تنہائی ہے بادل ہے دھواں ہے کہ غزل ہے

تنہائی ہے بادل ہے دھواں ہے کہ غزل ہے

جاوید رانا 


تنہائی ہے بادل ہے دھواں ہے کہ غزل ہے
مہکی ہوئی راتوں کا سماں ہے کہ غزل

اجڑی ہوئی بستی کا نشاں ہے کہ غزل ہے
برباد محبت کا بیاں ہے کہ غزل ہے

یہ عشق کا نغمہ ہے کہ پریوں کا تکلم
معصوم فرشتوں کی زباں ہے کہ غزل

لپٹا ہے مرے جسم سے خوشبو کا سمندر
یہ تیرا تصور ہے گماں ہے کہ غزل ہے

نبیوں کا ہے اعجاز کہ ولیوں کی کرامت
قرآن کی آیت ہے اذاں ہے کہ غزل ہے

دامن میں ہے صرف اس کے محبت ہی محبت
بیٹی ہے کہ محبوب ہے ماں ہے کہ غزل ہے

یہ تاج محل ہے کہ کھجوراہو کا مندر
شہزادئ الفت کا مکاں ہے کہ غزل ہے

یہ میر کا دیواں ہے کہ دکھ درد کا موسم
صحرا ہے کہ پت جھڑ ہے خزاں ہے کہ غزل ہے

گھاٹوں پہ سر شام نہاتی ہوئی کلیاں
بھیگے ہوئے پھولوں کی دکاں ہے کہ غزل ہے

ہر شے پہ فقیروں کی طرح وجد ہے طاری
دیوانے کا یہ سوز بیاں ہے کہ غزل ہے

ہر آدمی بسمل کی طرح لوٹ رہا ہے
تلوار ہے خنجر ہے سناں ہے کہ غزل ہے

تو ہے کہ زمیں ہے کہ فلک ہے کہ چمن زار
پہلو میں مرے سارا جہاں ہے کہ غزل ہے

جس طرح کلیجے پہ کوئی آری چلائے
مظلوم کی یہ آہ و فغاں ہے کہ غزل ہے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
غالب کا یہ مصرع ہے خزاں ہے کہ غزل ہے

جو روک لے ہجرت سے مہاجر کے قدم کو
آزاد کا اندازِ بیاں ہے کہ غزل ہے

سینے سے یہ اٹھتی ہوئی آہوں کی صدائیں
دل میں چھپے زخموں کا نشاں ہے کہ غزل ہے

بجلی ہے کہ شعلہ ہے کہ تپتا ہوا لاوہ
آتش کدہء پیر مغاں ہے کہ غزل ہے

الفاظ کی صورت جو نکلتی ہے زباں سے 
اک آگ مرے دل میں نہاں ہے کہ غزل ہے


ہر آدمی مخمور ہوا جاتا ہے رانا
مے خانہ ہے یا کوئے بتاں ہے کہ غزل ہے

شاعر کا تعارف:


نام : عبادت اللہ انصاری
قلمی نام : جاوید رانا
ولدیت :  شوکت اللہ
شرف تلمذ : لطیف شاہد برہانپور
تاریخ پیدائش: 10/مئی 1983
مقام پیدائش: برہانپور

پتہ: 29/143 نزد چار مزار ڈاکٹر ذاکر حسین وارڈ مومن پورہ برہانپور 450331 مدھیہ پردیش

رابطہ: 9009234875

قومیت: ہندوستانی
تعلیمی لیاقت: ایم۔ اے۔ اردو بی۔ ایڈ۔ یو جی سی نیٹ
حالیہ سکونت: جبل پور

پیشہ: مہمان اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ مہاکوشل آرٹس اینڈ کامرس کالج جبل پور مدھیہ پردیش

مشغلہ: کتب بینی، شعر گوئی، مضمون نگاری، افسانہ نگاری، خوش خطی وغیرہ

آغاز شاعری: 2003
اصنافِ سخن: غزلیں، نظمیں، نعت، تحقیقی مضامین، افسانے وغیرہ

عہدہ جات: سیکرٹری بزمِ الف لام میم برہان پور، سیکرٹری اختر راشدی لائبریری برہان پور، سہ ماہی دارالسرور برہان پور کی مجلس ادارت میں رکن

اعزاز و انعامات:- بزم نیرنگ خیال برہان پور کے انعامی طرحی مشاعرے میں پہلا انعام ، ایم اے اردو میں نمایاں کامیابی پر سرٹیفکیٹ اور پہلا انعام

اشاعتِ کلام: ہندوستان بھر کے مختلف اخبارات و رسائل میں نظمیں ، غزلیں اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں ماہنامہ سبق اردو بھدوہی، روز نامہ اقرا اندور (ہندی) ، ماہنامہ تحریر نو ممبئی، سہ ماہی نخلستان جے پور، سہ ماہی جمناتٹ ہریانہ، ماہنامہ روپ کی شوبھا (ہندی) دہلی، سہ ماہی تمثیل بھوپال، روز نامہ اردو نیوز اخبار ممبئی ، سہ ماہی جدید فکر و فن شملہ، ماہنامہ اردو آنگن ممبئی، سہ ماہی پرواز ادب پنجاب، سہ ماہی رفتار ادب مالیگاؤں، سہ ماہی ہندوستانی زبان ممبئی، سہ ماہی دارالسرور برہان پور وغیرہ میں نظمیں، غزلیں اور مضامین شائع ہو چکے ہیں. 

مشاعروں میں شرکت: ہندوستان کے مختلف شہروں کے مشاعروں میں شرکت کے مواقع میسر رہے ہیں جیسے ٹی، وی چینل دھمال ممبئی سے نشر ہونے والا پروگرام "بہت خوب” میں شرکت ، ای ٹی وی اردو کا پروگرام "ارشاد ” میں شرکت, آکاشوانی اندور اور کھنڈوہ کے مشاعروں میں شرکت لائف کئیر فاؤنڈیشن ممبئی کا سالانہ مشاعرہ، جبلپور، دھولیہ، مالیگاؤں، اندور، ناسک وغیرہ شہروں کے مشاعروں میں شرکت

دیگر سر گرمیاں : سماجی و فلاحی کاموں میں جذبہء خدمت کے تحت خود کو مصروف رکھنا، ادبی پروگراموں کا گاہے گاہے انعقاد کرنا اور قوم و ملک کے افراد کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہنا

مزید تین غزلیں :

غزل_1

فریب جھوٹ دغابازیاں نہ ختم ہوئیں
معاشرے سے یہ بیماریاں نہ ختم ہوئیں


مدد بہت ہوئیں، لیکن کچھ اس سلیقے سے
کبھی غریب کی مجبوریاں نہ ختم ہوئیں


وہی ہوا کہ دیے بجھ گئے ہمارے مگر
شب ِ حیات کی تاریکیاں نہ ختم ہوئیں

ہزاروں چاند ستارے نگل گیا لیکن
امیر شہر کی بے چینیاں نہ ختم ہوئیں

دراڑ کیسی پڑی آئینے میں اب کے بار
قریب آئے مگر دوریاں نہ ختم ہوئیں

وہ پارشد سے مہاپور بن گیا لیکن
ہمارے شہر کی دشواریاں نہ ختم ہوئیں

بہت سے پیروں فقیروں کو ہم نے بلوایا
ہمارے گھر کی پریشانیاں نہ ختم ہوئیں


یہ معجزہ بھی ذرا دیکھ عقل کے اندھے
جلے مکان مگر بستیاں نہ ختم ہوئیں


کمال ہے کہ دسمبر کی سردیوں میں بھی
تمہارے لمس کی وہ گرمیاں نہ ختم ہوئیں

مٹا سکے نہ اندھیرے وجود اجالوں کا
ہزاروں جھوٹ سے سچائیاں نہ ختم ہوئیں


ابھی کنویں سے نکلتا ہے شربتی پانی
مرے بڑوں کی ابھی نیکیاں نہ ختم ہوئیں


شرافت اوڑھ کے پھرتے ہیں اب بھی گلیوں میں
سیاسی لوگوں کی مکاریاں نہ ختم ہوئیں


مگر مچھوں نے بچھائے بہت سے جال مگر
سمندروں سے کبھی مچھلیاں نہ ختم ہوئیں


ابھی خرید نہ پاؤ گے تم ہمیں رانا
ابھی شریفوں کی خوداریاں نہ ختم ہوئیں

***
غزل_2

لے کے دن بھر کی تھکن گھر لوٹنا اچھا لگا
شام کو سورج کا جیسے ڈوبنا اچھا لگا

مسکرا کے اس نے پہلی بار دیکھا ہے ہمیں
آج پہلی بار ہم کو آئینہ اچھا لگا


ہر قدم پر چبھ رہے تھے پاؤں میں کانٹے مگر
اس کی جانب جانے والا راستہ اچھا لگا


روشنی میں تیرگی دیتا ہے سورج کی طرح
ہم کو اک مٹی کا چھوٹا سا دیا اچھا لگا


نرم صوفے تھے بڑے لوگوں کی محفل میں مگر
ہم فقیروں کو زمیں پر بیٹھنا اچھا لگا

بھائیوں کو دیکھا جب گھر کے لئے لڑتے ہوئے
ہم کو ننھے پنچھیوں کا گھونسلہ اچھا لگا

ہم کسی قیمت بھی بھیک کے قائل نہیں
ہاں مگر ان سے کتابیں مانگنا اچھا لگا

***
غزل_ 3

سیکڑوں حادثے بن جائیں گے اخبار ابھی
بے حجاب آئے اگر وہ سر بازار ابھی

میرا ایمان سلامت ہے مرے یار ابھی
میرے ہاتھوں سے نہیں چھوٹے گی تلوار ابھی


کہیں آسانیاں گمراہ نہ کر دیں مجھ کو
میری راہوں میں بچھے رہنے دو کچھ خار ابھی

میرا محبوب ہے مجھ سے ابھی روٹھا روٹھا
مجھ کو اچھا نہیں لگتا کوئی تہوار ابھی


فاتحہ خوانی کا اعلان ابھی مت کیجے
سانس باقی ہے ابھی زندہ ہے بیمار ابھی


آخری لمحے ہیں سانسیں بھی ہیں تھوڑی لیکن
تجھ سے مایوس نہیں تیرا گنہ گار ابھی


میرے ایمان کی قیمت جو لگا دے رانا
ایسا پیدا نہ ہوا کوئی خریدار ابھی

شیئر کیجیے

One thought on “تنہائی ہے بادل ہے دھواں ہے کہ غزل ہے

جہانگیر کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے