علمائے دیوبند کے قرآن مجید کے مشہور اردو تراجم

علمائے دیوبند کے قرآن مجید کے مشہور اردو تراجم

ڈاکٹرمولانا محمد عالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ پٹنہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ(1703-1762) اوران کے خانوادے کو ہندوستان میں دینی خدمات کے حوالہ سے مرکزیت حاصل ہے۔تمام مسالک کے علماء کی سند کامنبع وہی ہیں۔ خاندان ولی اللہیٰ کے علمی میراث کے امین علماء دیوبند نے دینی علوم کومشن کے طورپر آگے بڑھایا ۔ اس سلسلہ میں آغاشورش کاشمیری(1917-1975) کاایک اقتباس پیش کرتاہوں۔
’’ ہندوستان میں علمائے حق کی نسبت مجدد الف ثانیؒ (1564-1624) جن کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے کہا ہے:شعر
گردن جھکی نہ جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمیٔ احرار
ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
ان کو جس سرزمین سے علم نبویؐ کی خوش بو محسوس ہوئی اوراس کے سرخیل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہوئے ،مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے اس شجر طوبیٰ کولگایا جس کی جڑیں تواپنی جگہ قائم ہیں مگراس کی شاخیں ہندی مسلمانوں کے گھروں تک پھیلی ہوئی ہیں، شیخ الہند نے اسے پروان چڑھایا اوران کے نیک نفس جانشینوں نے سرسبزرکھا،علمائے حق کی یہ ایسی زنجیر ہے جس کی عظمت پرحیرت ہوتی ہے کہ انسانوں کی جماعت ہے یا قدرت کا معجزہ، ایک صاف ستھرا سلسلہ ہے، جواں مردوں کاقافلہ ہے جو فکر وتضرع کے ہم رکاب حق گوئی کے سایہ میں بڑھتا چلا آرہا ہے‘‘۔
ہرمیدان میں ان کے کارنامے روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خدمت دین اوراشاعت اسلام کے لئے انھیں چن لیا ہے۔ مگریہاں ایک اجمالی جائزہ صرف قرآن کریم کے ترجمے اورتفسیر کے حوالہ سے پیش کرنا ہے۔ دیگر موضوعات کی تصنیفات کاتواحاطہ کرنامشکل ہے۔قرآن کریم کی خدمت کے حوالہ سے علمائے دیوبند کی تصنیفات کواس اقتباس سے سمجھا جاسکتا ہے۔
’’پروفیسر ڈاکٹرصلاح الدین یوسف کی تحقیق کے مطابق 1990 ء تک 300 تین سو تصنیفات کے ذریعہ علمائے دیوبندنے قرآن پاک کی مختلف جہت سے خدمت کی ہے۔ 21 زبانوں میں 84 ترجمے نیز 200 مکمل اورنامکمل تفسیریں ہیں۔ علوم القرآن پر34 کتابیں، احکام القرآن پر 20، اصول تفسیر وتراجم پر 33، اعجاز قرآن پر6، فصاحت و بلاغت پر10، تاریخ قرآن پر 15،ارض القرآن پر 3، قصص القرآن پر44، لغات القرآن پر29، فضائل قرآن پر8، تاریخ تجوید پر15،تجوید وقرأت پر20 ، اسباب نزول قرآن پر15، قرآنی ادعیہ پر 14، اسمائے حسنیٰ پر70،گم راہ فرقوں کے تفسیری آراء کے ردپر 19، قرآنی انڈیکس پر5، فلسفہ قرآن پر 5،اورتقریباًدو سوکتابیں مختلف قرآنی موضوعات پر علمائے دیوبند کی ہیں۔
(بحوالہ: پندرہ روزہ نجات پشاور، ڈیڑھ سوسالہ خدمات دارالعلوم دیوبند کانفرنس نمبر ،ص438)
جب کہ 1990 کے بعد کمپیوٹر اورپرنٹنگ پریس کی سہولیات کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ تیس برسوں کی تصنیفات اس کے علاوہ ہیں، اکیسویں صدی عیسوی کی صرف دو دہائی میں اکتالیس قرآن کریم کے اردو ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ جن میں بیشتر علمائے دیوبند کے ہیں۔
قرآن کریم کے اردو تراجم میں کچھ مشہور تراجم کا ذیل میں تذکرہ کیا جارہا ہے جو علمائے دیوبند نے کیا ہے۔
۱۔ مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ (1881-1941) جو مولانا رشید احمد گنگوہی کے مرید خاص تھے۔ کچھ سالوں تک ندوۃالعلماء لکھنؤ میں استاد رہے پھر خیرالمطابع میرٹھ میں کھولا، کئی کتابیں لکھیں۔ حدیث کی کتاب جمع الفوائد لکھی اوربھی کتابیں ہیں مگران کا اصل کارنامہ قرآن کریم کاترجمہ اورمختصر تفسیر کشف الرحمن کے نام سے ہے جو 1902ء میں شائع ہوا اوران کو سب سے کم عمر مفسر ومترجم کابھی اعزاز حاصل ہے، صرف بیس سال کی عمر میں ان کاترجمہ چھپا، ان کا ترجمہ بہت عام فہم اور سلیس ہے۔
۲۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ (1863-1943 ) انھوں نے قرآن پاک کا بامحاورہ سلیس ترجمہ تشریح آمیز جلالین شریف کے طرز پر 1906 ء میں لکھا۔ اوراس کی تفسیر ضخیم بارہ جلدوں میں بیان القرآن کے نام سے لکھی۔ علمی انداز ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے لئے ذرامشکل تھا، چوں کہ اس میں بکثرت عربی فارسی کے الفاظ تھے اس لئے اس کاخلاصہ عام فہم حاشیہ کے ساتھ ترجمہ لکھا، جس میں زبان کا رکھ رکھاؤ اور سلیقہ مندی نمایاں ہے. اورنفاست الفاظ نیز علمی اعتبار سے بہت جامع ہے۔ مفہوم آمیز ترجمہ کی وجہ سے اسے خوب مقبولیت ملی۔
۳۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ (1851-1920ء) آپ دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم ہیں۔ پھر استاد ہوئے اورتیسرے صدرمدرس بھی بنے۔ ریشمی رومال تحریک کے بانی، عظیم مجاہد آزادی وطن نیز جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے بانیوں میں ہیں۔ملک کی آزادی کی خاطر 1916 ء میں مالٹا کی جیل بھی گئے، اسی دوران اسارت تین سال کی مدت میں قرآن کریم کاترجمہ کیا، اورسورہ نساء تک کی تفسیر لکھی ۔انہوں نے اپنے ترجمہ کوشاہ عبدالقادر کے موضع القرآن کوبنیادبناکر اس کی تسہیل اور تفہیم کی۔ اس ترجمہ کا نام موضح فرقان رکھا۔
اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بغیر کسی بریکٹ کے عربی الفاظ کے معنی کواردو قالب میں ڈھال دیا ہے۔ترجمہ کوبہت مستند اورمعیاری سمجھا جاتا ہے۔
سعودی عرب کے شاہ فہد نے علماء کے مشورے سے اس ترجمہ کومولانا شبیراحمد عثمانیؒ کے تفسیری حاشیہ کے ساتھ بڑے اہتمام سے 1993ء میں شائع کرکے بڑی تعداد میں اردو دنیا میں تقسیم کرایا۔ جسے لوگوں نے خوب پسندکیا۔
۴۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی (1892-1977)آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ ومرید تھے اوران ہی کے ترجمہ وتفسیر کوبنیاد بناکر اپنے وسیع مطالعہ اورعلمی گہرائی سے قرآن کریم کا اردوترجمہ اورتفسیر ماجدی اردو میں سات جلدوں میں اورانگریزی میں چارجلدوں میں لکھا۔ ایجازواختصار اورجملوں کاحسن ان کی تحریر کی نمایاں خوبی ہے۔ عبارت بالکل چست درست اورمتحرک نظرآتی ہے۔ ہرموضوع میں ان کی انفرادیت جھلکتی ہے۔ جیسا موضوع ویساہی انداز. مذہبی تحریروں میں عالمانہ انداز، قرآن وحدیث اورعربی کی مستند کتابوں سے حوالہ جات، دنیاوی موضوع پرایک محقق اورفلسفی کی طرح مغربی مفکرین کے آراء سے مدلل، مفہوم کوپورے طورپرذہن نشیں کرادیتے ہیں اور لفظوں کونگینہ کی طرح جڑکر کاغذ ہی پرنہیں دل پر لفظوں کاتاج محل کھڑا کردیتے ہیں۔
تفسیر ماجدی کوزبان وبیان کے اعتبار سے ترقی یافتہ شکل کہہ سکتے ہیں۔ مخصوص اندازبیان ،اسلوب تحریر اورطرزادا کے ذریعہ نکات قرآنی کوبڑی خوبی سے واضح کیاہے۔ ان کی تفسیر کوپڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حدیث وشریعت کانچوڑ رکھ دیا ہے۔ مغربی مفکرین، مسیحیت اورملحدین کے اعتراضات کاجواب مسکت اندازمیں دیا ہے۔بائبل اورمستشرقین کی کتابوں کے دلائل سے ، جدید معلومات سے آگاہی متعدد تفاسیر کانچوڑ اوراہل علم کے لئے بڑی آسانی یہ کردی ہے کہ اصل مراجع ومصادر کے قدیم ماخذ تک براہ راست رسائی کرادیتے ہیں. ان کی تفسیر 1967 ء میں شائع ہوئی ۔ اس کے متعلق مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ لکھتے ہیں کہ ’’قدیم تفاسیر میں سے کوئی قابل ذکر تفسیر ایسی یاد نہیں آتی جونظر سے نہ گزری ہو، جدید مطبوعات بھی علم میں آتے رہے اوراس سے استفادے کی نوبت بھی آئی، عربی ممالک کے سفر کے سلسلہ میں جدید مطبوعات سے واقفیت کاموقع ملا. اس کے بعد میرایہ عرض کرنا کچھ وقعت رکھتا ہوکہ ’’تفسیر ماجدی‘‘ اپنی بعض خصوصیات میں منفرد ہے اورتمام تفسیری ذخیرہ کی موجودگی میں بہرحال اس کی ضرورت تھی‘‘۔
(مقدمہ تفسیر ماجدی ، طبع دوم 2003، ناشر مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ)
مولانا رابع حسنی ندوی، ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ تحریر فرماتے ہیں کہ’’ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تفسیر قرآن اپنی ایک انفرادیت رکھتی ہے، اس سے عصری تعلیم کاحامل، ایک عام ثقافت کامالک اورعلوم دینیہ کاطالب علم سب ہی کو یکساں فائدہ حاصل ہوتا ہے‘‘(حوالہ بالا)
۵۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ (1887-1962) بڑے مفسر قرآن تھے اورمولانا عبیداللہ سندھی کے خاص شاگرد تھے۔ آپ نے قرآن پاک کارواں اردو ترجمہ کیا اورسندھی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ 34 رسالے تصنیف کیے ہیں۔ مگرقرآن کریم سے خاص شغف تھا. لفظاً ومعناً اس کی خدمت کی۔ خود قرآن کریم حفظ کیا اوراس کی تعلیم بھی دیتے اورروزانہ بعدنماز فجر ایک گھنٹہ درس قرآن دیتے۔ جس میں مردوں کے علاوہ باپردہ خواتین بھی شریک ہوتیں۔
آپ کی شہرت شیخ التفسیر سے تھی اورفہم قرآن کے لئے دوردور سے لوگ آپ کے پاس آتے۔ آپ نے اردو ترجمہ قرآن پاک لکھا جوبہت سلیس اوررواں ہے ۔1947 ء میں شائع ہوا اورلوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
۶۔ مولانااحمد سعید دہلوی (1888-1959) جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر اوراول سکریٹری بھی رہے۔ مفتی کفایت اللہ سے بہت قریب تھے اورجمعیۃ علماء ہند میں ان کے دست راست بن کر ملی وقومی تحریک میں پیش پیش رہے اورمفتی کفایت اللہ کے بغل میں ہمیشہ کے لئے آسودہ خاک بھی ہوگئے۔ آپ کو تحریری اورتقریری دونوں ملکہ بڑا غضب کاتھا. آپ کی پرجوش تقریر کے باعث آپ کالقب ہی سحبان الہند مشہور ہوگیا اورتحریری خوبی ایسی تھی کہ بیس سے زیادہ کتابوں میں کچھ کتابیں تواتنی عام ہیں کہ مردوعورت سب کی زبان پر ہے اورہرکتب خانہ میں موجود ہے جیسے ’’ جنت کی کنجی‘‘ دوزخ کاکھٹکا‘‘ وغیرہ. سیاسی اورسماجی خدمات کے اعتبار سے صف اول میں شمارہوتے۔ مولانا آزاد کی مشہور زمانہ تقریر جوجامع مسجد میں آزادی کے وقت ہوئی تھی اس کی صدارت آپ نے ہی فرمائی تھی اورمولانا ابوالکلام آزاد کی نماز جنازہ بھی 1958ء میں آپ نے ہی پڑھائی. آپ کو قرآن کریم سے خاص شغف تھا اس لئے اس کاترجمہ اورتفسیر لکھی۔ دوجلد میں کشف الرحمن مع تیسیرالقرآن کے نام سے شائع ہوئی۔
آپ کی تفسیر اورترجمہ اپنے حسن بیان ولطافت میں اپنی مثال آپ ہے۔ دہلی کی صاف سلیس اورفصیح زبان ان کاخاص امتیاز ہے۔ اکابر علماء نے آپ کی مہارت دینی کوتسلیم کیا ہے اوراس کی خوب توصیف کی ہے۔
۷۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم (ولادت 1943 بمقام دیوبند) آپ کاشمار عالم اسلام کے جیدفقیہ علماء میں ہوتا ہے. حکومت عمان کااسلامی تحقیقی ادارہ المجمع الملکی للبحوب الاسلامیہ نے 2020 ء میں اسلامی دنیا کی موثر ترین شخصیت کے طور پرآپ کو نام زد کیا ہے۔ 1982 سے 2002 ء تک عدالت عظمی شرعیہ پاکستان کے جسسٹس رہے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے نائب صدر ہیں. آپ ایک عظیم محقق ، مدبر، محدث، مفکر اوربلند پایہ مفسر قرآن ہیں۔ مسائل جدیدہ میں آپ کی رائے عالم اسلام میں مستند سمجھی جاتی ہے اورمختلف اسلامی موضوعات پرآپ کی گراں قدر تصانیف ہیں۔ خاص طور سے اسلامی معاشیات پر آپ کی بڑی گہری نظر ہے، مگر آپ کا عظیم کارنامہ قرآن کریم کی مختلف جہات سے خدمت کرنا ہے۔ اپنے والد گرامی قدر مفتی اعظم محمد شفیع عثمانی کی معرکۃ الآرا تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں کوانگیریزی زبان میں منتقل کیا جس سے عام انسانوں کے لئے استفادہ آسان ہوا۔
پھر خود قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیاجوبہت آسان ہے۔ علوم القرآن کے نام سے معارف القرآن کے مقدمہ کی تشریحی صورت بھی پیش کی ہے۔
آپ کاایک عظیم کارنامہ قرآن پاک کاترجمہ ومختصر تفسیر ہے۔ توضیح القرآن ۔آسان ترجمہ قرآن مجید کے نام سے سلیس بامحاورہ ترجمہ کیا ہے۔ اورضروری تفسیر ہرصفحہ میں لکھی ہے ۔ کم وقت میں قرآن فہمی میں یہ بہت مفید ترجمہ وتفسیر ہے۔ایک جلد 1325 صفحات پرمشتمل ہے جو 2006ء میں شائع ہوئی ہے۔ زبان بہت سلیس اورنکھری ہوئی ہے اورماقلّ ودلّ کے مطابق جامع انداز میں مختصر جملوں میں مفہوم کوبالکل منقح اورواضح فرمادیا ہے. عوام وخواص دونوں کے لئے استفادہ آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد اسے شہرت ومقبولیت ملی اورلوگوں نے خوب پسند کیا ہے۔
(ناشر: ادارۃ الصدیق ڈابھیل گجرات، طابع: فرید بکڈپونئی دہلی۔ مطبوعہ 2008ء)
۸۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم (ولادت 1956ء) بہار کے دربھنگہ ضلع کے قصبہ جالے میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ والد کانام حکیم زین العابدین اورچچا عالم اسلام کی مشہورعلمی شخصیت قاضی القضاۃ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، نائب امیر شریعت بہاراڑیسہ وجھارکھنڈ ، صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، بانی وسکریٹری جنرل آل انڈیا ملی کونسل دہلی ہیں۔
آپ کے دادا مولانا عبدالاحد قاسمی قدیم فاضل دیوبند حضرت شیخ الہند ؒ کے شاگرد تھے اورمدرسہ احمدیہ مدھوبنی کے شیخ الحدیث ۔ اس طرح آپ کا ایک علمی خانوادہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد دارالعلوم حیدرآباد سے تدریسی سفرکاآغاز کیا، پھرسبیل السلام حیدرآباد سے منسلک ہوئے۔1420ھ یعنی اکیسویں صدی عیسوی کے بالکل اوائل میں المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کی بنیاد رکھی۔ ہمہ جہت خوبیوں سے مزین ہیں. درس وتدریس ، تصنیف وتالیف کے علاوہ تحریکات اور تنظیموں سے بھی گہری وابستگی ہے۔جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری جنرل ، المعہد العالی الاسلامی کے بانی وناظم کے علاوہ بہت سے اداروں کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ البتہ تصنیفی میدان میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا ہے اورآپ کے قلم گہر بار سے متعدد علمی تحقیقی کتابیں تصنیف ہوئی ہیں اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔
آپ کی تصنیفات میں فال نیک کے طورپر پہلی کتاب قرآن کریم سے متعلق ہے۔ ’’قرآن ایک الہامی کتاب‘‘ اس کے علاوہ آسان اصول حدیث، آسان اصول فقہ، تدوین حدیث، حلال وحرام، راہ اعتدال، کتاب الفتاویٰ چھ جلد، جدید فقہی مسائل پانچ جلد، قاموس الفقہ پانچ جلد، حیات مجاہد 800 سوصفحات پردستاویزی مجلہ اور شخصیات کے تذکرہ پرمشتمل ’’ وہ جو بیچتے تھے دواے دل‘‘ اہم تصنیفات ہیں۔ مگران سب میں یہاں موضوع بحث مترجم اورمفسر کی حیثیت سے ترجمہ قرآن پاک ہے۔ جوبلاشبہ بہت اہم کارنامہ ہے اوربڑی سعادت کی چیز ہے۔
آسان تفسیر قرآن مجید : مولاناخالد سیف اللہ رحمانی نے آسان اورسلیس اردو زبان میں قرآن پاک کاترجمہ اورمختصر تشریح مستند احادیث کی روشنی میں کیا ہے جس سے قرآنی تعلیمات کومعیاری انداز میں واضح کردیا ہے۔ اس میں آپ کی علمی گہرائی، وسعت مطالعہ اورفکری توازن بدرجہ اتم محسوس ہوتا ہے۔ آج کی مشغول دنیا میں ضخیم کتابوں کے مطالعہ سے عام لوگ دورہورہے ہیں. ایسے حالات میں قرآن فہمی کے لئے مستند اور معیاری انداز میں وسیع النظرعالم دین کایہ دو جلدوں میں ترجمہ وتفسیر بہت مفید ہے۔ زبان وبیان میں چاشنی ہے. اس کی حلاوت سے اکتاہٹ نہیں ہوتی. سلاست وروانی سے بھرپور ہے اورنہایت مفید جامع انداز میں ترجمہ ومختصر تفسیر سہل انداز میں لکھی گئی ہے۔ پہلی جلد 874 صفحات پرمشتمل ہے۔ جو سورہ کہف تک ہے۔اس کی اشاعت اول 2014ء میں ہوئی ہے اورناشر: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد ہے۔
(آسان تفسیر: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ناشر: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد، طبع اول 2014ء)
۹۔ مولانا بلال حسنی ندوی (ولادت 1969ء) ندوۃالعلماء لکھنؤ کے مایہ ناز استاد حدیث، عظیم داعی اسلام، تحریک پیام انسانیت کے سکریٹری ، بہت سے دینی اداروں کے سرپرست اورعربی اردو دونوں زبان کے مایہ ناز مصنف ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں ’’ حدیث کی روشنی‘‘ اسوۂ رحمت‘ قادیانیت منظر اورپس منظر ، سوانح مفکراسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘‘ وغیرہ کے علاوہ اہم علمی کارنامہ’’ آسان ترجمہ قرآن مجید ‘‘ ہے۔ یہ آسان زبان میں عام فہم دعوتی انداز میں ہے۔ اس میں ترجمہ کے ساتھ مختصر حواشی بھی ہیں جس میں تفہیم کی بڑی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ اسے لوگوں نے خوب پسند کیاہے،کیوں کہ ایک صالح فکر کے متدین عالم دین کے قلم سے مستند حوالوںسے لکھاگیا ہے۔
۱۰۔ ڈاکٹرمولانا ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ اورکئی اہم اداروں سے منسلک ہیں۔ ہمہ جہت خوبیوں سے مزین ہیں، مختلف نوعیت کی مشغولیت کے باوجود تصنیف وتالیف کے کام کو برابر جاری رکھا۔ بہتر منتظم ہونے کے ساتھ عظیم قلم کار بھی ہیں اورکئی اہم تحقیقی کتابوں کولکھا ہے جس میں ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ تین جلد ۔قدیم اردو زبان کی تاریخ اورتحریک آزادی ہند میں علماء کرام کاحصہ ‘‘ وغیرہ بڑی معلوماتی اورتحقیقی کتابیں ہیں۔ ستر سے زائد بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اسی طرح متحرک اورسرگرم عمل ہیں۔ ملت کے ہرکام پربڑی گہری نظر رکھتے ہیں اوربروقت مفید مشوروں سے رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ احقر راقم الحروف آل انڈیا ملی کونسل بہار کا جنرل سکریٹری ہے اورمولانا موصوف اس کے نائب صدر ہیں اس لئے بہت قریب سے ان کی رہنمائی میں کام کرنے کاتجربہ ہے۔ آپ کی زندگی سعی پیہم سے عبارت ہے۔
ان کا ایک قابل قدراہم تصنیفی کارنامہ’’ تسہیل القرآن " آسان ترجمہ قرآن مجید ہے۔ ابھی صرف ترجمہ 2021 ء میں منظرعام پر آیا ہے۔ تفسیری کام جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائے تاکہ ان کی تفسیر سے بھی لوگ استفادہ کرسکیں۔
مولانا نے ’’آسان ترجمہ قرآن مجید‘‘ میں نئے انداز کو اپنایا ہے۔ اورترجمانی کابہترین اسلوب اختیارکیاہے، جس سے تفہیم کامقصدبڑی حد تک پورا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے نافع عام بنائے اورقبولیت بخشے۔
اردو زبان میں ترجمہ وتفسیر کی کثرت کی ایک بڑی وجہ یہ  کہ یہ ایک تغیر پذیر زبان ہے اورہرنصف صدی میں اس کا ایک نیاقالب تیارہوتا ہے۔پھر ایک ہی موضوع پرکئی اہل علم قلم اٹھاتے ہیں توسب کی تحریروں میں الگ الگ خوبیاں محسوس ہوتی ہیں کہ صاحب تحریر کاذوق ان کا مطالعہ اوران کی فکریں ان میں جھلکتی ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ ترجمہ صرف شرف سعادت کے لئے نہیں بلکہ ایک ضرورت کی تکمیل ہے۔ جس میں لسانی ارتقا کالحاظ رکھتے ہوئے نئی تعبیرات کے ساتھ تفہیم وترجمانی کی گئی ہے۔
(تسہیل القرآن- آسان ترجمہ قرآن- مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی۔ مطبع: یورپین پرنٹرس دہلی، طبع اول 2021ء)
خلاصہ کلام:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی الہامی آخری کتاب ہے جو تمام انسانون کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کانازل کردہ آئین حیات انسانی ہے۔ قیامت تک اس سے رہنمائی ملتی رہے گی اس لئے اس کو جاننا سمجھنا اوراس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ لہذا ہرزمانہ میں اس کی تفسیر اورتشریح کی گئی، ہندوستان میں اول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فارسی میں اس کا ترجمہ کیا پھر ان کے صاحب زادے شاہ عبدالقادر نے اردو میں اس کا سلیس ترجمہ کیا اوراس مشن کو علمائے دیوبند نے ہرزمانہ میں سنبھالے رکھا اورسیکڑوں کتابیں خدمت قرآن کے حوالے سے لکھیں اورزمانے کے تقاضے کے مطابق اس کی تفسیر اورترجمہ کیے جن میں سے صرف دس علمائے دیوبند کے اردو تراجم کوبطور نمونہ پیش کیاگیا ہے۔ جب کہ تفسیری خدمات ایک الگ موضوع ہے جیسے مفتی اعظم مولانا محمد شفیع عثمانی (1997-1976) نے آٹھ ضخیم جلدوں میں معارف القرآن لکھا مگر اس میں ترجمہ شیخ الہند اورخلاصہ تفسیر میں ترجمہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کولیا ہے اور معارف ومسائل کے تحت عالمانہ وفاضلانہ انداز میں آیات قرآنی کی تفسیر وتشریح اوراس سے متعلق فقہی مسائل کو راجح قول کے مطابق بیان کردیا ہے جس سے عوام وخواص دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں اوربڑی مقبولیت ملی. ہرجگہ دستیاب ہے اوراب اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوگیا ہے۔

اسی طرح مولانا محمد ادریس کاندھلوی (1899-1974) کی تفسیر کانام بھی معارف القرآن ہے اوریہ بھی آٹھ جلدوں میں ہے۔ مولانا بڑے مایہ ناز عالم دین تھے اورایک سو کے قریب ان کی تصانیفات ہیں ، سیرۃ المصطفٰی تین جلدوں میں سیرت پربڑی مستند کتاب ہے۔ قرآن وحدیث پرانھیں بڑاعبور حاصل تھا۔اس لئے ان کی تفسیر میں علمی نکات اورصوفیانہ مضامین بھی کثرت سے ملتے ہیں ، اہل علم کے لئے اس سے استفادہ کرنا آسان ہے۔
شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی(1887-1949ء) کی تفسیر عثمانی تین جلدوں میں ہے ۔ یہ مختصر ہونے کے ساتھ بہت جامع ہے۔ نادر معلومات اورتشفی بخش تشریح کی گئی ہے ۔ باہمی ربط واضح کرتے ہوئے معاصر دنیا کے اشکالات کاکافی وشافی جواب بھی دیاہے۔ تعبیر وتفہیم میں بڑی جاذبیت ہے نیز اہل علم کے لئے لطیف علمی اشارہ بھی ہے اوراتنے عرصہ بعد بھی اس کی حلاوت ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ آج کے دور کی لکھی ہوئی ہے۔ بہت ساری تفسیروں کانچوڑ ہے۔ اس کاخلاصہ ترجمہ شیخ الہند کے حاشیہ میں شائع ہوگیاہے. اس لئے عام طورسے لوگ اسی پراکتفا کرلیتے ہیں ۔ اسی طرح علمی دنیا میں نہایت مقبول ترین تفسیر ماجدی ہے۔ چند تفسیروں کاصرف ذکرکردیاہوں تاکہ ان تفسیری کارناموں کاکچھ اندازہ ہو۔ جب کہ موضوع سخن چندمشہور اردو تراجم قرآن کاذکرتھا جوعلمائے دیوبند نے انجام دیا ہے اوربے شمار انسان ان سے استفادہ کرکے اپنی آخرت سنواررہے ہیں. ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
دعا ہے کہ رب کریم علمائے دیوبند کے علمی فیضان کو تا قیامت جاری وساری رکھے۔آمین.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے