محمد انجم راہی
کانکی، اسلام پور، اتر دیناج پور ، مغربی بنگال
گاندھی جی کے: ہرآنکھ سے آنسو پونچھنے والا ہندستان، نہروجی کے: ہرمذہب کا احترام کرنے والا ہندستان کو بچانے کے لیے بیدار ہونے کی ضرورت
دورِحاضر میں منفرد مخصوص سماجی و مذہبی رواج کی ارتقا و ترویج کے لیے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی و بغض و عداوت میں اس قدر متحرک ہوتے جارہے ہیں کہ اپنے ہی مذہب و رواج کو برتر اور اس کی ارتقا و ترویج کے لیے ہر ممکن حد تک جانے کے لیے بے چین ہوتے جارہے ہیں۔ آپسی بھائی چارگی سے عاری یہ طبقہ قومی و بین الاقوامی معاملات سے بالکل ہی جاہل ہوچکا ہے۔ اس طرح کے مخصوص طبقے کو نہ تو تاریخی حقائق و واقعات سے کچھ سبق لینے میں دل چسپی ہے اور نہ ہی دیگر مذاہب کے لوگوں کا احترام کی ان کے دلوں میں کوئی جگہ باقی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے امن و بھائی چارے اور کثرت میں وحدت کے عظیم مثالی ملک میں ایک مخصوص طبقہ غنڈہ گردی کی ذہنیت کے ساتھ سادھو سنتوں کی چادراُوڑھ کر ملکی قانون و دستور کو روندتے ہوئے اسی طرح کے منفرد اور اپنے مخصوص رواج کو فروغ دینے میں لگ چکا ہے۔ جس طرح گزشتہ 30 یا 40 سالوں پر محیط عالمی پیمانے پر مخصوص سسٹم کے ذریعہ اپنی برتری کے نام پر برطانیہ، امریکہ روس جیسے ممالک نے اپنے اور اپنے پرچم کی بالادستی اور برتری کو ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے انسانیت پر خصوصی طور پر عالم اسلام کے بیش تر ممالک پر بھیانک طریقے سے مظالم ڈھائے۔ گزشتہ 30 سالوں میں ان بدترین ممالک کے ذریعہ 13عظیم جنگیں ایسی ہوئی ہیں جن میں 40 ٹریلین ڈالرس خرچ کیے گئے۔ جس کی وجہ سے کئی کئی ہزار انسانوں کو ان جنگوں کے ذریعہ قتل کیا گیا۔ جن میں معصوم بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ ان سارے حقائق کو قلم بند کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کیا اپنے وقت کے عظیم ممالک اپنے اپنے سسٹم کے ذریعہ فتح یاب ہوئے؟ مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے ان بدترین ظالم و جابر عدل و انصاف اور انسانیت سے عاری ممالک کے ذریعہ ہر ان حربوں اور ٹکنالوجی کا استعمال مسلمانوں کو سخت اذیت اور بربریت کا نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا جو وہ کرسکتے تھے۔ اس کے لیے ان ممالک نے ایک سسٹم کے تحت عالمی سطح پر میڈیا، ٹکنالوجی، جاسوسی و جنگی افواج و ہتھیار تک کا استعمال کیا، مگر ان سب کے باوجود کیا وہ عالمی سطح پر مذہب اسلام کے ماننے والوں پر فتح یاب ہوئے؟ اگر تجزیہ کیا جائے تو ان تمام بڑے ممالک کا اپنی اپنی طاقت کو منوانے کا میدان مسلم اکثریتی ممالک ہی تھے۔ جہاں پر لڑائی تو بڑے ممالک کے درمیان لڑی جاتی رہی ہے مگر ہدف صرف اور صرف مسلمان ہی ہوتے آرہے ہیں. 20-ویں صدی میں دنیا کے نقشہ پر کئی قومیں یاطاقتیں ابھریں، جنھوں نے عالم انسانیت کی قیادت کا رول ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان میں تین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سوویت یونین، برطانیہ اور امریکا۔ مگر یہ تمام طاقتیں یا تو عملاً ناکام ہوچکی ہیں یا وہ ناکامی کے کنارے کھڑی ہوئی ہیں۔1917 میں روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا، اس کے بعد سوویت یونین کی شکل میں ایک عظیم امپائر بن گیا۔ تقریباً 75 سال تک شان وشوکت دکھانے کے بعد اس کا یہ حال ہوا کہ1991میں وہ ریت کے محل کی طرح ٹوٹ کر گرگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نظام سر تا سر غیر فطری بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ اللہ عز و جل نے اس دنیا کا نظام مسابقت (Competition) کے اصول پر قائم کیا ہے۔ مگر کمیونسٹ امپائر نے اس کو ختم کرکے ریاستی کنٹرول کی مصنوعی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ نظام اول دن ہی سے قابل عمل نہ تھا۔ کچھ دن تک وہ جبر اور پروپیگنڈوں کے زور پر چلتا رہا۔ اس کے بعد وہ خود اپنی داخلی کم زوری کی بنا پر منہدم ہوگیا۔ منافقت اور حکمرانی (Devide and Rule) کی پالیسی کے ذریعہ برطانیہ نے ہندستان، چین، جرمنی وغیرہ جیسے ممالک میں تمام اوچھی حرکتوں و حربوں کو استعمال کرتے ہوئے نشہ، شراب، مذہبی اختلافات کے ساتھ مذہبی مداخلت کے ذریعہ عالمی پیمانے پر حکومت کا خواب دیکھنے والے برطانوی لٹیروں اور ڈاکوﺅں کی حکمرانی محض چند برسوں میں ہی اس دنیا کے نقشے سے اس طرح سکڑ چکی کہ اب خود ٹکڑے ہونے پر مجبور ہے۔
ہندستانی سیکولرازم کا مفہوم یہ ہے کہ ریاستی و مرکزی حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ ریاستی حکومتیں اور مرکزی حکومت تمام مذاہب کا احترام اور یکساں مواقع فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتاجائے گا۔ مودجودہ سیکولر و جمہوریت پسند ہندستان کو تقریباً سوسال کی جدوجہد کے بعد15 اگست 1947کو آزادی ملی۔ سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد ہندستان ورلڈ لیڈربنے گا۔ مگر عملاً کیا ہوا۔ یہ ملک لمبی مدت سے اونچی ذات اور نیچی ذات کے دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ حالات سے فائدہ اٹھا کر اونچی ذات والوں نے آزادی کو ہائی جیک (Hijack) کرلیا۔ یہی لوگ آزادی کے بعد سے مسلسل ملک کے اوپر حکومت کررہے ہیں۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ وہ ملک کو ایسا نظام دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں جو مہاتما گاندھی کے الفاظ میں ”ہر آنکھ کے آنسو پوچھنے والا ہو“۔ ملک کے اونچے طبقے (Uppercast) کے پاس جو آئیڈیالوجی ہے وہ ایک ایسی محدود آئیڈیالوجی ہے جو پوری انسانیت کو اپنے دامن میں نہیں لیتی۔ اس آئیڈیا لوجی میں اونچی ذات والوں کےلیے تو باعزت جگہ ہے مگر نیچی ذات اور غریب عوام کےلیے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ جو لوگ غریب اور مظلوم ہیں وہ فطرت کے جبری نظام کے تحت خود اپنے ماضی کے کردار کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ انھیں زندگی کے آخری لمحہ تک اس نتیجہ کو بہرحال بھگتنا ہے۔ یہ آئیڈیالوجی ملک کے نصف سے زیادہ حصہ کو اونچی ذات کے حکمرانوں کی نظر میں ایک ایسا کیس بنادیتی ہے جس پر رحم کرنا ضروری تو کیا ممکن بھی نہیں۔یہی وہ آئیڈیالوجی ہے جس کے تحت 9 دسمبر 2019ء کے دن ہندستان جیسی جمہوری اور انصاف پسند پرامن ملک کو ہندتوا کے علمبرداروں نے ”دستور ہند“ کے بنیادی اصولوں اور قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے لوک سبھا میں ایک ایسے بل کو پاس کروانے میں کامیاب ہوگئے جس کی رَو سے ہندستانی دستور کا بنیادی ڈھانچہ کو ہمیشہ کے لیے تار تار کردیا جائے گا۔ اس کے بعد مذہبی بنیاد پر قتل و غارت گری کی جانب ہندستانی عوام کو دھکیل دیا جائے گا۔
ڈاکٹر تاراچند کے مطابق: ہندستان میں”برسوں کی قتل وغارت گری کے بعد ہندو اور مسلمان ایک پڑوسی کی طرح رہنے سہنے لگے تو بہت دنوں تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے اُنھوں نے ایک دوسرے کے خیالات، عادات واطوار، رسم و رواج کو سمجھنے کی کوشش کی اور بہت جلد ان دونوں قوموں (ہندو ۔ مسلم) میں اتحاد پیدا ہوگیا“۔ ہندستان میں ہندو۔ مسلم میں اتحاد پیدا کرنے اور ان کے درمیان کی خلیج کو کم کرنے میں دوچیزوں نے بڑی مدد دی۔ پہلی تو یہ کہ ہندؤں کی ایک بہت بڑی آبادی، اسلام کے اس بنیادی اصول سے متاثر ہوگئے کہ: تمام بنی نوع انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور خالق مطلق کی نظر میں سب برابر اور مساوی ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندستانی سماج، ذات پات کی بنیاد پر چار طبقوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ جس میں برہمن، چھتری، ویش اور شودر شامل تھے۔ ان میں سے شودروں کو ہر قسم کے سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔ ان کی زندگی خود انہی پر بوجھ بن چکی تھی۔ اور صدیوں کی عاید شدہ پابندیوں سے وہ اتنے عاجز ہوچکے تھے کہ وہ ان بندشوں سے خلاصی حاصل کرنے لیے بےتاب و بے چین تھے۔ اسی دور میں جنوبی ہندستان میں اس طرح کے بے جا اور من گھڑت رسومات اور مغلظات کے خلاف ذہنی انقلاب کا دور بھی شروع ہوچکا تھا۔ خوش قسمتی سے جب ہندستان میں ذہنی انقلابات رو نما ہورہے تھے، اسی زمانے میں شمالی ہند میں مسلم فاتحین کے ساتھ اسلام بھی اس سرزمین میں اپنی انصاف اور انسانیت پسندی کا پرچم لے کر ظہور پذیر ہوا۔ ہندستانی باشندوں نے جب اسلام کے مساوات کے اصول کو عملی شکل میں دیکھا ۔ اور ”محمود اور ایاز“ دونوں کو ایک ہی صف میں شانہ بشانہ کھڑا پایا تو وہ بے حد متاثر ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی آمد کو باعث خیر و برکت سمجھ کر انھیں والہانہ خوش آمدید کہا۔ مسلم فاتحین کی انصاف اور انسانیت پسندی کا اثر یہ ہوا کہ بلا کسی ظلم و تشدد، جبر اور زیادتی کے ہندؤں کے گاؤں کے گاؤں مشرف بہ اسلام ہوتے چلے گئے۔ اسلام میں صرف ایک اللہ کی عبادت کا تصور موجود ہے۔ ظاہری رسوم بالکل بھی نہیں ہے۔ ہر ایک مسلمان کو قرآن و سنت کے بتائے راستے پر عمل کرنا لازمی ہے۔ سارے مسلمان آپس میں اسلام اور انسانیت کی بنیاد پر بھائی بھائی ہیں۔ اسلام کے ان بنیادی اصولوں میں اتنی کشش اور جاذبیت ہے کہ بلا کسی ظلم و جبر و تشدد کے ہزاروں شہریوں نے اسلام کے دامن میں پناہ لی۔ آج پھر ملک کے مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ملک کے مسلمان اسلامی افکار اور کردار کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے دوبارہ غیروں کے پراگندہ اذہان کو فتح کرنے کے قابل ہوسکے.
محمد انجم راہی کی گذشتہ تحریر :تریپورہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملہ شرمناک

انسانیت نوازا ور انصاف پسند سیکولر”ہندستان“ پر دہشت پسندوں کے ناپاک عزائم
شیئر کیجیے