ڈاکٹر خالد مبشر
اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ
بہار کی دونوں سینٹرل یونی ورسٹیوں میں اردو کا شعبہ تو کیا اردو سرے سے ہی ندارد ہے۔
بہار کی تاریخ میں پہلی بار 2009 میں سینٹرل یونی ورسٹی آف ساؤتھ بہار (گیا) کا قیام عمل میں آیا۔
ابھی یہاں 52 کورسیز کی تعلیم جاری ہے۔
لیکن آج تک نہ اردو کا شعبہ قائم ہوا، نہ ایم اے، پی ایچ ڈی کے کورسیز شروع کیے گیے، نہ اساتذہ کا تقرر ہوا۔
2013 میں اردو کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کا تقرر کیا گیا تھا ۔اس وقت بی اے بی ایڈ انٹیگرل کورس میں اردو بطور سبجیکٹ شامل تھی۔لیکن بعد میں اردو ختم کردی گئی۔
جب کہ ہندی کا شعبہ باضابطہ قائم ہوچکا ہے۔وہاں ایم اے، پی ایچ ڈی کے کورسیز چل رہے ہیں،بی اے بی ایڈ انٹیگرل کورس میں ہندی بطور سبجیکٹ شامل ہے اور سات اساتذہ کا تقرر بھی ہوچکا ہے۔
ابھی صورتِ حال یہ ہے کہ یونی ورسٹی داخلے کے اشتہار میں اردو کا کوئی ذکر تک نہیں کیا جاتا۔
یہی معاملہ بہار کی دوسری سینٹرل یونی ورسٹی مہاتما گاندھی سینٹرل یونی ورسٹی (موتی ہاری) کا ہے، جس کا قیام 2016 میں عمل میں آیا تھا۔وہاں بھی اردو کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔جب کہ ہندی کا شعبہ خوب پھل پھول رہا ہے۔
آخر اردو کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک کیوں؟
محبانِ اردو کو چاہیے کہ اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے وزیرِ اعظم اور وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل کو میمورنڈم ارسال کریں ، اخبارات میں بیانات جاری کریں ، کالم لکھیں اور سوشل میڈیا میں بھی تحریک چلائیں۔
آپ یہ بھی پڑھیں : میں کہ اک معلم ہوں