قاسم خورشید: افسانہ نگاری سے شاعری تک

قاسم خورشید: افسانہ نگاری سے شاعری تک

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

سب کو معلوم ہے کہ قاسم خورشید نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ۱۹۷۷ء میں ہی رسالہ ’زبان و ادب‘ میں اُن کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ یاد رہے کہ اُس زمانے میں ’زبان و ادب‘ کے مدیر بزرگ افسانہ نگار شین مظفّر پوری ہوا کرتے تھے۔ فکشن کی ایک دوسری شاخ ڈرامے کی طرف بھی وہ اپنے آپ بڑھ گئے۔ اُس زمانے میں عظیم آباد میں ’انڈین پیوپلس تھیٹر ایسو سی ایشن‘ یعنی ’اِپٹا‘ کا بہت زور تھا۔ پرویز اختر، تنویر اختر اور جاوید اختر تینوں بھائی سر گرم تھے۔ قاسم خورشید بھی ڈرامے لکھنے، ڈراموں میں اداکاری کرنے اور ہدایت دینے جیسے کاموں میں سر گرم ہو گئے۔ یونی ورسٹی کی تعلیم بھی چل رہی تھی اور افسانہ اور ڈراما نگاری بھی رفتار پکڑ رہی تھی۔ شروع کے زمانے سے ہی دوستوں کے حلقے میں اردو والوں کے ساتھ ہندی کے شاعر ادیب بھی شامل رہے۔ ریڈیو میں عارضی اناونسر ہونے کے دَوران یہ کثیر لسانی رشتہ مزید مستحکم ہوا۔ ریڈیو کے لیے فیچر لکھنے لگے۔ پٹنہ شہر اور خدا بخش لائبریری کے حوالے سے اُن کے فیچر شائع بھی ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کی مشہور کہانی ’بھولا ‘ کی ڈرامائی منتقلی بھی اُنھوں نے کی تھی۔ عین ممکن ہے کہ کبھی یہ ڈراما اسٹیج بھی ہوا ہو۔
جس طرح اردو کے چھوٹے موٹے رسائل میں اُن کے افسانے شائع ہوتے رہے، اُسی طرح ہندی کے رسائل خاص طور سے بہار سے نکلنے والے رسائل میں وہ چھپنے لگے۔ کبھی کسی شاعر کا انتخابِ کلام اور تعارف بھی شائع کرایا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ شہر یار اور بشیر بدر کے تعارف کے ساتھ اُن کا کلام ’کوشا‘ نام کے ایک ہندی رسالے میں ۸۴۔۱۹۸۳ء کے دور میں شائع ہوا تھا۔ اُن کے افسانے آل انڈیا ریڈیو کے رسالے ’آواز‘ میں بے حد باقاعدگی سے شائع ہوتے۔ ’شاعر‘، ’عصری ادب‘، ’زبان و ادب‘، ’قوس‘، ’مریخ‘ وغیرہ رسائل میں وہ شائع ہوتے رہے۔ اُنھیں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا اور دیکھتے دیکھتے نئے افسانہ نگاروں میں خاص طور سے اُنھیں پہچانا جانے لگا۔
عظیم آباد میں اُن کی دوڑ پتھّر کی مسجد سے لے کر ریڈیو اسٹیشن تک رہی۔ چار پانچ کیلو میٹر کی اس مسافت میں اُن کی ادبی شخصیت کی تشکیل و تعمیر اور تمام طرح کی سرگرمیاں قائم رہیں۔ تعلیمی زندگی بھی اسی راستے میں کٹی اور ملازمت کے کئی مراحل اسی سڑک پر واقع دفتر میں گزرے۔ اُن کے دوستوں اور ادبی ساتھیوں کا بھی زیادہ سے زیادہ اِسی سلسلے میں ساتھ رہا۔ پتھّر کی مسجد سے نکل کر سلطان گنج میں سہیل عظیم آبادی کے صاحب زادے شان الرحمان مل گئے، شاہ گنج میں کیف عظیم آبادی اور فخر الدین عارفی حاصل ہو گئے۔ چار قدم آگے بڑھنے پر ایس. سی. ای. آر. ٹی کا اُن کا دفتر دائیں جانب اور سڑک کے بائیں ستیش راج پشکرنا کا پریس۔ رانی گھاٹ میں افسانہ نگار اودھیش پرت آ کر بس گئے۔ آدھا کیلو میٹر آگے بڑھیے تو دربھنگا ہاؤس کا شعبۂ اردو جہاں اُن کی اعلا تعلیم ہوئی۔ سڑک پر چار قدم بڑھیے تو ’بہار اردو اکادمی‘، ’گورنمنٹ اردو لائبریری‘ اور ’کتب خانۂ خدا بخش‘ جن اداروں سے اُنھوں نے فیض اُٹھایا اور تعلیمی طور پر خود کو مستحکم کیا، وہیں خزانچی روڈ میں ’رام موہن رائے سمنری‘ جیسا اسکول جہاں سے قاسم خورشید نے اسکول کی تعلیم مکمّل کی۔ اگلے ایک کیلو میٹر پر سبزی باغ کا علاقہ، رحمانیہ ہوٹل اور بک امپوریم کے شامل دیگر کتاب کی دکانیں جہاں شام میں کوئی دن ایسا نہ ہوتا ہو جب دس بیس ادبا و شعرا و دانش ور جمع نہ ہوتے ہوں۔ نکّڑ کے پاس قبرستانیہ ہوٹل جہاں کھُلے آسمان کے نیچے عیسائیوں کے بند پڑے قبرستان میں بینچ پر بیٹھ کر شام سے رات کی ادبی بے فکریاں مکمّل ہوتیں۔ اُس سے آگے ایک کیلو میٹر پر کالی داس رنگا لَے اور گاندھی میدان جہاں قاسم خورشید نے اپنے ڈرامائی سفر کا آغاز و انجام دیکھا تھا۔ وہاں سے ایک کیلو میٹر دُور فریزر روڈ پر آل انڈیا ریڈیو کا دفتر جہاں سے قاسم خورشید نے اپنا پروفیشنل کیریر شروع کیا تھا۔ بعد میں اُسی کے قلب میں دور درشن کا دفتر اور اسٹوڈیو قائم ہوا جہاں سے پچھلے ہفتے تک اُنھوں نے ہفتہ وار یا پندرہ روزہ خصوصی ادبی پروگرام کیے۔ زندگی اور شعر و ادب کی ساری کامیابیاں اور ناکامیاں قاسم خورشید نے اِسی پانچ کیلو میٹر کی سڑک اشوک راج پتھ پر دیکھی۔
تصنیف و تالیف کی پہلی دہائی میں قاسم خورشید اردو کے قابلِ ذکر اور اُبھرتے ہوئے افسانہ نگاروں میں گِنے جانے لگے تھے مگر اپنے دفتر کے دروازے پر ستیش راج پُشکرنا کے پریس اور وہاں کی روزانہ کی کئی کئی بار کی بیٹھکوں نے اُنھیں منی کہانی کی طرف راغب کیا۔ ۸۴۔ ۱۹۸۳ء کے زمانے میں نہایت مختصر کہانیاں بہت سارے لوگ لکھ رہے تھے۔ ہندی میں تو کئی لوگ ’لگھو کتھا آندولن‘ چلانے کے دعوے دار تھے۔ ستیش راج پُشکرنا اُن میں سے ایک تھے۔ غنیمت ہے کہ قاسم خورشید نے چند منی کہانیاں لکھنے کے بعد اِس نئی صنف میں امکانات تلاش کرنے کے کام کو نہیں آزمایا۔ گیان دیو منی ترپاٹھی کے ادارے ’ساہتیہ کنج‘ کے وہ صدر ہو گئے۔ آئے دن کی نشستیں ہونے لگیں۔ قاسم خورشید کے پاس گنتی کی نظمیں اور دو چار دس غزلیں تھیں۔ اُنھیں وہ پڑھنے لگے۔ پیش کش میں وہ درجنوں شعرا سے بہتر تھے، اِس لیے اُن کی شاعری ہندی کی محفلوں میں چمکنے لگی۔ موزوں طبع تھے، شعر کہہ لیتے تھے مگر عروض سے کما حقہٗ واقفیت نہ تھی۔ اردو کی محفلوں میں لوگ وزن اور بحر پر خاص توجہ دیتے ہیں مگر ہندی کی محفلوں میں ایک لچیلا نظام اب بھی رہتا ہے۔ قاسم خورشید کی شاعری اِن محفلوں سے آگے بڑھنے لگی۔ ایک خاص مدّت تک اردو کی شعری محفلوں میں خود کو شاعر کے طور پر پیش کرنے سے وہ گریز کرتے تھے جس کی وجہ سے اردو والوں کے بیچ افسانہ نگار اور ہندی والوں کے بیچ شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔
اِس دَوران پٹنہ ’دور درشن‘ سے اُن کا ایک رشتہ قائم ہوا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے اُن کی آواز تو موزوں تھی ہی، ٹیلی ویژن والوں کو بھی اردو ادب سے متعلّق پروگرام کرانے تھے۔ پچھلے پچیس تیس برسوں میں ایسا اکثر ہوا کہ پٹنہ ’دور درشن‘ میں اردو داں اناونسر یا پروڈیوسر نہیں تھا اور نان آفیشیل ذمّہ داری قاسم خورشید ہی نبھاتے تھے۔ دنیا کے ہر موضوع پر پروگرام کر لینا، اُس کے لیے اپنی پسند کے ماہرین کو منتخب کرنا اور نظامت کے نام پر اپنی جانب سے علم و فضل کا دفتر سجا دینا، یہ معمول بن گیا تھا۔ اِس سے قاسم خورشید کی شہرت میں اضافہ ہوا، وہ مقبول چہروں میں گِنے جانے لگے۔ عظیم آباد کی سطح پر اصحاب الراے افراد جنھیں پروگراموں میں وہ بلاتے تھے، اُن پر وہ لوگ نچھاور ہوتے گئے۔ دیکھتے دیکھتے اردو کا ایک ابھرتا ہوا افسانہ نگار چمک دمک کی ٹی وی اینکرنگ کی فضیلت اوڑھ کرشعر و ادب کی ٹھوس زمین سے دور ہوتا گیا۔ اب وہ افسانہ نگار کم تھے اور ٹی وی اینکر زیادہ۔
ٹی وی کی محفلوں نے ہی اُنھیں اردو اور ہندی کے بڑے اور سرکاری مشاعروں تک پہنچایا۔ دفتری اعتبار سے وہ خود محکمۂ تعلیم کے افسر تھے، اِس لیے اُنھیں چھوٹے سے لے کر بڑے افسروں تک کو جوڑنے میں آسانی ہوئی۔ بعض افسروں کو ٹیلی ویژن پر بلا کر وہ فیض بھی پہنچاتے رہے۔ حکومتِ بہار کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا مشاعرہ منعقد ہوا ہو جس میں اچھی خاصی رقم مقرر ہو اور قاسم خورشید اُس کے مرکز میں نہ ہوں۔ وہاں وہ شاعر کی حیثیت سے رہیں گے، کبھی ناظمِ مشاعرہ کی حیثیت سے اور اِن سب سے بڑھ کر شعرا کی فہرست سازی میں پردے کے پیچھے سے منتظم کی حیثیت سے۔ اِس سے بہار میں مشاعروں کی دنیا میں اُن کا اثر بڑھا۔ جن شعرا کو آپ بلاتے ہیں، وہ بھی آپ کو بلائیں گے، یہ لین دین اُن کے لیے ہمیشہ فائدہ مند رہا۔
مگر ادبی اعتبار سے وہ پورے طور پر اپنی سابقہ اور بنیادی زمین افسانہ نگاری سے کم و بیش کٹ گئے۔ وقتاً فوقتاً افسانوں کی کتابیں نئے ناموں سے بھی شائع کیں مگر اُن کے سارے افسانے تین ساڑھے تین سو صفحات میں سمٹ جائیں گے۔ جس کام کے لیے وہ اپنے ادبی کیریر کے آخری بیس پچیس برسوں میں دوڑتے بھاگتے اور بہ تدریج نمایاں ہوتے نظر آئے، حقیقت یہ ہے کہ اُس کام میں اُن کی یکسر مہارت نہیں تھی۔ ورنہ کون سی ایسی مشکل تھی کہ جو شخص چالیس پینتالیس برس سے شعر کہہ رہا ہو، وہ عروض نہ سیکھ لے، اُسے اپنے شعری عیوب پتا نہ چلیں۔ ناموزونیت، ساقط الوزن ہونے کا عیب اور دو لخت اشعار ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ اُن کی تعلیم اور صلاحیت ایسی تھی کہ اِن عیوب سے وہ اپنے کلام کو پاک صاف کرکے اپنے ہم عصر دوسرے شعرا کے مقابل اپنا دعوا پیش کر سکتے تھے۔ شاید اِسی لیے ایک طویل مدّت تک اُنھوں نے اردو شاعری کا مجموعہ نہیں شائع کیا۔ جب کہ وہی کلام ہندی میں کئی مجموعوں میں سمٹا ہوا شائع ہوتا رہا۔ شاید لوگوں کے دباؤ میں ہی اُنھوں نے پچھلے سال اردو کا شعری مجموعہ ’دل کی کتاب‘ شائع کیا مگر کوئی بتا دے کہ اُس پر اردو کی کسی بزم میں بحث ہوئی ہو۔ کسی ممتاز شاعر یا ناقد نے اُس کا جائزہ لیا ہو اور اپنے زمانے کی اہم کتابوں میں اُسے کسی نے جگہ دی ہو۔
قاسم خورشید آج ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ اب بہت سارے لوگوں کو وہ مشاعروں یا ٹیلی ویژن سے کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتے۔ نہ کوئی تبادلہ یا لین دین کا امکان ہے۔ اب کھرا سونا اُن کی کتابیں ہوں گی اور اُنھی کا محاسبہ کل کا مورخ کرے گا۔ اُن کی شاعری کی ساری پونجی صفِ دوم یا صفِ سوم کے شعرا سے بڑھ کر ہرگز نہیں ہے۔ کچھ برسوں کے بعد اُسے شاید ہی یاد رکھا جا سکتا ہے۔ ٹی وی یا مشاعروں کی نظامت میں دنیا کے ہر موضوع پر اُنھوں نے جو لن ترانیاں کیں، وہ بھی اب دھواں ہو چکا ہے۔ کسی کسی سے می نار میں شرکت اور مقالے پڑھنے کا جو اُنھیں شوق تھا، دو عدد تنقیدی کتابیں بھی اِس سلسلے سے منظرِ عام پر آئیں مگر اُن کا وہ معیار نہیں ہے جس کی بہ دولت اردو کی ادبی تاریخ میں قاسم خورشید کو پہچانا جا سکے۔ تین درجن کے قریب اُن کے جو افسانے ہیں اور اُن کی ابتدائی دو دہائیوں کی کوششیں ہیں، اِنھی سے اردو کی ادبی تاریخ میں اُن کی جو تھوڑی بہت جگہ ہوگی، وہ متعین ہوگی۔ اگر شاعری اور مجلسی دھوم دھڑاکوں میں وہ گُم نہیں ہوئے ہوتے تو ۱۹۸۰ء کے بعد کے اہم افسانہ نگاروں میں اُن کا بڑا مقام ہوتا۔ اُن کے دوسرے ہم عصر اپنی مشق اور ریاضت کی بہ دولت اِس سفر میں اُن سے کافی آگے نکل چکے ہیں۔ اب وہاں سے نہ وہ پیچھے آ سکتے ہیں اور نہ قاسم خورشید کا سرمایۂ ادب اُس جگہ سے اُنھیں آگے لے جا سکتا ہے۔ اپنے وقت کے ایک مشہور اور ہمیشہ لائم لائٹ میں رہنے والے ہمارے ادیب دوست کی ادبی زندگی کا یہ وہ المیہ ہے جس پر ہم ماتم تو کر سکتے ہیں مگر اس سے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ کاش! جیتے جی قاسم خورشید کو اپنی بنیادی ادبی زمین کے مدار پر ہی قائم رہنے اور وہیں بہت کچھ کرنے کا فیصلہ لینا تھا مگر افسوس کہ وہ غیر ضروری ادبی و تہذیبی مصروفیات میں اپنی افسانہ نگاری کو بھی حقیقی منزلوں تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ناگہانی موت نے خود احتسابی کے امکانی مواقع سے بھی اُنھیں آشنا نہ کرایا اور ہماری زبان کا ایک با اعتبار افسانہ نگار اپنی حقیقی منزلوں سے پیچھے رہ گیا۔
***
اس سلسلے کی چار کڑیاں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش!
قاسم خورشید سپردِ خاک
میرے قاسم خورشید
عظیم آباد میں میرے سرپرستِ اوّل قاسم خورشید

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے