ڈاکٹر غزالہ بی
شعبۂ فارسی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ہندستان کی موجودہ تہذیب اور ترقی میں ملک کی روحانی وراثت کو بڑا دخل ہے۔ حسن و عشق کی طرح تصوف بھی اردو شاعری کا ایک اہم حصہ ہے۔ اردو شاعری نے تصوف کے خوش گوار اور محبت بھرے ماحول میں اپنی آنکھیں کھولیں اور آغوش تصوف میں پرورش بھی پائی۔ یہی سب سے اہم وجہ ہے کہ حسن و عشق کی طرح تصوف بھی اردو اور فارسی شاعری کا خاص موضوع رہا ہے اور روایتی شعرا کے یہاں بھی تصوف کے موضوع سے متعلق کچھ نہ کچھ کلام ضرور پایا جاتا ہے. اگرچہ تصوف ان کی شاعری کا خاص موضوع بھی نہ رہا ہو۔ مذہب،تہذیب،اخلاق،قومی یک جہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی،حب الوطنی،میل محبت اور انسان دوستی کی روایت پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ اعلا انسانی اقدار کے فروغ میں صوفی شعرا کا ایک اہم رول رہاہے اور ان صوفی شعرا نے نہ تو اپنی شاعری کو ذریعہ معاش بنایا اور نہ اپنی شہرت و ناموری کے لیے طبع آزمائی کی بلکہ وہ عقیدت و محبت اور خلوص کے ساتھ اعلا انسانی اقدار کے فروغ کی کوشش کرتے رہے اور اپنی اعلا تعلیمات و خدمات سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی متاثر کیا۔ اپنی تعلیمات کے توسط سے صوفیائے کرام نے ایک ایسا نظام زندگی پیدا کر دیا جو اعلا انسانی اقدار میں کسی انمول عطیہ سے کم نہیں۔ ان کی تعلیمات کا اثر آج بھی دور دور تک اپنا اثر قائم کیے ہوئے ہے۔
روہیل کھنڈ کے صوفی شعرا نے بھی انسانی اقدار کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا اور لوگوں کے ذہن و دل منور کرنے میں ان صوفی شعرا کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔انھوں نے اپنے کلام کے ذریعہ لوگوں کی رہ نمائی کی اور اعلا تعلیمات سے بھی نوازا۔
روہیل کھنڈ کے صوفی شعرا کا ذکر آتے ہی شہر رام پور کے صوفی شعرا کا خیال ذہن میں آنا لازمی بات ہے کیونکہ رام پور وہ متبرک سرزمین اور وہ زرخیز خطہ ہے جہاں پر بہت سے بلند پایہ شعرا پیدا ہوئے اور انھوں نے دین کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے بھی بے پناہ خدمات انجام دیں اور اسی تناظر میں حافظ احمد علی خاں شوق نے ١٩١٤ء میں شہر رام پور کے اہل کمالات کے حالات، تحقیق کرکے ایک نایاب اور قیمتی تذکرہ مرتب کیاجو ”تذکرہ کاملان رام پور“ کے نام سے موسوم ہے۔ اس تذکرہ میں شاہ رؤف احمد مجددی رافت، مولوی غلام جیلانی رفعت، مولانا غیاث الدین عزت، شاہ محمد پیر مجذوب، مولوی سید نظام الدین خاں، محمد ابراہیم خاں عرف نوشہ خاں، میاں احمد شاہ پیر جی، سید وزیر علی شاہ وزیر، مولوی فقیہ الدین فقیہ، مولوی سید حسن شاہ صاحب اپنے عہد کے بہترین صوفی شعرا میں شامل ہیں۔
رام پور کے شعرا میں ایک نام سید درویش احمد قادری عرف موتی میاں ثروت کا بھی ہے جو نہ صرف کہنہ مشق غزل گو تھے بلکہ صوفی شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ متصوفانہ شاعری پر مبنی ہے۔
آپ کا نام سید احمد درویش قادری، عرفیت موتی میاں اور تخلص ثروت ہے۔ موتی میاں ثروت کا مولد و مسکن شہر رام پور ہے۔ آپ کے والد ماجد کا نام غلام محی الدین شاہ تھا۔ موتی میاں ثروت ١٩١٨ء میں پیدا ہوئے۔گھریلو تعلیم کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں اچھی استعداد کے مالک بنے۔ مدرسہ عالیہ رام پور میں داخلہ لیا اور درس نظامی میں فارغ التحصیل ہو کر پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے منشی عالم و فاضل کی اسناد حاصل کیں۔
موتی میاں ثروت کے دادا سید شاہ قطب الدین صاحب قادری رزاقی المعروف قطبی میاں، سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ شاہ عبد الرزاق بانسوی کے سلسلے کے بزرگ تھے اور آج ایک پورا محلہ ”قطبی میاں کے پھاٹک“ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
ثروت صاحب بھی شروع سے ہی سلسلۂ قادریہ رزاقیہ سے منسلک تھے اور اپنے والد ماجد شاہ غلام محی الدین صاحب سے بیعت تھے اور قطبی میاں صاحب کی درگاہ کے سجادہ نشین تھے۔ ثروت صاحب کے مریدین ملک و بیرون ملک میں آج بھی موجود ہیں۔
ثروت صاحب صوفی منش بزرگ تھے۔ مریدین و معتقدین کی بھیڑ، خدمت سجادگی اور سلسلۂ قادریہ کی ترویج و اشاعت کے کاموں میں مصروفیات کے باوجود لکھنے پڑھنے کا وقت بھی نکال لیتے تھے اور آپ کو نظم و نثر دونوں سے دل چسپی تھی۔ ان کی اپنے مسلک سے متعلق دو کتابیں ”فیضان تصوف“ اور ”عرفان تصوف“ شائع ہو کر شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
ثروت صاحب کو شاعری کا فطری ذوق و شوق تھا اور طبیعت شعروسخن کی طرف مائل تھی۔ مدرسہ عالیہ میں سید اولاد حسین شاداں بلگرامی صاحب کی قربت کا بھی موقع ملا جس سے ثروت صاحب کا ذوق سخن گوئی پروان چڑھا اور ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد سلسلۂ داغ کے معروف شاعر محمود علی خاں محمود رام پوری کے تلامذہ میں شامل ہوئے۔ فطری استعداد، ذوق و جستجو، موزونیِ طبع اور استاد کی توجہ و دل چسپی سے جلد ہی کلام میں پختگی آگئی۔ جذب میں ڈوبے ہوئے الفاظ نے کشش اور اثر پیدا کیا اور ان کا شمار اچھے استاد شعرا میں کیا جانے لگا۔ یہاں ان کی عشقیہ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جب تم نہیں تو دل ہے بیابان آرزو
تم مل گئے تو رشک گلستان آرزو
اب تاب انتظار نہیں جان آرزو
سونی پڑی ہے محفل ارمان آرزو
موتی میاں ثروت نے کس طرح سے شیریں احساسات و جذبات کا اظہار حسین پیرائے میں پیش کیا جو ان کی استادانہ مہارت کا ثبوت پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
موتی میاں ثروت اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہا کرتے تھے۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علی وسلم بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ کہتے تھے۔ مندرجہ ذیل نعت کے اشعار میں ان کی عقیدت و احترام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
جو دربار خیرالبشر دیکھ آئے
وہ فردوس میں اپنا گھر دیکھ آئے
بچھانا پڑیں ان کے رستے میں آنکھیں
جو سرکار کی رہ گزر دیکھ آئے
ایک دوسری نعت پاک میں وہ اپنے قلبی جذبات و احساسات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
میں ہوتا ہوں جس دم گناہوں پہ نادم
مرا منھ دھلاتی ہے رحمت تمھاری
سوال نکیرین پر قبر میں بھی
سنائے گا نعتیں یہ ثروت تمھاری
موتی میاں صاحب کے انداز بیان میں شگفتگی و شائستگی، سادگی اور روانی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ ان کی یہ غزل بھی ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اس میں کیسی صوفیانہ نزاکتیں اور لطافتیں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں:
نظر تو کثرت جلوہ سے ہو گئی خیرہ
دل و جگر کو بھی کچھ زخم دار ہونے دو
سر نیاز نہ ٹھکراؤ اپنے در سے مرا
ذرا اسے بھی تو سجدہ گزار ہونے دو
اور اس غزل کا مقطع اس طرح ہے:
بیاد گیسوئے خم دار اپنا دل ثروت
ادا شناس غم روز گار ہونے دو
ثروت صاحب آخری عمر میں امراض سینہ میں مبتلا ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۹/فروری١٩٨٤ء کو وہ اس جہان فانی سے عالم جاودانی کو سدھا ر گئے اور آپ شہر رام پور میں اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موتی میاں ثروت نے دو دیوان ”سعی ناکام“ اور نقش پارینہ“ یادگار چھوڑے ہیں جو غالباً اب تک زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔
بہرحال صوفی شعرا نے عشق حقیقی میں اپنے آپ کو فنا کر دیا اور اپنی تعلیمات، اپنی ہم دردیوں اور اپنی محبتوں سے دنیا کے لوگوں کو پیار و محبت، خلوص و وفا، ایثاروقربانی، قومی یک جہتی، علم و عمل اور تہذیب کا ایسا درس دیا جو آج بھی صدقۂ جاریہ کی شکل میں جاری و ساری ہے اور بلا شبہ ان قابل احترام اور بزرگ شعرا میں ایک اہم نام موتی میاں ثروت کا بھی ہے۔ ایسے ہی پاکیزہ نفوس کے لیے جذبوں سے سرشار ہو کر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
ڈاکٹر غزالہ بی کی یہ نگارش بھی پڑھیں: حضرت شاہ بلاقی صاحب :سوانح اور ملفوظات

سید درویش احمد قادری موتی میاں ثروت رام پوری
شیئر کیجیے