سیدالعلما حضرت علامہ سید عبد الرحمن القادری بیتھوی علیہ الرحمہ: حیات و خدمات کے آئینے میں
محمد نہال احمد قادری
کیری شریف، بانکا[بہار]
آپ کی ولادت باسعادت ماہ صفرالمظفر سنہ ١٢٩٤ ہجری بہ مطابق سنہ ١٨٧٥ عیسوی بروز جمعہ مبارکہ اپنے نانا جان عارف باللہ سید شاہ عبدالحق نوراللہ مرقدہ (چلہ کش جھرنا پہاڑ ضلع بانکا بہار) کے دولت کدہ بیتھو شریف ضلع گیا میں ہوئی۔
آپ کا اسم شریف سید عبدالرحمن اور لقب مخدوم عالم پناہ ہے۔ آپ کے والد بزرگوار قاضی القضاة فی سلطنت مغلیہ؛ تارک الدنیا حضرت علامہ سید الشاہ عبدالقادر بیتھوی قدس سرہ النورانی صاحب کرامت بزرگ تھے۔ عالم شباب میں ہی اپنے شیخ و سسر عارف باللہ سید شاہ عبدالحق قادری چلہ کش جھرنا پہاڑ کے ہم راہ تبلیغی دورہ میں کیری شریف تشریف لاۓ ہوۓ تھے اور معمولی علالت کی وجہ سے اچانک یہیں آپ کا وصال پر ملال ہوگیا. آپ کے خسر و مرشد بر حق عارف باللہ سید شاہ عبدالحق قادری بیتھوی علیہ الرحمہ کے حکم پر کیری شریف ہی میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ اس وقت علامہ سید عبدالرحمن قادری بیتھوی ثم کیری شریف المعروف بہ مخدوم عالم پناہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف ٦ یا ٧ سال کی تھی. خود حضور مخدوم عالم پناہ علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ مجھے اپنے والد سید عبدالقادر بیتھوی قدس سرہ کی شکل بہت ٹھیک سے یاد نہیں ہے. البتہ ایک بار عید کے دن میرے والد مجھے آنگن میں جوتا پہنا رہے تھے تھوڑی سی وہ جھلک مجھے یاد ھے۔
والد صاحب کے انتقال کے بعد آپ کے نانا جان نے بڑی شفقت و محبت سے آپ کی پرورش کی اور اپنی آغوش شفقت میں رکھ کر آپ کی تعلیم و تربیت کا مکمل خیال رکھا. ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے نانا جان کے پاس ہی رہ کر حاصل کی. اس کے بعد درس نظامی کے لیے سہسرام؛ کان پور اور بلند شہر وغیرہ کئی اداروں میں اساتذۂ کرام کی صحبتیں اختیار کیں اور ان کی بافیض درس گاہوں میں بہت کچھ پڑھا اور سیکھا مگر جیسے جیسے شعور و آگاہی کی منزلیں طے کرتے جاتے ویسے ویسے ھل من مزید کی تڑپ بڑھتی جاتی. انہی اساتذۂ کرام سے اکثر آپ مجدد اعظم؛ امام اہل سنت؛ شیخ العرب و العجم سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمة والرضوان کے فضایل و کمالات سنتے رہتے تھے. اس لیے آپ کے دل میں سرکار اعلیٰ حضرت کی غایبانہ عقیدت و محبت پیدا ہوگئی اور پھر آپ نے مکمل ارادہ کر لیا سرکار اعلحضرت کی بارگاہ فیض میں شرف حضوری کا. سرکار اعلیٰ حضرت سے جب آپ کی پہلی ملاقات ہوئی تبھی آپ کو یقین ہوگیا کہ اب میرےحصول علم کی تکمیل اسی بارگاہ سے ہوگی۔ آپ نے بارگاہ رضا میں رہ کر خوب محنت سے علم حاصل کی. یہاں تک کہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد سرکار اعلیٰ حضرت نے آپ کو دستار فضیلت اورسند سماعت حدیث سے نوازا اور اپنی خلافت بھی عطا کی۔
دستار فضیلت کے بعد آپ اپنے نانا جان عارف باللہ سید شاہ عبدالحق قادری بیتھوی علیہ الرحمہ کے پاس آگئے اور نانا جان کی صحبت میں رہ کر مکمل تین سال تک روحانی تعلیم حاصل کرتے رہے. اس تین سالہ عرصہ میں سرکار اعلیٰ حضرت اور حضور ملک العلما علامہ سید ظفرالدین الرب بہاری علیھما الرحمہ کے کتنے خطوط آتے رہے جس میں ہر بار دیگر احوال و کوایف سے آگاہی کے بعد لکھا ہوتا کہ آپ بریلی شریف چلے آئیں۔
حضور شیخ المسلمین نوراللہ مرقدہ سے اس ناچیز راقم الحروف (محمد نھال احمد قادری) نے کئی مرتبہ یہ فرماتےہوۓ سنا ہے کہ ”وہ سارے خطوط بیتھو شریف گھر میں محفوظ تھے، والد صاحب کے انتقال کے بعد میری والدہ محترمہ نے دیگر غیر ضروری کاغذات کے ساتھ وہ سارے خطوط بھی نظر آتش کردی. البتہ حضور ملک العلما علیہ الرحمہ کے دو خط مجھے ملے اور وہ دونوں خط میرے پاس محفوظ ہیں“ الحمد للہ حضور شیخ السلمین نے ان دونوں خطوط کی اس ناچیز راقم الحروف کو بھی زیارت کرائی اور حضور شیخ المسلمین کی اجازت سے دونوں خطوط کی زیراکس کاپی کراکر میں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ ملک العلما علیہ الرحمہ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ” أپ خط پڑھتے ہی فوراً بریلی شریف کا ٹکٹ لے کر ریل گاڑی پر سوار ہوجائیں آپ کے آنے سے اعلیٰ حضرت کو اس درجہ خوشی ہوگی کہ تحریر سے باہر ہے“
آپ اندازہ لگائیں کہ علامہ سید عبدالرحمن بیتھوی ثم کیری شریف المعروف بہ حضور مخدوم عالم پناہ علیہ الرحمہ سے سرکار اعلیٰ حضرت کو کتنی محبت تھی. یہی وجہ ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اکثر فرماتے تھے کہ”پورے صوبہ بہار میں میرے دو ہی گلاب ہیں" ایک ملک العلما علامہ سید ظفرالدین الرب بہاری اور دوسرے سید العلما علامہ سید عبدالرحمن قادری بیتھوی المروف بہ حضور مخدوم عالم پناہ کیری شریف علیھماالرحمہ کی طرف اشارہ ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ بریلی شریف دوبارہ پھر تشریف لے گئے اور دوسال تک آپ نے سرکار اعلیٰ حضرت کی خواہش پر دارالعلوم منظراسلام میں درس و تدریس کے فرایض انجام دیے. بعدہ دارالافتا کے منصب جلیلہ پر فایز فرماکر افتا نویسی کی ذمہ داری بھی عطا فرمادی. مکمل بارہ سال تک بارگاہ اعلیٰ حضرت میں أپ نے فتاویٰ نویسی کے کام انجام دیے. آپ سرکار اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں کافی مقبول تھے اور اعلیٰ حضرت آپ سے بے پناہ شفقت و محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ بیتھو شریف اپنے گھر تشریف لاۓ ہوۓ تھے اور دو ہفتے ہوگئے آپ بریلی شریف حاضر نہیں ہوۓ۔ بہار شریف حضور مخدوم جہاں کی بارگاہ میں سرکار اعلیٰ حضرت سے آپ کی ملاقات ہوئی. اعلحضرت نے فرمایا سید صاحب ابھی تک آپ بریلی شریف نہیں پہنچے؟ حضور مخدوم عالم پناہ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضور طبیعت ٹھیک نہیں ہے دوائی کھا رہاہوں لیکن بخارختم نہیں ہورہاہے. سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ میرے ساتھ یہیں سے بریلی چلیں میں آپ کا علاج کروں گا. آپ اعلیٰ حضرت کے ساتھ بریلی شریف آئے. سرکار اعلیٰ حضرت نے ایک تعویذ بنا کر دی اور فرمایا کہ اس کو پہن لیجیے مگر کھول کر مت دیکھیےگا. أپ نے وہ تعویذ پہن لی. کچھ گھنٹوں کے بعد بخار مکمل ختم ہوگیا. ملک العلما علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ سید صاحب ذرا اس تعویذ کو کھول کر تو دیکھیے کہ آخر اعلیٰ حضرت نے کیا لکھ کر دیا ہے کہ تعویذ پہنتے ہی بخار ختم ہوگیا. آپ نے فرمایا کہ اعلیٰ حضرت نے تعویذ کھول کر دیکھنے سے منع فرمایا ہے. حضورملک العلما نے کہا ارے یار اعلیٰ حضرت سے معافی مانگ لیں گے. بہرحال تعویذ کھول کر جب دیکھا تو دونوں حضرات محو حیرت ہوگئے. اس میں صرف لکھا تھا ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ تعویذ کو ویسے ہی لپیٹ کر یہ دونوں حضرات سرکار اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں جا کر کھڑے ہوگئے. اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے مسکراتے ہوۓ فرمایا مجھے معلوم تھا کہ آپ لوگ نہیں مانیں گے۔
اسی طرح حضور مخدوم عالم پناہ سرکار اعلیٰ حضرت سے بے حد محبت فرماتے تھے. آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت سید حماد میاں علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ والد صاحب حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا اکثر تذکرہ فرماتے اور اعلی حضرت کے نعتیہ اشعار اپنی تنہائیوں میں بڑے شوق و وجد سے گنگاتے رہتے اور فرماتے کہ اعلیٰ حضرت کے نعتیہ اشعار سے روح کو غذا ملتی ہے۔
آپ بڑے متقی عبادت گزار شب زندہ دار تھے. فرایض کے علاوہ نوافل کی کثرت سے اہتمام فرماتے. نمازفجر کے بعد تقریبا دو سے ڈھائی گھنٹے تک قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور دیگر اوراد و وظایف میں مشغول رہنا روز کا معمول تھا۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر اپنی خانقاہ میں چارپائی پر لیٹے لیٹے تسبیح پڑھتے رہتے. اگر معتقدین بیٹھے ہوتے تو واعظ و نصیحت فرماتے ورنہ ذکر و تہلیل میں مشغول رہتے۔ ایک مرتبہ آپ اپنی خانقاہ میں بعد مغرب یوں ہی اکیلے چارپائی پر لیٹے ذکر و تسبیح میں محو تھے، اتنے میں چوہے نے آپ کے بازو کا گوشت کھانا شروع کیا اور اپ ذکر الہی میں مست ہیں، اسی اثنا میں آپ کا خادم أگیا، دیکھا چوہے نے کافی مقدار میں آپ کے بازو کا گوشت کاٹ ڈالا، خادم نے أپ سے کہا کہ حضور چوہے نے آپ کے بازو کا گوشت کاٹ ڈالا تو مخدوم عالم پناہ علامہ سید عبدالرحمن بیتھوی نے بڑی سنجیدگی اور متانت سے جواب دیا کہ اللہ تعالی نے جب اس کی روزی میرے ہی جسم میں رکھا ہے تو میں اسے کیسے بھگا سکتا ہوں. اللہ اکبر کبیرا۔ ذکر و اذکار اتنی کثرت سے فرماتے کہ آپ کی خاموشی میں بھی آپ کی سانس سے الا اللہ الا اللہ کی أواز سنائی دیتی تھی۔
آپ صاحب کشف و کرامت اور صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب تصنیف بھی تھے. پیکان جانگداز بر جان مکذبان بے نیاز؛ بطش غیب؛ رجال الغیب اور افتاۓ حرمین کا تازہ عطیہ وغیرھم جیسی کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔
آپ کی پوری زندگی دین و سنیت کی خدمت میں گزری. گاؤں گاؤں بستی بستی بیل گاڑی سے چل کر دین کی تبلیغ فرماتے.
اٹھانوے سال کی عمر میں ١٣ ذی الحجہ ١٣٩٢ ھجری بہ مطابق ٢٢ جنوری ١٩٧٣ عیسوی رات ١ بج کر ٤٤ منٹ پر آپ کا وصال پرملال ہوا. نماز جنازہ آپ کے شہزادہ و جانشین شیخ المسلمین حضرت علامہ الحاج الشاہ سید محمد حسنین رضا قادری قدس سرہ نے پڑھائی. آپ کا مزار اقدس کیری شریف میں مرجع خلایق ہے. ہر سال ٢٠/ ٢١ جنوری کو آپ کا عرس سراپا قدس ہوتا ہے اور لاکھوں بندگان خدا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر آپ کے روحانی فیضان سے مالامال ہوتے ہیں ۔
ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

سید العلما سید عبد الرحمن القادری: حیات وخدمات کے آئینے میں
شیئر کیجیے