تقریب رسم اجرا
کتاب : غضنفر (افسانوں کے روزن سے)
مرتب : طیب فرقانی
سیشنز آن لائن، آف لائن اور شعری نشست
رپورتاژ : طیب فرقانی
غضنفر کو پڑھنا اور سننا دونوں ہی مسرت آمیز ہوتا ہے. جس طرح ان کی تخلیقات میں لفظوں کو برتنے میں خاص ادا، معنویت اور احتیاط کا اہتمام ہوتا ہے ان کی تقریری گفتگو بھی اتنی ہی نپی تلی ہوتی ہے. ان کی متعدد گفتگو میں پہلے سن چکا ہوں لیکن آج میری کتاب (غضنفر: افسانوں کے روزن سے) کی تقریب رسم اجرا کے موقعے پر خاص طور سے ہوا. چوں کہ یہ کتاب ان کے منتخب افسانوں اور ان کے تجزیوں پر مشتمل ہے، مجھے یہ تجسس تھا کہ وہ ایسے موقعے پر کیا کہیں گے؟ لیکن انھوں نے تجزیے، اور تجزیہ نگاروں اور کتاب کے حوالے سے بہت متوازن گفتگو فرمائی جس سے میری حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور سیکھنے کا موقع بھی ملا.
وہ اس تقریب میں بہ ذریعہ زوم شامل ہوئے، باوجود ناسازی صحت کے آن لائن سیشن میں مکمل طور سے شامل رہے، اور کافی دیر آف لائن سیشن کو بھی ملاحظہ فرمایا. ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں. ہمارے لیے یہ انتہائی مسرت آمیز اور شکر گزاری کا لمحہ تھا.
آن لائن سیشن میں معروف افسانہ نگار رفیع حیدر انجم نے کتاب کے تعلق سے اپنی نیک خواہشات پیش کیں اور تجربات مشترک کیے. انھوں نے اپنی تحریری گفتگو میں کتاب کے تعارف اور مندرجات پر روشنی ڈالی اور ہماری حوصلہ افزائی فرمائی. ان کے دو تجزیے اس کتاب میں شامل ہیں. وہ فکشن پر نہ صرف عمدہ تبصرہ کرتے ہیں بلکہ تجزیہ میں بھی معنی کی تہیں ایسے ابھارتے ہیں کہ افسانے کا مکمل حسن قاری کے سامنے آجائے.
ڈاکٹر خالد مبشر نے اس آن لائن سیشن میں کتاب پر تنقیدی نگاہ ڈالی. انھوں نے غضنفر کی فکشن نگاری اور کتاب کے مقدمے کے حوالے سے، جس میں تجزیے کے فن پر گفتگو کی گئی ہے، پر مغز گفتگو فرمائی. کتاب کی خوبیوں کو نشان زد کیا. ان کی گفتگو میں جہاں معنی کے نشانات قائم ہوتے ہیں وہیں ان کا دل کش اور دل آویز انداز گفتگو ناظر و سامع کے لیے مسرت انگیزی لے آتی ہے.
ثروت خان صاحبہ (فکشن نگار و ناقد)….. انھوں نے غضنفر کی لسانیات کے تعلق سے حساسیت پر روشنی ڈالی اور اپنے تجربات مشترک کیے. غضنفر کے افسانہ خالی فریم پر ان کا تجزیہ اس کتاب میں شامل ہے. اسے پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ تجزیہ کرتے وقت کس طرح مرکب اور سالم شہ پاروں کو اجزا میں تقسیم کرکے معنی کی تہہ میں اترا جاتا ہے. غضنفر کے فن پر ان کی گفتگو کے دوران مجھے ان کا تجزیہ یاد آتا رہا.
ڈاکٹر رمیشا قمر نے غضنفر کی ناول نگاری پر بہت کام کیا ہے اور عمدہ کام کیا ہے. ناولوں کا کلیات مرتب کیا ہے اور غضنفر کی ناول نگاری کے فن پر ایک شان دار کتاب مرتب کی ہے. غضنفر کے افسانہ سرسوتی اسنان پر ان کا تجزیہ اس کتاب میں شامل ہے. انھوں نے اپنی گفتگو میں غضنفر کے فن، کتاب اور مرتب کتاب کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی.
ہم ان سب کے بے حد شکر گزار ہیں.
(اس رپورٹ کی دوسری قسط میں آف لائن سیشن پر بات ہوگی)
کوئی بھی تقریب ہماری روز مرہ کی زندگی پر متعدد جہات سے اثر پذیر ہوتی ہے. مثلاً ہماری معیشت کو متاثر کرتی ہے، ہماری سماجی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے، ہمارے پیشہ ورانہ امور کو متاثر کرتی ہے، حتی کہ خانگی زندگی کو بھی متاثر کرتی ہے. مثال کے طور پر ہماری تقریب میں شریک ہونے والی ایک بزرگ شخصیت ممتاز نیر نے ایک بار اپنا تجربہ مشترک کیا کہ ایسی تقریب کے لیے بسا اوقات انھیں اپنی زوجہ کو بنا بتائے ہی گھر سے نکل جانا پڑتا ہے ورنہ وہ اس کی اجازت نہیں دیں گی. کیوں کہ اس کی وجہ سے ان کی معاشی زندگی متاثر ہوتی ہے. چنانچہ ہمارا ارادہ تھا کہ ایک مختصر تقریب منعقد کی جائے جس میں شریک ہونے والے افراد بھی کم ہوں اور خرچ بھی کم. مگر کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے، ہم نے پروگرام ترتیب دینا شروع کیا تو اس میں بڑی وسعت آتی چلی گئی. جہانگیر نایاب نے شعری نشست کی ذمے داری کے ساتھ ساتھ محفل شعر و سخن کے زیر اہتمام خرچے کا بھی بہت سا اہتمام کر دیا. طیب فرقانی نے آن لائن اور آف لائن اظہار خیال کرنے والوں کو سنبھالا، آن لائن سیشن کو ہوسٹ کیا، یوں یہ تقریب بہ قول کئی مقررین جغرافیائی اعتبار سے ایک تاریخی تقریب میں بدل گئی، فالحمد للہ.
آن لائن سیشن کے بعد آف لائن سیشن کی نظامت جہانگیر نایاب نے سنبھالی. نایاب صاحب ممتاز نیر اور احسان قاسمی کے بعد اس خطے کے نئے استاذ الشعرا میں شامل ہونے کی کگار پر کھڑے ہیں. وہ "فورٹی کراس" کر چکے ہیں اور امید ہے کہ ٧٠ کراس کرتے کرتے ان کے کئی شاگرد بھی استاد ہوجائیں گے.
اس سیشن کی صدارت اوریکل انٹرنیشنل اسکول (چکلہ، کشن گنج) کے ڈائریکٹر سفیر راہی نے کی. سفیر راہی نے بتایا کہ وہ (غالباً ہندوستان ٹائمز میں) کرائم رپورٹر رہے ہیں. میں جب بھی اس اسکول میں جاتا ہوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہاں کسی یونی ورسٹی کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے. وہ گیارہ نومبر کو یوم تعلیم کا جشن برپا کرتے ہیں اور اس برس مولانا آزاد کی شخصیت پر ایک کتاب بھی زیر ترتیب ہے. اسی ادارے میں مستحسن عزم کے دوسرے شعری مجموعہ "ہموار نہیں کچھ بھی" کا اجرا عمل میں آیا تھا، اُس وقت نعیم قاسمی اس کے روح رواں تھے. ان دنوں وہ عمرے کے لیے گئے ہوئے ہیں. اکثر ایسا لگتا ہے کہ چھوٹے شہر بڑے لوگوں کو کھا جاتے ہیں. غضنفر کا افسانہ "سائبر اسپیس" پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ مرکز سے دور خطے میں آباد لوگوں کی تو کوئی سنتا ہی نہیں، ان لوگوں کی بھی نہیں سنتا جو ان کی باتیں کرتا ہے.
تصویر میں : دائیں طرف سفیر الدین راہی، ان کے بعد احسان قاسمی
آف لائن اظہار خیال کا آغاز ہو، اس سے قبل رسم رونمائی ادا کی گئی، یوں تو اس کے لیے احسان قاسمی کے نام کا قرعہ نکلا تھا، لیکن اسٹیج کی صف میں جتنے لوگ سما سکتے تھے سبھی کی صف بندی کر دی گئی. یہ صف اتنی لمبی ہوگئی کہ تصویر کے ایک فریم میں سمانا مشکل ہوگیا. چنانچہ اگلے دن فاروقی تنظیم پٹنہ اور الحیات رانچی کے ایڈیشن میں شایع خبر میں جو تصویر شایع ہوئی اس میں سبھی لوگ ایک فریم میں نہ آسکے، ایسے موقعے پر جن کی تصویر فریم سے باہر ہوجاتی ہے انھیں دکھ ہوتا ہے. گوتم بدھ نے چھ سال کی تپسیا کے بعد جو گیان حاصل کیا تھا اس میں اہم گیان یہ بھی تھا کہ انسان دکھ سے نجات کیسے حاصل کرے. سکھ دکھ ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے، ہم دکھوں کو پرے جھٹک کر سکھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں. احسان قاسمی اپنی صحت کے دکھ کو پرے رکھ کر پورنیہ سے کشن گنج اپنی کار سے تشریف لائے اور تقریب میں بہ صد خلوص شرکت کی. نہ صرف تقریب میں شرکت کی بلکہ واپسی میں طیب فرقانی کے ٹھکانے پر ایک گلاس پانی اور ایک کپ چائے نوش فرمانے کی بھی زحمت اٹھائی، تھوڑی دیر رکے اور قصہ سنایا کہ "ادّھا" (لال اور سیاہ رنگ کی بھڑ) نے ایک بار کس طرح ان پر حملہ کیا تھا، وہ بینک جانے کے لیے گھر سے نکلے اور راستے میں ادھے نے ان پر اس بری طرح سے حملہ کیا کہ انھیں بینک سے جلد از جلد گھر واپسی کرنی پڑی.
ہماری زندگی میں بہت سی کہانیاں ہوتی ہیں، دکھ بھری کہانیاں، جنھیں ہم بعد کے زمانے میں ایک خوش گوار یاد کی طرح بیان کرتے ہیں. طیب فرقانی کے اڈے پر ادھے کی اس کہانی کو سننے کے ایک گواہ ان کے بھانجے تنویر صاحب بھی تھے اور دو چائے کی پیالیاں، دو پانی کے گلاس، ایک پانی کی بوتل، میز، کرسیاں، چھت کا پنکھا اور شام کا وقت….. وقت ملے تو اور بھی سناؤں….. *
جب آپ کوئی تقریب رکھ رہے ہوں اور آپ کے ساتھ کچھ مخلص لوگ ہوں تو خدا کا انعام ہی ہوتا ہے. ہمارے ساتھ تو کام کے مخلص لوگ تھے ہی ایک ایسے شخص بھی تھے جن کا تخلص بھی مخلص ہے، تخلص کا اثر ان کی شخصیت پر بھی ہے. کشن گنج اور اسلام پور کے علاقے میں اردو کی کوئی محفل ان کی شخصیت کے بغیر منعقد نہیں ہوتی. اردو کے تعلق سے انھوں نے انجمن ترقی اردو ہند کے بینر تلے جد و جہد بھی کی. اسلام پور شہر میں ان کے بچوں کو اردو بہ طور مضمون رکھنے کا موقع میسر نہیں ہوا تو انھوں نے شہر ہی چھوڑ دیا اور کشن گنج منتقل ہوگئے. اردو زبان سے ایسا جذباتی تعلق میں نے آج کے دنوں میں کسی میں نہیں دیکھا، وہ خود اسلام پور ہائی اسکول میں اردو کے معلم ہیں. کشن گنج کے انسان اسکول کے طالب علم رہے ہیں. انسان اسکول ایک زمانے میں کشن گنج میں تعلیم کا بنیادی مرکز تھا اور دور دور سے طلبہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرے دو چچا زاد بھائی نوشاد بھائی جان اور شمشاد بھائی جان کولکاتا سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آئے تھے. انسان اسکول کے کئی طلبہ سے میں ملا ہوں. ان کی گفتگو سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی بڑے تعلیمی ادارے کے طالب علم رہے ہیں.
مخلص صاحب کا اصل نام عبد الواحد مخلص ہے. ان کی گفتگو میں ہمیشہ مثبت پہلو حاوی رہتا ہے. چھوٹے بڑے سب سے ان کا تعلق یکساں رہتا ہے، ہم جیسے طالب علموں کو وہ ہمیشہ نیک کلمات سے نوازتے رہتے ہیں، سراہتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں. انھوں نے اپنی گفتگو میں کتاب کو سراہا اور امید جتائی کہ یہ کتاب (غضنفر :افسانوں کے روزن سے) مقبول ہوگی اور لوگ اس سے استفادہ کریں گے. چوں کہ ایک زمانے میں وہ خود بھی افسانہ نگاری کرتے تھے، احسان قاسمی کی تحقیقی کتاب "سیمانچل" کے افسانہ نگار میں ان کا ایک افسانہ اور تعارف شامل ہے، اس لیے منتخب افسانوں اور ان کے تجزیوں پر مشتمل اس کتاب کی قدر و قیمت کا انھیں اندازہ ہے. ان دنوں وہ مولانا آزاد کی شخصیت اور فن پر ایک کتاب ترتیب دے رہے ہیں، خدا کرے ان کے کام میں آسانیاں ہوں. (یہ کتاب اب چھپ گئی ہے)
اسی محفل میں نثار دیناج پوری اور محسن دیناج پوری کے استاد ذاکر حسین مصباحی بھی موجود رہے. انھوں نے بتایا کہ اب تک ان کے بارہ دیوان منظر عام پر آچکے ہیں اور ڈیڑھ ہزار کے قریب افسانے انھوں نے لکھے ہیں. ان کی گفتگو بڑی شگفتہ اور دل پذیر تھی. یوں تو وہ مفتی کے لقب سے جانے جاتے ہیں اور متعدد اسلامی اداروں کے بانی اور سرپرست ہیں لیکن ان کا صوفیانہ مزاج انھیں ہر محفل کا آدمی بناتا ہے. ان کی غزل گوئی اور غزل سرائی نے محفل کو زمزمہ آمیز بنا دیا. جس وقت وہ ترنم سے غزل گا رہے تھے، میں نے چپکے سے محسن بھائی سے کہا کہ اگر یہ تشریف نہیں لاتے تو ہمیں افسوس ہوتا ہے. آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں ان کو بالمشافہ سننے کا موقع فراہم کرایا.
ماسٹر امان اللہ صاحب الہی بخش ہائی اسکول میں اردو کے معلم ہیں. یوں تو وہ کم گو ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو (انگریزی میں کہیں تو) اسٹریٹ بولتے ہیں. انھوں نے اپنی گفتگو میں جہاں کتاب کو سراہا وہیں زبان کی بقا، تحفظ اور فروغ کے تعلق سے جو باتیں کیں، بعد میں کئی لوگوں نے نہ صرف ان کی تائید کی بلکہ اپنی گفتگو میں اس کے حوالے دیے.
امان اللہ صاحب بہار کے گیا ضلعے سے تعلق رکھتے ہیں. اور اب اتنے سال ہوگئے کہ اب کہیں جانا نہیں چاہتے.
(قسطوں میں رپورتاژ لکھنے کا) یہ سلسلہ میں جلد ختم کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ احساسات و جذبات پر موٹی پرتیں چڑھنے لگتی ہیں، لیکن ان دنوں اس قدر مصروفیت ہے کہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ مصروف ہوں…
تصویر میں بائیں سے پہلے سفید قمیض میں مخلص صاحب، ان کے بعد ہلکے ہرے رنگ کی قمیض میں امان اللہ صاحب دائیں سے تیسرے صدری پہنے ہوئے ذاکر صاحب
*
میرے بچپن میں میرے گاؤں اور آس پاس کی بستیوں میں بہت بڑے بڑے جلسے منعقد ہوا کرتے تھے، بڑے بڑے القاب و آداب والے ناموں کے پوسٹر شایع ہوتے اور گلی کوچوں میں چسپاں کیے جاتے، چار پہیہ گاڑی میں ساؤنڈ سسٹم لگا کر اعلانات نشر کیے جاتے، یہ رومان انگیز ہوتا تھا، اب تو میرے گاؤں میں ویسے جلسے نہیں ہوتے، لیکن آس پاس کی بستیوں میں ایسے جلسوں کی خبریں کبھی کبھی مل جاتی ہیں، جب میں اپنے گاؤں جاتا ہوں. تو یوں بھی ہوتا تھا کہ بھیڑ اکٹھا کرنے کی غرض سے کچھ بڑے نام والے خطیب اور نعت خواں حضرات کے نام اشتہار میں شامل کر لیے جاتے، حالاں کہ ان کو دعوت نہیں دی جاتی، کیوں کہ ان کی فیس بہت زیادہ ہوتی تھی.
یہ بات اس لیے لکھی کہ تقریب کا جو بینر بنا اس میں چند نام ایسے بھی تھے جو تقریب میں شرکت نہ کرسکے، رپورٹس اور تصاویر میں ان کو نہ پاکر کہیں آپ بھی یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ نام بھیڑ اکٹھا کرنے کے لیے درج کردیے گئے تھے. حاشا و کلا!
کسی مزاحیہ شاعر کے کلے میں دبے پان کی قسم، ہم نے انھیں نہ صرف پہلے سے دعوتی درخواست بھیج دی تھیں، بلکہ ان کے ہامی بھرنے کے بعد ہی ان کے ناموں کو بینر میں شامل کیا تھا، اس کے علاوہ ان کو یاد دہانی کے فون اور واٹس ایپ پیغامات بھی متعدد بار بھیجے گئے. معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے بہت سے مسائل ہیں، کسی کا بچہ بیمار ہے، کسی کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے، کسی کے کالج میں MANUU کے سینٹر کے امتحانات شروع ہوگئے اور کسی کے کالج میں NAAC کا کام ہونا ہے. کسی کو سیاسی سرگرمی سے فرصت نہیں ملی تو کسی کا فون چارج نہیں رہا اور بیٹری لو ہوگئی. مسائل زندگی کا پیچھا نہیں چھوڑتے، اس لیے ان کا تذکرہ بھی چھوڑ ہی دیا. جو واقعی پا بہ رکاب تھے ان میں وسیم علیمی کو سرکاری نوٹس ایک دن قبل ہی ملا، مجھے ان کے نہ آ پانے کا بے حد افسوس ہوا. اس لڑکے میں بڑی صلاحیتیں ہیں، وہبی صلاحیتیں، اسے فکشن سے خاص شغف ہے، اس نے ایک ناول سمیت کئی مغربی تخلیقات کا اردو ترجمہ کیا ہے، متعدد شان دار افسانے لکھے ہیں، فی الوقت سرکاری مترجم ہیں. اس لڑکے کا ترجمہ لکھنا مجھ پر ادھار ہے. ڈاکٹر قسیم اختر کے کالج میں مانو سینٹر کے امتحانات تھے، انھوں نے بتایا کہ صبح نو بجے سے شام سات بجے تک انھیں اسی میں لگے رہنا پڑتا ہے. انھیں اس محفل میں شرکت نہ کرپانے کا افسوس ہے. شہباز چشتی کے گھر خدا کی رحمت آئی ہے، ان کی زوجہ کو اسی دن ہاسپٹل سے ڈسچارج کیا جانا تھا. انھوں نے اس تقریب کی اخلاقی حمایت کی اور اپنی فیس بک ٹائم لائن پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلانات اور تصاویر مشترک کیں، جس سے ہمیں حوصلہ ملا اور خوشی حاصل ہوئی.
پھر یہ بھی ہوا کہ جن کے نام اس تقریب کے بینر میں نہیں تھے وہ بادہ خواری کے جذبے میں چلے آئے اور یہ شکوہ بھی نہیں کیا کہ انھیں دعوت کیوں نہ دی گئی.
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
ان بادہ خواروں میں سے ایک ہیں شاہ نواز بابل. شاہ نواز بابل ‘بصارت، بہادر گنج، کے بانی و مدیر رہے ہیں. ان کی کتاب تذکرہ شعراے کشن گنج ایک تحقیقی کتاب ہے، جو غالباً 2021 میں شایع ہوئی تھی. وہ شاعر بھی ہیں. انھوں نے اپنے مختصر بیان میں کتاب اور صاحب کتاب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا.
اسی طرح مشتاق گوہر صاحب نے ٹھیک تقریب سے ایک روز قبل خیر خبر دریافت کرنے کے لیے واٹس ایپ پیغام بھیجا، میں نے انھیں تقریب کے انعقاد کی اطلاع دی. تقریب کے دن ہمارے بعد سب سے پہلے پہنچنے والے وہی تھے. وہ ٹھاکر گنج سے آئے تھے. کسی زمانے میں افسانہ نگاری کرتے تھے. ہائی اسکول میں اردو زبان پڑھاتے ہیں. احسان قاسمی ان سے مزاحا کہتے ہیں کہ اب لکھنے کی کیا ضرورت ہے، نوکری بھی مل گئی اور چھوکری بھی مل گئی. گوہر صاحب نے بھی کتاب کو سراہا اور اپنی واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے نیک خواہشات پیش کیا.
تصویر میں : دائیں سے تیسرے مشتاق گوہر پانچویں شاہ نواز بابل
*
یوں تو مضطر خیرآبادی نے اپنے درج ذیل عاشقانہ شعر:
وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
میں انتظار اور ہجر کی کیفیت بیان کی ہے لیکن یہ شعر کسی خوش گوار لمحے کے آغاز اور اختتام پر پیدا شدہ جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہے. آنے سے پہلے اور جانے کے بعد یا جانے کا وقت قریب آنے پر کچھ اضطرابی کیفیت پیدا ہوہی جاتی ہے. تقریب کے آغاز سے قبل کچھ اندیشے، وسوسے پیدا ہوتے رہے. آن لائن تقریب ہوسٹ مجھے ہی کرنا تھا، اور ہوسٹ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، میں نے ساری تیاریاں کر لیں، ٹرائل بھی کر لیا. رات کو سوتے وقت دعائیں بھی پڑھ لیں، لیکن مرضیِ خدا کہ اس رات بارش ہوئی اور بجلی غائب رہی. موبائل چارج نہ ہوسکا، صبح سب سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ آن لائن پروگرام کیسے ہوگا؟ نو بجے کے قریب بجلی آئی جب ہمیں اپنے ٹھکانے سے کوچ کر جانا تھا، ہم نے تھوڑا چارج کیا اور تھوڑا مقام تقریب پر چارج کرلینے کے ارادے سے نکل گیا. میری رہائش گاہ سے مقام تقریب قریب پندرہ کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے. کانکی نیشنل ہائی وے تھرٹی ون پر واقع ہے. یہ سڑک پورنیہ سے بھی آتی ہے اور کولکاتا سے بھی آکر ضم ہوتی ہے. اوریکل انٹر نیشنل اسکول کشن گنج پرانے شہر سے تھوڑا باہر کی طرف چکلہ کے مقام پر واقع ہے. آپ جانتے ہیں کہ شہر کس تیزی سے وسعت پذیر ہو رہے ہیں اور گاؤں کی ساری وسعت شہر میں سمٹتی جارہی ہے. کچھ بعید نہیں کہ یہ علاقہ بھی آیندہ دس برسوں میں گنجان آبادی والا علاقہ ہوجائے. کانکی سے کشن گنج جاتے ہوئے شہر کا داخلہ کھگڑا سے ہوتا ہے، یہاں پر ایک گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول ہے، بائیں طرف سے ایک سڑک بہادر گنج کو جاتی ہے. اسی روڈ پر حلیم چوک ہے جس کے آس پاس علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا سینٹر قائم ہوا تھا، ایک چھوٹا پل عبور کرنے پر دائیں طرف گلی میں یہاں کا مشہور انگلش میڈیم اسکول سینٹ زیویرس ہے. تھوڑا آگے بڑھیں تو قدم رسول چوک پر بڑا اور غالباً تاریخی اسلامی ادارہ ہے. تھوڑا اور آگے بڑھیں تو سنگھیا چوک آتا ہے جہاں آئی. ٹی. آئی اور مانو کے سینئر ہوا کرتے تھے. یہاں بائیں جانے والی سڑک پر قریب ڈیڑھ کلو میٹر چلیں تو اوریکل انٹر نیشنل اسکول…. ابھی نہیں آیا، بلکہ ایک اور انگلش میڈیم اسکول ہے جس کا نام مجھے یاد نہیں. اسی کے پڑوس میں اوریکل انٹرنیشنل اسکول ہے. بڑے سے کیمپس میں خوب صورت راہ داری بنی ہے جس کے دونوں طرف میہوگنی کے درخت لگائے گئے ہیں، کیمپس میں گائیں چرتی نظر آئیں گی جن کے پالنے کا انتظام اسکول کی جانب سے کیا گیا ہے، اس بار تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ کیمپس کے ایک حصے میں دھان کے پودے اگائے گئے ہیں، یعنی ورک ایجوکیشن کا پورا انتظام ہے. کیمپس کے انٹرنس پر ایک نئی اور مزین عمارت ہمارا استقبال کرتی ہے……
اس دن میرے ہم سفر تھے جہاں گیر داور، جنھیں منورہ سے پک اپ کیا گیا تھا، راستے میں ہم نے بینر چسپاں کرنے کے لیے ڈبل ٹیب تلاش کر خریدا جس کی قیمت جہانگیر داور نے ہم سے نہیں لی. اسکول پہنچ کر سب سے پہلے موبائل کو چارجنگ پر لگایا. خدا کا شکر کہ بجلی آرہی تھی، اس لیے آن لائن تقریب کے آغاز میں تاخیر ہوئی، لیکن جب تقریب کا آغاز ہوا تو اس قدر شان دار ہوا کہ پانچ مقررین (غضنفر، رفیع حیدر انجم ،خالد مبشر، ثروت خان اور رمیشا قمر) نے ایک گھنٹہ بیس منٹ تک اپنے خیالات کا اظہار کیا.
اس کے بعد آف لائن والوں کے اظہار خیال نے اسے کھینچا، اور شکریہ ادا کرنے کے لیے طیب فرقانی کو بلایا گیا……..
تصویر میں سب سے دائیں طرف جہاں گیر داور )
*
طیب فرقانی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا :
"میں خود کتاب کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا، کیوں کہ اگر میں کچھ کہوں گا تو ظاہر ہے کہ اچھا ہی کہوں گا، اور اس کی وہ حیثیت نہیں ہوگی جو اہل محفل نے کہی اور اس کتاب کے قارئین کہیں گے."
در اصل غضنفر پر بولنا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے. مشکل بایں معنی کہ کہاں سے شروع کریں اور کن جہتوں کو گفتگو کا موضوع بنائیں.
غضنفر کے معاصرین میں بہت کم ادیب ایسے ہیں جن پر دو درجن سے بھی زیادہ ایم فل اور پی۔ ایچ۔ڈی کے مقالے لکھے گئے اور مختلف یونی ورسٹیوں کے اسکالرز کو ڈگریاں تفویض کی گئیں۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ اب تک ان کے فن، فکر اور حیات پر سولہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کتابوں کی فہرست دیکھیں :
1-غضنفر کی ناول نگاری : ڈاکٹر صبوحی اسلم
2-غضنفر اردو فکشن کی معتبر آواز: ڈاکٹر محمد انور اور آصف ابرار
3-دویہ بانی ایک تنقیدی مطالعہ : نشاط کوثر
4-غضنفر کا فکشن : سلمان عبدالصمد
5 غضنفر کی جہتیں : ڈاکٹر زیبا ناز
6-پانی سے مانجھی تک : شگفتہ یاسمین
7-غضنفر کا ناول مانجھی ایک تنقیدی مطالعہ: ڈاکٹر الفیہ نوری
8-مانچھی متن کے آئینے میں: رحمت یونس
9-کرب جاں کا تنقیدی مطالعہ: ڈاکٹر سیما صغیر
11- آبیاژہ : غضنفر کے ناولوں کا کلیات : ڈاکٹر رمیشا قمر
12- غضنفر شناسی : ڈاکٹر رمیشا قمر
13-غضنفر افسانوں کے روزن سے : طیب فرقانی
14-افسانہ غضنفر کی نظر میں : ڈاکٹر صابرہ خاتون
15.تدریسی زاویے : نہاں رباب
16-غضنفر نمبر : اقبال حسن آزاد
غضنفر پر لکھی گئی کتابوں کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتاہے کہ ان کے فکر و فن کے بہت سارے گوشے ابھی ان چھوئے رہ گئے ہیں۔ ضرورت ہے ان گوشوں پر روشنی ڈالنے کی.
"میرے لیے یہی مسرت کی بات ہے کہ جس تخلیق کار کی افسانوی خدمات پر میں نے کام کیا اور کتاب پیش کر سکا وہ بہ خود اس محفل میں بہ ذریعہ زوم شامل ہوئے اور میرے کام کو سراہا."
طیب فرقانی نے احسان قاسمی اور سفیر الدین راہی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ احسان قاسمی کے ہاتھوں اس کتاب کی رسم رونمائی کی ادائیگی ایک قرض اتارنے کی طرح ہے، کیوں کہ انھوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور لکھنے پڑھنے اور اشتراک ڈاٹ کام کے کام کو آگے بڑھانے کی تحریک دی، تعاون کیا.
سفیر الدین راہی کشادہ قلب شخصیت کے مالک ہیں، وہ ایسی تقاریب کے لیے ہمیں مواقع فراہم کرتے ہیں.
چوں کہ رسم اجرا کی اس تقریب میں کشن گنج، اسلام پور کی تقریباً تمام اہم اردو دوست شخصیات کی شرکت متوقع تھی، اس لیے احسان قاسمی طارق جمیلی کی شخصیت و فن پر اپنی نئی مرتب کردہ کتاب بھی ساتھ لیتے آئے.
*
سو یوں ہوا کہ احسان قاسمی اپنی نئ مرتب کردہ کتاب ساتھ لیتے آئے. سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور سب کو اس کا چہرہ دکھایا گیا. چہرے پہ لکھا تھا :
پروفیسر طارق جمیلی کی ہمہ جہت شخصیت اور کارناموں پر مختلف مضامین کا مجموعہ
طارق جمیلی
‘یاد آئے گی مری طرز ادا میرے بعد’
ترتیب
احسان قاسمی
پورنیہ اردو سوسائٹی، پورنیہ
پروفیسر طارق جمیلی ایسے استاد تھے جن کے شاگردوں نے کمال کیے. اور اس خطے کے علمی و ادبی کارناموں کے امین بنے. طارق جمیلی نے تخلیقی دنیا میں شاعری کی، افسانے لکھے، ڈرامے لکھے اور انشائیے لکھے. ان کے انشائیوں کا مجموعہ "آزاد شرارے " میں نے پڑھا ہے اور اس پر ایک مضمون بھی لکھا ہے جو اس کتاب میں شامل ہے. تو یوں میں اس کتاب سے بھی منسلک ہوں اور شخصیت سے بھی کہ طارق جمیلی مظفر پور کے اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے جہاں میرا آبائی وطن ہے. اس کتاب سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ مظفر پور کے ایک گاؤں مہرتھا سے تعلق رکھتے تھے جو میرے گاؤں سے قریب تین چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے. میرے پردادا کا گھر ان کے گاؤں کے پڑوسی گاؤں میں تھا.
احسان قاسمی نے ارادہ کرکے رکھا ہے کہ طارق جمیلی کی شخصیت و فن پر مذکورہ کتاب کی باضابطہ رسم رونمائی جلد ہی پورنیہ میں منعقد کریں گے (اور مجھے بھی بلائیں گے اور میں جاؤں گا بھی، کیوں کہ ان کی مہمان نوازی کے سب قائل ہیں.)
پھر یوں بھی ہوا کہ عبدالواحد مخلص (استاد اسلام پور ہائی اسکول) نے محمد علیم الدین شاہ (اسسٹنٹ پروفیسر ،چوپڑا کالج ،اتردیناج پور) کی کتاب : "بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات" احسان قاسمی کی خدمت میں پیش کی. یہ کتاب چوپڑا کملا پال اِسمرتی مہاودیالیہ، اتر دیناج پور کے ذریعہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے تعاون سے اشاعت پذیر ہوئی ہے. اس کتاب کی باضابطہ رونمائی بھی عن قریب متوقع ہے۔ اس تحفۂ خاص کے لیے احسان قاسمی نے مخلص صاحب کو بالمشافہ اور محمد علیم الدین شاہ صاحب کو غائبانہ شکریہ کہا۔ ہم ابھی شکریہ نہیں کہہ سکے ہیں. امید ہے جلد ہی یہ موقع میسر آئے گا.
اب یہاں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جو اس تقریب کے موقعے پر منعقدہ شعری نشست میں شعراے کرام نے پیش کیے.
جلائے رکھا ہے میں نے بھی اک چراغِ امید
تمہارا در بھی مقّفل نہیں ہوا اب تک
دارز دستِ تمنا نہیں کیا میں نے
کرم تمہارا مسلسل نہیں ہوا اب تک
جہانگیر نایاب
نور و نکہت کی بات کرتے ہیں
دفعِ ظلمت کی بات کرتے ہیں
ہم سے الجھو نہیں ہواؤ! تم
ہم محبت کی بات کرتے ہیں
آفتاب اظہر صدیقی
ڈوب کر دیکھ لیا عشق کی گہرائی میں
رنج پلتے ہیں بہت تیری شناسائی میں
حسن دیدار کی ہے آرزو بینائی میں
دل تڑپتا ہے یہاں قرب مسیحائی میں
فناء القادری
چھپا ہے راز سینے میں اسے میں کھول دیتا ہوں
ملاکر چند لفظوں میں کہانی بول دیتا ہوں
میں اک اردو کا شاعر ہوں تخلص میرا محسن ہے
غزل اردو کی پڑھ کر کان میں رس گھول دیتا ہوں
محسن دیناج پوری
دھڑادھڑ پان جو اتنا چباتا ہے
وہ اس کی اوٹ میں غصّہ چباتا ہے
ہاں میرے سوا کون ہے اس دور میں ‘صابر’
کرتا ہے جو شدّت سے کسی کو بھی سدا یاد
آرزو صابر
جہاں ہم گلی ڈنڈا کھیلتے تھے
وہاں کے پیڑ اب مرجھا گئے ہیں
غریبوں کا جو حق تھا مل نہ پایا
سیاست داں اسے بھی کھا گئے ہیں
غلط انصاف کرنے والے منصف
عدالت میں بھی ویسے چھا گئے ہیں
ہندو نہ سکھ نہ جین مسلماں دکھائی دے
اس ملک کے انسان کو انساں دکھائی دے
ملتے تھے ہولی عید میں کھاتے تھے ایک ساتھ
یارب ہمیں پھر ایسا نظارہ دکھائی دے
شاہ نواز بابل
( ایک بِہاری غزل )
احسان قاسمی
دُنیا میں آ کے آدمی جا نو ہو ، کا کِہِس ؟
جھگڑا لڑائی جور و ستم میں ہی بس رہِس
سچ بولنا ہی آج کی دنیا میں جُرم ہے
وہ کون آدمی ہے جو گالی نہیں بکِس
ہم نے بھی اپنی آنکھ کو نیچے جُھکا لیا
عرصے کے بعد آج جو رستے میں وہ مِلِس
وہ جس کو بولنے کی کلا ہم نے کی عطا
غیروں کے سامنے بھلا کیا کیا نہیں کہِس
بیٹا دروغا بن کے بڑا نام کر گیا
باپو سے ایک کیس میں نذرانہ لے لِہِس
داماد چُن کے لائے ہیں خفیہ وِبھاگ سے
خفیہ ہی رکھئے دان میں جو کچھ لِہِس دِہِس
احسان ریختے میں چلی جو تری غزل
سُنتے ہیں میر و ذوق بھی سُنتے ہی سر دُھنِس
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش: حسن دکھانے سے زیادہ چھپانے میں نظر آتا ہے: غضنفر