اور اپنے شاگردوں اور ریسرچ اسکالرز کو جمع کرکے PWA کے مسائل پر گفتگو کی، مجھے اس سلسلے میں عمداً نظر انداز کیا گیا، دوسرے دن انھی شاگردوں میں سے دو ریسرچ اسکالر میرے گھر آئے اور اس مٹینگ کی پوری روداد بیان کی اور بتایا کہ قمر صاحب آٹھ ریسرچ اسکالز کو اپنے اخراجات سے حیدر آباد لے جائیں گے۔ جو ان کو وہاں سپورٹ کریں گے۔ باہر سے آئے بعض اساتذہ نے بھی ان کی مدد کا وعدہ کیا ہے، سب لوگ ساتھ ہی یہاں سے 8 مارچ کو روانہ ہوں گے۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:349)
پروفیسر شارب ردولوی مزید آگے لکھتے ہیں:
”میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے، قمر رئیس تو میرے دوستوں میں تھے، میں کسی بھی شخص سے الیکشن کے لیے تیار نہیں تھا۔ دو ایک دن میں بہت پریشان رہا، مجھے تعجب تھا کہ قمر صاحب جو میرے (ہم لوگوں کے) قریب ترین دوستوں میں ہیں وہ یہ جانتے ہوئے کہ بہت سینئر لوگ میرا نام تجویز کرنے والے ہیں، انھوں نے پورا محاذ بنالیا۔مجھے افسوس تھا کہ ایک اچھے بھلے دوست کو میں PWA کے سلسلے میں کھو دوں گا۔ بالآخر ایک ہی راستہ میری سمجھ میں آیا کہ میں اپنا ریزرویشن رد کرا دوں اور کسی کو اس کی اطلاع نہ دوں کہ میں نہیں آرہا ہوں اس طرح وہ محاذ ختم ہو جائے گا. میں نے خاموشی سے اپنا اور شمیم کا ریزرویشن Cancel کرادیا اور کانفرنس کے منتظمین کو کوئی اطلاع نہیں دی۔ میں کانفرنس میں شریک ہونا چاہتا تھا، اس لیے نہیں کہ اس میں مجھے کسی عہدے کی خواہش تھی بلکہ ان نظریاتی مباحث میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ بعد میں راج بہادر گوڑ وغیرہ نے بہت شکایت کی کہ آپ کو آنا ضرور چاہیے تھا، میں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں تھا کہ ترقی پسند مصنفین بھی اپنے فیصلے ووٹ سے طے کرنے لگیں، ہم پڑھے لکھے سنجیدہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، اگر ہم اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے تو کون کرے گا۔ لیکن مجھے قمر صاحب کے اس رویے کا سخت ملال اس لیے رہا کہ ہم لوگ دو دوستوں نہیں دو بھائیوں کی طرح رہے ہیں، وہ اپنے خاندانی اور نجی معاملات میں مجھ سے مشورہ کرتے تھے اور میرے نجی معاملات میں مجھے مشورہ دیتے تھے، اس طرح ہمارا ایک گھریلو رشتہ تھا اور ایسے رشتوں کے درمیان اس طرح کے عہدے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:349)
شارب ردولوی کا خیال ہے کہ اردو تنقید کی نیّا کو "ردّ تشکیل" تک پہنچانے کا سہرا ان کے ہی سر ہے، اس سلسلے میں وہ پاکستان کے مشہور محقق و ناقد وزیر آغا پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے میری تحریروں سے استفادہ تو کیا مگر اپنی کسی تصنیف میں میرا حوالہ نہیں دیا۔ اسی طرح وہ گوپی چند پر بھی الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ Deconstruction کا ترجمہ میں نے ہی پہلی بار "رد تعمیر" کیا تھا۔ مگر گوپی چند نارنگ نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے اس کا ترجمہ "رد تشکیل" کر لیا. اقتباس ملاحظہ ہو:
”انھوں (وزیر آغا) نے کہا کہ آپ اردو تنقید کو Deconstruction تک لے آئے۔ اردو تنقید میں Deconstruction پر سب سے پہلے میں نے ہی قلم اٹھایا اور اسے ادبی تنقید سے زیادہ ایک فلسفیانہ بحث قرار دیا تھا۔ میں نے ہی سب سے پہلے Deconstruction کا اردو مترادف "رد تعمیر" استعمال کیا تھا، وزیر آغا دیر تک اس موضوع پر مجھ سے گفتگو کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں جب Deconstruction کا ذکر کیا تو "ردتعمیر" کے علاوہ ایک نئی خود ساختہ اصلاح بھی استعمال کی۔ گوپی چند نارنگ نے شروع کے مضامین میں رد تعمیر استعمال کیا لیکن اس کے بعد انھوں نے اسے رد تشکیل سے تبدیل کردیا. بہرحال یہ ادب میں بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنی بالا دستی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وزیر آغا صاحب اردو تنقید کے بارے میں ہی گفتگو کر رہے تھے، مجھے ایسا لگا کہ آئندہ وہ اس سلسلے میں جو کچھ بھی لکھیں گے اس میں میری کتاب سے استفادہ کا ذکر ہوگا لیکن یہ میری خوش فہمی ثابت ہوئی، انھوں نے کتاب ضرور لکھی لیکن اس میں اس سلسلے میں میری کتاب کا کوئی حوالہ موجود نہیں تھا۔"
(نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:296)
پروفیسرقاضی عبدالستار نے اپنے کئی انٹرویو میں کہا ہے کہ ہر ادیب میں کسی نہ کسی درجے میں انانیت موجود ہوتی ہے، یہی بات قاضی صاحب سے بہت پہلے مولانا ابوالکلام آزاد اپنے غبار خاطر کے خطوں میں کہہ چکے ہیں، شارب ردولوی کو قاضی کی یہ باتیں بالکل ہی پسند نہیں، اقتباس ملاحظہ ہو:
”قاضی عبد الستار (لکھنؤ) یونی ورسٹی میں ایم. اے فائنل میں تھے، شعر بھی کہتے تھے اور افسانے بھی لکھتے تھے، شاعری کے سلسلے میں تو کبھی کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں کی، مولوی گنج کے اس مکان میں جہاں وہ قمر رئیس اور اولاد احمد رہتے تھے، ان کا افسانہ سننے ضرور ہم لوگ پہنچ جاتے. مزاجاً تھوڑے خود سر یا احساس برتری کا شکار وہ اس وقت بھی تھے، اس لیے لوگ ان سے گھل مل نہیں پاتے تھے۔ ہم لوگوں کے سینئر تھے، اس لیے ہم لوگ عزت کرتے تھے۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:450)
اس سلسلے میں شارب ردولوی کا قاضی صاحب کے سلسلے میں درج ذیل اقتباس بھی بڑا دل چسپ ہے جس میں پروفیسر آل احمد سرور پہلے سے طے شدہ پروگرام کو نظر انداز کرکے شارب ردولوی کے مقالے کو سننے کی فرمائش کرتے ہیں، مگر جب یہی بات پروفیسر قاضی عبدالستار اپنے مقالے کے سلسلے میں سرور سے کہتے ہیں جو رواں نشست ہی میں پیش کیا جانا ہے تو سرور صاحب سننے سے صاف انکار کردیتے ہیں، اور اپنے گھر کا راستہ لیتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”سرور صاحب وہیل چیئر سے تشریف لائے تھے، بہت کمزور ہو گئے تھے۔ ہال میں بھی وہ وہیل چیئر پر ہی بیٹھے رہے۔ ایک بار درمیان میں انھوں نے مجھ سے پوچھا تمھارا مقالہ کب ہے۔ میں نے عرض کیا دوسرے سیشن میں، انھوں نے اصغر عباس صاحب جو ڈائریکٹر سیمینار تھے؛ سے کہا وہ میرا مقالہ سننا چاہتے ہیں، اس لیے اصغر عباس نے مہمان خانے سے مقالہ منگوانے کا انتظام کردیا اور میں نے اسی سیشن میں مقالہ پیش کیا۔ سرور صاحب مقالہ سن کر بہت خوش ہوئے، بلاکر تعریف کی اور واپس جانے لگے تو قاضی عبدالستار نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کا مقالہ بھی سن کر جائیں لیکن سرور صاحب نہیں رکے اور سیشن کے آخری مقالے سے پہلے واپس چلے گئے، یہ میرے لئے ان کی محبت تھی جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔" (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:178)
اسی طرح سے جے. این. یو میں دوران ملازمت نصیر احمد خاں سے ان کی جو پُر خاش رہی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بھی یہاں پر ذکر کردیا جائے، شارب ردولوی اپنی جاب کی ایکٹیشن کی راہ میں نصیر احمد خاں پر روڑا بننے کا الزام لگاتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”جے. این. یو کے 8 سال کے قیام میں صرف ایک تکلیف دہ واقعہ میرے ساتھ ہوا لیکن اس میں پوری جے. این. یو ٹیچرز ایسوسی ایشن نے میرا ساتھ دیا اور وائس چانسلر سے اپنا آڈر واپس لینے کا مطالبہ کیا. ہوا یہ کہ ڈاکٹر نصیر احمد خاں میرے جے. این. یو میں تقرر سے ناراض تھے، وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان کا حق تھا، انھوں نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ مجھ سے کتنا جونیئر ہیں، اس لیے ہمیشہ وہ وائس چانسلر سے میری شکایتیں کرتے رہتے تھے، اس لیے انھوں نے ریٹائرمنٹ کے وقت میرا Extention رکوادیا، بہرحال کسی طرح اس میں بھی مجھے کامیابی ہوئی اور یونی ورسٹی نے میری ملازمت میں 5 سال کی توسیع کردی۔"
(نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص:340)
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد لکھنؤ میں قیام کے دوران ایک خاص واقعہ جس کا شارب ردولوی نے خاص طور سے اپنی اس آپ بیتی میں ذکر کیا ہے، وہ ہے مشہور ناظم مشاعرہ انور جلال پوری کا، جنھوں نے کہ خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونی ورسٹی میں اپنے بیٹے کی تقرری نہ ہونے کے سبب شارب ردولوی کو نئے وی سی خان مسعود کے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ انھوں نے یہاں پر خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر انیس انصاری کا بھی ذکر کیا ہے جو اپنے دور وائس چانسلری میں توسیع نہ ہونے کے سبب خان مسعود کے خلاف خار کھائے بیٹھے ہوئے تھے، اقتباس ملاحظہ ہو:
”ماڈل ٹاؤن چھوڑنے کے بعد میں اپنی ذاتی زندگی کی الجھنوں میں ایسا گرفتار ہوا کہ بہت کچھ بھول گیا اور سنہ 2000 میں ریٹائر ہو کر ہم دونوں لکھنؤ چلے آئے اور پھر لکھنؤ کی ادبی تحریکوں میں اور ادبی سیاست میں بھی الجھ گئے، ایک دن مشہور ناظم مشاعرہ انور جلال پوری صاحب تشریف لائے، وہ خواجہ معین چشتی اردو عربی فارسی یونی ورسٹی کے ممبر تھے، آکر نئے وی. سی خان مسعود صاحب؛ جن کا تقرر انیس انصاری صاحب کی جگہ پر ہوا تھا، ان کی بہت شکایتیں کی کہ یونی ورسٹی سے اردو ختم کر رہے ہیں، اسٹاف کی تقرری میں جو اردو جاننے کی شرط تھی اس کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور نہ جانے کیا کچھ۔ میں نے کہا کہ یہ بات نامناسب ہے اور اس کے خلاف احتجاج ہونا چاہیے۔ اس کے پس پشت پوری سیاست کارفرما تھی کہ انیس انصاری صاحب کو توسیع کیوں نہیں دی گئی اور خود انور جلال پوری صاحب کے بیٹے کا تقرر کیوں نہیں ہوا، مجھے اس کا علم تھا اور نہ وقار صاحب کو، بہرحال وقار صاحب کے یہاں میٹنگ طے ہوئی، انیس انصاری صاحب کو بھی بلوایا گیا اور دوسرے دن اخبارات میں پروفیسر خان مسعود کے خلاف ایک لمبی چوڑی سرخی کے ساتھ خبر شائع ہوگئی۔ ہم دونوں یعنی میں اور وقار رضوی سمجھ دار لوگوں کی سیاست کا شکار خوش تھے کہ اردو کی بقا اور فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں …… (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص: 119)
پروفیسر عقیل رضوی نے سید احتشام حسین پر اپنے ایک مضمون میں الزام لگایا ہے کہ وہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی کتاب پر مقدمہ لکھنے کے لیے تیار بیٹھے رہتے تھے، جس کی وجہ سے گئے گزرے لوگ بھی خود کو عظیم شاعر و ادیب سمجھنے لگے تھے۔ احتشام حسین صاحب سید عقیل رضوی کے ساتھیوں میں تھے، بہت حد تک یہ بات ان کے لیے روا سمجھی جاسکتی ہے، مگر جب شارب ردولوی 2022 میں اپنی یہ آپ بیتی شائع کراتے ہیں تو وہ بھی احتشام حسین صاحب کا شاگرد ہونے کے باوجود اس ذیل میں ان کے خلاف لکھنے سے گریز نہیں کرتے ہیں، جب کہ اس بات کو اپنی بدتمیزی پر بھی محمول کرتے ہیں، اقتباس ملاحظہ ہو:
”احتشام صاحب ہر ایک کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ ہم لوگوں کی مدد تو وہ تکلیف اٹھا کر بھی کرتے تھے، مثلاً میرے لیے "گل صد رنگ" کی تدوین کے موقع پر انھوں نے بیسوں شعرا کو اپنی غزلیں بھیجنے کے خط لکھے۔ ان کی ایک خاص بات تھی، وہ ہر ایک کی کتاب کے لیے مقدمہ اور پیش لفظ لکھنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ میں اکثر ان سے کہتا آپ منع کیوں نہیں کر دیتے، آپ کا وقت ضائع ہو تا ہے، کہتے کیا کروں، نہیں چاہتا ہوں پھر بھی منع نہیں کر پاتا، ایک بار اسی طرح کی ایک بات اور میں نے کی، حالانکہ اب وہ "جرأت بیجا" مجھے بدتمیزی لگتی ہے۔ لیکن یہ صرف میری ان سے محبت کی بات تھی کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ ان مقدموں کے بجائے ایک کتاب کسی موضوع پر لکھ دیجئے، اس سے لوگوں کی رہنمائی ہوگی، انھوں نے بہت سادگی سے جواب دیا: وقت نہیں ملتا، ایک کام کر رہا ہوں، جوش پر ایک کتاب لکھ رہاہوں تقریباً آدھی ہو گئی ہے مکمل نہیں کر پارہا ہوں۔"
(نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، ص: 173)
پروفیسر شارب رودولوی کے ان بیانات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود ان کی آپ بیتی رد تشکیل کی تھیوری کا شکار ہونے سے نہ بچ سکی۔ ایسے میں ان کی خودنوشت کو زبان و بیان کے اعتبار سے قابل مطالعہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن بیانیے کے اعتبار سے یہ اعلا درجے کی خودنوشت کے زمرے میں شامل ہونے سے قاصر ہے۔ (ختم شد)
***
صاحب نگارش کی گذشتہ تحریر :

ژاک دریدا کا فلسفہ "ردّ تشکیل" اور شارب ردولوی کی آپ بیتی
شیئر کیجیے