’تواریخ عجیبہ‘ کی روشنی میں (١٦٣٥ء -١٧٢٦ء)
ڈاکٹر غزالہ بی
شعبۂ فارسی
جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
رضا لائبریری رام پور کے مذکورہ بالا مخطوطے کے مصنف جناب سید محمد نثار علی رام پوری ہیں۔مخطوطے کا موضوع تذکرۂ صوفیا ہے۔ یہ مخطوطہ چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مخطوطہ کا درآمد نمبر ١٩٨ اور کال نمبر٢٠٩ ہے۔ یہ مخطوطہ بڑے سائز میں ہے۔ ہر صفحہ پر ١٥ سطور دی گئی ہیں۔ مخطوطے کا کاغذ دبیز، پیلاہٹ لیے ہوئے ہے اور روشنائی کالی ہے۔ پیراگراف بدلنے کے بجائے ’نقل ہے‘ لکھ دیا گیا ہے اور مخطوطہ پورے تسلسل کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس مخطوطے کی کتابت ١٣/شعبان ١٣٣٣ھ مطابق ٢٨/جون ١٩١٤ء میں ہوئی۔ مخطوطے میں کل سات اولیائے کرام کا تذکرہ ہے اور اس کے علاوہ رسالہ ’چہل خواب‘ کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے۔ حضرت شاہ بلاقی صاحب کا تذکرہ صفحہ نمبر ٣٤٩ سے ٤٤٦تک ہے۔ اس مخطوطے میں جن اولیائے کرام کا تذکرہ ہے ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
۱۔ سید منیر علی صاحب ۲۔ سید محمد رستم علی صاحب
۳۔ حافظ محمد امین صاحب نہٹوری ۴۔ حضرت شاہ بلاقی صاحب
۵۔ سید محمد منصور علی رام پوری ۶۔ مولوی محبوب علی صاحب
۷۔ مولانا سید جمال الدین صاحب
آپ کا نام نامی ’شاہ بلاقی‘ لقب گرامی ’بولن‘ اور کنیت ’سابولامی‘ ہے۔ حضرت شاہ بلاقی صاحب خلف اشرف حضرت سید خواجہ علی بن ناصر بن سید ولایت علی بن سید محمد علی سید ناصر علی صاحب۔ شاہ بلاقی صاحب کے والد گرامی پشاور سے شاہ جہاں آباد تشریف لائے اور قصبہ شیر کوٹ میں سکونت اختیار کی۔ ولادت شریف حضرت شاہ بلاقی صاحب کی ١٠٤٣ ہجری میں ہوئی۔ عمر شریف آپ نے ٩٦ سال کی پائی۔ حضرت کے والد ماجد نے آپ کی شادی کم عمری میں ہی قصبہ سیوہارہ میں کر دی تھی۔ ابتدائے حال میں اپنا تمام وقت عبادت الٰہی میں گزارا۔ شاہ صاحب یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور فقیروں کی خدمت اپنے اوپر لازم سمجھتے تھے۔ شاہ بلاقی صاحب ہر شخص سے اس سوال کا جواب چاہتے تھے کہ پیدا کرنے والا کہاں ہے؟
اکثر وہ اپنے محلے کے گھروں کے گھڑے وغیرہ پانی سے بھر دیا کرتے تھے اور جو لوگ ہاتھ پیروں سے معذور ہوتے ان کی خدمت کیا کرتے تھے۔ لوگ متعجب ہو کر کہتے کہ باؤلا ہو گیا ہے لیکن اس شعر کے موافق:
ہر کہ خدمت او مخدوم شد ہر کہ خود را دیدہ او محروم شد
لیکن ان کا سوال اپنی جگہ قائم تھا کہ کہاں ہے ہمارا آفرینندہ؟ من وجد فوجد یعنی جس کسی نے ڈھونڈا پایا۔ صورت مراد کی آئینہ حصول میں جلوہ نما ہوئے۔حضرت سید محمد باقر صاحب فرزند مکرم اور خلیفہ معظم حضرت غوث الاعظم جناب صاحب لولاک اور حضرت غوث پاک سے شاہ صاحب کی تلقین کے واسطے غوث پاک سے بشارت پائی اور انھی سے سایہ پاکر شاہ بلاقی صاحب کی زندگی کو منور کیا۔ شاہ صاحب نے حسب عادت اپنے اسی سوال کو دوہرایا کہ پیدا کرنے والا کہاں ہے؟ ان حضرت نے اس وقت تو شاہ بلاقی صاحب کی تلقین فرمائی اور ان کے ساتھ شاہ جہاں آباد کو روانہ ہوئے۔ اس کے بعد شعلہ فراق گرمیِ عشق کا ایسا اثر ہوا کہ سب نعمتوں کو ٹھوکر مار کر پیدل ہی ننگے پاؤں سرحد دہلی تک دوڑے۔ پھر طلب محبوب میں پانی پت کی طرف چلے اور اس روز چالیس کوس تک دوڑے اور پھر ایک تالاب کے کنارے پہنچ کر زمین پر پاؤں دراز کرکے بیٹھ گئے۔ اس جناب کرامت مآب نے نور باطن سے ادراک کرکے سایۂ جلیل اس دیوانے اور بے خبر عاشق اور شیدائے محبوب مطلوب کے سر پر ڈالا اور گرد فراق، فرق مبارک سے صاف فرما کر مسجد میں قیام کیا۔ کلام اللہ شریف، شجرہ اور دیگر تبرکات اور خرقہ عنایت فرما، داخل طریق و فائز دولت بیعت سے کیا اور باطن نور معرفت و حقیقت سے منور فرمایا۔
لباس شریعت و طریقت سے آراستہ و پیراستہ ہو کر آپ جناب، بغداد خیرالبلاد کے عازم ہوئے۔ پھر جناب شاہ بلاقی صاحب اپنے پیرومرشد سے رخصت ہوئے۔ عین حال اور جذب کمال میں وہ بے نظیر تھے۔ بارہ سال تمام استقلال سے استقامت فرما کر مجاہدات و ریاضات و نفس کشی میں ایسی سعی و کوشش کی کہ نان و طعام سب کچھ ترک کر دیامگر کبھی کبھی درختوں کے پتوں سے بھی روزہ افطار کرتے۔
حضرت شاہ بلاقی صاحب اپنے مرشد حقیقی و پیر تحقیقی کے حکم کے مطابق شاہ لال صاحب کی خدمت میں پہنچے کیونکہ مرشد نے وقت رخصت فرمایا تھا کہ کچھ حصہ تمھارا شاہ لال صاحب کے پاس بھی ہے۔ جناب شاہ بلاقی صاحب نے کچھ عرصہ شاہ لال صاحب کی خدمت کی اور ان سے نعمت عظمیٰ حاصل کی اس طرح انھوں نے دو جگہ سے تحصیل فیض کیا۔ بہ فضل الٰہی اعلا مقام کو پہنچے، مقبول درگاہ الٰہی اور منظور جناب رسالت پناہی ہوئے۔
جب شاہ لال صاحب کی وفات ہو گئی اور عالم ملک بقا روانہ ہوئے تب شاہ بلاقی صاحب کو رغبت، آبادی اور فیض رسانی کی ہوئی۔ اسی اثنائے راہ میں دامن کوہ کے ایک گھر تھا۔ جس کے لوگ راہ زنی کیا کرتے تھے۔ اس گھر میں شادی تھی اور دو سو من چاول اور ماش کی دال پکی ہوئی باراتیوں کے لیے تیار تھی۔ جب شاہ بلاقی صاحب وہاں پہنچے تو اس قوم کے سردار نے کہا: ”اے درویش!آؤ میں تم کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤں گا۔“ اس پر شاہ بلاقی صاحب نے فرمایا: ”کیا تم ہم کو سیر کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟“ وہ ہنسنے لگا اور بولا: ”جس قدر تو کھا سکے گا کھلاؤں گا۔“ حضرت نے وہ دو سو من پکا ہوا کھانا کھا لیا۔ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا کہ سب کے سب لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس سردار نے شاہ بلاقی صاحب سے عرض کیا: ”حضرت! اب تو بارات آنے والی ہے اور اتنے کم وقت میں کھانا تیار ہونا ناممکن اور محال ہے۔ اب ہماری لاج آپ کے ہاتھ میں ہے۔“
یہ سن کر شاہ بلاقی صاحب نے فرمایا: ”اس فقیر کی چادر باقی کھانے پر پھیلا دو اور اپنے مہمانوں کو طباق بھر بھر کر کھانا دو۔“ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ قصہ مختصر دو ہزار لوگوں نے وہ کھانا کھایا۔ پھر بھی وہ کھانا ویسا ہی موجود تھا۔ اس کے بعد شاہ بلاقی صاحب نے اپنی ردائے شریف اٹھا کر فقرا کو پکار کر کہا کہ لوٹ لو۔ ان کی اس کرامت کا ایسا اثر ہوا کہ ان لوگوں نے سدا کے لیے چوری اور لوٹ سے توبہ کی اور شاہ بلاقی صاحب کے مرید ہو گئے۔
جب حضرت صاحب اپنے گھر رونق افروز ہوئے تو حضرت کی والدہ ماجدہ اور بیوی صاحبہ نے درازۂ مدت کے سبب حضرت کو نہیں پہچانا تو حضرت نے تمام حالات ماضیہ بیان فرمائے۔ تھوڑی مدت کے بعد ایک حویلی، مسجد اور منبر تیار کرایا گیا۔ حضرت شاہ بلاقی صاحب نے اپنے احسانوں کی بارش خلق اللہ پر برسائی۔حاجت مندوں کو روپے پیسے سے نوازا اور فقرا کو ایسا سیراب کیا کہ یہ چمن ہمیشہ سرسبز رہے گا:
سنو ذکر بلاقی شاہ ذرا دل سے مسلمانو سعادت دو جہاں کی لو ذرا اس میں نہ شک جانو
جناب حافظ امین صاحب سے نقل ہے کہ نائب غوث حضرت شاہ بلاقی صاحب ہر روز سوکھی لکڑیاں جنگل سے لاتے اور انھیں فروخت کرکے ان کی قیمت سے خورد و نوش کا اہتمام فرماتے تھے۔ اس درمیان میں جعفر بیگ نامی ایک شخص جو کول شہر کا رہنے والا تھا۔ اس نے حضرت شاہ بلاقی صاحب سے شرف بیعت حاصل کیا۔حضور نے اس کو مسجد اور محلے کے گھروں کا پانی بھرنے کا حکم فرمایا۔ ایک روز عجیب واقعہ پیش آیا کہ ایک کسان نے شاہ بلاقی صاحب پر اچانک لاٹھیاں برسانا شروع کر دیں یہاں تک کہ آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور آپ کا جسم مبارک بستر خاک رہا۔ جعفر بیگ یہ سارا ماجرا دیکھ کر دوڑا ہوا آیا اور اس کسان کو اس قدر مارا کہ و ہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ ناگاہ اس گمراہ نے ایک آہ بھری جو کہ شاہ بلاقی صاحب تک پہنچی، چشم مبارک کھول کر آپ نے نگاہ فرمائی اور جعفر بیگ خادم کو شرف بیعت سے دور کر دیا۔ جعفر بیگ نے ہر چند گریہ و زاری و اشکباری کی مگر کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ناچار اس بے چارے نے اپنا منھ سیاہ کیا اور ایک ہفتہ تک سیوہارہ اور آستانہ کرامت نشان کے ارد گرد پھرتا تھا اور کھانا پینا تک ترک کر دیا تھا اور یہ کلمات کہتا تھا: ”اس رہبر کے اوپر قربان ہونا اور اس کی چوکھٹ پر مرنا حیات جاودانی ہے۔“
بے چارا شکستہ حال اور اپنے افعال سے ایک عجیب حال رکھتا تھا۔ شیخ شہباز نے شکستہ حال کی درخواست شاہ صاحب سے کی۔ بہت اصرار کرنے پر شاہ بلاقی صاحب نے ان کی درخواست قبول فرمائی۔ حضرت نے وضو کیا اور آب وضو ایک برتن میں جمع کرکے اس پانی سے اس کے منھ کی سیاہی دور فرمائی اور اسے بیعت سے سرفراز کیا اور ایک تیر لوہے کا، ٹوپی رنگین، ملبوس خاصہ اور قبضہ شمشیر جس کی پشت پر ’یا حسین‘ کندہ تھا، عنایت فرمایا اور کہا، جا نوکری کر جہاں کہیں بھی چوروں، رہزنوں کو پائے تو زندہ نہ چھوڑنا اور مسکینوں، محتاجوں، فقیروں، بیواؤں اور مسافروں کی رعایت اور مدد کرنا۔ اس طرح جعفر بیگ حکم پا کرشاہ جہاں آباد پہنچا اور وہاں زمرۂ ملازمانی سلطانی میں نوکر ہوا اور اس ضلع کے بدکاروں و مفسدوں کا درخت جڑ سے اکھاڑ دیا۔ یتیموں اور مظلوموں کی اس قدر مدد فرمائی جو اپنی مثال آپ تھی۔ اسی سال میں آپ کئی عہدوں پر فائز ہوئے۔ مرشد کی توجہ اور اللہ کے فضل سے پیش گاہ سلطانی سے ’نواب ثابت خاں‘ کے خطاب سے سرفرازی فرمائی۔ سخاوت و کرم میں معروف ہوئے۔حضرت شاہ بلاقی صاحب نے فیض باطنی سے بھی محروم نہ رکھا۔
حضرت حافظ امین صاحب سے روایت ہے کہ ایک روز کسی فقیر نے توحید کے بارے میں حضرت شاہ بلاقی صاحب سے کوئی سوال کیا۔ حضرت خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس فقیر نے پھر دوبارہ وہی سوال کیا۔ شاہ بلاقی صاحب پھر بھی خاموش رہے۔ اس فقیر نے حضرت کے مریدوں سے شکایت کی کہ حضرت ہر کس و ناکس کے سوالوں کے جوابات عطا فرمائے ہیں، تعجب ہے کہ حضرت نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ شاید مجھے لائق خطاب نہ سمجھا یا پھر آپ کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں۔ مرید نے حضرت شاہ بلاقی صاحب سے جاکر عرض کیا۔ آپ حضرت نے فرمایا: ”توحید جائے گفتگو نہیں ہے اور جواب کی صورت میں سوائے خاموشی کے اور کچھ نہیں!“ اور یہ بیت فرمایا:
در گفتگویئ وحدت بولا چہ سود دارد شیریں دہن نہ گردد از گفتن شکر ہا
مولوی عصمت علی خاں مرید سید اکبر علی و اصغر علی سادات نہٹور سے نقل ہے کہ ایک رات شاہ بلاقی صاحب ان کے مکان میں رات کو ٹھہرے۔ صبح کو سدھاری نامی درزی جو کہ پیراہن سیتا تھا، وہ خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ حضرت میری تمام عمر آرزوئے فرزند میں گزری ہے۔ اس پر شاہ بلاقی صاحب نے فرمایا: ”نذرانہ پیش کر!“درزی نے فی الحال ایک بکری، آٹھ آنہ نقد اور ایک بھیلی گڑ کی حاضر کی۔ اتفاقاً بھیلی درمیان سے بہت دبی ہوئی تھی۔ حضرت شاہ بلاقی صاحب نے فرمایا کہ تیرا لڑکا بھی اس جیسا ہوگا۔ چنانچہ نتھو نامی پسر اس کا اسی شکل کا پیدا ہوا۔ ناک اس کی دبی ہوئی تھی، ایسی کہ رخساروں کے برابر معلوم ہوتی تھی۔ تب سے یہی نیاز حضرت شاہ بلاقی صاحب کی مقرر ہوئی۔
حضرت شاہ بلاقی صاحب کے مرید نواب عظمت اللہ خاں سے نقل ہے کہ ایک روز بیش قیمت لباس اور عمامہ حضرت کے واسطے تیار کرکے لے گئے اور کہا کہ آپ کے قدم مبارک سے میرا قلعہ روشن ہو تو میری خوش نصیبی ہوگی۔ بہت زیادہ اصرار کرنے کے بعد حضرت راضی ہوئے۔ زریں اسباب کے گھوڑے پر حضرت کو سوار کیا۔ رکاب اس کی خود نواب عظمت اللہ خاں نے پکڑی۔شہر کے آدمی اور فوج نواب کی حضرت کی سواری کے چاروں طرف تھی۔
یکایک شاہ بلاقی صاحب نے بازار میں اپنی دستار مبارک ڈنڈے پر رکھ کر فرمایا:
شرم دنیا بڈندا گردانم زان سبب مرد پیش مردانم
اور اسی وقت گھوڑے پر سے کود پڑے اور اپنا گھوڑا اور بیش قیمتی لباس محتاجوں کو دینے کا حکم دیا۔ واقعہ ہے کہ حضرت ہر جگہ تنہا تشریف لے جایا کرتے تھے اور کسی کو اپنے ہم راہ نہیں لیتے تھے۔ ایک بار شہر کول میں درمیان راہ ایک ملازم سوار نواب ثابت خاں کا ملا جو اپنے سر ناتواں پر بہت زیادہ سامان اٹھائے ہوئے تھا۔حضرت نے اس مفلس سے برائے رحم سفارش کی کہ اپنا سامان میرے سر پر رکھ دے۔ اس نے نہایت غصے سے یہ سارا سامان حضرت کے سر مبارک پر رکھ دیا۔ جب وہ شہر کے اندر پہنچے ہزاروں آدمی آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہو گئے اور شاہ بلاقی صاحب کو اپنی اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔ حضرت نے فرمایا: ”پہلے میں اس ملازم کو اس کے مقام تک پہنچا دوں بعد میں سب سے ملاقات کروں گا۔“ ملازم نے یہ سارا ماجرا دیکھ کر جان لیا کہ حضرت، نواب ثابت خاں کے مرشد ہیں۔ وہ تیز تیز دوڑنے لگا۔ حضرت ملازم سے پہلے پہنچ گئے اور نواب ثابت خاں سے کہا فلاں شخص محلہ کا اس کو جلد طلب کرو۔ چنانچہ حسب طلب ملازم نواب ثابت خاں کے، لرزتا ہوا دربار میں حاضر ہوا کہ نہ جانے کیا سزا سنائی جائے لیکن اسی وقت شاہ بلاقی صاحب نے فرمایا: ”یہ میرا رفیق و شفیق ہے!“ نواب صاحب نے اسی وقت اس ملازم کو عہدہ عطا فرمایا اور اپنی نوازشیں کیں۔ سوار مذکور نے اپنا سر حضرت شاہ بلاقی صاحب کے پائے مبارک پر رکھ دیا اور رونے لگا۔ حضرت نے اس کو تسلی دی اور اس پر شفقت فرمائی۔
حضرت نے اپنی زندگی میں ہر ایک حاجت مند کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ وہ لوگوں کی ہر طریقے سے مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مہاجن پور میں رہنے والے ایک شخص جس کا نام جسونت رائے تھا، اس کے اوپر بادشاہ کی طرف سے جرمانہ پڑا۔ اس کو اس پریشانی سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔وہ شاہ بلاقی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کیا اور ان سے مدد فرمانے کی التجا کی۔حضرت نے اس کی پریشانی سن کر اس کو، اس کی ضرورت کے مطابق روپیہ عطا فرمایا۔ اس دولت کثیر سے جسونت رائے کو بلائے کبیر سے نجات ملی۔ اس کے بعد وہ شاہ صاحب سے بے حد متاثر ہوا اور دولت اسلام سے مشرف ہوا۔ حضرت نے اس کا نام رائے غلام محمد رکھا اور دولت بیعت سے ممتاز فرمایا۔ کریمی اس دریا دل کریم کی، آفتاب سے زیادہ روشن ہے۔ شاہ بلاقی صاحب نے فرمایا تھا: ”بعد میرے مرنے کے کوئی بھی قرض داروں سے ایک کوڑی طلب نہ کرے گا، میں نے سب کو بخش دیا ہے۔“
ایک بار عید کی نماز مرادآباد، نہٹور، نگینہ، سیوہارہ، شیر کوٹ اور جلال آباد میں ایک ساتھ صدہا آدمیوں کے ہم راہ پڑھی اور مصافحہ کیا۔ ہزاروں آدمیوں نے عید کے روز ہر مکان میں ان کو دیکھا۔ شہر بہ شہر اور گاؤں بہ گاؤں یہ گفتگو رہی، آخر کار سب حیران رہ گئے۔
نقل ہے کہ ایک روز حضرت نے رحلت سے قبل مریدوں کو طلب فرمایا۔ بعد شرائط تلقین و ارشاد کے فرمایا کہ غلبہ شوق دیدار یزدانی مقتضی ہے کہ اس جہان فانی کو ترک کیا جائے اور فرمایا بعد میری وفات کے میرا منھ سیاہ کرکے اور دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر چاروں طرف کشاں کشاں لے جانا اور منادی کرنا کہ اس شخص نے راہ خدا میں قدم رکھا اور اپنے آپ کو بنام فقرا کے مشتہر کیا مگر پھر بھی کچھ فقر سے آشنا نہیں ہوا۔ پس جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی یہی سزا ہوتی ہے۔ ان کی وفات کے بعد کوئی بھی شخص اس حکم کو بجا لانے کی ہمت و طاقت نہیں رکھتا تھا۔ سب ایک کش مکش میں مبتلا تھے کہ اچانک اس اژدہام عوام میں ایک سوار ذوالاقتدار گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور عوام کے اس تردد کا باعث، دریافت کیا۔ عوام نے اس سوار کو تمام ماجرا بیان کیا۔ اس سوار نے کہا کہ کاہ خام پائے مبارک پر باندھ کے اور غلاف سیاہ مکہ معظمہ کا چہرہ تجلی مہرہ پر ڈال کے اور جنازے کو عطریات سے معطر کرکے گلاب پاش چھڑکتے ہوئے اور شہر کے ارد گرد یہ منادی کرتے ہوئے جنازہ کو لے جائیں کہ جو کوئی طریق فقر میں راسخ دم اور ثابت قدم اس مردانگی سے اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کو جاتا ہے تو وہ ایسی ہی عزت و شان اور مرتبہ پاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی عوام اور ان کے مریدوں نے سوار کے کہنے کے مطابق کیا۔ بعد جنازہ تدفین کے وہ سوار نہ معلوم کہاں غائب ہو گیا؟
نقل ہے کہ جس وقت لوگ تلاش مقام مقبرہ شریف میں متردد تھے۔ شیخ شہباز صاحب نے کہا کہ ایک روز میں اور حضرت شاہ بلاقی صاحب ہم راہ تھے، حضرت صاحب مراد آباد سے مغرب کی جانب آبادی سے ایک کوس دور تشریف لے گئے۔ وہاں دریا کے کنارے پر ایک فقیر کا تکیہ تھا۔ جب اس فقیر نے حضرت شاہ بلاقی صاحب کو دیکھا تو اپنا سارا اسباب و بستر کاندھے پر رکھ کر روانہ ہوا اور میں نے اس سے اس کے اس طرح جانے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا یہ جگہ امانت ایک بزرگ کی ہے۔ اب تک میں اس کا امین تھا۔ اس کے بعد اس نے کہا: ’مکیں آمد مکاں گذاشتم‘
روایت ہے کہ حضرت عین حیات میں وہاں اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس جگہ کی دل کشائی بیان فرماتے تھے۔ چنانچہ بہ موجب کہنے شہباز صاحب کے، مزار مبارک حضرت شاہ بلاقی صاحب کا وہاں تعمیر کیا گیا، جو اب تک رونق افروز ہے۔ مولوی حفیظ اللہ صاحب ’بیعت المعرفت‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس خاکسار نے کئی رقعے حضرت کے لکھے ہوئے دیکھے۔ ان پر مہر لگی ہوئی تھی اور اس میں سجع کندہ تھا اور وہ یہ بھی زیب قلم فرماتے ہیں کہ علاوہ اس کے کئی رقعے حضرت کے، بہ چشم خود معائنہ کیے. ان میں دو رقعے خاص حضرت کے موجود ہیں۔ حضرت کو علم ظاہری نہ تھا فقط کلام اللہ اور گلستاں تک پڑھا تھا۔ آپ کے ملفوظات شریف سے تین رقعات تبرکاً تحریر کیے جاتے ہیں تاکہ ان کو باریابی حاصل ہو اور ان کی تحریر مبارک سے مستفید ہوں۔
فارسی متن رقعہ اول:
’محب الفقرانے سید عبد الکریم و شریف علی در حفظ الٰہی باشند از جانب بولائی بی ریا بعد از دعا کہ از شائبہ ریا مبراست۔ آنکہ خطیکہ فرستادہ بودند رسید حقیقت مندرجہ معلوم گردید باید کہ نظر بر کرم کریم کارساز مستحکم دارند آن کریم است کرم خواہد کرد زیادہ چہ نوشتہ آید باقی خیر باد مکمل خان و جمیع یاران و سید پیرا دعای شوق رسانند۔‘ترجمہ: ’فقیروں سے محبت کرنے والے سید عبد الکریم و شریف علی، اللہ کی حفاظت میں ہیں۔ بولاقی کی طرف سے جو کہ بالکل خاص ہے اور برائی کے شک و شبہ سے دور ہے۔ آپ کو ایک خط بھیجا تھا۔ اس کے پہنچنے سے حقیقت حال معلوم ہو گئی ہوگی۔ کام بنانے والے کریم آقا کی نظر کرم ہونی چاہیے وہ کرم کرنے والا ہے، کرم کرے گا۔ اس سے زیادہ کیا لکھوں۔ باقی سب خیریت سے ہیں مع سبھی اہل خانہ اور تمام دوستوں اور سید پیر کو میری نیک دعائیں پہنچانا۔‘
فارسی متن رقعہ دوم:
’محب الفقرا از جانب سید علی اصغر و جمیع خورد و بزرگ در حفظ الٰہی باشند از جانب بولاقی بی ریا بعد از دعا کہ آن کہ خطی کہ نوشتہ بودند رسید حقیقت مندرجہ معلوم شد از طرف خود نمی گویم اخلاص زبانی بدرگاہ سبحانی بکار نیاید ہر چہ ہست از برکت اخلاص است زیادہ چہ نوشتہ آید باقی خیر باد و جمیع یاران را از دعائی شوق مطابع باد زبانی دارندہ۔ خط آنچہ اظہار نماید عند اللہ غور نماید۔‘
ترجمہ: ’فقرا سے محبت کرنے والے سید علی و اصغر کی طرف سے تمام چھوٹے بڑے اللہ کی امان میں ہیں۔ بولاقی کی طرف سے جو برائی سے پاک ہے بعد دعا کے جو کہ خط کے ذریعہ لکھ کر بھیجی تھی درج شدہ حقیقت حال معلوم ہوئی۔ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ زبانی اخلاص اللہ کے دربار میں کام نہیں آتا ہے جو کچھ بھی ہے وہ اخلا ص کی برکت کی وجہ سے ہے۔زیادہ کیا لکھا جائے، باقی سب بہتر ہیں۔ تمام دوست و احباب کو نیک دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں خط کے ذریعہ اظہار نہیں ہوتا اللہ کے نزدیک قبول ہوں گی۔‘
فارسی متن رقعہ سوم:
’محب الفقرا شیخ سعداللہ و شیخ سعادت اللہ و جمیع خوردو بزرگ حفظ الٰہی باشند۔ از جانب بولاقی بی ریا بعد از دعا کہ از شائبہ ریا مبراست آنکہ برائی سید عمر و سید پیر پیش ازین روبرو گفتہ و بارہا نوشتہ بودم ہیچ نہ معلوم شد چہ الحال نیز نوشتہ می آید باید کہ عند اللہ سعی از دل و جان نمودہ کار ایشان را سر انجام دہند کار آں محب الفقرا از را حق سبحانہ تعالیٰ در پردہ غیب حاصل کند کسی کہ بہ گفتہ ہمچو ماکسان از دل و جان کار کند کارش از غیب بر آید ما حکیم نہ آئم کہ بدو علاج کنیم درینجا اعتقاد کار می کند۔‘
ترجمہ: ’فقرا سے محبت شیخ سعداللہ و شیخ سعادت اللہ اور تمام چھوٹے بڑے اللہ کی امان میں ہیں۔ بولائی کی طرف سے بغیر کسی دعا کے جو کہ دکھلاوے کے شبہ سے دور ہے۔ سید عمر اور سید پیر کے سامنے اس سے پہلے کہہ چکا ہوں اور کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ کیا حال ہے نیز لکھتا رہوں گا۔ جو اپنے نیک کاموں کو دل و جان سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تمام کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ وہ محب الفقرا کو اللہ سے پردۂ غیب میں حاصل ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے اس طرح ہم جو کام دل وجان سے کرتے ہیں اس کا کام غیب سے پورا ہوتا ہے۔ میں وہ حکیم نہیں جو دونوں علاج کروں۔ اس میں اعتقاد کام کرتا ہے۔‘ حضرت شاہ بلاقی صاحب کی وفات ١١٣٩ھ مطابق ١٧٢٦ء میں محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں ہوئی۔
جناب بولاقی شہہ عارفاں بگلگشت باغ جناں شد رواں
ہمی خواستم تاریخ او بگفتا خرد مرشد مرشداں
***