دِیے کا بھرم بھی…

دِیے کا بھرم بھی…

ڈاکٹر انیس الرحمن انیس
عمر کالونی ناندیڑ مہاراشٹر
رابطہ: 9960299337
anis.4421@gmail.com

سائرہ نے آواز دی تو سمیر خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا.. اس نے کہا سنیے آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں۔
سمیر نے چونک کر پوچھا ’’ کیوں؟‘‘
بس یوں ہی پوچھ رہی تھی… وہ….!!!!
کہ آپ کے پاس کتنے روپے ہیں…….
سمیر نے بوجھل ہاتھوں سے جیبیں ٹٹولیں اور ساری جیبوں سے کچھ پیسے نکالے اور گننے لگا….. بہ مشکل شاید پچاس روپے ہوں گے….
وہ بھی بھاری من سے اس نے سائرہ کے ہاتھوں پر رکھ دیے…. اور من ہی من کہا… کُل سرمایہ یہی پچاس روپے ہے…!! پیسے لیتے ہوئے اس نے کہا-
”ٹھیک ہے"-
” آپ مجھے ڈسپوزل ٹی کپ، دودھ اور چینی لادیجیے….
سمیر نے کچھ سوچا اور حساب لگاتے ہوئے کہا اتنے روپیوں میں تمھاری فرمائش کی چیزیں نہیں آسکتیں..!!
ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں… میرے پاس کچھ پیسے ہوں گے سائرہ نے کہا اور اُٹھ کر کچن میں گئی اور وارفتہ ڈبے ٹٹولنے لگی..!! بہ مشکل 20 روپے ہاتھ لگے….. اس لاک ڈاؤن میں یہ کسی قارون کے خزانہ سے کم نہیں تھے…. ادھر سمیر حیران اور طرح طرح کے سوالوں میں الجھا ہوا تھا کہ آخر سائرہ کرنا کیا چاہتی ہے…..زندگی دن بہ دن تنگ اور منظر سنگ ہو رہے تھے….. ان حالتوں میں سائرہ کا سب چیزوں کے لیے اصرار کرنا سمیر کو بے معنیٰ لگ رہا تھا….. سمیر ایک ادیب اور افسانہ نگار تھا اس کے ظرف نے اس کے ہاتھ باندھ دیے تھے….. محلے کے سارے لوگ اس کی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھے اور اس کی خود داری سے آشنائی رکھتے تھے…… سائرہ کے آتے ہی سمیر نے آخر اس سے پوچھ لیا…
سائرہ تم آخر کیا کررہی ہو۔ تمھیں پتہ ہے نہ باہر اور گھر میں کیا قیامت ہے..!
شام کے کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے..!! کرونا وائرس کی وبا نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. پورا ملک ہی کیا ساری دنیا اس کی تباہی سے مبّرا نہیں ہے اور اس پر پولیس کی سخت پہرہ داری….
سنو تو سہی…
کرفیو جیسی صورت حال نے لوگوں کو گھروں پر رہنے پر مجبور کردیا ہے ….
اف اف… پھر بھی منچلے نوجوان کسی نہ کسی بہانے ٹولیوں کی شکل میں مٹرگشتی کرتے پھر رہے ہیں. اپنی طلب کی تکمیل کے لیے باہر نکلتے ہیں…
جنھیں چائے، گٹگھا اور پوڑی کی طلب ہوتی ہے انھیں یہ طلب گھروں سے باہر کھینچ لاتی ہے. جب بھی پولیس کی گاڑی کی سائرن سنائی دیتی نوجوان کونوں کھدروں میں پناہ لیتے اور پولیس وین کے جاتے ہی چیونٹوں کی طرح بلوں سے باہر نکل پڑتے۔….
سائرہ مسکراتے ہوئے سمیر کے سامنے بیٹھ گئی اور اپنے منصوبوں کو بتاتے لگی۔ دیکھیے گھر میں تو اب ان 70 روپیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، میں چاہتی ہوں کہ چائے بناؤں اور ہمارا بیٹا کبیر چائے بیچ کر کچھ اور پیسے گھر لائے۔
سمیر نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟
تو سائرہ نے حوصلے کہا… اچھی چائے بنائوں گی… اسے تھرماس میں ڈال کر دوں گی.. چائے کے چھوٹے کپ میں 50 ملی لیٹر چائے آتی ہے….. بس کچھ کمائی ہو جائے گی….
سمیر بڑے غور سے سائرہ کو دیکھ رہا تھا جو پل ہی پل میں بنیا بن بیٹھی تھی۔ سمیر نے دوکانوں کے بند ہونے کے باوجود بھی 15 منٹ میں ساری چیزیں لاکر دے دیں۔
سائرہ سمیر نے چائے بنائی اور تھرماس میں چائے بھر کر گلاس کبیر کے ہاتھ میں بڑی امید سے تھما دیے…. کبیر جو محض دس سال کا تھا اپنے کاندھے پر گھر کی دنیا اٹھانے چلا تھا….!
سائرہ نے جب یہ چیزیں کبیر کے ہاتھ میں دی تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے… پہلے تو کبیر اس کام کے لیے راضی نہیں تھا…. لیکن
سائرہ نے سمجھاتے ہوئے اس سے کہا –
”بیٹا زندگی میں بہت کچھ غیر متوقع ہوتا ہے. شاید تمھارے ساتھ یہ بہت جلد ہو گیا ہے…. باہر کے حالات میں بابا کو بھیجنا مناسب نہیں اور ان کے لیے مشکل بھی ہے. تم اسے آسانی سے کر پاؤ گے اللہ نے اگر تمھارے ذریعہ ہی ہمارا رزق لکھا ہے تو ہمیں یہ بھی قبول ہے…..
یہ کہتے ہوئے سائرہ نے منہ پھیر لیا کہیں کبیر اس کے آنسو نہ دیکھ لے…
دونوں کے دلوں میں عجیب سا کھٹکا تھا……
سمیر کے دل پر تو جیسے ایک گھونسا سا لگا…. بینک میں پڑے ہوئے پانچ ہزار روپے وہ کب کا خرچ کر چکا تھا۔ رشتہ داروں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دکان داروں نے بھی اُدھار دینے سے انکار کردیا تھا اور اپنی غیرت کا بھرم بھی رکھنا تھا…
دل ہی دل میں وہ روتا رہا اور دعائیں کرتا رہا…. دونوں نے اسے ہمت کر کے بھیج تو دیا لیکن خود کو دہکتے شعلوں پر کھڑا کر دیا….
کبیر جب چائے بیچ کر واپس آیا تو اس کے چہرے پرخوشی کے بجائے اُداسی تھی۔
سائرہ فوراً اس کی طرف لپکی اور پوچھا..
کیا ہوا میرے بچے سب ٹھیک تو ہے….
تمھیں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی…. پورے پیسے ٹھیک سے حساب کرکے تو لایا نہ! ایک منٹ میں ڈھیر سارے سوال کر ڈالے۔
کبیر کا دل بھر آیا….
آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے…
سائرہ بے چین ہو اُٹھی… دونوں کی نگاہوں اور زبان پر ایک ہی سوال تھا…
کیا ہوا میرے بچے کیوں روتا ہے….
کبیر نے کہا –
ممی..!
گلی کے نکڑ پر وہ…..
پولیس والے کھڑے تھے… انھوں نے میری….
ساری چائے پی لی….
اور مجھے پیسے بھی نہیں دیے….!!!
میں نے پیسے مانگے تو کہا- جیل میں بند کردوں گا اور مجھے ڈانٹ کر بھگا دیا…. روتے روتے کبیر نے سارا حال سنایا….. کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا ممی ان پولیس والوں میں ایک داڑھی والے انکل بہت اچھے تھے… مجھے پاس بلایا اور گلے لگایا اور مجھ سے بہت سارے سوالات بھی کیے…. میں نے ان سے سب سچ سچ کہا…. سائرہ نے کبیر کو گلے لگاتے ہوئے کہا تم نے بہت صحیح کیا میرے لال……
مگر ممی…!
انھوں نے بھی مجھے پیسے نہیں دیے….
مگر وہ بار بار میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور شاباشی دے رہے تھے…..
اچانک کبیر کا ہاتھ اپنی پینٹ کی پیچھے کی پاکٹ پر گیا… اس نے محسوس کیا کہ وہاں کچھ ہے…
کبیر کی انگلیاں پاکٹ میں سرایت کر گئیں….
لیکن…
جب واپس آئی….
تو….!!!
اس کی انگلیوں میں دوہزار کا نوٹ دبا ہوا تھا…..
سائرہ کی آنکھیں فرط مسرت سے چمک گئیں اور اس نے کبیر کو زور سے بھنچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
سمیر حیران تھا….
دور کچن میں کھڑی سمیر کی چھوٹی بیٹی مائرہ آنسو بہارہی تھی…..
جیسے رحمتوں کے ذریعہ اور معنیٰ سمجھ رہی ہو کہ اللہ اپنے بندے کو کسی طرح افضل و افضال رکھتا ہے کہ دِیوں کا بھرم بھی رہے اور روشنی کا سفر بھی جاری رہے…!!
***
افسانہ نگار کا مختصر تعارف :
نام : انیس الرحمن
ولدیت : محمد یونس ولد عبدالجلیل
تخلص : انیس
تصنیفات و تخلیقات :
(1) کہکشاں (بچوں کی نظمیں)
(2) نجم السحر (بچوں کی نظمیں)
(3) حیات نو ( غزلوں کا مجموعہ) 
(4) بحر اقوال
تعلیمی قابلیت : ایم اے ( اردو، تاریخ، اسلامک اسٹڈیز) بی ایڈ، نیٹ، پی ایچ ڈی
ایوارڈ : ( ادبی خدمات) مولانا آزاد مشن، نانڈیر
بہترین خدمات ( خادمین ملت)
بر سر خدمت : سر سید اردو پرائمری اسکول
مومن پورہ دیوانی باؤلی، نانڈیر
ریسورس پرسن : ( نصابی تربیت برائے انگریزی، اردو)
مکمل پتہ: 773-6-9، عمر کالونی، عقب حمید فنکشن ہال، ٹائر بورڈ، نانڈیر، مہاراشٹر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے