عمیر محمد خان
رابطہ: 9970306300
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی وہ عظیم الشان مثال قائم کی جو تاریخ کے ادوار میں دیکھنے کو ملی ہے اور نہ ہی مستقبلِ قریب و بعید میں پیدا کی جا سکتی ہے. قربانی بھی اس الہ کے لیے جو تمام انسانوں کی صرف نیت پر ہی بے حساب عطا کرتا ہے۔ سرچشمہ ربانی کا بیکراں فیض انسانوں کو مرحمت کرنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ بس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسمعیل علیہ السلام سا ایمان کامل پیدا ہو جائے۔ زندگی کے ہر پڑاؤ پر حضرت ابراہیم ابتلا و آزمائش سے گزرے جس سے انسان بہت کم ہی گزرتے ہیں۔ جوانی میں کفر و شرک کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور آگ میں پھینکا جانا، سن رسیدہ ہونے کے بعد ہجرت کرنا، اولاد اور شریکِ حیات کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ جانا. اولاد کی نو خیزی و نوجوانی میں قربانی پیش کرنے کے لیے مستعد ہوجانا ایسے بے نظیر و عدیم المثال اعمال ہیں جسے رہتی دنیا تک ہم یاد کریں گے۔
آپ کا ایک اور قابلِ ذکر عمل الوہی معرفت کے لیے سرگرداں رہنا، علم و آگاہی کا استعمال کرکے فیضان و بصیرت سے اپنے الہ کو پہچاننا. ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی اپنے الہ کو علوم جدیدہ اور علم نافع کا استعمال کر کےاس کی معرفت حاصل کریں۔ اس کی ربوبیت کا اعتراف و اعلان کریں۔ اور معرفت ربانی کے بعد اس کے احکامات کے نفاذ وعمل کی کوشش کریں۔ افلاک کے اجسام وستاروں پر غور و فکر کریں جیسے آپ نے کیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا "کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں".
ابراہیمؑ کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے.
چناں چہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اُس نے ایک تارا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں.
پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میر ی رہ نمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گم راہ لوگوں میں شامل ہو گیا ہوتا.
پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیمؑ پکار اٹھا "اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنھیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو
میں نے تو یک سو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
(الانعام 74…79)
جب یہ جذبہ ایمانی انسان میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا عقیدہ راسخ و پختہ ہو جاتا ہے تو اللّٰہ کی رحمت انسان پر سایہ فگن ہوجاتی ہے۔
پھر وہی خدا بصیرت کے دروازے کھولتا ہے جس سے انسان پر اس کے فیضان اور کرم فرمائیوں کے بے پایاں سر چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور ان گنت باب ہم پر کھل جاتے ہیں۔
کفر ،شرک و الحاد سے متنفر جب انسان ہو جاتا ہے اور اپنے الہ کو پہچان لیتا ہے اور اس کا ایقان کامل ہو جاتا ہے توپھر اس میں ارباب سلطنت سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے. دنیا کی قوت و اقتدار اس کے سامنے بے وقعت معلوم ہوتے ہیں. اور اس کی قوتِ ایمانی وہ کارنامہ انجام دیتی ہے جس سے دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اصنام پروری سے اعلان بغاوت کیا تھا۔ جس طرح نمرود کے سامنے انھوں نے اللّٰہ کی کبریائی بیان کی تھی اور اسے مالک کل کہا تھا۔ شرک و الحاد صرف اصنام پروری تک محدود نہیں ہے. بل کہ اس کا دائرہ شخصیت پرستانہ عقیدوں اور عصبیت پسندانہ نظام اورفرسودہ روایات تک وسیع ہو تا ہے۔ لا إلهَ إلاَّ اللَّه کا اطلاق تمام نظام باطلہ کی پیروی کی نفی ہے۔ساتھ ہی گروہی مناقبت و برتری کا ،کالعدم ہے۔ بالا دستی و پیروی صرف احکام الہٰی اور ارشادات رسول صلعم میں مضمر ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک قلوب ایسے آلائشوں سے پاک نہ ہوں تب تک انسان اور گروہوں پر اس کے اثرات نمودار نہیں ہو سکتے ہیں. جب ہوس سینوں میں صنم کدہ تعمیر کرتی ہے تو نہ انسان کی زندگی انقلاب سے دوچار ہوتی ہے اور نہ ہی گروہ وافراد کی زندگیوں کی کایا پلٹ ہوتی ہے۔ نہ ثمرات کا حصول ممکن ہوتا ہے اور نہ سماج کی فلاح و بہبود۔۔۔۔۔! اور نہ ہی انسان اللّٰہ کی نعمتوں کے حقدار و وارث بنتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اسے انوکھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوس چھُپ چھُپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بشری اکملیت کے دو اسوے تا قیامت انسانوں کے لئے نمونہ تقلید ہے۔ خدا کی خوشنودی کی خاطر پسرکو بے آب گیاہ وادی میں چھوڑ کرنکل جانا اور اسی اولاد نرینہ کو خدا کی خاطر قربان کر دینے کے لیے تیار ہوجانا۔ہمارے لیے درس ہے کہ مومن کو دین کی سر بلندی کے لیے اپنی عزیز ترین شے کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اپنی عزیز ترین شے کو اللّٰہ کی خاطر قربان کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
دنیا کی سب سے عزیز ترین شے دولت واثاثہ نہیں۔ اولاد ہی انسان کو سب سے عزیز سے عزیز تر ہوتی ہے۔ اولاد پر آئی آفت کو رفع کرنے کے لیے انسان دولت کو لٹانے اور املاک کو چھوڑنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ اولاد کو اغوا کنندگان سے چھڑانے کے لیے اپنی کل پونجی دینے کو تیار ہوجا تاہے۔ اولاد ہی کے لیے کلفت زمانی کو برداشت کرتا ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند کو اللّہ کے سامنے قربان کرنے کے لیے پیش کردیا تھا۔ اور اپنے خواب کو رؤیائے حق میں تبدیل کردیا تھا۔ اللہ کے نزدیک ان کی پاک نیتی کو شرف قبولیت بخشا گیا۔ اور دنبہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ قربان ہوگیا۔ اور تاقیامت اس فعل کو مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا۔ اور تاقیامت یہ عمل جاری رہے گا. اسوہ ابراہیمی علیہ السلام کی یاد میں ان شاءاللہ قرآن کریم نے کچھ اس طرح ان کی بزرگی اور عظمت کا اعتراف کیا ہے۔
تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم(ع)!
تم نے (اپنے) خواب کو سچ کر دکھایا بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
(الصفات 104.105)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ جس پر ہمیں کاربند رہنا ہے وہ طریقہ جو راست ودرست ہے اور تمام مشرکانہ عقائد و رسومات سے پاک ہے۔خالص، سچا، سیدھا راستہ ہے۔ ہمارےتمام اعمال حسنہ کا محور صرف باری تعالیٰ کی ذات ہو۔ اور اسی کے لے ہماری حیات ہو اور موت ہو. اور یہ عقیدہ ہماری نفسی برائیوں کی قربانی دے کر ہی حاصل ہوتا ہے۔نفس کے وساوس و نجاسات سے پاک و صاف ہو کر ہی راہ راست پر چلنا ممکن ہوتا ہے۔ ہمیں قربانی، برے خواہشاتِ نفسانی کی قربانی کا بھی درس دیتی ہے۔ فرمان الہی ہے:
اے محمدؐ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یک سو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
الانعام 161…162)
قربانی کا جدا جدا طریقہ قدیم مذاہب میں موجود تھا۔ قرآن ہمیں اس بات کی آگاہی دیتا ہے۔ارشادربانی ہے:
ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس امّت کے لوگ) اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمھارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان بنو (الحج)
قربانی ترک نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی اس کا بدل ہے۔ دور حاضر میں پھیلی کورونا وبا سے بچنے کے لیے کئ گم راہ کن باتیں گشت کررہی ہیں۔کچھ لوگ قربانی کی بجائے رقومات وسامان غریبوں میں تقسیم کرنے کا بے تکا مشورہ دے رہے ہیں۔رقومات بینک و ATM سے نکالے جائیں گے۔ سامان و راشن وغیرہ تو کہیں سے خریدے جائیں گے۔ پھر یہ نادار و مفلسوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔ اس دراون کیا کورونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ بہت زیادہ نہیں بڑھےگا؟ بازار کھلے ہیں، سبزیاں، کرانہ کی خرید وفروخت جاری ہے، بینک و کاروبارکا سلسلہ جاری ہے۔ صرف قربانی ہی پر کیوں سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ covid 19 کے سینٹرز بستیوں کے وسط میں اور گنجان علاقوں میں قائم کیے جا چکے ہیں۔ نہ کسی کے ماتھے پر شکن آئی اور نہ ہوش کے ناخن۔ان سینٹرز سے کورونا کے پھیلاؤ کا قوی امکان ہے۔صاحب الرائے اور صاحبِ عقل یہ ہی کہے گا کہ covid سینٹرز آبادیوں کے وسط میں قائم کرنا انسانوں کی زندگی سے کھلواڑ ہے۔ اور صریح تندرست انسانوں کی زندگیوں کو ہلاکت میں مبتلا کردینا ہے۔ اب اس پر خاموشی چہ دارد۔۔۔؟ کیا ایسے سینٹرز سے بیماری کے پھیلاؤ کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔۔۔؟!! یہ انتہائی بودہ اور بے تکا خیال ہے کہ قربانی کرنے سے امراض کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔ کج فکری اور ذہنی شوریدگی کی یہ علامت ہے۔
اور یہ بات ذہن میں پیوست کرلیں کہ اس آشوب دہر و نکبت ایام میں جب انسان معاشی پریشانیوں سے دوچار ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غذائی قلت اور اجناس کی کمی میں اضافہ ہوچکا ہے۔ لوگ بھوک اور احتیاج کا شکار ہو رہےہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہندستان بھکمری کی فہرست میں 102 نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندستان شدید بھوک کے بحران سے جوجھ رہا ہے۔ بے روزگاری غذائی قلت اس وقت عروج پر ہے۔ غریب فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا گراف روز بڑھ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندستان میں 64 کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دائرہ فکر کو وسعت دیں تو حقیقی قربانی کا موزوں وقت تو یہی ہے۔ نفس کی قربانی کا، وقت کی قربانی کا، مال و متاع کی قربانی کا اور سب سے اعلیٰ سنت ابراہیمی کی تقلید وتجدید کا۔
قربانی ایک پاکیزہ عمل ہے۔ شعائر اسلام ہے۔ اور اس کا کیا جانا لازم ہے۔ انسان کی فلاح اور غربا و ناداروں کی غرض و بہتری اس سے وابستہ ہے۔ یہ اللہ کی خوشنودی اور رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے۔ اللّٰہ کے مقرب اور نیک بندوں کا پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اللّٰہ کی اتباع ہے۔
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’ذی الحّجہ کی دسویں تاریخ کو (یعنی عیدالاضحیٰ کے دن) فرزندِ آدم ؑ کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اورکُھروں کے ساتھ زندہ ہوکر آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ پس اے خدا کے بندو! دل کی پوری رضا اور خوشی سے قربانی کیا کرو۔ (جامع ترمذی، سنن ابنِ ماجہ)۔
اللہ ہمیں قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : دنیا حیاتیاتی جنگ کی زد میں