افضال انصاری کے افسانہ آئینوں بھرا کمرہ کا تجزیاتی مطالعہ

افضال انصاری کے افسانہ آئینوں بھرا کمرہ کا تجزیاتی مطالعہ

نثارانجم
یہ شردھا اور امر کی یک طرفہ رومانی کہانی ہے۔
بانوقدسیہ کا ناول ’’امربیل‘‘ اس جملے سے شروع ہوتا ہے: ’’محبت کی امربیل میں ہمیشہ ہائی سنتھ [Hyacinth] کے پھول لگتے ہیں”۔
لیکن یہاں عشق کے امر بیل میں بغیر پتوں اور پھولوں والے طفیلی جڑ اُگ آے ہیں۔
امر بیل ایک طفیلی پودا ہے. بغیر پتوں والا یہ پودا کسی پیڑ کے گرد لپٹ کر اسے چوستا رہتا ہے۔یہاں تک کہ اس شجر کو خشک کر دیتا ہے۔اسے اردو ادب میں عشق پیچاں کہتے ہیں۔
افسانے میں امر کا کردار اس امر بیل کی طرح ہے جو شجر شردھا کے گرد کسی طفیلی پودے کی طرح لپٹ کر اس سے زندگی کا عرق کشید کر تا رہتا ہے۔شردھا خود کو یک طرفہ طور پر امر کی چاہت میں جکڑی ہوئی پاتی ہے۔ شردھا جیسے پیڑ کے خشک ہونے پر امر کسی دوسرے ہرے شجر پر لپٹ جاتا ہے۔
اس کی محبت کا بھرم اس وقت کھلتا ہے جب امر بیل اپنی چاہت کا پھول ٹینا پر نچھاور کر تا ہے۔
شردھا یہ منظر دیکھ بے جڑ پودوں کی طرح زمین کی گرفت سے باہر نکل آتی ہے۔
کم پرکشش لوگ ہمیشہ سے ہی زندگی کے ہر محاذ پر امتیازی سلوک کے تیر سے چھلنی رہتے ہیں۔ایسے میں ایک بدصورت یتیم لڑکی جو بے اعتنائی اور تنہائی کے نقطہ ابال پر جھلس رہی ہے، ڈرائیونگ سیٹ کے لوکنگ گلاس میں ایسے چہرے کی متلاشی ہے جس کی مسکراہٹ تپتی ہوئی صحرا سلوک میں محبت کی ٹھنڈی چاندنی تان دے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پرکشش افراد ہی ایسے لوگ ہیں کہ  مواقع کی سڑک پر keep left ڈرائیو کرتے ہوۓ بھی جن کی زندگی کی کار شاہ راہ پر فراٹے سے دوڑتی رہتی ہے۔ جب کہ کم خوب صورت زندگی کا کار شردھا کی طرح keep right ڈرائیؤ کرتے ہوۓ بھی کسی ون وے محبت کی سڑک پر یو ٹرن لیتی ہوئی انسانی رویوں کی سڑک پر پھسل کر accident prone zone میں حادثے کا شکار ہو ہی جاتی ہے۔
شردھا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
ظاہری شکل کا دیوانہ ہونا آج پورے معاشرے کی نفسیاتی بیماری ہے۔ کامل حسین نظر آنے کا جنون خواتین کو ہلکان کیے رہتا ہے ۔نسلی یا قومی امتیازی سلوک کے مقابلے میں ظاہری امتیازی سلوک lookism تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ جس نے شعبہ علم نفسیات کو متاثر کیا ہے۔خوب صورتی کا درست نقطہ نظر ،اور نظریۂ خوب صورتی دیکھنے والوں کی آنکھ/ زاویہ نگاہ میں ہے ، یہ موقف سارے عظیم مفکرین نے اپنایا ہے ،
"ہر ذہن ایک الگ خوب صورتی پر غور کرتا ہے۔" خوب صورتی کی الگ الگ تعریفیں ہیں. 
چارلس ڈارون
” انسانی ذہن میں انسانی جسم کے حوالے سے خوب صورتی کا ایک عالمی معیار مو جود ہی نہیں ہے۔ " کئی دہائیوں کے مطالعے نے اس تصور کو مستحکم کردیا ہے۔ ہماری نسل ، جنسی رجحان ، معاشرتی طبقے ، عمر ، یا صنف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ، ہم عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ کون سا چہرہ دوسروں سے زیادہ پرکشش ہے۔
ایک معیار جس کو ہر ایک چہرے سے پیار ہو وہ ہے توازن ۔۔۔۔۔ ارسطو کے فلسفۂ خوب صورتی میں "ترتیب، توازن اور حقیقت"شامل ہیں۔
یہاں ایک اصطلاح ، نظر نگاری Look -ism بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کم پرکشش افراد میں کیریئر بنانے، زندگی کے ساتھی کا انتخاب اور دوسرے محاذ پر مجموعی طور پر کام یاب ہونے کے امکانات کم ہیں۔
ایک بڑی کمپنی میں خوب صورت چہرے کی مالکہ ہونے کے ساتھ ہیلس کے ساتھ جوتے پہننے، خاص ڈریس کوڈ کی پابندی، مخصوص طرز کے بال کٹوانے، لباس کا سائز بہت کم ہونے اور ان کی مسکراہٹ کا دل کش ہونا ضروری ہے۔
شردھا اس دوڑ میں کہاں ہے۔ اس لیے اس نے سیلف ایمپلوائڈ کے راستے کا انتخاب کیا۔
شردھا یتیم خانے سے خاتون ڈرائیور بننے تک خوب صورتی کے فلسفے کے فائدے اور نقصان سے باخبر ہوگئ تھی ۔خوب صورت چہروں پر مردانہ سماج کا ردعمل اسے ایسا ہی لگا جیسے ایک بھوکا شخص اپنے پسندیدہ ڈش پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتا ہے ۔یتیم خانے کے صاحب وسائل افراد کی نفسیاتی نباضی کا مشاہدہ اسے خوب تھا۔ مردانہ سماج جب کوئی پرکشش چہرہ دیکھتا ہے تو ، دماغ کے وہی خطے متحرک ہوجاتے ہیں جب بھوکا شخص کھانا دیکھتا ہے یا جواری پیسہ دیکھتا ہے۔ لہذا ، خوب صورتی کا اثر و رسوخ جزوی طور پر اس سماج کے قابو سے باہر ہے۔
اس نے اپنے حا لات سے سمجھوتہ کرلیا تھا اور وہ یہ حقیقت جان گئ تھی کہ خوب صورتی کی طرف راغب ہونا ایک حیاتیاتی چیز ہے ، معاشرتی نہیں۔
شردھا نے اپنے کردار کے حصے میں وہ معاشرتی حسن اکٹھا کرنا شروع کردیا تھا جس کی جانچ کے لیے آئینوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
یہی معاشرتی حسن کا فریب تھا کہ اس نے امر کے مسکراتے چہرے میں اپنی جھوٹی چاہت کا پرتو delusion کی طرح دیکھ لیا تھا۔
دماغ کے خودکار ردعمل ، Hollow effect کے ذریعہ جانچ کے عمل میں امر کی مسکراہٹ کی دل کشی سے وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ  ذہین ، مہربان، ہنرمند
ہونے کے ساتھ  اس میں دل چسپی لے رہا ہے۔ محبت اور چاہت کے نیٹ ورک میں وہ تکنیکل گلیچ تھی یا پھر beauty lies in the eyes of beholder’s
کا مس کنفیگریشن misconfiguration کے شردھا زندگی کی شاہ راہ پر یو ٹرن لیتی ہوئی ون وے میں داخل ہوگئ۔
اس کا گھر اینوں سے آباد ہونے لگا۔ شردھا یہ جانتی ہے کہ وہ بدصورت ہے ، جو حقیقت سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر نہیں بل کہ جسمانی طور پر ڈیسکورفک ڈس آرڈر (بی ڈی ڈی) سے دوچار ہے ، ایک ایسی نفسیاتی کڑھن جو ظاہری شکل میں نقائص کی شکار ہے۔جسمانی ڈیسکورفک ڈس آرڈر (بی ڈی ڈی) کی طرح اسے یہ یقین ہے کہ اس کے جسم کے حصے بدصورت ہیں۔ بی ڈی ڈی مریضہ کی طرح اپنی توجہ خود پر مرکوز کرتے ہوئے گھنٹوں خود کو سنوارتی ہے۔
اب وہ اپنی شکل سے پریشان نہیں ہے ۔ بی ڈی ڈی کی مریضہ کی طرح تقریبا ہر وقت اپنی نظروں سے پریشان، دباؤ اور پریشانی محسوس نہیں کرتی ۔اب وہ آئینے میں دیکھنے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔
امر میں اس کی دل چسپی اس کی نفسیاتی کرب کو آہستہ آہستہ مند مل کر تا رہتا ہے۔
یہ اس کے لیے ایک خود ادراکی سلوک تھراپی (سی بی ٹی)۔ سی بی ٹی ٹاک تھراپی والا عمل تھا جو اس کے کارخانہ سلوک میں اندر کہیں باطن میں جاری ہوگیا تھا. 
امر میں یک طرفہ دل چسپی سیروٹونن serotonin کا کیمیکل ڈوز dose بن، اس کے وجود میں گھل، اسے راحت پہنچا رہاتھا۔اب اسے اپنی زندگی کا سنگ میل امر کے لمس کی صورت میں مل گیا تھا۔
البتہ جاذب نظر بننے، متاثر کرنے اور خود کو زیادہ بہتر نظر آنے میں کسی اور قسم کی کوئی نگہ داشت اور کوشش اس کے جذبہ شوق میں نہیں ملتی ہے۔
اپنی ویران سی تنہا بے رمق زندگی میں وہ محبت کے گھروندے تیار کر اب اس میں رنگ بھرنے جا رہی تھی۔
اس نے اپنی محبت کے گھروندے کو اپنے نازک احساسات کے handle with care والی سب سے اونچی طاق پر رکھا تھا۔
ٹینا کا امر کی بانہوں میں جھولنے کا وہ منظر اس کے آشیانہ محبت پر بجلی بن کر گرتا ہے اور اس کے جذبہ یقین کے پراخچے اڑا دیتا ہے۔
محبت کا وہ فرضی گھروندہ اس اونچی طاق سے گر کر چکنا چور ہو جاتاہے۔ جسے نفسیاتی سائنس میں نروس بریک ڈاؤنnervous breakdown کہا جاتا ہے۔
افسانے کے عنوان کو نبھانے میں کہانی کار سے چوک ہوگئی ہے۔شردھا کو ایکسیڈینٹ کے حادثہ میں ہلاک ہوتے دکھانا زیادہ سائنسی صداقت پر مبنی ہوتا ہے۔
ایک اچھے افسانے پر مبارک باد.

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں : سید محمد اشرف کے افسانہ روگ کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

One thought on “افضال انصاری کے افسانہ آئینوں بھرا کمرہ کا تجزیاتی مطالعہ

  1. اولا محترم نثار انجم صاحب اور ثانیاً اشتراک کا بے حد شکر گزار ہوں کہ میرے افسانے کو اس لائق جانا ۔
    شکریہ نوازش کرم

افضال انصاری کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے