اک مردِ قلندر ہمہ اوصاف یگانہ

اک مردِ قلندر ہمہ اوصاف یگانہ

محمد ذاکر حسین ندوی

عظیم آباد میں چھتیس برس کے قیام کے دوران متعدد علمی و ادبی شخصیتوں سے شناسائی کا شرف حاصل ہوا۔ اِن میں جن شخصیات سے سب سے زیادہ متأثر ہوا، اُن میں صفدر امام قادری کی ذاتِ گرامی سرِ فہرست ہے۔ 1986 سے ہی میرے کان اس نام سے آشنا تھے، لیکن 1993 کا کوئی مہینہ، کوئی دن تھا، جب روبرو اُن سے میری پہلی شناسائی ہوئی اور یہ شناسائی کب طویل رفاقت میں تبدیل ہوگئی، پتا ہی نہیں چلا۔ پہلی ہی نظر میں وہ ہمیں ایک ادبی قلندر معلوم ہوئے جن کا علمی و ادبی کشکول جواہر پارے سے بھرا ہوا تھا۔ دبستانِ عظیم آباد میں اردو زبان و ادب کے تعلق سے اُس وقت اِن سے زیادہ کوئی بھی شخصیت مجھے موزوں نظر نہیں آئی۔ دبستانِ عظیم آباد جو کبھی بیدل عظیم آبادی کے زورِ بیان اور پاکیزگیِ خیال سے، کبھی رام نرائن موزوں کی صفائیِ بیان سے، کبھی راسخ عظیم آبادی کے سوز و گداز اور تصوف سے، کبھی شاد عظیم آبادی کی قادر الکلامی اور نغمہ سنجی سے، کبھی امداد امام اثر کی تحقیقی و تنقیدی کاوشات سے، کبھی فضل حق آزاد کی نظم نگاری سے، کبھی قاضی عبد الودود کی مثالی تحقیق سے، کبھی کلیم الدین احمد کی لاجواب تنقید سے، کبھی عطا کاکوی کی غلطیہاے مضامین سے، کبھی جمیل مظہری کے نئے تیور سے، کبھی رضا نقوی واہی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری سے، کبھی عبد المغنی اور وہاب اشرفی کی علمی نگارشات سے منوّر تھا اور جن کے وجود سے علمی و ادبی مجلس شاداب رہا کرتی تھی، اب اس میں خلا نظر آنے لگا تھا۔ بات اُن دنوں کی ہے جب قاضی عبد الودود پر بہار اردو اکادمی میں سے می نار ہو رہا تھا اور جس میں ہندستان کے جلیل القدر ادبا، محققین اور ناقدین اپنی موجودگی سے چار چاند لگا رہے تھے، اُسی محفل میں ایک ابھرتا ہوا نوجوان جسے قاضی عبد الودود سے والہانہ عقیدت تھی، بطور سامع موجود تھا اور دل چسپ حقیقت یہ کہ قاضی صاحب کے تعلق سے جو مواد دستیاب تھے، اس کا بھرپور مطالعہ کیے ہوا تھا۔ جب مسعود حسین خاں نے قاضی صاحب کے اسلوبِ بیان کے تعلق سے اپنے مقالے میں اعتراضات کیے تو اُس نوجوان کی رگِ تنقید پھڑک اٹھی اور برملا اسلوب کے تعلق سے چند ایسے اقتباسات پیش کیے جن کا جواب ماہر لسانیات مسعود حسین خاں سے نہیں بن پڑا۔ وہاب اشرفی صاحب نظامت فرمارہے تھے، انھوں نے جب دوبارہ مسعود حسین خاں صاحب کو جواب کے لیے مدعو کیا تو صدارت فرما رہے عطاکاکوی صاحب نے فرمایا کہ دوسرے مقالہ نگار کو بُلایا جائے، اگر ان کے پاس جواب ہوتا تب نہ اپنی جگہ سے اٹھتے۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں عصرِ حاضر کے ممتاز محقق و ناقد صفدر امام قادری تھے۔
اسی تعلق سے ایک سے می نار کا ذکر ناگزیر ہے۔ 1986ء میں خدا بخش لائبریری میں اردو میں دانشوری کے موضوع پر ایک سے می نار منعقد کیا گیا۔ ہندستان کے ماہرینِ علم و ادب کی شرکت نے اسے ایک وقار بخشا۔ دوران بحث و مباحثہ ظ انصاری پر گفتگو ہونے لگی۔ ان کی تصانیف کے تعلق سے مختلف خیالات پیش کیے گئے، کسی نے ان کی دو درجن کتابوں کا ذکر کیا تو عبد اللطیف اعظمی نے صراحتاً اس کا انکار کیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے جو اس وقت خدا بخش لائبریری کے ڈائرکٹر تھے، اعظمی صاحب کی تائید کی۔ یہاں پر صفدر امام قادری نے یہ دعوا کر کہ ظ۔انصاری کی پچاس تصانیف ہیں، سب کو چونکا دیا لیکن سارے ماہرین یہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ صفدر صاحب نے عرض کیا کہ یہ سے می نار کل بھی چلے گا، کل مَیں پوری فہرست پیش کروں گا۔ اگلے روز انھوں نے ظ۔انصاری کی چھیالیس کتابوں کی فہرست، جن میں لگ بھگ پچیس کتابیں خدا بخش لائبریری میں موجود تھیں، ماہرین کے سامنے پیش کی۔ سب اُن کی دیدہ وری اور علمی لیاقت سے کافی متأثر ہوئے۔ ان دو سے می ناروں سے علمی و ادبی دنیا میں ان کی شہرت عام ہونے لگی۔
صفدر صاحب جو اب تک ایک سامع کی حیثیت سے سے می نار میں شرکت فرمایا کرتے تھے، اردو میں دانشوری اور قاضی عبد الودود سے می نار میں اُن کے علمی تفوق سے متأثر ہوکر 1990 کے کلیم الدین احمد سے می نار میں بہار اردو اکادمی نے انھیں بطور مقالہ نگار مدعو کیا۔ اُن کے مقالے کا عنوان تھا: کلیم الدین احمد کی تنقیدات کے سلسلے میں عبد المغنی کی آرا۔ اس سے می نار کے صدارتی پینل میں خود عبد المغنی صاحب کا نام تھا اور پہلے سے ان کو اس سلسلے میں مطلع کردیا گیا تھا، لیکن وہ صفدر صاحب کے مقالے کے بعد سے می نار میں تشریف لائے۔ اگر وہ بر وقت تشریف فرما ہوتے تو صفدر صاحب کے پیش کردہ اعتراضات کا جواب دے سکتے تھے، لیکن انھوں نے دانستہ طور پر شرکت سے گریز کیا۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ صفدر کے اعتراضات کے جواب ان کے پاس نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو مقالے کی اشاعت کے بعد ضرور اس پر اظہار خیال کرتے، کیونکہ صفدر صاحب نے اپنے مقالے میں عبد المغنی صاحب پر سخت تنقید کی تھی۔
اسلاف نے جس خلوص نیتی اور نیک ارادے سے دبستان عظیم آباد کی جڑوں کی آبیاری کی تھی اور جس حسنِ سلیقگی سے اس کی پتّیوں پر چھڑکاو کیا تھا اور جس علمی لیاقت اور ادبی مہارت سے علمی و ادبی مجلسوں کو آباد رکھا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اُس پر زوال کے اثرات دکھائی دینے لگے تھے۔ قاضی عبد الودود اور کلیم الدین احمد کی ذاتِ گرامی سے دبستان عظیم آباد کا جو وقار بحال ہوا تھا، اُس وراثت کو سنبھالنا، بڑے دل گردے کی بات تھی، ویسے تو بہت سارے دعویدار مل جائیں گے، لیکن حقیقت میں اس وراثت کو سنبھالنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ صفدر امام قادری نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ تحقیق و تنقید میں ان دونوں حضرات کا مکمل تتبع کیا جائے، میری نظر میں اُن کی یہ کوشش کامیاب نظر آتی ہے، جس کے شواہد ہمیں اُن کی تحقیقی و تنقیدی نگارشات میں مل جاتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ صالح ادب کی پذیرائی کی ہے اور جب بھی کوئی تحریر اُن کی نظر سے ایسی گزری جو ادبی معیار پر کھری نہیں اترتی ہے تو اس کا انھوں نے برملا اظہار کیا اور اس معاملے میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ صلاح الدین پرویز کے ناول آئیڈنٹٹی کارڈ کو جب ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا تو اس ایوارڈ کے جواز کے تعلق سے انھوں نے ایک بصیرت افروز تحریر رقم کی اور ثابت کیا کہ اس ناول سے زیادہ اچھی تخلیق موجود تھی، لیکن اس کو نظر انداز کر اس دوم درجہ کی تخلیق کو ایوارڈ کے لائق سمجھا گیا جو کسی اعتبار سے صالح ادب کی پاس داری نہیں ہے۔ اسی طرح وہاب اشرفی کی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ کتاب کے نقائص اور اُن کی جدید ادبی بدعت پر اظہار خیال کرنے سے ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے۔
شمس الرحمان فاروقی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی، ناوک حمزہ پوری، گوپی چند نارنگ، وارث علوی، سلیم شہزاد اور دیگر ناقدین و محققین کے تعلق سے بھی صفدر صاحب کا وہی انداز نظر آتا ہے جو ان کا خاصّہ ہے یعنی صالح ادب کی پذیرائی اور غیر صالح ادب کی نشان دہی۔ گویا خذ ما صفا و دع ما کدر (اچھی اور صالح چیزوں کو پکڑے رہو اور بُری اور خراب چیزوں کو ترک کرتے رہو) کا کلّیہ اُن کی شخصیت میں مکمل طور سے رچ بس گیا ہے اور یہ چیز اُن کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے، جس کا مظاہرہ اُن کی تحریروں میں ہمیشہ نظر آتا ہے۔
انسانی زندگی تعلیم کے بغیر بھی کٹ سکتی ہے لیکن وہ زندگی سوچنے، سمجھنے اور تحقیق و جستجو کے مزاج سے عاری ہوگی اور علم بغیر تدریس کے وہ منزل نہیں پا سکتا، جس کا حصول ہر ایک کا ہدف ہوتا ہے اور تدریس بغیر تحقیق و جستجو کے وہ مقام حاصل نہیں کر سکتی، جہاں تک رسائی ہر ایک کے لیے ممکن نہیں۔ اس نظریے سے اگر بہار کی یونی ورسٹیوں میں اردو زبان و ادب کی تدریس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اختر اورینوی نے اپنے زمانے میں اردو درس و تدریس کا عمدہ نظام قائم کیا تھا، جس کے تحت متون پر خاص دھیان دیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد بڑے لائق و فائق ہوئے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اُن کے بعد اس تدریسی نظام کو برقرار نہیں رکھا جاسکا، پھر رفتہ رفتہ تدریسی نظام میں زوال آنا شروع ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ متون کو پڑھانے کے بجاے نوٹس ؍ گیس پیپر؍ پاسپورٹ پر زیادہ دھیان دیا جانے لگا۔ بہار میں اردو تدریس کی اس صورتِ حال سے صفدر صاحب بخوبی واقف تھے، یہاں بھی انھوں نے پہل کی اور اردو زبان و ادب کے متون کو بنیاد بناکر تدریسی نظام کو درست کرنے کی کوشش کی اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے یہ بتانا شروع کیا کہ متون کو پڑھایا کیسے جائے۔ وہ اپنے مضمون ’پریم چند کا مطالعہ کیسے کریں‘ میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے طریقۂ تدریس کا ایک آزمایا ہوا نسخہ یہ ہے کہ کسی موضوع یا شخصیت کے مطالعے کی ابتدا اس کے پس منظر سے کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں ادبی، سماجی اور سیاسی اجزا لازماً شامل ہوتے ہیں۔ پریم چند کا پس منظر کیسا ہوگا؟ اسے کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اکثر ماہرین سماجی اور سیاسی پس منظر کے تعلق سے بہ تفصیل گفتگو کرتے ہیں۔ جاگیردارانہ سماج، انگریزی سامراجیت، ہندستان کی قومی تحریک، کسانوں کے آندولن، مشترکہ معاشرت، چھوا چھوت، تعلیم کی کمی اور عورتوں کا الگ تھلگ ہونا جیسے اہم سوالات ہیں جنھیں پریم چند کے طالبِ علم کو سب سے پہلے ذہن نشیں کر لینا چاہئے (ذوق مطالعہ، ص۶۰)‘‘۔
اعلا تعلیم کے لیے اُس وقت تک اردو ٹیوشن یا کوچنگ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ خود صفدر صاحب اس کو معیوب سمجھتے تھے، لیکن جب حالات سے نبردآزمائی ہوئی اور اپنے علم کو بچائے رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا تو انھوں نے اس میدان میں قدم رکھا اور اپنی صلاحیت اور دانش مندی سے اس کو ایک ادارہ جاتی شکل عطا کی اور یہی ٹیوشن مشکل گھڑی میں اُن کا تعلیمی مصرف بن گیا۔ جب تک یونی ورسٹی کی تقرری میں نِٹ کی لازمیت نہیں تھی، اُس وقت تک یو. پی. ایس. سی اور بی. پی. ایس. سی کے طالب علموں کو اردو کا ٹیوشن دیا کرتے تھے اور جب نِٹ لازم قرار پایا تو پھر اس کا بھی ٹیوشن پڑھانے لگے۔ اس سے اردو کے طالب علموں کو بڑا سہارا ملا اور وہ مقابلہ جاتی امتحانات میں اردو کو بطورِ مضمون اپنانے لگے اور انھیں کامیابی بھی ملتی رہی۔ اردو کے تعلق سے صفدر صاحب کا یہ اقدام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کہ جس کے ٹیوشن یا کوچنگ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا، اس کو احسن طریقے سے انجام دے کر ایک اچھی مثال قائم کی۔ اس میدان میں اوّلیت کا سہرا انھی کے سر جاتا ہے۔
علم و ادب صفدر صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے، جب بھی اُن کے دولت کدے پر جانے کا اتفاق ہوا، ہمیشہ طالب علموں کی ایک جماعت موجود ہوتی اور پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے کی ہی باتیں سُننے میں آتیں۔ طالب علموں کو وہ بڑی شفقت اور بڑے اخلاص سے درس دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ طلبہ اُن کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ طالب علموں کو صرف درس ہی نہیں دیتے بلکہ کیریر کے تعلق سے مفید مشورے بھی دیتے ہیں اور اُس راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالب علموں کو چاق و چوبند، چست درست اور حاضر دماغ رکھنے کی غرض سے عملی زندگی سے بھی واقف کراتے رہتے ہیں تاکہ عملی زندگی میں اُن کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ نہ آنے پائے۔ قدیم زمانے کے اساتذۂ کرام کی بے لوثی کے جو قصے کتابوں میں پڑھتے ہیں، کسی نہ کسی حد تک اُس کا نمونہ صفدر صاحب کی ذاتِ گرامی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اعتبار سے باصلاحیت طالبِ علم جے. این. یو، جامعہ ملیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور دیگر مرکزی یونی ورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں۔ بہار کے حصے میں وہ طلبہ آتے ہیں جو تعلیمی پس ماندگی کے شکار ہوتے ہیں۔ بہار کے ان طلبہ کو اچھی مرکزی یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے مقابل تیار کرنا اور تعلیمی خود اعتمادی پیدا کرنا، اپنے آپ میں بڑا کارنامہ ہے اور ایسے ہی کارنامے صفدر صاحب کی خصوصیات میں شامل ہیں۔
علم و ادب سے تعلق رکھنے والوں سے بھی صفدر صاحب کا تعلق بہت گہرا ہے اور اس معاملے میں اُن کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے۔ علم وادب کی محفلیں اور نشستیں آراستہ کرنا اور دوست احباب کو اُس میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کرنا، اُن کا محبوب مشغلہ ہے۔ ایسی بہت ساری محفلوں اور نشستوں کا یہ ناچیز گواہ ہے۔ ان نشستوں میں اُن کی ایک عجیب ہی شان نظر آتی ہے؛ نشست کی نظامت خود کرتے ہیں اور بعد از نشست خود اپنے ہاتھوں سے پُر تکلف کھانا پروستے ہیں حتی کہ کھانا بھی اپنی نگرانی میں پکواتے ہیں۔ الغرض ایسے موقع پر چاروں دِشاؤں میں اُن کا دماغ چلتا رہتا ہے۔
علم و ادب اور درس و تدریس کے ساتھ صحافت اور کالم نگاری بھی صفدر صاحب کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں: ’’صحافت میرے لیے پہلی محبت رہی ہے۔ عاشقانہ قصوں میں یہ بات بار بار ثابت ہوچکی ہے کہ پہلی محبت بُھلائی نہیں جا سکتی۔ موت تک رہ رہ کر ایک ہوک سی اٹھتی رہتی ہے۔ اس لیے ادب اور تدریس میں سر سے پا تک مشغول ہو جانے کے باوجود اس پہلی محبت کی ہی یہ طاقت ہوگی کہ میں وقفے وقفے سے صحافت کے صحرا میں چلا آتا ہوں اور اس صحرا نوردی کے نتیجے میں حاصل شدہ آبلہ پائی کے فیضان سے خود آراستہ کرکے تازہ دم ہوتا رہتا ہوں‘‘۔ (عرض داشت، ص۲۳)۔ اس پہلی محبت کا ثمرہ ’’عرص داشت: صفدر امام قادری کے کالموں کا انتخاب‘‘ کی صورت میں منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اس کے گل بوٹے؛ انسانی زندگی: کوئی پرسانِ حال نہیں، عوامی زندگی کا سناٹا، بے سمت حکومتیں، اقوامِ عالم: مسئلے یہاں بھی ہیں، ملازمت: سست گام اقتدار، اردو: تہذیبی پیغامِ رساں، اردو تعلیم: غور و فکر، اردو ادارے: مسائل اور احتساب، سیاست: اقتدار اور ذمہ داریاں، خاکی سیاست کی مورچہ بندی، وراثت بالآخر ہار، غیر فرقہ وارانہ سیاست کا آخری مہم جو، حکمت عملی کا حساب کتاب، بے خبر سیاست: مفاد پرستوں کا قبضہ، کھیل اور کھلاڑی، کھوئے ہوؤں کی یاد، فکری جمود کو توڑنے کی کوشش، اردو سیاست، اہلِ ایمان کا تذبذب جیسے موضوعات کی صورت میں ہمیں اپنے سحر میں لے لیتے ہیں اور سماج و معاشرے کو سنوارنے اور آراستہ کرنے کی دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ صفدر صاحب کے کالموں میں حالاتِ حاضرہ جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔ شعبہ ہاے حیات میں جہاں کہیں بھی انھیں کمی دکھائی دیتی ہے اور انھیں اصلاح اور سدھار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اُن کے قلم میں تحرک پیدا ہوجاتا ہے اور حقیقتِ حال کی سیاہی کو سیاہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت کی طرف سے چند سیاسی لیڈروں کو بھارت رتن دینے کا اعلان ہوا ہے۔ اس کے پس پردہ جو منصوبے وضع کیے گئے ہیں، اس کی پردہ داری کرتے ہوئے اخیر میں اُن کی تمنا ہے کہ: ’’خدا کرے ان اعزازات کی پیش کش میں شفافیت اور پروفیشن لیزم آئے اور کھلے طور پر یہ فیصلہ ہو کہ سرگرم سیاست میں رہنے والے افراد کو اس فہرست سے بہ ہر طور باہر رکھا جائے ورنہ اعزازات صاحبِ اعزاز اور حکومت دونوں کے لیے کلنک کا ٹیکا ثابت ہوں گے‘‘۔ (بھارت رتن اور ووٹوں کا جتن: یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ ، انقلاب، پٹنہ، ۱۱؍ فروری ۲۰۲۴ء)۔
صفدر صاحب کو علم کی قدردانی اور ادب کی پاس داری بخوبی نبھانی آتی ہے اور اس کی خبر گیری بھی کرتے رہتے ہیں کہ اُن کے متعلقین کی ادبی پیش رفت کیا ہے۔ بار بار تقاضا بھی ہوتا رہتا ہے کہ انجماد کی کیفیت ختم کی جائے کیونکہ اللہ تعالی نے لکھنے پڑھنے کی جس نعمت سے نوازا ہے، اس کی ناقدری پر سوال بھی ہوگا۔ اللہ تعالی نے آپ کو جس نعمت سے سرفراز کیا ہے، اس کا اظہار اور امتنان بھی ضروری ہے کیونکہ من لا یشکر الناس لا یشکر اللہ (جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ ادا نہیں کرے گا) ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے۔ اُن کے اسی انداز تحریک سے میں نے بارہا انجماد کی چادر کو اُتار پھینکا ہے۔ جب بھی لکھنے پڑھنے سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جاتا بہت کچھ ہے اور آتا کچھ نہیں۔ ایسے میں صفدر صاحب کی ضربِ کلیمی ایک تحرک پیدا کردیتی ہے۔ ابھی ایک سال پہلے کی بات ہے جب مارچ ۲۰۲۲ء میں اردو صحافت کی دو صدی تقریبات کے انعقاد کا پروگرام وضع کیا جا رہا تھا تو انھوں نے راقم الحروف کو صحافت کی کتابیات مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی اور جب یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو انھوں نے بہتوں کی طرح کوئی کنجوسی نہیں کی اور نہ ناک بھوں چڑھائی بلکہ کھل کر اعتراف کیا کہ:
’’یہ کتابیاتِ صحافت اپنے اندر اردو صحافت کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے معلومات کا ایک ایسا ذخیرہ ہے جہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لَوٹ سکتا۔کلیدی موضوعات اور اُن کی پیش کش یا ترتیب میں مرتِّب نے ہر قدم پر پڑھنے والوں کی سہو لتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔ موضوع وار اور مصنف کے نام کی بنیاد پر تلاش کرنے کے لیے جتنی آسانیاں شامل کی جا سکتی تھیں، وہ مصنف نے اِس میں اپنے آپ داخل کر دی ہیں۔اِس کتابیات کے مطالعے کے بعد پڑھنے والوں کو ہزار نئے موضوعات ملیں گے اور تحقیق کی نئی راہیں کھُلیں گی۔جن موضوعات کے تعلق سے تحقیق کار یہ سمجھتے تھے کہ اب اِن باتوں کے لیے کوئی نئی دریافت ممکن نہیں یا تحقیقی مواد ہی دستیاب نہیں ہے؛ اِ س کتاب کے بعد علم کا یہ اندھیرا چھَٹ جائے گا اور وہ فرحت بخش استعجاب میسّر آئے گا کہ ہمارے کتب خانوں میں علم و فن کی کتنی شاداب فصلیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ ہند و پاک میں اردو صحافت کے محققین کے لیے یہ کتاب ایک لازمی دستاویز ثابت ہوگی، اس کا مجھے یقین ہے‘‘۔ (صحافت: کتابیات، ص ۲۷۔۲۸)۔
اسی طرح جب میں نے کلام حیدری اور الیاس احمد گدی کے خطوط کی روشنی میں عبد الصمد کے ناول ’’دو گز زمین‘‘ پر اپنی تحقیق پیش کی تو انھوں نے ادبی مصلحت کو درکنار کرتے ہوئے اس کا بیش قیمتی مقدمہ لکھا۔
مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ صفدر امام قادری ایک مردِ قلندر ہیں، جن کے ہمہ اوصاف یگانہ ہیں، تو مبنی بر حقیقت ہوگا اور اس میں کسی طرح کی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی اور مجموعی طور پر اُن کی شخصیت کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ:
یادوں کے حوالے سے وہ ہر دل کا مکیں ہے
فرخ وہ زمانے کے لیے ایک نگیں ہے
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ظریفانہ صحافت اور پنچ اخبارات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے