مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
قاسمی ٹرسٹ ،ابناے قدیم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کے صدر، اسلام اور معیشت کے مصنف ، نوجوان عالم دین مولانا محمد اظہار الحق قاسمی کا یکم ذی الحجہ 1442ھ مطابق 12 جولائی 2021 کو صبح کے آٹھ بجے گجرات سے واپس ہوتے ہوئے ٹرین میں انتقال ہو گیا ، انا للہ وانا الیہ راجعون ، جنازہ ان کے آبائی گاؤں حسن پور وسطی لایا گیا، دوسرے دن جنازہ کی نماز عصر بعد میں نے پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، پس ماندگان میں اہلیہ ، والدہ اور تین لڑکے، تین بھائی اور کئ بہنیں ہیں۔ دو جواں سال بھائی کا انتقال پہلے ہو چکا تھا۔ مولانا تیسرے ہیں جو جوانی میں ہی چل بسے، انتقال کے وقت ان کی عمر اکیاون سال بتائ جاتی ہے۔
مولانا محمد اظہار الحق بن حافظ محمد ہاشم ؒ بن علی نقی بن واحد علی بن نظر علی میرے عزیز شاگرد تھے، حسن پور وسطی، مہوا ، ویشالی آبائی وطن تھا، حفظ قرآن انھوں نے مجھ سے کیا تھا، انتہائی گورے چٹے، خوب رو، خود دار، وضع دارانسان تھے۔ اردو، عربی انگریزی زبانوں میں بولنے لکھنے اور کتابوں کو سمجھنے، سمجھانے کی صلاحیت رکھتے تھے، حفظ قرآن کے بعد میری ہی تحریک پر شمالی بہار کی مشہور و معروف درس گاہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی میں داخل ہوئے، ربیع الاول کے مہینے میں یہ فیصلہ میں نے لیا کہ اظہار الحق کو کنہواں بھیجنا ہے، ظاہر ہے وہ داخلہ کا وقت نہیں تھا، میں نے قطب بہار حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ ناظم جامعہ کو لکھا کہ "حضرت یہ لڑکا چندہ میں آیا ہے، اسے قبول کر لیا جائے، ورنہ یہ دوسری طرف چلا جائے گا، میں اسے سامان کے ساتھ بھیج رہا ہوں تاکہ واپسی کی نوبت نہ آئے."
حضرت نے اس خط کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور ضابطہ کے خلاف اس لڑکے کا داخلہ وہاں ہو گیا، میں نے اپنے دوست قاری بدر عالم صاحب کے حوالہ اظہار کو کر دیا تاکہ وہ نگرانی رکھیں، اظہار میاں انتہائی نٹ کھٹ، چُل بلے تھے، مگر حضرت قاری محمد طیب صاحب ؒ اور مولانا محمد طیب صاحب کماوی کی نظر التفات کا شکار ہو گیے ، وہاں انھوں نے پڑھا بھی ، تربیت بھی لی اور جب واپسی کا پہلا سفر شعبان میں گھر کا ہوا تو ان کے والد نے مجھ سے کہا یہ لڑکا اس قدر بدل گیا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ وہی لڑکا ہے۔ بزرگوں کی نظر کی تابانی اور جلووں کی فراوانی نے اسے بالکل بدل کر رکھ دیا تھا، اس نے پوری زندگی اس جامعہ کو مادر علمی کے طور پر یاد رکھا اور اشرف العلوم کے ابنائے قدیم ہونے کو اپنے لیے باعث فخر جانا، وہ ابنائے قدیم اشرف العلوم کا صدر بھی منتخب ہوا اور بحرین سے آکر صد سالہ اجلاس میں شرکت بھی کیا.
کنہواں کے بعد اس نے دیوبند کا تعلیمی سفر کیا اور اپنے عہد کے ممتاز طلبا میں اپنی جگہ بنالی، وہ انجمن تقویۃ الایمان کے تربیتی مناظروں میں شریک ہوتا اپنے مضبوط دلائل اور طلاقت لسانی سے مشکل سے مشکل موضوعات پر لوگوں کو زیر کر دیتا، دارالحدیث میں ہونے والے پروگرام کی جب وہ نظامت کرتا تو اس کی نظامت پروگرام کی کام یابی کی ضمانت سمجھی جاتی یہاں بھی اساتذہ کی توجہ اور نظر التفات اسے حاصل رہی اور وہ تعلیمی، تربیتی لحاظ سے پروان چڑھتا رہا، وہ ساتھیوں میں بھی مقبول رہا، اور اساتذہ میں بھی، مولانا عبد الخالق مدراسی ، مفتی محمد یوسف صاحب تاؤلی کی خصوصی توجہ اسے حاصل تھی اور وہ ہر طرح کے تعاون کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے، جب تک دیو بند رہا، ویشالی کا نام روشن رکھا ، اس کی ذہانت ضرب المثل تھی، وہ بہترین خطیب تھا، علمی استحضار طلاقت لسانی اور اپنی وجاہت کی وجہ سے پروگراموں میں چھاجایا کرتا.
دورہ کا سال تھا، رجب کا مہینہ، جب وہ بعض لوگوں کی سازش کا شکار ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کا اخراج ہو گیا ، جھگڑا ساتھیوں کے درمیان تھا، عبارت خوانی سے بات شروع ہوئی، پھر اسے جماعت اسلامی کا ثابت کیا گیا، اس زمانہ میں جماعت اسلامی کی کتابوں کا پڑھنا، اسے اپنے پاس رکھنا بھی جرم کے دائرہ میں آتا تھا، چناں چہ اسی الزام میں اسے نکال دیا گیا ، رجب کا مہینہ ، دورہ کا سال اور اخراج کی کارروائی ، میرے نزدیک یہ کسی طالب کے قتل سے کم نہیں تھا ، میاں اظہار کے دل پر جو گذری ہو خود میرا دل کٹا جا رہا تھا، میں نے دیو بند جانے کا فیصلہ کیا، اتفاق سے ٹرین میں ایک نائب مہتمم بھی بھاگل پور سے سفر کر رہے تھے، میں ان کے سامنے اظہار کے لیے رویا گڑگڑایا، لیکن کان پر جوں تک نہیں رینگی، دیو بند پہنچا، مہتمم صاحب سے ملا، مہتمم صاحب نے میری باتوں کو سنا اور فرمایا کہ ایک لڑکا کے لیے پوری انتظامیہ کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا ، میرے غائبانہ میں یہ اخراج ہوا، میرا انتظار نہیں کیا گیا، اس کا سیدھا مطلب یہی تو ہے کہ اخراج کرنے والوں کو میری دخل اندازی پسند نہیں ، میں نے کہا کہ حضرت! لیکن ایک لڑکے کو خواہشات کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے، کہنے لگے: مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا، پھر میں نے ہی سوجھایا کہ دائمی اخراج نہیں ہے، شوال میں داخلہ لے کر ضمنی امتحان لیا جا سکتا ہے، اور کام یابی پر سند دی جا سکتی ہے، مہتمم صاحب خوش ہوئے، فرمایا: یہ بہتر ہے، چناں چہ ایسا ہی ہوا اور وہ ضمنی امتحان میں کامیاب ہو کر قاسمی بن گئے، کئی تنظیم والے ان پر ڈورے ڈالتے رہے مجھ سے مشورہ لیتے، سمع وطاعت کا مزاج تھا، اس لیے کہیں نہیں گئے، مسلم فنڈ کے منیجر نے اخبار کو بیان دے دیا کہ وہ دہشت گرد ہے۔ اس سے فضا اور مسموم ہوئی، لیکن "رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت" کا معاملہ رہا ، میرے ہی مشورے سے وہ علی گڈھ مسلم یونیور سیٹی گئے، عربی زبان وادب میں ایم اے کیا ، ایم فل کیا، پی اچ ڈی کر رہے تھے، لیکن ابھی تکمیل نہیں ہوئی تھی ، ڈاکٹر سعود عالم قاسمی نے اپنی نگرانی میں یہاں اظہار کے تعلیمی مراحل طے کرائے۔
تعلیم کے بعد مسئلہ معاش کا تھا، چناں چہ انھوں نے دہلی مییں سفینۃ الہدایۃ لکچھمی نگر، جمنا پار دہلی میں پڑھانا شروع کیا، یہ شیعوں کا ادارہ تھا، مولانا عقیل الغروی اور ان کے بھائی اس ادارہ کے ذمہ دار تھے، ایک زمانہ تک اپنی صلاحیت ، صالحیت، دور اندیشی کے ساتھ یہاں پڑھایا، اس کے بعد وہ مین(man) سپلائی کے کام میں لگ گئے، مختلف ممالک میں افراد کو ملازمت کے لیے بھیجتے رہے، اسی درمیان ان کی ملاقات جوناگڈھ اسٹیٹ کی خاتون سے ہوئی اور انھوں نے اسے شریک زندگی بنانے کا فیصلہ کر لیا، نکاح میں نے ہی پڑھایا، لیکن اسی وقت میری چھٹی حس نے بتا دیا تھا کہ یہ رشتہ نبھنے والا نہیں ہے، کیوں کہ اس میں” برابر سو برادر "والے فارمولے کو نظر انداز کیا گیا تھا، چناں چہ کم وبیش دو سال بعد خلع پر یہ رشتہ اختتام کو پہنچا، اس کے بعد میرے مشورے سے وہ بیرون ملک چلے گئے، پہلے سعودی عرب پھر بحرین، بحرین میں ایک قنوجی عطر کے تاجر کے یہاں ملازمت اختیار کرلی اور جلد ہی خوشبوؤں کی تیاری کے سارے فارمولے ان کی گرفت میں تھے، سید جنید کی کمپنی میں بھی ہمارے یہاں کے ہی ایک صاحب اس کام پر ہیں، دونوں کمپنی کے مالکان اپنے اپنے فارماسیسٹ پر نگاہ رکھتے کہ کہیں فارمولوں کا تبادلہ یہ لوگ نہ کر لیں، میرا اس زمانہ میں بحرین جانا ہوا تھا، اور میں نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے تھے، پھر انھوں نے دار الشیخ کے نام سے اپنا عطر کا کام شروع کیا، لیکن اس میدان میں کمپنیوں سے مقابلہ کے لیے جو سرمایہ چاہیے تھا وہ انھیں دست یاب نہیں تھا، اس لیے جلد ہی اس تجارت کے ساتھ بحرین ہی میں ریڈی میڈ کپڑوں کا کام شروع کیا اور تجارت چل نکلی تو رشتہ ازدواج میں بندھے، یہ نکاح کولکاتہ میں ہوا تھا اور میں نے ہی پڑھایا تھا، اللہ تعالیٰ نے تین نرینہ اولاد سے نوازا سب سے چھوٹا لڑکا ڈیڑھ سال کا ہے۔
ان تمام معاشی تگ و دو کے ساتھ انھوں نے ملی اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں، ان کے حلقہ احباب میں بڑےعلما و دانشوروں کی بڑی تعداد تھی ، سب ان کو ٹوٹ کر چاہتے، اور محبت کیا کرتے تھے۔
گذشتہ سال جب میں نوئیڈا میں کورنٹائن ہوا تو ان کی توجہ سے مولانا اعجاز الرحمن شاہین نوئیڈا سے مجھے دہلی لانے میں کام یاب ہوئے، پھر انہی کی توجہ سے میرا پاس بنا اور میں کوئی دو ماہ بعد گھر لوٹ سکا۔
چند ماہ قبل انھوں نے فون کرکے مجھے بتایا کہ دل کی بیماری لگ گئی ہے، علاج کے لئے چنڈی گڑھ آۓ وہاں ان کے دوست مفتی انس قاسمی رہتے ہیں، وہاں علاج ممکن نہیں ہوا، سارے والو جام تھے، آیور وید میں بھی بات نہیں بنی تو نیے طریقہ علاج پمپنگ سے والووں کی صفائی کی گئی ، پینتیس دن دہلی اور چھ دن مظفر پور میں ، دوران علاج ہی وہ والدہ کے ساتھ عید کرنے کے لیے گھر آ گیے تھے، پھر مظفر پور کے دوران علاج میرے ہی گھر ان کا قیام رہا، ہر طرح سے اچھے ہو گئے، ڈاکٹر نے بیرون ملک سفر کی اجازت بھی دیدی ، دہلی جانے سے قبل ملنے آئے اور کہا کہ "بغیر ملے جانے کی طبیعت نہیں کی" مل کر دہلی گئے، وہاں سے گجرات کا ایک تجارتی سفر کیا ، لوٹتے وقت بھرت پور میں دل کا دورہ پڑا اور متھرا پہنچنے کے پہلے ہی سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، اللہ کی مدد شامل حال رہی، اسباب کے درجہ میں تھانہ نے بھی کافی سپورٹ کیا، اور ایک ایک چیز ان کی ان کے بھائی کے حوالہ کر دیا، تینتیس ہزار روپے پاس میں تھے، دو موبائل، سب تھانہ نے دیا ، پولیس کے محکمہ پر اس واقعہ نے تھوڑا اعتماد بحال کر دیا۔
اظہار کے چاہنے والے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے فدائین میں میرے ایک دوسرے شاگرد ارشد نیاز بھی ہیں مصیبت کی اس گھڑی میں جو کچھ ممکن ہے کر نے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے انتقال پرعلی گڈھ مسلم یونی ورسٹی کے بحرین میں مقیم ابناے قدیم نے
آن لائن تعزیتی اجلاس رکھا تھا جس میں چار ملکوں کے لوگ شریک ہوئے، سب پر رقت طاری تھی، اللہ اظہار کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔ آمین.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : امیر شریعت خامس: حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب رح