ابراہیم افسر
’اِحتلام‘ (Wet Dreams) عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی خواب میں ناپاک ہونا، خواب میں جماع کرنا یا بد خوابی کے ہیں۔ بعض لوگ ’احتلام‘ کا لفظ سنتے ہی ناک بھوں سکوڑ لیتے ہیں۔ لیکن لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سنِ بلوغت کو پہنچنے کا یہ ایک فطری (Natural) عمل ہے۔ اسلامی نظریے کے مطابق انسان کی بلوغت کو چانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ احتلام ہی ہے۔ جب انسان کی عمر بارہ پندرہ برس کو پہنچ جاتی ہے تو اس کے اندر پیدا ہونے والے بلوغت کے جراثیم خود بہ خود ٹھاٹھے مارنے لگتے ہیں۔ رات یا دن میں سوتے وقت انسان کو ایسے خواب دکھائی دیتے ہیں جن میں وہ لذت مباشرت جیسی لذت محسوس کر تا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے اندر سے ایک بدبودار رقیق مادہ انزال کی شکل میں باہر نکل جاتا ہے۔ اس مادے کے اخراج کے بعد انسان اپنے اندر بلوغت کی نشانیاں محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے Opposite Sex سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ خوابوں میں ایک خیالی دنیا کی سیر کرتا ہے جہاں اسے جنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان اس عمل سے گزر جاتا ہے تو اسے بالغ تصور کر لیا جاتا ہے۔ اب اس پر وہ تمام قوانین نافذ ہو جاتے ہیں جن کا ایک بالغ انسان کو ماننا فرض ہے۔اسلامی تعلیمات میں اس رقیق مادے کے نام کو اشاروں اور کنایوں میں بتایا گیا ہے۔ حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا لیکن اپنی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے اُس نے جوڑے کو اہمیت دی۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں اس رقیق مادے کو اچھلتے، کودتے اور ناپاک قطرے سے موسوم کیا گیا ہے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ یہ ایک ایسا ناپاک قطرہ ہے جس سے انسان کی پیدایش ہوئی اور اس کے اخراج اور بدن پر لگ جانے سے انسان پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ کلامِ الٰہی کے مطابق انسان کی پیدایش”اُچھلتے ہوئے پانی“ سے ہوئی ہے۔ کلامِ الٰہی کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی وقعت، حیثیت اور پیدایش کا منبع کیا ہے:
”پس انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا، ایک کودتے ہوئے پانی کے قطرے سے، جو پیٹھ اور سینہ کے درمیان سے خارج ہوتا ہے۔“
(قرآن مجید، سورہ طارق، آیت5-7)
اس تمہید کا مقصد وسیم احمد علیمی کے افسانے’پہلا احتلام‘ پر تنقیدی گفتگو کرنا ہے۔موصوف کا شمار نئی نسل کے فعال افسانہ نگار اور مترجمین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات سے قارئین کو چونکایا ہے۔ گذشتہ برسوں میں ان کے متعدد افسانے اور تراجم ملک کے موقر رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ’انجینئر صاحب‘ 2016 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’سرقستان کی شہریت، عجیب ڈھنگ سے کٹی ہوئی اُنگلی، ایک ناکام ترجمہ، مل کل مو، پلاسٹک کی قبر وغیرہ افسانے شائع ہوئے۔ انگریزی میں بھی تین افسانے (1)Behind the Viel of Poverty (2) The S[lap] (3)Lali From indoor to Outdoor شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا افسانہ ’مل کل مو‘ کا ہندی ترجمہ ہندی کے معروف ادبی رسالے ’پرندے‘ میں دسمبر تا مارچ 2025 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر افسانے ’پہلا احتلام‘ کی اشاعت ہندی ادب کی مقبول و معروف ویب سائٹ ’سما لوچن‘ جولائی2025 میں ہوئی ہے۔ اس افسانے کا ہندی ترجمہ شہادت نے کیا ہے۔ اُردو کے کسی بھی رسالے نے اس افسانے کے موضوع کے سبب شائع کرنے سے پرہیز کیا ہے۔
وسیم احمد علیمی نے افسانہ ’پہلا احتلام‘ میں اسلامی تعلیمات کے مراکز و مدارس کی حالتِ زار، وہاں کے نظامِ تعلیم، شاگردوں اور اساتذہ کے تعلقات، کم سِن اور بالغ عمر کے طلبہ کے درمیان نظریاتی تضاد اور سب سے اہم نکتہ بلوغت اور احتلام کو موضوعِ بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانے میں ایک ایسے راوی کو پیش کیا جو ابھی سنِ بلوغت میں داخل نہیں ہوا ہے۔ موصوف نے اس افسانے میں دو مرکزی کردار مبتدا اور مجرور بھی پیش کیے ہیں۔تیسرا کردار راوی کا ہے جو افسانے کے ابتدا تا اختتام تک ہر واقعے سے قارئین کو با خبر کرتا رہتا ہے۔ مبتدا مدرسے کا سب سے ذہین اور ہوشیار طالبِ علم ہے۔ وہ اساتذہ کا نورِ نظر اور مدرسے کا ہیرو ہے۔ اس کی صحبت اختیار کر بہت سے طلبہ مدرسے میں اوّل آنا چاہتے ہیں۔ مبتدا کا دوست اور مشیر خاص مجرور اس کا متضاد ہے۔ وہ کتابوں کے بجائے فحش فلموں اور فلمی ہیروز میں دل چسپی رکھتا ہے۔ مبتدا اور مجرور کا دوستانہ پورے مدرسے میں مشہور ہے۔مجرور امتحان تو پاس کرتا ہے لیکن اوسط درجے سے۔ اس افسانے میں مجرور کا کردار سب سے جان دار ہے۔ وہی راوی کو مطلع اور باخبر کرتا ہے کہ اگر مبتدا کی صحبت اختیار کرنا ہے تو اسے سنِ بلوغت کو عبور کرنا ہوگا۔ مجرور کی شخصیت اور اس کے کردار کو افسانے کے درج ذیل اقتباس سے سمجھا جا سکتا ہے:
”دونوں ایک دوسرے کا نان و نمک کھاتے اور باہم شیر و شکر کی طرح رہتے۔ لیکن کسی کو ان کے درمیان وجہ دوستی سمجھ نہیں آتی کیوں کہ دونوں کی جوڑی کسی اجتماع ضدین کی بہترین مثال تھی۔ ایک زبردست پڑھاکو تو دوسرا پرلے درجے کا چھانٹ۔ ایک صوم و صلاۃ کا پابند تو دوسرا لہو و لعب کا دل دادہ۔ مبتدا کے خالی اوقات کتابوں سے عشق لڑانے میں صرف ہوتے تو مجرور وہیں اس کے پہلو میں بیٹھ کر بلیو فلموں کے مناظر سے اپنی آنکھیں سینکتا۔ وہ اتنا رنگیلا تھا کہ بال ہیرو جیسا کٹواتا، سفید پوشوں کی نگری میں بھی کرتے کے اندر ہی سہی رنگ برنگ کی ٹی شٹیں پہنتا اور متبدا کا رازداں ہونے کے باوجود ہر امتحان ادنی نمبرات سے ہی پاس کرتا۔ جب کوئی اس سے کہتا کہ مبتدا کی صحبت میں رہ کے بھی تمھارا یہ حال ہے تو زہر خند ہنسی ہنستے ہوئے بولتا: ”ہم لوگ وہ والے دوست نہیں ہیں، ساتھ رہتے ہیں صحبت تھوڑی کرتے ہیں۔“
راوی نے مجرور کی دیگر صلاحیتوں کے بارے میں بھی قارئین کو بتایا کہ وہ فقہی نصاب کی کتابوں میں وہ کتابیں پڑھتا جن کا تعلق آدابِ مباشرت اور جنسی تعلقات کے مسائل سے تھا۔ اُس نے سالانہ امتحان میں آئے پانی کے اقسام کے سوال کو اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے رحمِ نسوانی سے خارج ہونے والے پانیوں کی درجہ بندی کے طور پر منطقی انداز میں حل کیا تھا۔ افسانے کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں راوی نے مجرور کی دیگر خوبیوں کا بیان کیا ہے:
”ایسا نہیں ہے کہ مجرور کو کتابوں کے آنچل کی ہواؤں سے بالکل بھی ٹھنڈک نہیں پہنچتی، وہ بھی کتابوں کا عاشق دلگیر تھا مگر صرف ایسی کتابیں جن میں آدابِ مباشرت، قوانین جماع اور فقہ میں حیض و نفاس استحاضہ اور نکاح سے قبل منگیتر کو دیکھنے (باب النظر الی المخطوبہ) کابیان ہو۔ نطفہ، رحمِ مادر، پردۂ بکارت، احتلام، حمل، باندی سے مباشرت، عزل وغیرہ سے متعلق مسائل فقہیہ کے متون تو دور آن جناب کو حواشی تک ازبر ہوجاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جناب شسماہی امتحان میں اپنے فیورٹ مضمون میں فیل ہوگئے۔ ہوا یوں کہ پرچہ میں پانی کے اقسام پر تفصیلی روشنی ڈالنے کو کہا گیا اور قبلہ رحم نسوانی سے خارج ہونے والے پانیوں پر اپنی صلاحیتیں انڈیل کر چلے آئے۔ نتیجہ کے بعد حضرت کے اس کارنامے کا اعلان استاد فقہ حضرت مولانا زنبیل صاحب فوقانوی نے بذات خود درس گاہ میں کیا تھا۔ حضرت مجرور کا یہ قصہ مدرسے میں برسوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا۔“
وسیم احمد علیمی نے جس انداز سے مجرور کا کردار گھڑا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں قارئین کی آرا منفی ہیں۔ کیوں کہ اس نے مدارسِ اسلامیہ کے ماحول میں رہ کر خود کی تربیت نہیں کی بل کہ ایک ایسی دنیا کو اپنا آدرش بنایا جو با شعور طلبہ کے لیے ممنوع ہے۔ ایسے ہی مواقع کے لیے سرفراز بزمی فلاحی کا یہ شعر کتنا موزوں ہے:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
مجرور سے ملاقات کے بعد راوی کو معلوم ہوا کہ مبتدا سے دوستی کے لیے پہلی شرط بالغ ہونا ہے اور بالغ ہونے کے لیے احتلام کا ہونا لازمی ہے۔ یہیں سے راوی کے دل و دماغ میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ بلوغت اور احتلام کیا ہے؟ وہ اپنے دوستوں سے اس ضمن میں باتیں کرتا ہے کہ احتلام کے بعد بالغ کس طرح ہوا جاتا ہے؟ راوی کے دوست اسے بلوغت کے آداب سمجھاتے ہیں اور جسمانی حرکات و سکنات کی مدد سے راوی پر یہ آشکار ہو جاتا ہے کہ وہ جلد احتلام کے بعد بالغوں کی دنیا میں شامل ہو جائے گا۔راوی کو اپنی زیر ناف کے نیچے بھوری بھوری بد رنگ روئیاں نکلتی نظر آئیں جن میں کسیلی راکھ کی مانند بد بدا سا رقیق مادہ لگا نظر آیا۔ راوی کے دوستوں نے اس سے کہا کہ”مبارک ہو! تیرے اندر جوانی کا آتش فشاں پھوٹنے والا ہے۔“روای نے بالغ ہونے کی خوش خبری کو قارئین کے سامنے یوں بیاں کیا:
”موسموں کی آوا جاہی کے ساتھ مجھے یہی انتظار رہنے لگا کہ بس جلدی سے کسی طرح بالغ ہو جاؤں تاکہ مجرور بھائی کی شرط پوری ہو اور مبتدا بھائی سے درس لے سکوں اور ٹاپ کر سکوں۔ عنفوان شباب میں کیا کچھ اتفاقات ہوتے ہیں کون نہیں جانتا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب مجھے پہلی دفعہ احتلام ہوا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے دونوں زانوؤں کے درمیان مکروہ سی چپچپاہٹ اور کھجور کے بیج کی سی بدبو کے ساتھ زندگی نے مجھے ایک جھٹکے میں دیار نوجوانی میں داخل کر لیا تھا۔ وہ موسم گرما تھا۔ ہم طلبہ ریلوے پلیٹ فارم پر سوئے مسافرین کی طرح بڑی تعداد میں اپنے مدرسے کی چھت پر سوتے تھے۔ صبح جماعت کے بڑی عمر کے لڑکوں نے مجھے احتلام سے متعلق سب کچھ تفصیل سے بتادیا تھا۔
بڑے لڑکے کہتے تھے کہ احتلامِ اوّل کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے رخسار کا سبزہ آب حیات سے سینچا گیا ہے اور میرے چہرے کی تابندگی آفتاب کی کرنوں سے عکس لے کر آئی ہے اور میری اُگتی ہوئی بدرنگ داڑھیاں سبزہ خود رو کی طرح ہیں جو نہر کنارے اُگ آتے ہیں۔ میرے قد و قامت کی نمکینیت کی وجہ سے وہ مجھے ملیح کہنے لگے تھے۔ کھانا تقسیم کے وقت قطار میں کھڑے ہوتے ہوئے، بیت الخلا کی لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے وقت، عصر کے بعد کھیتوں کی طرف سیر و تفریح کے دوران، نماز سے پہلے وضو کرتے وقت یہاں تک کہ درس گاہ چھوڑ کر ہر وہ جگہ جہاں ہم گپیں لڑا سکتے تھے وہاں بڑے لڑکے مجھے عنفوان شباب کی باریکیاں سمجھاتے تھے جن میں ان کی سب سے پہلی دفعہ کی مشت زنی، پہلے پہل کا احتلام اور بار اول موئے زیر ناف تراشنے کے احساسات شامل ہوتے۔ان ناہنجاروں کی بالغانہ باتیں سن کر میرے من میں مشت زنی کے جراثیم سگبگانے لگ جاتے اور میں………“
بالغ ہونے کے بعد روای کو پختہ یقین ہو گیا کہ اب وہ مبتدا سے قیلولہ کے دوران سبق لے لیا کرے گا۔وہ بھی اپنی جماعت میں اوّل پوزیشن سے پاس ہوا کرے گا۔ عید الضحیٰ کی تعطیلات سے ذرا قبل مدرسے کی بزم آرائیوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ ان محفلوں میں مبتدا اور دیگر اساتذہ طلبہ کی تقاریر اور تحاریر پر اپنا مطمحِ نظر واضح کرتے۔ اسی بزم میں مبتدا نے اساتذہ کے سامنے مدرسے میں غیر انصافی، بد انتظامی، بیت الخلا کی گندگی، صاف صفائی کی بے قاعدگی، تعلیمی معیار کی پستی، لائبریری میں کتابوں کے فقدان اور دیگر مسائل پر خوب کھری کھوٹی سنائی۔ ان باتوں کو کسی شرارتی طلبہ نے مدرسے کے پرنسپل آفس کی دیوار پر لکھ کر چسپاں کر دیا۔ صبح ہوتے ہی مبتدا کو اساتذہ اور پرنسپل کے سامنے پیش کر تمام طلبہ کے سامنے ذلیل و خوار کیا گیا۔ مبتدا اس ذلت کو برداشت نہ کر سکا اور عید الاضحیٰ کی تعطیل میں گھر جانے کے بعد وہ مدرسے میں واپس نہیں آیا۔افسانے کے اختتام پر وسیم احمد علیمی نے شیخ سعدی کے درج ذیل فارسی شعر کو مع اُردو ترجمہ درج کیا:
بدوستے کہ حرام است بعد ازو صحبت
کہ ہیچ نطفہ چنو آدمی نہ خواہد بود
(قسم ہے اس دوست کی کہ اس کے بعد سب کی صحبت حرام ہے کیوں کہ اب کوئی بھی نطفہ اس قسم کا آدمی نہیں پید اکر سکے گا)
وسیم احمد علیمی نے افسانے کی ابتدا میں ایک نوٹ لکھا ہے جس میں انھوں نے مدرسے کے فارغین کو اس قصے کو نہیں پڑھنے کی تاکید سے روبرو کرایا ہے۔ (اور جب کھلی تاکید آچکی کہ فارغینِ مدارس نہیں پڑھیں گے اس قصے کو۔ پس جو ایسا کر گزرے وہ سخت نقصان اٹھانے والا ہوگا۔اور بے شک جانتے ہیں عقل والے کہ بے نیاز ہوجاتے ہیں لکھنے والے سب اپنی اگلی پچھلی تحریروں سے۔) اس سے پہلے انھوں نے قرآنِ کریم کی سورہ طارق کا مفہوم ”پس انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا، ایک کودتے ہوئے پانی کے قطرے سے، جو پیٹھ اور سینہ کے درمیان سے خارج ہوتا ہے۔“ کو تحریر کیا ہے۔
وسیم احمد علیمی کے اس افسانے کی بُنت میں مرکزی کردار ’احتلام‘ اور ’سنِ بلوغت‘ ہے۔ انھوں نے تجسس اور ذہنی نفسیات کے میلان سے اس افسانے میں کشش پیدا کی ہے۔ حالاں کہ راوی کی عمر تیرہ یا چودہ سال کی ہے لیکن اس کے ذہنی خلیوں (Cells of Mind)میں ہر وقت یہ نشہ طاری رہتا ہے کہ وہ جلد از جلد بالغ کیسے ہو۔ راوی نے اپنی جسمانی ساخت و پرداخت کا معائنہ اپنے سینئر ساتھی سے کرایا۔ یہاں پر وسیم احمد علیمی نے اپنے زورِ قلم کا مظاہرہ کیا اور عضوِ خاص کا ذکر اس انداز میں کیا کہ قارئین کا اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا مشکل ہے۔ راوی کی نفسیاتی کیفیت کا عالم یہ ہے کہ وہ جب احتلام کے عمل سے رو برو ہوتا ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ وہ جلد از جلد مجرور کو بتانا چاہتا ہے کہ اب وہ بالغ ہے اور مبتدا سے درس حاصل کرنے کے امتحان میں وہ پاس ہو گیا ہے۔
راوی کی ذہنی کش مکش، نفسیاتی کیفیت اور مدارس کے طلبہ کے اندر جنسی طلاطم کو وسیم احمد علیمی نے عملی مشاہدے کے طور پر پیش کیا ہے۔ مدارس میں جہاں ایک جانب اخلاقی قدروں اور درسِ نظامی کا درس دیا جاتا ہے وہیں ایسے بھی شریر طالب علم ہوتے ہیں جو جنسی کجروی یا بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں۔ رات کے وقت وہ تعلیم کے دورے کے بجائے فحش فلموں کا دورہ کرتے ہیں۔جنسی آسودگی کے لیے فحش باتوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ممکن ہے لوگوں کو مذکورہ باتوں پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنسی آسودگی سے متعلق تمام باتیں مدارس کے کردار کو مجروح کرتی ہیں۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ درس گاہوں میں بے جاسختی اصول، قوانین اور ضوابط سے بھی طلبہ کے اندر جنسی کجروی اور نفسیاتی جد و جہد پیدا ہوتی ہے۔ طلبہ کو اگر ابتدا سے ہی سے آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے کی آزادی ملتی ہے تو اس کے اندر ذمہ داری کا احساس اُبھرتا ہے۔ طلبہ کی ذہنی کیفیت کو مجروح کرنے میں جنس زدہ باتوں کا بڑا دخل ہے۔ راقم کی نظر میں اُردو ادب میں جنسیات پر مبنی افسانوں کی اشاعت کراہیت کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ادب میں ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو جنسی تحریروں کو عام کرنا چاہتا ہے۔حالاں کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اُردو شاعری میں جنسی جذبے سے لبریز اشعار اور کلیات موجود ہیں۔ کلامِ جعفر زٹلی، کلامِ چرکین اور انتخابِ ریختی کو جنسی کجروی اور ذہنی و جسمانی نفسیات کی رو میں پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حالاں کہ ایک زمانے تک مذکورہ شعری مجموعوں کو پڑھنا تو دور کی بات ان کی بات کرنا بھی غیر اخلاقی تھا۔بعض ناقدین نے انھیں کلاسیکی شاعری کا درجہ دے کر اپنا فرض پورا کیا۔ بعد میں کلامِ جعفر زٹلی (مرتب: رشید حسن خاں)، کلامِ چرکین (مرتب: شمس الرحمن فاروقی) اور انتخابِ ریختی (مرتب: فاروق ارگلی) کی تدوین کی گئی اور اسے اُردو کا شاہ کار اثاثہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح شاکر ناجی، مومن خاں مون، میر تقی میر، مرزا شوق، شاہ مبارک آبرو، انشاء اللہ خاں انشا، سعادت خاں رنگین، مرزا مظہر جانِ جاناں، جرأت، سید محمد خاں رند، شائق، امانت وغیرہ نے اپنے کلام میں جنسی آسودگی کو پیش کیا جو اب کلاسیکی ادب کے زمرے میں شامل ہے۔ اس موقعے پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے اور اندازہ کیجیے کہ جنھیں ہم اُردو کے کلاسیک شعرا کا درجہ دیتے ہیں انھوں نے اپنے اشعار میں جنسی جذبات کی ترجمانی کس انداز میں کی ہے:
لب سے لب مرے ملائے رکھنا
بازو سے وہ سر اٹھائے رکھنا
وہ سینے پہ لیٹ کے ستانا
مطلب کہ سخن پہ روٹھ جانا
(مومن خاں مومن)
سینے پہ دونوں چھاتیاں انمول
اونچی چکنی کڑی کراری گول
آستینوں میں وہ پھنسی کُرتی
جسم میں وہ شباب کی پھرتی
آڑی ہیکل گلے میں ڈالے ہوئے
پیاری پیاری کچیں نکالے ہوئے
(مرزا شوق لکھنوی)
بوسہ لیا ہے یار کی انگیا کے پان کا
کھایا ہے پان آج نئے خاص دان کا
(سحر)
اُردو شاعری میں جنس و عریانیت، شہوت و تلذذ کی باتوں کو ایک مخصوص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اُردو ناقدین و محققین نے جنسیت و عریانیت زدہ کلام پر خاطر خواہ کام کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے میر کی شاعری میں جنسیات کے پہلوؤں کی نشان دہی ”شعر شور انگیز“ میں کی۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنے مضامین میں بھی جنسیات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’چوں خمیر آمد بدست نابنا‘ میں اُردو شاعری میں موجود جنسی مواد و شہوت کو ابھارنے والے اشعار پر تنقیدی گفتگو کی ہے۔ وہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
”جنسی مضامین سے میری مراد دو طرح کے مضامین ہیں۔ ایک تو وہ جن میں معشوق کے بدن یا بدن کے کسی حصے یا لباس وغیرہ کا تذکرہ انسانی سطح پر اور لطف اندوزی کے انداز میں ہو، یعنی اس طرح ہو کہ یہ بات صاف معلوم ہو کہ کسی انسان کی بات ہو رہی ہو، کسی مثالی تصوراتی اور تجریدی ہستی کی نہیں۔ دوسری طرح کے مضامین وہ ہیں جن میں جنسی وصل کے معاملات کا ذکر ہو۔ اس صورت میں یہ مضامین معاملہ بندی کی ضمن میں آتے ہیں۔ ممکن ہے میر نے انھیں ہی ”ادا بندی“ کہا ہو۔ ظاہر ہے کہ بعض اوقات دونوں طرح کے مضامین ایک ہی شعر میں آ جاتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ جنسی مضامین اور معنی آفرینی، کیفیت اور مضمون آفرینی میں کوئی تضاد نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر معنی آفرینی یا مضمون آفرینی پر اس قدر زور دیا جائے کہ مضمون کی جنسیت پس پشت رہ جائے تو اس حد تک وہ شعر ناکام یا نا مکمل کہلائے گا۔ یعنی اگر ہم معشوق کے حسن سے زیادہ شاعر کی تیز طبعی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور ہوں تو ایسا شعر اچھا تو کہلائے گا لیکن اسے جنسی مضمون کے اعتبار سے ناکام کہا جائے گا۔“
(رسالہ اثبات، شمارہ:12-13، اپریل تا ستمبر، 2012، ص 69)
وسیم احمد علیمی نے ایک ایسے حساس موضوع پر کہانی کو لکھا جس کا نام لینا مہذب معاشرے میں گناہ ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ہر انسان نبرد آزما ہوتا ہے۔ حالاں کہ وسیم احمد علیمی سے قبل بھی اس نوعیت کے افسانے لکھے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں اشاروں اور کنایوں میں بات کی گئی ہے۔ سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کے بعد اُردو افسانہ نگاروں میں چودھری محمد ردولوی، محمد حمید شاہد، افتخار نسیم، تیجندر شرما، شاہد اختر، ممتاز حسین، ماہر القادری، ہاجرہ مسرور، اوپندر ناتھ اشک، محمد مستمر، توصیف بریلوی وغیرہ نے جنسی و نفسیاتی پہلوؤں پر افسانے تحریر کیے۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کیا جنسیات کو موضوع بناکر افسانے تخلیق کرنا ضروری ہے؟ اس کا جواب بعض لوگ نفی یا اثبات میں دے سکتے ہیں۔ لیکن جب 1932میں ”انگارے“ کی اشاعت ہوئی تو اس پر ہندستان میں ایک طویل بحث اخبارات و رسائل میں چھڑی کہ آیا انگارے میں شامل افسانے ہمارے معاشرے میں پڑھے جانے کے قابل ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد انگارے کی اشاعت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ حالاں کہ سجاد ظہیر اور ان کے رفقا کی کاوشوں سے ادب میں ایک نئے رجحان ’ترقی پسند تحریک‘ کی ابتدا ہوئی۔ اس تحریک سے متاثر افسانہ نگاروں نے ان موضوعات کو قارئین کے سامنے پیش کیا جن پر باتیں کم ہوتی تھیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ ادب تخلیق کرنے والے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ سید ابوالاعلا مودودی نے اپنی تحریروں سے اس تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں پر سخت چوٹ کی۔ ان کی نظر میں ترقی پسند تحریک دماغوں کو خراب کرنے والا ادب تھا۔ اس بارے میں وہ رقم طراز ہیں:
”سب سے پہلے (ترقی پسندوں کے) لٹریچر کو لیجیے جو دماغوں کو تیار کرنے والی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس نام نہاد ادب، در اصل بے ادبی میں پوری کوشش اس امر کی کی جا رہی ہے کہ نئی نسلوں کے سامنے اس نئے اخلاقی فیصلے کو مزے دار بنا کر پیش کیا جائے اور پرانی اخلاقی قدروں کو دل و دماغ کے ایک ایک ریشے سے کھینچ کر نکال ڈالاجائے۔“
(رسالہ اثبات، شمارہ: 12-13، اپریل تا ستمبر، 2012، ص: 245)
سعادت حسن منٹو کے افسانوں ’کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، بو، یزید اور عصمت چغتائی کے افسانے’لحاف‘ کی اشاعت کے بعد بھی جنسی بے راہ روی و عریانیت کی کھلم کھلا پیش کش کے عوض ان پر پابندی کے علاوہ مقدمات قائم کیے گئے۔ترقی پسند نظریات کے حامیان نے جنس زدہ اور فحش و عریانیت پر مبنی ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن ترقی پسند تحریک کی حیدرآباد کانفرنس میں ادب میں فحاشیت و جنسیات کے خلاف با قاعدہ قرار داد پاس کی گئیں۔ تعمیرِ ادب کے حامیوں نے جنس زدہ ادب کو ادب ماننے سے انکار کیا۔ ان کی نظر میں ایسا ادب معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دیتا ہے۔ وہ معاشرے میں صالح اقدار، روشن خیالی کے مبلغ ہیں۔ سید احتشام حسین نے اپنے مضمون ’ادب میں جنسی جذبہ‘ میں ادب اور جنسیات بالخصوص ہندستان کے سماجی و طبقاتی پس منظر میں، کی افادیت اور ضرورت پر بحث کی ہے۔ ان کی نظر میں جنس انسان کی زندگی کا ایک پہلو ہے۔ اس کے بغیر انسان کی زندگی روکھی سوکھی اور بے معنی ہے۔ جس طرح بھوک کے لیے روٹی کا بند و بست ہونا چاہیے ویسے ہی جنسی آسودگی کے لیے بھی انتظام کیا جائے۔ حالاں کہ انھوں نے طبقاتی نظام کو اس کی راہ میں سب سے بڑا روڑا قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
”ہندوستانی ادب میں جنسی تصورات پر مذہب، اخلاق، رسم و رواج، جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ سماج کے ملے جلے اثرات نظر آتے ہیں اور نئی تعلیم کے ذریعے سے محبت کی جو تھوڑی بہت آزادی حاصل ہوئی تھی وہ زیادہ سے زیادہ رومانی نظموں اور کہانیوں میں جلوہ گر ہوسکی۔ یہاں عورت سے رفاقت کی تمنا ہے لیکن یہ تمنا زیادہ تر مایوسی اور ترک محبت کی خواہش پر ختم ہوتی ہے۔ کیوں کہ سماج نے محبت کی آزادی آج بھی ہندوستان کو نہیں بخشی ہے. جنس ہر دور کی طرح ادب میں جاری و ساری ہے لیکن کہیں اس کا تذکرہ محض متوسط طبقہ کی بھوک اور مسرت اندوزی کا مظہر ہے اور کہیں ایسے نظام کی بربادی کا خواہش مند جو سچی آزاد محبت کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ رکاوٹ کبھی قدیم نظام اخلاق کی وجہ سے ہوتی ہے، کبھی اقتصادی اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے۔ اس لیے اُردو ادب میں محبت کی مجبوریوں کا ذکر بہت ملتا ہے اور لکھنے والے محض رومان پرست نہیں ہیں۔ وہ اس مجبوری کا سماجی پس منظر بھی پیش کرتے ہیں۔ گذشتہ بیس سال کا ادب جنسی اُلجھن کے لحاظ سے ہر سطح کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ اُردو کے کئی لکھنے والے فرائڈ کے تجزیۂ نفس کے قائل رہے ہیں۔ انھوں نے اوڈی پس کمپلیکس، جنسی کجروی، لا شعوری حرکات، ہم جنسی میلان اور دوسرے مظاہر کی ترجمانی کی ہے اور خیالوں کی ساری بنیاد جنسی جذبے پر رکھ دی ہے. ان لوگوں کے لیے انسان کی ہر حرکت لا شعوری طور پر جنس کے اندھے جذبے کی مظہر ہے اور انسان اس جذبے کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے۔ یہاں تک کہ تہذیبی اور سماجی پابندیاں جب اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں تو وہ اس جذبے کو دبانے کی کوشش میں طرح طرح کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لکھنے والے جنسی تعلقات کے سماجی پس منظر سے ناواقف ہوتے ہیں۔“
(ذوق ادب اور شعور، سید احتشام حسین، بار دوم 1963، سرفراز قومی پریس لکھنؤ، ص 77-78)
بہر حال! وسیم احمد علیمی نے جس مقصد کے تحت اپنا افسانہ ”پہلا احتلام“ تحریر کیا وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے مدارس کے طلبہ کی ذہنی بے قراری اور جنسی و نفسیاتی جد جہد کی جزئیات کو سلیقے کے ساتھ پیش کیا ہے۔انھوں نے احتلام کی باریکیوں اور اس کے سود و زیاں پر بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں باتیں رقم کی ہیں۔ انھوں نے طبی، تعلیمی اور اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اس پر تعمیری بحث کی ہے۔ بعض لوگوں کو وسیم احمد علیمی کے افسانے کے عنوان سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن انھوں نے Wet Dreams کو جنسی تشخص(Sexual Identity) قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے افسانے کو Pornography کی دہلیز سے کوسوں دور رکھا ہے۔ حالاں کہ افسانے کے درمیان میں طلبہ کی باہمی گفتگو اور مجرور کے کردار نے بعض جگہ ایسی حالت پیدا کی کہ اب افسانہ Wet Dreams سے آگے عریانیت کی راہ پر گامزن ہے۔ لیکن وسیم احمد علیمی نے اپنے افسانے میں مدارس کے ماحول اور فضا میں جو ایک طرح کی نفسیاتی قید و جمود کی کیفیت موجود رہتی ہے کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ ممکن ہے میری بات سے اتفاق نہ کیا جائے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپ جتنی پابندیاں کسی طالب علم پر لگائیں گے وہ انھیں اپنے زور دار مکے سے توڑنے کی کوشش کرے گا۔ زیر نظر افسانے میں طلبہ کی فکر و نظر پر بھی معقول باتیں کی گئی ہیں۔ افسانے کے اختتام پر مدارس کے طلبہ کا یونین کی شکل اختیار کر لینا ایک انقلابی فکر کی دلیل ہے۔
وسیم احمد علیمی نے اساتذہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خود مدرسہ کے پرنسپل اور اساتذہ میں اس بات کا اختلاف تھا کہ مبتدا کو کتنی سزا دی جائے۔ یہاں پر جمہوریت پر آمریت کے غلبے کو پیش کیا گیا ہے۔مبتدا کا مدرسے میں واپس نہ آنا ایک ہونہار طالب علم کا تعلیم سے دور ہو جانا ہے۔ اگر اساتذہ کے رویے سے طلبہ کا رشتہ تعلیم سے منقطع ہوتا ہے تو یہ انتظامی امور پر بیٹھے لوگوں کی ناکامی کا مسلم ثبوت ہے۔ اس اعتبار سے بہت سی وہ باتیں اس افسانے میں کہی گئی ہیں جن کی جانب ہماری توجہ مبذول نہیں ہے۔ اس کے باوجود دورِ حاضر میں وسیم احمد علیمی کا یہ افسانہ ہمیں کافی کچھ غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ ہندی ادب میں اس افسانے پر ناقدین نے مثبت تنقید کا سلسلہ شروع ہو کیا ہوا ہے۔ ان کی نظر میں یہ افسانہ حقیقی واقعات پر مبنی افسانہ ہے۔ اس افسانے میں جنسی نفسیات پر جیسی باتیں کہی گئی ہیں ویسی باتیں کہنے کے لیے افسانہ نگار کا مذہب، معاشرے اور نئی نسل کی ذہنی کش مکش سے رو برو ہونا لازمی ہے۔ وسیم احمد علیمی (کٹیہار، بہار) خود مدرسہ کے طالب علم رہے ہیں اس لیے انھوں نے اس ماحول کو اپنی طالب علمی کے زمانے میں دیکھا اور بھوگا ہے۔ حالاں کہ انھوں نے اپنی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی جیسے معیاری ادارے سے حاصل کی ہے۔ اس لحاظ سے انھیں مدارس اور جامعات کے ماحول سے گہری واقفیت ہے۔ ’پہلا احتلام‘ افسانے میں انھوں نے نئی نسل کو ایک مثبت پیغام دیا ہے کہ بری صحبت اور جنسی آسودگی کے لیے غلط طریقوں سے خود کو بچایئے اور اپنی توجہ صرف اور صرف تعلیم پر مرکوز کیجیے۔ حالاں کہ احتلام ایک فطری عمل ہے جس سے ہر نوجوان اپنی زندگی میں روشناس ہوتا ہے۔میڈیکل سائنس کے نظریے سے بھی جسم کی توانائی کے لیے اس کا انخلا لازمی ہے۔ امید قوی ہے کہ وسیم احمد علیمی کا یہ افسانہ مدارس اسلامیہ کے ظاہری و باطنی مسائل اور جنسی کجروی کے تناظر میں پڑھا جائے گا اور اس پر اُردو ادب میں مثبت اور تعمیری مباحث کا سلسلہ شروع ہوگا.
***
Ibraheem Afsar
Ward No-1, Siwal Khas
Distt Meerut(U.P) 250501
M-9897012528
E-Mail:ibraheem.siwal@gmail.com
***
ابراہیم افسر کی گذشتہ نگارش :خودکلامی اور یادِ ماضی کا آئینہ ”آہٹ پانچویں موسم کی“

افسانہ ’پہلا احتلام‘ کا تنقیدی جائزہ
شیئر کیجیے