مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
اس وقت ہندستان میں سماجی، سیاسی اور ملی خدمت کرنے والوں کے لیے مرکز تحقیق مسلمان ہیں، دشمنان اسلام مسلمانوں کو تہذیبی اعتبار سے ختم کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، وہ اندلس اور اسپین کی تاریخ پر غور کر رہے ہیں کہ وہاں مسلمان سینکڑوں سال کی حکومت کے بعد کس طرح نیست و نابود کیے گئے، کئی لوگ، کئی ادارے اور تنظیمیں مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور پرسنل لا پر اعتراضات کرکے مسلمانوں کا درجۂ حرارت ناپنے کے لیے سر گرم ہیں، اس کے لیے انھوں نے مختلف محاذ کھول رکھے ہیں، کوئی ناموس رسالت پر حملہ کرکے مسلمانوں کو ہراساں کرنے میں لگا ہو اہے، کوئی سفر کے دوران بس و ٹرین میں مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسے زد وکوب کرکے اس کے صبر کا امتحان لے رہا ہے، سیاسی حضرات کے یہاں بھی مسلمان ہی مرکز توجہ ہیں، کبھی ووٹ بینک کے طور ان کا استعمال کرنے اور کبھی مختلف کمیشن کے ذریعہ ان کے احوال جاننے، ان کی پس ماندگی کو سمجھنے اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے تگ ودو کی جارہی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مرکزی حکومت نے ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنگا ناتھ مشرا کی قیادت میں ’’قومی کمیشن برائے مذہبی اور لسانی اقلیتں‘‘ قائم کیا تھا، تاکہ سماجی، اقتصادی، اور لسانی اقلیتوں کی نشان دہی کرکے ان کے لیے ریزرویشن کی تجویز پیش کی جا سکے، اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۲۱؍ مئی ۲۰۰۷ء کو حکومت کو پیش کر دیا، جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ۱۹۵۰ء کے شیڈولڈ کاسٹ آرڈر سے مذہب کی قید ہٹالی جائے تاکہ ایس، سی (SC) زمرے میں ہندو، بدھ اور سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی شمولیت ہو سکے، اس کمیشن نے مسلم اقلیتوں کے لیے دس فی صد اور دیگر اقلیتوں کے لیے پانچ فی صد کی سفارش کی تھی، کمیشن نے ریزرویشن میں رخنہ پیدا ہونے کی صورت میں متبادل راستہ اختیار کرنے پر زور دیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ او بی سی (OBC) کے لیے منڈل کمیشن نے 27 فی صد ریزرویشن کی بات کہی ہے، اس ریزرویشن میں اقلتیں 27 فی صد کا 8.4 فی صد ہیں، اس لیے OBC کے تحت دیے جانے والے ریزرویشن میں سے 8.4 فی صد ان کے لیے مختص کرنا چاہیے، اس رپورٹ کے نفاذ کے لیے حکومت مجبور نہیں تھی، اس لیے کہ اس نے اس کمیشن کو کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت نہیں بنا یا تھا، اس کمیشن نے انکشاف کیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے، بلکہ بہت سارے محکمے مسلمانوں سے خالی ہیں اور ان میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، اس رپورٹ کو صرف مغربی بنگال نے ریاستی طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا، لیکن کمیونسٹ حکومت کے تیس سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالے کی کوئی شکل نہیں بن سکی۔
۹؍ مارچ ۲۰۰۵ء کو یو پی اے کی سرکار نے ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعہ مسلمانوں کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس راجندر سنگھ سچر کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی، یہ من موہن سنگھ کا دور وزارت تھا، کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۶ء کو وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے ۳۰؍ نومبر کو پارلیامنٹ کے سامنے رکھا، اس رپورٹ کا بڑا چرچا رہا، کمیٹی نے مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لے کر اس سمت میں جس اقدام کی ضرورت پر زور دیا، ان میں محروم طبقات خصوصا اقلیتوں کے لیے ’’یکساں مواقع کے حصول کا کمیشن‘‘ EQUAL OPRORTUNITY Commission کے قیام کی تجویز رکھی تھی، کمیٹی کا خیال تھا کہ عوامی اداروں میں اقلیتوں کی حصہ داری بڑھانے کے لیے نامزدگی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، اس نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ایک ایسا حد بندی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو اس بات پر نگاہ رکھے کہ بڑی آبادی والے حلقوں کو (S.C) کے لیے ریزرو نہ کیا جائے، کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ مدارس کے نظام کو ہائر سکنڈری کی تعلیم سے مربوط کیا جائے، اور مدارس کی اسناد کو دفاع، سول اور بینکنگ اداروں کے امتحانات کے لیے تسلیم کیا جائے۔
اس کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لے کر بتایا کہ پورے ملک میں خواندگی کی شرح 64.8 فی صد ہے، جس میں ہندوؤں میں 65.1، مسلمانوں میں 59.1 ایس سی ایس ٹی میں 52.8 اور دیگر 70.8 فی صد ہیں۔ مختلف سرکاری محکموں کی ملازمتوں کا جائزہ لے کر اس کمیٹی نے بتایا کہ مسلمان آئی اے ایس میں 3.0، پولس دفاعی اور حفاظتی عملوں میں 4.0 محکمہ تعلیم (ریاستی )میں 6.5 پولس کانسٹیبل میں 6.4 محکمۂ ٹرانسپورٹ میں 6.5 آئی ایف ای میں 1.8 انڈین ریلویزمیں 4.5 محکمہ داخلہ (ریاستی)میں 7.3 محکہ صحت میں 4.5 عدلیہ میں 7.8 فی صد ہیں، یعنی 8 فی صد بھی نہیں ہیں۔ جب کہ مطالبہ دس فی صد کا ہوتا رہا ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات پر جزوی عمل در آمد کے بعد پروفیسر امیتابھ کنڈو کی قیادت میں اگست ۲۰۱۳ء میں حکومت نے ایک نئی کمیٹی بنائی تاکہ مسلمانوں کی آبادی، بے روزگاری، طرز زندگی، معیار زندگی، پس ماندگی، اوقاف کی جائیداوں، عام تعلیمی پالیسی اور صحت کی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے، کمیٹی نے ۲۰؍ ستمبر ۲۰۱۴ء کو اپنی رپوٹ سرکار کو سونپ دی، جس میں سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جو اقدامات کیے گیے، اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید اقدام کی ضرورت پر زور دیاگیا، کمیٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے کہ جو اقدام مسلمانوں کے لیے کیے گئے وہ بھی ان تک براہ راست اور مؤثر انداز میں نہیں پہنچ سکے، ٹرینڈ افراد کی بحالی پر بھی توجہ نہیں دی گئی، جن امور کی انجام دہی کے لیے سرکار مستعد تھی، اس کے لیے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات کم آئے، اس لیے مقامی سطح پر اس ضمن میں کامیابی کا گراف بہت نیچے رہا، اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود بھی جس طرح کی مستعدی دکھانی چاہیے تھی وہ دیکھنے میں نہیں آئی۔
اس سلسلے میں مہاراشٹر کے لیے قائم محمود الرحمن کمیٹی کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے، جس میں مسلمانوں کو ہاؤسنگ پروجیکٹ، تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں 8 فی صد ریزرویشن دینے، مسلمانوں کے کمزور طبقات کو OBC میں مسلمان دلتوں کو شیڈولڈ کاسٹ کے زمرے میں شامل کرنے، اقلیتی ترقیاتی محکموں کو مضبوط کرنے، ریاستی اقلیتی کمیشن کو بااختیار بنانے، وقف املاک کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرانے، مسلمان طلبہ کے لیے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک وظائف کی شرطوں کو نرم کرنے، مسلم اکثریت والے علاقوں میں اعلا تعلیمی اداروں کے قائم کرنے اور ایس سی، ایس ٹی کے طرز پر مسلمانوں کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کی سفارش کی تھی، قانون تو بنا نہیں مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرو سے کھلواڑ کرنے کی روایت چل پڑی، آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں و خوف زدہ کیا جا رہا ہے، ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے، مساجد بھی محفوظ نہیں ہیں، انھیں دوسرے درجہ کے شہری بنانے کے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے، تاریخ کو مسخ کرکے مسلم عہد حکومت کی تاریخی عمارتوں اور شہروں کے نام بدلنے کی ایک مہم چل رہی ہے، تباہی و بربادی کی داستان طویل ہوتی جا رہی ہے، ہمارے وزیر اعظم ان موضوعات پر زبان نہیں کھولتے، جس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں، انھیں ’’من کی بات‘‘ سننے کی فرصت نہیں ہے، وہ صرف ’’من کی بات‘‘ کہنا جانتے ہیں، جس طرح آمریت میں ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے یہاں کی جمہوریت دو آدمی کے گرد گھوم رہی ہے، نہ کسی وزیر کی چلتی ہے اور نہ کسی اور کی، سب اپنی کرسی کو بچائے رکھنے کے لیے مودی مودی کے نعرے بلند کرنے میں لگے ہیں، ظاہر ہے، ان حالات میں صرف مسلمان ہی نہیں ملک کا مستقبل خطرے میں ہے، جمہوریت کی ساری بنیادیں منہدم ہو گئی ہیں، پندرہ سو قوانین میں ترمیم کی جا چکی ہے، یکساں سول کوڈ اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہیں، مسلمانوں کے حوالے سے ساری کمیٹیوں کی رپورٹیں سرد خانے میں چلی گئی ہیں، ہو سکتا ہے کمیٹیوں کی تشکیل آئندہ بھی ہو۔کمیٹیاں بنتی رہیں گی، کمیشن کے ذریعہ مرض کی تشخیص کرائی جائے گی، لیکن اپنی حالت کے سدھارنے کا احساس جب تک خود مسلمانوں میں نہیں ہوگا، حقوق کی بازیافت کی جد وجہد کا حوصلہ نہیں ہوگا، صورت حال نہیں بدلے گی اور بقول شاعر یہ مسئلہ زیر غور ہی رہے گا۔
سارے جہاں کی شام غم صبح بہاراں بن گئی
میری سحر کا مسئلہ اب بھی زیر غور ہے
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مولانا عبدالرشید قاسمی

میری سحر کا مسئلہ اب بھی زیر غور ہے
شیئر کیجیے