پروفیسر صالحہ رشید
سابق صدر شعبہ عربی و فارسی
الہ آباد یونی ورسٹی، پریاگ راج، ہند
ان دنوں شہر الہ آباد یعنی موجودہ پریاگ راج میں دسہرے کا تیوہار ہمیشہ کی طرح بڑی دھام دھام سے منایا جا رہا ہے۔ ہر طرف جوش و خروش سے پر لوگوں کا ہجوم درگا پوجا پنڈال میں جاتا نظر آ رہا ہے یا جگہ جگہ سے اٹھنے والے رام دل میں شریک ہو رہا ہے۔ رات کے وقت رام لیلاؤں کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔ گویا ہر طرف جشن کا ماحول ہے۔ سڑکوں کی مرمت، بجلی سپلائی کے بہتر انتظامات، صفائی ستھرائی، مختلف اشیا کی سیل اور داموں میں بھاری چھوٹ کے اعلانات سے بازاروں کی رونق میں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے۔ دسہرے کے تعلق سے درگا اشٹمی، رام نومی اور وجے دشمی بہت خاص دن اور تاریخیں ہیں۔ یہ حق کی باطل پر فتح کا جشن ہے۔ یہ ایک موسمی تیوہار بھی ہے۔ اسی اثنا رات اور دن برابر ہو جاتے ہیں اور موسم اعتدال پر آ جاتا ہے۔ انھی دنوں شمالی ہندستان میں خریف کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہوتی ہے اور کسانوں کے پاس تھوڑا آرام کا وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی اس تیوہار میں دل و جان سے شامل ہوتے ہیں۔
دسہرے کا مقصد اور علامتی معنی گناہوں مثلاً کام (شہوت)، کرودھ (غصہ)، لوبھ (لالچ)، مد (تکبر)، موہ (کشش)، لت (نشہ)، ایرشیا(حسد)، دویش (بغض و عناد)، آلسیہ(تساہل)، چھل کپٹ (فریب) پر قابو پانا بھی ہے۔ ان دس برائیوں کو ہرا کر اندر کے راون پر فتح حاصل کر وجے دشمی منائی جائے تو انسانیت اپنے عروج کو جا پہنچے گی۔ ہندستان کے مختلف علاقوں کا مختلف دسہرا ہوتا ہے مگر پیغام سب کا ایک ہی ہے باطل پر حق کی فتح۔ الہ آباد کے دسہرے کی قدامت پر غور کریں تو دو سو برس کے تحریری شواہد تو موجود ہیں مگر انتہائی قدیم تاریخ نہیں ملتی۔ ہری موہن داس ٹنڈن جی نے اس بابت جاننے کی کوشش کی اور ایک کتاب بہ عنوان ’الہ آباد کا دشہرا‘ تالیف کی جو 2003ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ انھوں نے اس کتاب میں دو مغربی سیاحوں کے حوالے درج کیے ہیں جو انیسویں صدی کے اوئل میں ہندستان آئے تھے۔ انھوں نے رام لیلاؤں کا ذکر کیا ہے جو اکبر کے قلعہ کے پاس پریڈ گراؤنڈ میں فوجیوں کے ذریعہ منائی جاتی تھی۔ ان میں سے ایک بشپ ہیبر Bishop Heber ہے اور دوسری فینی پارکس Fanny Parkes۔
Bishop Heber نے Narrative Of A Journey Through The Upper Provinces Of India, From Calcutta To Bombay, 1824 – 1825 لکھی جو 1828 میں شائع ہوئی۔ یہ ہیبر کی ڈائری اور خطوط پر مبنی ہے۔ ہیبر نے 1823 – 1826 کلکتہ کے بشپ کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ اس دوران شمالی ہندستان کا سفر کیا اور گنگا کا میدانی علاقہ کمایوں کے پہاڑ اور راجپوتانہ ان کی توجہ کا مرکز بنا۔ انھوں نے ان علاقوں کے نہ فقط خوب صورت مناظر کا مشاہدہ کیا بلکہ یہاں کے سماجی، ثقافتی، جغرافیائی اور اقتصادی حالات بھی اپنی ڈائری میں نوٹ کیے۔ اس طرح ان کی یہ کتاب انیسویں صدی کے اوائل کے ہندستان کو سمجھنے کا ایک اہم ماخذ ہے۔
Fanny Parkes فینی پارکس ایک ویلش سفر نامہ نگار ہیں۔ انھوں نے 1822میں انگلینڈ سے ہندستان کا سفر کیا۔ پہلے وہ کلکتہ آئیں اور پھر انھوں نے کار نکوبار اور الہ آباد کا سفر کیا۔ ان کی کتاب Wandering Of A Pilgrim In Search Of The Picturesque, 1850 میں شائع ہوئی۔ اس کی دو جلدیں ہیں۔ پہلی جلد میں ان کے سماجی مشاہدات کی تفصیلات ہیں جن کے تحت انھوں نے مقامی رسم و رواج، اودھ کے نوابوں کے زنان خانے، تیوہار جیسے دیوالی، دسہرا اور محرم کا ذکر کیا ہے۔
اسی فہرست میں ہری موہن داس ٹنڈن نے James Peggs کی کتاب Cries of Agonies کو شامل کیا ہے۔جیمس نے اس کتاب میں رام دل کو لے کر ایک عجیب و غریب دل دہلا دینے والی رسم کا ذکر کیاہے۔ یہ کتاب 1830 میں شائع ہوئی۔
الہ آباد میں بینی رام کا رام دل 1820میں بھی اٹھتا تھا اس وقت یہاں کے مجسٹریٹ Mr Chalmers ہوا کرتے تھے۔ موہن داس جی نے اپنی کتاب میں کئی ایسے واقعے درج کیے ہیں جب دسہرا اور محرم یا مسلمانوں کا کوئی دوسرا تیوہار ساتھ پڑا اور دو فرقوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ کبھی صلح ہو گئی اور کبھی ناراضگی کے سبب رام دل نہیں اٹھا یا محرم نہیں منایا گیا۔ یہ صورت حال آج بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ الہ آباد میں گنجان آبادی والا ایک محلہ شاہ گنج ہے جہاں سے ہر سال رام دل بڑی دھوم دھام سے نکلتا ہے۔ وہیں ایک پرانا مندر ہے جس کے 1883 – 1886 کی آمدنی اور خرچ کے بہی کھاتے میں اس وقت کے الہ آباد کے کلکٹر کو دسہرے سے متعلق اردو میں لکھ کر دی گئی اطلاع کی نقل موجود ہے جو اس طرح ہے:
’غریب پرور سلامت
میلا رام لیلا سالانہ ۲/ستمبر، ١٨٨٤ء سے شروع و لغایت اختتام راج گدی تک قائم رہے گا اور لیلا مذکور تاریخ مذکورہ سے تاریخ دشہرا مقام محلہ شاہ گنج سے برامد ہو کر محلہ اتر سوئیہ میں جایا آیا کرے گا۔ لیکن درمیان میں کوار سُدی نومی کو رام دل شاہ گنج سے شامل ہو کر سواری ہاتھی گھوڑا وغیرہ نکل کر سرائے گڑھئی و بازار چوک و کوٹھا پارچہ ہوتا ہوا محلہ اتر سوئیہ جاوے گا اور واپس آئے گا اور بھی اسی طرح پر تاریخ دشہرا کو سواری رام چند و ہنومان جی کے شاہ گنج سے برآمد ہو کر کنارا جمنا جی مقام ککرہا گھاٹ ہو کر حسب معمول جاوے گا اور مقام مذکور میں آتش بازی ہر قسم کی چھوٹے گی اور واپس چوک میں انار مہتاب وغیرہ بہ موجب شد آمد قدیم کے ہو کر اپنے مقام پر واپس جاویں گے اور صورت جلوس بھرت ملاپ اور راج گدی میں ہوگی لہٰذا سوال ھٰذا اطلاع حالات آپ کے میلا سالانہ شد آمد قدیم کے کرنا ہے، سوال ھٰذا واسطے اطلاع و نگرانی پاس پلیس شہر بھیجا جائے۔
فدوی نر سنگھ داس چیلا بابا ہاتھی رام مہنت محلہ شاہ گنج من محلات شہر الہ آباد
(الہ باد کا دشہرا۔ اتسو) از ہری موہن داس ٹنڈن، ۲٠٠۳ء، پہلا اڈیشن، ص ۰۲ و ٢١
ہری موہن داس نے اسے دیو ناگری خط میں تبدیل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ اس چھوٹے سے خط میں تقریباً تیس الفاظ عربی، سولہ فارسی، دو ترکی دو سنسکرت اور بقیہ مقامی الفاظ شامل ہیں۔ ہری موہن کے مطابق 1876سے قبل ہی مہنت بابا ہاتھی رام کی رام لیلا انتظامیہ کمیٹی تشکیل ہو چکی تھی مگر رام لیلا جلوس نکالنے کے لیے مہنت بابا ہاتھی رام کے چیلے بابا نرسنگھ داس کلکٹر کو اطلاع دے کر اجازت طلب کرتے تھے۔
ہری موہن داس نے دشہرے کی بابت فارسی تاریخوں کے حوالوں تک بھی پہنچنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں نومبر 1887 میں انھوں نے پروفیسر عرفان حبیب کو بھی ایک خط لکھا اور پروفیسر موصوف کا جواب حسب ذیل آیا جسے مؤلف نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے:
Chairman
TELEPHONE: 5546
Department of History
Aligarh Muslim University
Aligarh, U.P.12/14 November, 1987
D.O.N.929/(Hist)
Shri Hari Mohan Das Tandon
Pajava Ramlila Committee
Rani Mandi.
Allahabad
Dear Shri Tandon
Thank you for your letter of 7 November, 1987
So far as I can say, there is no reference to Ramlila celebrations at Allahabad, specifically in either the Tabaqat-i- Akbari or the Ain-i-Akbari; nor I have seen any reference to Ramlila celebrations at Allahabad in any of the Persian sources. But should I find any reference, I will let you know.
With regards
Yours Sincerely
Irfan Habib
اس خط میں پروفیسر عرفان حبیب نے بتایا کہ طبقات اکبری اور آئین اکبری میں کہیں الہ آباد کی رام لیلا کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر انھیں کسی فارسی ماخذ میں اس کا ذکر ملا تو وہ ضرور مطلع کریں گے۔
منجملہ دسہرے کے تعلق سے ہندستان آنے والے سیاحوں کی بیان کردہ تفصیلات ہوں یا پروفیسر عرفان حبیب کا خط، یہ سب ہمیں غور و خوض کی دعوت دیتے ہیں اور جھوٹ پر سچ کی اور برائی پر اچھائی کی فتح کا اعلامیہ ہیں۔ امید ہے کہ ہندستان میں منائے جانے والے سارے تیج تیوہار نہ فقط شہر الہ آباد بلکہ پورے ملک میں خیر سگالی اور ہمہ باہم کی فضا قائم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔
***
صالحہ رشید کی گذشتہ نگارش: بانگ درا پر فارسی اثرات کا اجمالی جایزہ