ذاکر فیضی، نئی دہلی
اکیسویں صدی کی بات ہے۔ ایک بہت بڑا ملک تھا۔
اس ملک میں ایک بہت بڑی یونی ورسٹی تھی۔
اس یونی ورسٹی میں بہت سے شاندار ہوسٹل تھے۔
انھی میں سے ایک ہوسٹل کے ایک کمرے میں۔۔۔
چار انٹلئکچوئل اکٹھّا ہو ئے۔انٹلئکچوئلی انٹئکچوئلی کھیلنے کے لئے۔
سب سے پہلے چاروں انٹلئکچوئل نے انسانوں کی طرح، بڑے ہی مہذّبانہ انداز میں ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی۔
پھر وہ عام آدمی کی طرح مسکراتے ہوئے ادِھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔
پھر فلاسفروں کہ طرح کسی’سنجیدہ‘ موضوع پر بحث مباحثہ کا آغاز ہوا۔
پھر وہ کتّوں کی طرح ایک دوسرے پر لفظوں سے بھونکنے لگے۔
اور ایک دوسرے کو مثالوں، دلیلوں، قولوں، حکایتوں، آیتوں، شلوکوں، چھندوں، حدیثوں، سوکتیوں، شعروں، نظموں، اور کویتاؤں سے بھنبھوڑنے لگے۔
اور آخر میں کسی بھی نتیجے پر پہنچے بنا ہی شیطانوں کی طرح ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے وداع ہوئے۔
اور اسی کے ساتھ انٹلئکچوئلی کا کھیل سماپت ہوا۔
کمرے کے باہر سولہ سترہ سال کا ایک لڑکا ہوسٹل کی دیواروں پررنگ و روغن کر رہا تھا۔کمرے سے آ رہی آوازوں سے اسے لگا کہ کمرے میں جھگڑا چل رہا ہے۔
ایک بوڑھا جو برابر کے کمرے سے ردّی خرید کر جا رہا تھا۔ لڑکے نے اسے آواز دی:
”ارے چاچا ِ، ذرا سنئے۔“
”جی بیٹا؟“ بوڑھے نے نرمی سے پوچھا۔
”چاچا ِ! یہ کمرہ نمبر 007میں کیا جھگڑا چل رہا ہے، بہت تیزم تازی ہو رہی ہے۔ کیا بات ہے؟“لڑکے نے معلوم کیا۔
چاچا نے ردّی کا بھاری گٹھّر زمین پر رکھا اور ماتھے کا پسینہ صاف کرنے کے بعد کہا: ”ارے بیٹا،یہاں تو روز کسی نہ کسی کمرے میں بڑے بڑے عقل مند اور سمجھ دار لوگ اکھٹّا ہوتے ہی رہتے ہیں اور ان میں تیزم تازی چلتی رہتی ہے۔“
”پر چاچا، ان جھگڑوں، میرا مطلب ہے تیزم تازی کی کوئی وجہ تو ہوتی ہوگی نا۔“ لڑکے نے اپنا اشتیاق ظاہر کیا۔
”ہاں ہوتی ہے۔“ چاچا نے کہا۔
”کیا؟“ لڑکا مجسّم سوال بن گیا۔
”یہی کہ۔۔۔۔۔ ان کے پیٹ میں روٹی ہے ۔“ بوڑھے نے یہ کہہ کر انٹلئکچوئلی کا بھاری گٹھّر سر پر لاد لیا اور لرزتی، کانپتی، سوکھی ٹانگیں آگے بڑھ گئیں۔
***
ذاکر فیضی کا یہ افسانچہ بھی پڑھیں : جھٹکے کا گوشت