رفیع حیدر انجم
Mob: 8002058079
Email: rafih4031@gmail.com
اور وہی ہوا جس کا وہم و گمان نہیں تھا مگر جو ان دنوں متواتر ہو رہا تھا.۔۔۔۔۔۔۔
کار نے تھوڑی اسپیڈ پکڑ لی تو اس نے کہا تھا …… . ….. "سر! ذرا دھیرے چلائیں، میں پریگنینٹ ہوں………" میں نے اس کے سراپے کا جائزہ لیا اور یہ سوچ کر مسکرا دیا کہ اگر سریتا نے خود سے نہ بتایا ہوتا تو مجھے خود سے جاننے میں ابھی اور کتنا وقت لگتا. لیکن اتنا تو طے ہے کہ اسپیڈ نہیں بڑھتی تو اس روز میں یہ نہیں جان پاتا کہ وہ پریگنینٹ ہے. عورتیں راز فاش کرنے اور راز کو راز ہی رہنے دینے میں یکساں طور پر ذہین ہوتی ہیں. مگر سریتا واقعی ذہین لڑکی تھی. ذہین, بےباک اور پرکشش بھی کہ میڈیا ہاؤسز میں ایسی ہی لڑکیاں اپنے کیریر پر فوکس کر سکتی ہیں. سریتا اپنے کام کو لےکر ہمیشہ پرجوش رہتی تھی. اسٹوڈیو میں ہو یا اسٹوڈیو سے باہر, ایسا لگتا جیسے دنیا کو مٹھی میں قید کر لےگی. کبھی کسی بڑی ہستی یا سلیبریٹی کا اسے انٹرویو لینا ہوتا تو بڑی تیاری کرتی, اس کی ذات سے وابستہ گڑے مردے اکھاڑتی اور اپنی دانست میں ایسے سوالات سوچتی کہ سامنے والے کی بولتی بند ہو جائے. اسے وہ خوش دلی سے اپنا جاب انجوائے کرنا کہتی تھی. اس روز پہلا موقع تھا جب وہ کار میں میرے ساتھ تھی اور جہاں ہمیں جانا تھا وہاں تک پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹے کا وقت لگتا. لیکن میں نے کار کی اسپیڈ کم رکھی جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بات پریگنینسی سے نکل کر پلاننگ تک جا پہنچی تھی اور مجھے پہلی بار سریتا سے معلوم ہوا کہ تخیل کی رفتار کتنی تیز ہوتی ہے. اتنی تیز کہ آن کی آن میں یا تو ایک گھر بس جائے یا پھر ایک گھر اجڑ جائے. گھر کے اجڑ جانے کی حقیقت کا پتہ لگانے کے لیے ہم سفر میں تھے. خبریں گرم تھیں کہ وہاں بلڈوزر چل گیا ہے. مگر سریتا نے پورے سفر کے دوران ایک ہنستا کھیلتا گھر بسا دیا تھا. اپنے ہونے والے بچے کی پیدائش، پرورش و پرداخت، تعلیم اور کیریئر سے لے کر اس کی شادی تک کی منصوبہ بندی سریتا نے اتنی باریکی سے بیان کیا کہ میں حیران رہ گیا۔ مگر حیرانی اس بات کی زیادہ تھی کہ کیا برسوں کی منصوبہ بندی چند گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے اور کیا اسے ہو بہو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ یہی سوچتے ہوئے ہم جائے واردات پر پہنچ چکے تھے۔
مگر جب ہم وہاں پہنچے تو وہی ہوا جس کا وہم و گمان نہیں تھا، مگر جو ان دنوں متواتر ہو رہا تھا۔
بلڈوزر جس بستی پر چلا تھا، وہاں کچھ دن پہلے تک زندگی سانس لے رہی تھی۔ بچے کھیلتے تھے، عورتیں ہنستی تھیں، مرد کام پر نکلتے اور واپس آ کر سکون سے تھکن اتارتے۔ لیکن اب وہاں خاک اڑ رہی تھی۔ ملبے میں بکھری کتابیں، چکناچور کھلونے، ٹوٹی ہوئی چوڑیاں، بکھرے خواب اور جلے ہوئے شناختی کارڈ پڑے تھے۔ ہم دونوں، میں اور سریتا، گاڑی سے اتر کر کیمرا، مائک اور چند کاغذات سنبھالتے ہوئے آگے بڑھے تو لگا جیسے ہم کسی میدانِ جنگ میں داخل ہو رہے ہوں۔
لوگوں کا ہجوم تھا۔ آنکھوں میں غصہ، دلوں میں زخم، اور ہاتھوں میں پتھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ میڈیا والے صرف فوٹو کھینچنے آتے ہیں!"
"ہماری لاشوں پر سیاست کرو گے کیا؟"
"خبریں بیچو گے، درد نہیں بانٹو گے!"
شور میں کوئی ایک آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ مگر اس شور میں جو چیز سب سے زیادہ واضح تھی، وہ تھی ایک اجتماعی چیخ، ایک کرب، جو لفظوں کی صورت میں نہیں بلکہ پتھروں کی زبان میں اظہار پا رہا تھا۔
ہم نے خود کو بچانے کی کوشش کی، مگر یہ ممکن نہیں ہوا۔ اچانک ایک نوکیلا پتھر، جانے کس ہاتھ سے اچھلا اور سیدھا سریتا کی کنپٹی پر آ لگا۔ وہ ایک لمحے کو ساکت ہوئی، اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے ملیں جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ہو اور پھر وہ آہستہ سے زمین پر گر گئی۔ جیسے کسی نے اس کے خوابوں کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا ہو۔
میں چیخا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "سریتا!"
خون، مٹی، پتھر اور بےجان جسم سب ایک ہو گئے۔
اس ناگہانی کے بعد لوگ منتشر ہو گئے۔ کچھ لمحوں بعد وہاں صرف میں تھا، سریتا کی لاش تھی اور ناانصافی کی وہ کہانی جو ہم ریکارڈ کرنے آئے تھے۔ لیکن وہ کہانی اب ہماری اپنی کہانی بن چکی تھی۔
اس کے ہاتھ سے ایک کاغذ پھسل کر میرے قدموں کے پاس آ گرا۔ میں نے جھک کر اسے اٹھایا۔ وہ ایک اسکرپٹ تھی جس میں لکھا تھا۔
"یہ صرف ایک گھر کی تباہی نہیں، ایک مکمل زندگی کی بے دخلی ہے۔"
پولیس آئی، ایمبولینس آئی، لاش اٹھائی گئی۔ رپورٹنگ کیمرے میں محفوظ ہوئی۔ چینل پر "بریکنگ نیوز" چلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"خاتون رپورٹر سریتا سنگھ کی جان دورانِ ڈیوٹی چلی گئی۔"
مگر اس خواب کا ذکر کسی نے بھی نہیں کیا جو اس نے دوران سفر اپنی آنکھوں میں بسایا تھا، پلکوں پہ سجایا تھا اور روح کی گہرائی میں اتارا تھا۔ اب کوئی یہ نہیں جان پائے گا کہ اس کے پیٹ میں جو ایک نیا گھر آکار لے رہا تھا، مسمار ہو چکا ہے۔
دوسرے بہت سے سوگوار لوگوں کے درمیان بیٹھا میں اب بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا برسوں کی منصوبہ بندی چند لمحوں میں کی جا سکتی ہے اور کیا وہ زندگی جو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی، ملبے کے نیچے دفن ہو سکتی ہے؟
اچانک ارتھی اٹھنے کا شور ہوا تو لگا جیسے ارتھی پر رکھی سریتا کی لاش تنہا نہیں ہے۔ ***
رفیع حیدر انجم کی گذشتہ نگارش: افسانہ سائبر اسپیس کا تجزیہ

اداسی کی ایک اور کہانی
شیئر کیجیے