(28/اگست یوم پیدائش کے موقعے سے خصوصی تحریر)
محمد عارف اقبال (صحافی)
استاد اردو ادب، پلس ٹو اپگریڈیڈ ہائی اسکول، مُریا، دربھنگہ، بہار، ہند
مدتِ مدید سے جب کسی صاحب زبان و قلم اور معروف ارباب علم و دانش کی نگارشات مطالعے میں ہوں، یا ناموران ادب کی بزم میں کثرت سے ان کا ذکر خیر سننے کا اتفاق رہا ہو تو ایسی شخصیت سے شرف ملاقات کی خواہش فطری طور پر دل میں مچلنے لگتی ہے۔ گوشہ ہائے خیال میں یہ تمنا جاگ اٹھتی ہے کہ ایسی شخصیت سے نیاز مندانہ ملا جائے، تاکہ ہم غالب کی زبان میں آنے والی نسل سے یہ کہہ سکیں:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ صحافت میں رہتے ہوئے جب مختلف اخبار و ادبی رسائل سے شغف بڑھا اور مرحلہ وار پروفیسر صفدر امام قادری صاحب کو پڑھتے رہنے کا اتفاق ہوا تب صفدر صاحب کا نام اسی توسط سے نہاں خانہ دل میں جاگزیں ہوا۔ قومی سطح سے شائع ہونے والے اخبار و رسائل میں صفدر صاحب آب و تاب کے ساتھ اس وقت تواتر سے شائع ہوتے تھے، سیاسی، سماجی، ملکی، سائنسی، تنقیدی، تحقیقی، سوانحی، لسانی اور شخصی مضامین کے علاوہ منفرد الگ الگ موضوعات پر صفدر صاحب کا خصوصی کالم ذوق و شوق سے میرے مطالعہ میں رہتا۔ پھر جب سوشل میڈیا کا زمانہ شروع ہوا تو فیس بک کے ذریعہ میں ان سے رابطہ میں آیا اور ایک عرصہ تک سوشل میڈیا کی راہ سے ہی صفدر صاحب کی علمی نگارشات سے استفادہ کرتا رہا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونی ورسٹی سے رسمی فراغت کے بعد جب عملی طور پر صحافتی دنیا میں قدم رکھا تو پہلے زی نیوز اور انڈیا نیوز (دہلی) کے مرکزی دفاتر سے وابستہ ہوا۔ بعد ازاں بحیثیت کنٹنٹ ایڈیٹر/ رپورٹر جب ای. ٹی. وی بھارت کے لیے ارریہ پہنچا تو صفدر صاحب نے وہاں بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ میرا استقبال کیا اور دعاؤں سے بھی نوازا۔ ان کی خورد نوازی کہیے کہ مسلسل میری صحافتی سرگرمیوں کو تحسین کی نظر سے انھوں نے دیکھا، اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازتے رہے۔
اس درمیان وقت کا ایک بڑا حصہ شوق ملاقات میں گذر گیا، لیکن کہتے ہیں نہ کہ ”جہاں چاہ وہاں راہ" بالآخر آپ سے شرف نیازکا موقع تب نصیب ہوا جب 2021ء میں ای. ٹی. وی بھارت اردو کے لیے ضلع ارریہ سے پٹنہ تبادلہ ہوا۔ پٹنہ میں صفدر صاحب سے پہلی ملاقات 24/اگست 2021ء منگل کے روز اسی گہوارہ علم یعنی پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں ہوئی جو میرا مادر علمی بھی ہے، آپ یہاں شعبے کی جانب سے منعقدہ سمینار بہ عنوان ”اکبر الہ آبادی کی غزلیہ اور صوفیانہ شاعری“ میں بہ طور مہمان خصوصی مدعو تھے اور میں رپورٹنگ کی غرض سے وہاں حاضر ہوا تھا۔ ڈائس پر معروف ناول نگار پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر شہاب ظفر اعظمی جیسے ادبا موجود تھے، سمینار کے اختتام کے بعد شناسا چہروں میں سب سے پہلے صفدر صاحب سے نیاز مندانہ رسائی حاصل کی اور جب سلام کے جواب میں حسب عادت مسکراتے ہوئے ’وعلیکم السلام‘ کی محبت بھری آواز سے نگاہ شوق آشنا ہوا تو دل نے ایک الگ حلاوت، تازگی اور اپنا پن محسوس کیا اور پھر عرض کیا ”میں عار ف اقبال“۔ اس کے جواب میں صفدر صاحب کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ پھر سے بکھر گئی اور گویا ہوئے کہ آپ کو تعارف کرانے کی ضرورت نہیں، مگر یہاں پروگرام میں اور ایسی عجلت میں ملاقات کی توقع نہیں تھی، اب آپ پٹنہ میں قیام پذیر ہیں، گھر تشریف لائیے، آپ کا استقبال ہے۔ میں نے جلد ہی حاضر ہونے کا وعدہ کیا۔ یہ ملاقات کی پہلی منزل تھی۔
اس کے بعد سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں، مگر پہلی نظر نے جو کچھ محسوس کیا وہ آج بھی میرے سراپا میں نقش ہے: دُہرا بدن، نکلتی قامت، کھلتا رنگ، کشادہ پیشانی اور اس پر جنتی نشان، سر پر تہہ دار بال، بارعب چہرہ، عقابی آنکھیں اور اس پر موٹا چشمہ، پیلا کرتا سفید پاجامہ، کرتے پر بنڈی بھی زیب تن، خدوخال پرکشش، گفتار بلند و بالا، انداز تکلم شیریں اور دل پذیر، سادہ دل، سادہ زبان، بڑوں کا بے حد احترام کرنے والے، عزیزوں کے لیے نہایت شفیق و مہربان، شاگردوں پر جان نچھاور کرنے والے، حساس و جساس فطرت کے مالک، تصنع سے پاک، روشن خیال، وسیع النظر اور زندہ دل انسان، مایہ ناز مصنف، بہترین منتظم، اردو زبان و ادب کا مرد مجاہد، میدان صحافت کا شہسوار، دور اندیش، ذہین مدبر اور ایک مسلم الثبوت استاد، تفہیم اصول دین کے دل دادہ، تبئین کا شیدا، جنھیں دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آ جاتا ہے۔
آ شکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
ورنہ ایک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
ڈاکٹر عابد حسین نے ڈراما ”پردۂ غفلت“ میں کردار شیخ کرامت علی کی زبانی بڑی قیمتی بات پیش کی ہے کہ:
”معلمی کیسا دل فریب پیشہ ہے۔ غنچے کو کھل کر پھول بنتے ہوئے دیکھنے سے اس کی خوشبو نسیم سحری کی مدد سے سونگھنے سے دماغ کو وہ فرحت حاصل نہیں ہوتی جو ایک ننھی سی جان کو اپنے ماحول میں پھیلتے اور بڑھتے ہوئے دیکھنے سے اور اس میں معاون ہونے سے روح کو حاصل ہوتی ہے“۔
پروفیسرصفدر امام قادری دراصل ایک مقناطیسی شخصیت کے مالک ہیں جو تعلیم و تعلم کے ذریعہ انسان سازی کا کام بحیثیت معلم انجام دے رہے ہیں۔ اس باغباں نے ایک طویل مدت تک باغ اردو کو خون جگر سے سینچا ہے، اس باغ کا سینچا ہوا ایک ایک پھول چہار دانگ عالم میں اپنی خوشبو سے باغباں کا پتا بتا رہا ہے۔ اس باغ کی اگائی ہوئی فصل شعبہ ہائے زندگی میں مختلف عہدوں و مناصب پر فائز ہو کر لہلہا رہی ہے۔ یہ باغباں اس شعر کا مصداق ہے:
نئے خیال کی نسلیں سجائی ہیں ہم نے
نئے جوانوں کی فصلیں اگائی ہیں ہم نے
اس کارخانہ فکر و آگہی میں تاریک راہوں کا مسافر صبح امید کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور روشنی پا کر آگے منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے، عرصہ دراز سے یہاں مختلف فکر و فن کا رسیا اپنی علمی پیاس بجھا کر سیراب ہورہا ہے، یہاں انسان سازی کی راہ سے انسانیت کا بھی درس دیا جاتا ہے۔ حسن اخلاق کی بھی مشق کرائی جاتی ہے، دنیا کو دیکھنے سمجھنے کا ایک نیا زاویہ بھی دیا جاتا ہے، الغرض تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی گہری نگاہ رکھی جاتی ہے تاکہ طلبہ ذہنی و فکری طور پر کامل انسان بن سکیں۔
پروفیسر صفدر امام قادری ایک نہیں ہزاروں طلبہ کے روشن مستقبل کے ناخدا ہیں، جہاں وہ بلا امتیاز مذہب و ملت اپنے ہونہاروں کو سجانے اور سنوارنے کا کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پروفیسر صفدر امام قادری کو خلیلی روح اور کلیمی نظر بخشی ہے، جن کی شخصیت اردو زبان و ادب کی دنیا میں اظہر من الشمس ہے اور جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
پروفیسر صفدر امام قادری سے میری انسیت دو وجہوں سے ہے، ایک بہ حیثیت صحافی، دوسری بہ حیثیت شاگرد۔ موضوع کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں دوسری جہت سے ہی اپنے احساسات کو الفاظ کی شکل دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔
ماضی کے دریچے میں جب جھانک کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ زمانہ طالب علمی سے لے کر اب تک میری زندگی میں درجنوں اساتذہ آئے، تما م اساتذہ سے شفقتیں اور محبتیں بھی ملیں، ان میں سے کئی اساتذہ داغ مفارقت دے گئے، جنھیں یاد کر آج بھی آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں، مگر زندہ اشخاص میں صفدر امام قادری جیسا جاں نثار، دل نواز، محبت نواز، ہمدرد اور مشفق و مہربان استاذ، کم یاب ہیں، بلکہ ”توچیزے دیگری“۔
یقینا میں خود کو خوش قسمت تصور کرتاہوں کہ مجھے صفدر امام قادری کی شاگردی کا فخر حاصل ہے۔ ان کے پہلو میں بیٹھ کر ان کی نشست و برخواست کو قریب سے دیکھا ہے، دوسرے اساتذہ جب اعلا منصب پر پہنچتے ہیں، عزت اور شہرت کے ساتھ رسوخ حاصل کرتے ہیں، تو بہ قدر توفیق اپنے سماج کے کام بھی کرتے ہیں۔ ان اساتذہ میں جہاں اک بڑی تعداد ان اساتذہ کی ہے جو تدریس کی نپی تلی شاہ راہوں پر چلتے ہوئے سبک دوشی کی منزل تک پہنچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ مگر وہیں ان میں چند اساتذہ ایسے بھی ہیں جو اپنے کار منصبی کی صدق دل سے ادائیگی کے ساتھ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اعلا منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی ان کی منکسر المزاجی اور تواضع میں فرق نہیں آتا، قلم کی روانی میں حرف نہیں آتا، بلکہ ان کی ادبی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلاجا تا ہے، انھیں اپنے گردو پیش میں پھیلی ناخواندگی اور بے شعوری کو دور کرنے کی تراکیب سوجھتی ہے۔ نئی نسل کو ذہنی اور فکری طور پر سنوار کر شاہراہ حیات میں قدم بڑھاتے دیکھنا جن کا مقصد ہوتا ہے، وہ اپنے شاگردوں، عزیزوں اور متعلقین کو ترقی کرتے، آگے بڑھتے دیکھ کرخوش ہوتے ہیں۔ دوسروں کے کام آکر انھیں قلبی سکون ملتا ہے۔ صفدر امام قادری ایسے ہی اساتذہ میں رہے ہیں جنھوں نے اپنے سامنے زندگی کا ایک عظیم لائحہ عمل مرتب کیا اور اس کے حصول کے لیے مستقل تگ ودو کرتے رہے، صفدر امام قادری ان اساتذہ میں کبھی نہیں رہے جو اپنے عہدوں اور مناصب کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں۔ موصوف کا زندگی کے بارے میں بہت واضح نقطہ نظر رہا ہے کہ:
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
انھی وجوہات اور خوبیوں نے مجھے پروفیسر صفدر امام قادری سے قریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کی صحبتیں اور رفاقتیں بڑھتی گئیں جس کے بعد راقم الحروف نے باضابطہ شاگردی اختیار کی اور اگلی منزل کی طرف بڑھنے کا پختہ ارادہ کیا۔
پٹنہ میں صحافتی امور انجام دینے کے ساتھ مجھے یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ دہلی یونی ورسٹی سے ایم.اے کرنے کے بعد باضابطہ نیٹ /جے آر ایف کا امتحان نہیں دے سکا تھا، ایک صحافی کے لیے سب سے مشکل اور دشوار کن مرحلہ خود کے لیے وقت نکالنا ہوتا ہے، دلی خواہش تھی کہ نیٹ کی باضابطہ تیاری کر ہائیر ایجوکیشن کی طرف بڑھا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلا اور موزوں نام جو سامنے تھا وہ صفدر امام قادری کا تھا، ایک دن مصروف ترین اوقات میں سے فرصت نکال کر خصوصی طور پر صفدر صاحب کے گھر حاضر ہوا، یہاں پہلے سے بڑی تعداد میں طلبہ کلاس کے لیے جمع تھے، استاذی نے تمام طلبہ سے میرا تعارف کرایا، ہمارے لیے یہاں سبھی اجنبی چہرے تھے مگر مجھے حیرت ہوئی کہ ان میں کئی طلبہ مجھے میرے نام اور شکل وشباہت سے پہچان رہے تھے۔
اس ملاقات میں صفدر صاحب سے جب میں نے اپنے منشا کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا آپ بے شک اپنے وقت کا خیال کرتے ہوئے تشریف لائیں۔ ان شاء اللہ کامیابی ملے گی۔ صفدر صاحب کے اس جملے سے مجھے بڑی تقویت ملی، کلاس کا وقت میں نے شام کا انتخاب کیا اور عرض کیا کہ رپورٹنگ کے کام سے فارغ ہونے کے بعد سیدھے کلاس جوائن کر وں گا، رخصت کے وقت صفدر صاحب نے دعاؤں سے نوازا اور کلاس کے لیے خوش آ مدید کہا۔
اگلے دن کام سے فارغ ہوکر سیدھے کلاس پہنچ گیا جہاں پہلے سے طلبہ موجود تھے اور استاذی اپنے مخصوص جگہ پر بیٹھے درس دے رہے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے سلام پیش کیا تو صفدر سر نے پرتپاک انداز سے جواب دیتے ہوئے میرے لیے جگہ بنوائی۔ اس طرح سے نیٹ کی تیاری صفدر صاحب کی نگرانی میں شروع کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ استاذ محترم کو مختلف زاویے سے سمجھنے کاموقع ملتا گیا، یہاں طوالت کے سبب ان میں سے کچھ منتخب باتیں پیش کر رہا ہوں:
علم کی وسعت:
پروفیسرصفدر امام قادری کو اردو ادب کے ساتھ ہندی، فارسی اور انگریزی ادب پر بھی عبور ہے۔ باوجود اس کے وہ ہر لمحہ مزید در مزید کے لیے کوشاں نظر آتے تھے، ان کے سرہانے مختلف زبان کی ادبی کتابیں رکھی ہوتی اور فرصت پاتے ہی وہ مطالعے میں غرق ہو جاتے ہیں۔ میں اکثر دوستوں سے بہ طور مزاح کہتا کہ جس طرح شیر کے منھ میں خون لگا ہوتا ہے، اسی طرح استاد محترم کے ذہن و دماغ پر کتاب کا خون لگا ہوا ہے۔ وہ کسی بھی نئی کتاب کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے شیر گوشت کو۔ کلاس میں کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے تو اس کی تہہ تک لے جاتے، اس ذیل میں دوسری زبان کے ادب کا حوالہ دیتے، پھر حوالوں کا در کھل جاتا، موضوع کو اس طرح پانی پانی کر دیتے کہ طلبہ میں کسی طرح کی تشنگی کا احساس باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح پے در پے دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف اور تحقیقی کام بھی انجام پارہے ہوتے۔ یہ وہی کر سکتا ہے جس کے اندر اللہ نے علم کاخزانہ چھپا رکھا ہے، جن کا علم دریا کی طرح بہتا رہتا ہے۔
اصابت رائے:
پروفیسر صفدر امام قادری کی طبیعت میں اصابت اور پختگی ہے، جماؤ ہے، مشکل سے مشکل حالات میں بھی آپ نہایت ہی اطمینان سے ایک رائے دیتے ہیں، پھر رائے کے دونوں پہلو بیان کرتے ہیں، امارت شرعیہ کے موجودہ انتخاب امیر شریعت میں بھی ان کی رائے بہت مضبوط تھی کہ فکر امارت کو آگے بڑھانے اور حالات حاضرہ کے تناظر میں امیر شریعت کے منصب پر کسے ہونا چاہیے، اور آپ آخر تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔اس طرح سے آپ کی رائے درست ثابت ہوئی۔
جہد مسلسل:
صفدر صاحب نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ضائع ہونے سے بچائے رکھا ہے، ایک کام کر کے فارغ ہوتے اور دوسرا کام شروع کر دیتے، درمیان میں تکان کا اظہار نہ کرتے اور نہ بڑا کام انجام دے چکنے کا احساس کراتے۔ یہ ہم جیسے نوجوانوں کے لیے سبق بھی ہوتا، اسی وجہ سے آپ کے کو کئی شاہ کار علمی و ادبی کارنامے انجام دینے کا موقع میسر آیا۔ آپ کا کوئی وقت خالی نہیں رہتا۔
خلوص و للہیت:
راقم الحروف کو صفدر صاحب کے قریب تقریبا تین سال رہنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے کبھی ان کا کوئی عمل غیر مخلصانہ نہیں دیکھا، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب میں نہایت معتدل معلوم ہوئے، ہر آنے جانے والے مہمانوں سے خلوص اور اپنائیت سے ملتے، مہمان نوازی میں دسترخوان ہمیشہ وسیع پایا، ضیافت میں کبھی بخل نہیں کرتے، ان آنکھوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح وہ اپنے شاگردوں کو محبت سے پانی پیش کرتے، بارہا کلاس کے وقت جب راقم الحروف کو صحافتی کاموں سے تھکا ہوا پاتے تو نہ صرف دل جوئی کرتے بلکہ تکان ہلکا کرنے کے لیے کئی طرح کے مشروبات پیش کرتے، بھوک کی شدت کو محسوس کرتے تو گھر میں جو کچھ ہوتا جبراََ کھلاتے، پھر تازہ دم ہوکر کلاس کرنے کا حکم دیتے۔ شاگردوں کے تئیں یہ خلوص، یہ محبت اب کتنے استادوں کے حصے میں ہے؟ الا ماشاء اللہ
جرات و بے باکی:
صفدر صاحب کی قوت ارادی بہت مضبوط ہے، ملت پر کیسے ہی پرآشوب حالات کیوں نہ ہوں مگر وہ تقریروں میں، تحریروں میں بے خوف نظر آتے، اپنی بات کہنے میں جھجھکتے نہیں، چاہے وہ کسی کے موافق ہو یا مخالف۔ اپنے وقت کے بڑے ادبا، علما، سیاسی رہ نماؤں پر بھی انہوں نے علمی نشتر چلایا ہے۔
قلم کی تیز گامی:
صفدر صاحب جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو ڈوب کر لکھتے۔ بہت جلد مضمون تیار کر لیتے، الفاظ میں سادگی، شگفتگی، برجستگی اور روانی ہوتی، تعبیرات میں نہایت ہی جاذبیت محسوس ہوتی، مضمون میں بلا کی کشش ہوتی، اس میں قاری کے لیے فکر و تدبر کا سارا سامان موجود ہوتا، قوت ترسیل و ابلاغ میں ایسا کمال رکھتے کہ مخاطب ان کا گرویدہ ہو جاتا، اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود پرکیف مقالہ تیار کرا دیتے، راقم الحروف نے ان کی متعدد تحریریں ٹائپ کی ہیں، جب لکھانا شروع کرتے تو الفاظ و تعبیرات کو نہیں سوچتے، بس لکھاتے چلے جاتے، الفاظ کے گیسو سنوارنے میں وقت ضائع نہیں کرتے، جو تعبیر اچھی لگی بس لکھا دیا۔ دوبارہ نظر ثانی کی نوبت نہیں آ تی۔
نوواردوں کی تحریری اصلاح:
آپ کے پاس کوئی بھی مصنف یا نئے لکھنے والے اپنی تحریر لے کر حاضر ہوتے تو اسے محروم نہیں کرتے، بلکہ گہری نظر مسودہ پر ڈالتے اور اپنی رائے ظاہر فرما دیتے، کسی کی حوصلہ افزائی سے دریغ نہ فرماتے اور نہ ہی عدیم الفرصتی کا عذر کر کے انتظار کراتے، اگر کوئی کتاب ضخیم ہوتی تو کچھ وقت لیتے اور اس پر اصلاحی نظر کے ساتھ قلم چلاتے۔ راقم الحروف نے دیکھا ہے بالخصوص نئے لکھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے، تحریر کی نوک پلک درست کرتے اور اسے اشاعت کے قابل بنا دیتے، صفدر صاحب کی اس رہ نمائی نے کتنے لکھنے والوں کو صاحب قلم بنا دیا۔
دینی و ملی فکر مندی:
اپنی مصروفیات کے باوجود گرد و پیش کے احوال سے باخبر رہتے، دینی و مذہبی فکرمندی کے ساتھ ملک و ملت کا احساس بھی بہت زیادہ رکھتے۔ کلاس ختم ہونے کے بعد مجھ سے ملکی، سماجی و سیاسی حالات پر گھنٹوں تفصیلی گفتگو فرماتے۔ آپ امارت شرعیہ کے رکن شوریٰ کے علاوہ کئی اداروں کے مشیر کار اور رکن ہیں۔
آخرت کی فکرمندی:
آپ کے پاس رہ کر اندازہ ہوا کہ آپ کو ہر لمحہ آخرت کا استحضار رہتا ہے، بعض موقعوں پر خصوصیت کے ساتھ طلبہ کو اس بات کی تلقین کرتے کہ اپنے ہر عمل کو محشر اور آخرت کا دھیان رکھ کر انجام دیں۔ کسی کی بھی حق تلفی کرتے اور نہ اس کا سبق دیتے، بلا وجہ نہ کسی کو ستاتے، مگر ہاں منافقوں اور اپنے دشمنوں سے ہوشیار ضرور رہتے۔ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ موت کی دعا بھی کرتے۔
راقم الحروف نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا کہ صحافت کو چھوڑ کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کرے گا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صحافتی امور کے ساتھ نیٹ اور دوسری چیزوں کی تیاری میرے لیے بہت مشکل ثابت ہورہی تھی، میں ذہنی کشمکش میں تھا، ارادہ تھا کہ صحافت کو چھوڑ کر تیاری میں پورا وقت دوں، اس ضمن میں بذریعہ خط صفدر صاحب سے رہنمائی طلب کی، انھوں نے کچھ اس انداز سے رہنمائی کی:
عزیزم عارف اقبال سلمہ
دنیا اور ملک کے حالات پہلے بھی اچھے نہیں تھے مگر کووڈ کے بعد کی جو دنیا ہے اس میں چاہے کوئی بھی وجہ ہو کسی کو روزگار چھوڑنے کا مشورہ دینا مناسب نہیں، بڑی بڑی کمپنیاں زمین پر بیٹھ گئیں یا راتوں رات ان کا وجود مٹ گیا۔ میں نے ہزاروں کی تعداد میں ایسے اساتذہ کو دیکھا جو کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں مقابلہ جاتی طلبہ کو پڑھاتے تھے اور ماہانہ لاکھوں روپے کماتے تھے، خو ش حالی کی زندگی بسر کرتے تھے، مگر کووڈ کے دوران ان کی جو کمر ٹوٹی ان میں سے اکثر ابھی تک معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔ اس لیے ابھی کے حالات میں میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو اپنی خواہش سے ملازمت چھوڑنی چاہئے۔ اس مشکل ماحول میں ٹکے رہنا ہی قیامت ہے۔ اللہ کا فضل ہے آپ ٹکے ہوئے ہیں اور اپنی محنت سے اپنے کاموں کی وجہ سے اعتبار بنائے رکھنے میں کامیاب ہیں۔
اس لیے میری گزارش ہوگی کہ متبادل اور اچھی ملازمت کو اپنے ہاتھوں میں رکھیں اور یہیں دل لگا کر کام کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے بہتر ملازمت مل جائے تو خود سے اور خوشی کے ساتھ یہاں سے نکل جانا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الجھن اور تذبذب کی گھڑی میں میری باتیں پسند آئیں گی۔
آپ کا
صفدر امام قادری
(بحوالہ: مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ، مشاہیر کے خطوط عارف اقبال کے نام)
اس خط نے میرے پست ہو رہے حوصلوں کو مہمیز کیا، دوبارہ ایک نئے عزم اور حوصلوں کے ساتھ صحافتی ذمہ داریوں کے درمیان کمپٹیشن کی تیاری میں مصروف عمل رہا۔ اسی درمیان دو بار نیٹ فارم نکلا، ایک میں شریک ہوا مگر کچھ نمبر سے کامیابی نہیں ملی، جب کہ دوسری دفعہ صحافتی بھاگ دوڑ اور ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے امتحان میں شریک نہ ہوسکا۔ اسی درمیان بہار پبلک سروس کمیشن نے پرائمری، مڈل، ہائی اسکول اور پلس ٹو اساتذہ تقرری کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ تو صفدر صاحب کی ہی توجہ اور ہدایت پر میں نے اس کا فارم بھرا اور یہیں اس کی تیاری شروع کر دی۔ اساتذہ والے امتحان میں نیٹ کی تیاری بھی کام آئی۔ صفدر صاحب انہماک کے ساتھ درس دیتے اور پھر ایک وقت آیا کہ اللہ کے فضل و کرم اور صفدر سر کی بے پناہ شفقتوں اور رہ نمائی سے ہائی اسکول کی تقرری میں کامیابی حاصل ہوئی۔ آج جن عہدوں پر فائز ہوں بلاشبہ یہ صفدر سر کی خاص توجہ کا ثمرہ ہے۔
یوں تو مجھے متعدد بزرگوں اور اساتذہ کی دعائیں اور رہ نمائیاں ملی ہیں لیکن ان اساتذہ میں پروفیسر صفدر امام قادری کی میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ ان کی بے لوث محبت و شفقت اور علمی و ادبی اور اخلاقی تربیت و رہ نمائی نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے اور علمی و ادبی میدان میں قدم رکھنے کا حوصلہ بخشا ہے اور آج میں جو کچھ بھی ہوں انھی کی تربیت کے زیر اثر ہوں۔
یادوں کی زنبیل میں صفدرسر کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو صفحہ قرطاس پر بکھرنا چاہتی ہیں، مگر طوالت کے پیش نظر اپنی اس تحریر کو اس شعر کے ساتھ ختم کر رہا ہوں۔
گل حیات نہ پژمردہ ہو نہ کمھلائے
خدا کرے کہ ستاروں کی عمر لگ جائے
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : صفدر امام قادری: شخصی نقوش اور فکری و فنی زاویے

میرے مشفق و مہربان استاذ: پروفیسر صفدر امام قادری
شیئر کیجیے