علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ: ایک مطالعہ

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ: ایک مطالعہ

✒️قمر اعظم صدیقی
بھیروپور، حاجی پور، ویشالی، بہار
📱9167679924
اقبال 9 نومبر 1877 ء کو ایک بارونق شہر میں پیدا ہوئے جسے سیال کوٹ کہتے ہیں۔
آپ کے والد شیخ نور محمد نے تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو سید میر حسن کے سپرد کیا. اقبال خود بھی بہت ذہین تھے۔ پھر اچھے استاد کی وجہ سے ان پر قلعی ہو گئی تھی۔ آپ میٹریکولیشن پاس کرنے کے بعد اسکاچ مشن کالج کی انٹرمیڈیٹ کلاس میں داخل ہوئے۔ مولوی میر حسن بھی ان دنوں کالج میں طلبا کو پڑھانے کے لئے مامور ہوئے تھے، جس کی وجہ سے استاد شاگرد کا باہمی تعلق بدستور قایم رہا۔انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد آپ نے لاہور کے گورمنٹ کالج میں داخلہ لیا ۔ انگریزی، فلسفہ اور عربی آپ کے مضامین تھے۔1897ء میں بڑے ہی امتیاز کے ساتھ بی اے کا امتحان پاس کرنے کے علاوہ آپ نے یونیورسیٹی بھر میں انگریزی اور عربی میں اول مقام حاصل کرکے وظیفہ اور ساتھ ساتھ دو طلائی تمغے بھی انعام پائے۔ فلسفے سے خاص لگاؤ تھا اس لیے ایم اے میں اپنے فلسفے کوہی اپنا مضمون بنایا۔خوش قسمتی سے آپ کو پروفیسر ٹامس آرنالڈ جیسا استاد ملا جس کی دنیاۓ فلسفہ میں دور دور تک شہرت تھی۔ پروفیسر ٹامس آپ کی قابلیت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے اور بہت جلد استاد شاگرد میں دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا ۔1899ء میں ایم اے کا امتحان بھی امتیاز کے ساتھ پاس کیا. اس بار بھی آپ نے یونیورسیٹی بھر میں اول آکر طلائی تمغہ انعام پایا۔ اقبال کو علم اور کتابوں کے ساتھ اتنا گہرا تعلق تھا کہ ان کی علم کی پیاس بجھاتے نہیں بجھتی تھی. اسی پیاس نے ستمبر 1905ء کو ہندستان سے یوروپ روانہ کر دیا۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کیمبرج یونیورسیٹی کے ٹرنٹی کالج میں داخلہ لیا۔ اقبال نے وہاں ایران کے فلسفے پر ایک مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ استاد کے مشورے کے بعد اقبال مقالے کو مکمل کرنے کے لیے میونخ یونیورسٹی، جرمنی پہنچے۔ وہاں دو ڈھائی برس مقالے پر کافی محنت کرکے اسے یونیورسٹی میں پیش کیا جس کے بدلے یونیورسٹی نے 1907ء میں اقبال کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ مقالے کی تعریف میں یونیورسٹی آف کیمبرج کی طرف سے آپ نے ایک امتیازی سرٹی فیکیٹ بھی حاصل کیا ۔ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹرایٹ لا کرنے کے لیے آپ کو تین برس تک یوروپ رہنا پرا۔ یوروپ واپسی پر آپ کا استقبال کرنے کے لیے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر دوستوں نے بھاری ہجوم لگا رکھی تھی۔ اخباروں اور رسالوں میں استقبالیہ نوٹ اور اداریے بھی لکھے گئے۔ گورمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر جیمز کے انتقال کے بعد پرنسپل مسٹر رابسن نے یہ عہدہ آپ کو پیش کیا۔ آپ چیف کورٹ میں وکالت جاری رکھنا چاہتے تھے اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ آپ صبح کو کالج میں پروفیسری اور اس کے بعد چیف کورٹ میں پریکٹس کریں۔ حکومت نے بھی یہ اجازت دے دی کہ اقبال کے مقدمات کالج سے فارغ ہونے کے بعد پیش کیے جائیں۔ اقبال آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ اور گورنمنٹ کالج کی زندگی میں ایک طرح کی پابندی تھی اس لیے آپ نےکوئی ڈیڑھ سال فلسفے کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد اچانک استعفی دے دیا۔ 9 نومبر 1914ء کو والدہ بیگم امام بی بی کے انتقال پر آپ کو بے حد صدمہ ہوا اور آپ مدت تک افسردہ خاطر رہے۔ والدہ کی جدائی پر آپ نے جو مرثیہ "والدہ مرحومہ کی یاد میں " لکھا وہ دنیاۓ ادب میں ایک بلند مرتبے کا حامل ہے۔ چالیس سال کی عمر میں سنہ 1917ء میں آپ درد گردہ کے شکار ہو گئے۔ 1923ء میں حکومت برطانیہ نے آپ کو سر کا خطاب دینا چاہا اس سلسلے میں آپ کی بات پنجاب کے گورنر سر ایڈورڈ میکلیگن سے ہوئی تو آپ نے اپنے استاد مولوی میر حسن کو شمش العلماء کا خطاب دینے کا مطالبہ کیا۔ شمس العلماء کا خطاب نہ ملنے پر آپ نے سر کا خطاب لینے سے انکار کر دیا۔ ایڈورڈ میکلیگن جواب سے پریشان ہو کر بولے سید میر حسن کی کوئی کتاب تصنیف نہ کیے جانے پر انہیں خطاب نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال نے فورا کہا کہ ان کی زندہ کتاب میں ہوں اس سے بڑھ کر اور کون سی کتاب چاہتے ہیں؟ سر میکلیگن نے آپ کی بات حکومت برطانیہ تک پہنچا دی. چنانچہ جب آپ کو سر کا خطاب ملا تو ساتھ ہی مولوی میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب ملا۔ سنہ 1924ء میں جاوید اقبال کی پیدائش پر آپ کو کافی خوشی ہوئی اور اس سے ہمیشہ انتہائی محبت رہی۔ سنہ 1930ء میں جاوید کو ایک بہن منیرہ پیدا ہوئی۔ سنہ 1928ء میں قریب گیارہ برس بعد آپ دوبارہ درد گردہ کے شکار ہوگئے اور درد کی شدت سے کافی نڈھال ہو گئے۔ اس بار علاج کے لیے حکیم نابینا کے پاس دہلی تشریف لے گئے۔ 1936ء کے آخر میں آپ دمے کے شدید دورے سے کافی پریشان ہوئے۔ اگلے سال آنکھوں میں موتیا بین کی وجہ سے بھی آپ پریشان رہے لیکن صحت غیر مناسب رہنے کی وجہ سے آپریشن ملتوی ہوتا گیا۔ 20 اپریل 1938 کو آپ کو بلغم میں خون نمودار ہوا. اس وقت آپ کا علاج لاہور کے ایک بڑے ڈاکٹر کرنل امیر چند سے ہو رہا تھا۔ انھوں نے دوا دی مگر آپ پی نہ سکے، کیوں کہ آپ ایلوپیتھک دوا پسند نہیں کرتے تھے۔ پورے دن طبیعت کافی خراب رہی. دیر تک آپ سو بھی نہ سکے. ایک بجے نیند آئی، مگر پھر درد سے تین بجے جاگ گئے. اسی وقت حکیم قریشی کو بلوایا مگر آپ حکیم صاحب کے آنے کے قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
یوں تو آپ کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا اور شاعری کا آغاز بھی اسکول کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا۔ لیکن شاعری کو پھلنے پھولنے کا موقع لاہور کی فضا میں ملا ۔شاعری کے آغاز کے وقت سیال کوٹ کے مشاعرے میں کبھی کبھار شریک ہوکر اپنا کلام سنایا کرتے تھے ۔ آپ نے جب اپنی غزلیں اصلاح کے لیے مرزا داغ دہلوی کو بھیجی تو داغ نے بہت جلد یہ لکھا کہ تمھارا کلام بڑی حد تک اصلاح سے بے نیاز ہے۔ مطالعہ اور مشق سخن جاری رکھو. داغ کی زندگی ہی میں اقبال کو ملک گیر شہرت اور ناموری حاصل ہوگئ۔ سنہ 1900ء میں آپ نے لاہور کے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اپنی نظم "نالہ یتیم" پڑھی جس کی داد سننے والوں نے آنسو اور آہوں سے دی۔ سنہ 1901ء میں شیخ سر عبدالقادر نے لاہور سے جو ماہنامہ ” مخزن” جاری کیا اس میں آپ کی وہ مشہور نظم "ہمالہ” بھی شائع کی گئی جو بانگ درا کی سب سے پہلی نظم ہے۔ اس نظم کا چھپنا تھا کہ آپ کی شہرت پنجاب کی سرحدوں کو بھی پار کر گئی۔ یہاں تک کہ ملک کے کونے کونے میں آپ کو جانا جانے لگا۔ آپ سے نظموں اور غزلوں کی فرمائش مختلف رسالوں اخباروں اور مجلسوں سے ہونے لگی۔ لیکن آپ نے اپنا کلام نہ زیادہ رسالوں اور اخباروں کو بھیجا اور نہ ہی زیادہ محفلوں میں شریک ہوئے. شہرت اور ناموری خود آپ کے پیچھے پیچھے پھرتی رہی۔
آپ نے بچوں کے لیے بھی چند نظمیں اور گیت لکھی ہیں۔ بچے کی دعا، ایک گائے اور بکری، پرندے کی فریاد وغیرہ ۔ آپ نے جو ترانہ ہندی لکھا ہے وہ آج بھی ہندوستان کے کونے کونے میں یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر پڑھا جاتا ہے.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے